تاریخ
اگرچہ ایب اوریجنل لوگوں، جو کہ مقامی اولین باشندے تھے، کی روایات یہ کہتی ہیں کہ وہ یہاں کے اولین باشندے تھے۔ آرکیالوجی کی سٹڈیز کے مطابق شمالی علاقے یوکون میں انسانی موجودگی 26,000 سال پہلے تھی اور جنوبی علاقے اونٹاریو میں 9,500 سال پہلے انسانی آبدی کے آثار ملے ہیں۔ جب وائکنگ یعنی بحری قزاق یہاں کرکا کے مقام پر 1000عیسوی میں باقاعدہ آباد ہوئے تو یورپی اقوام یہاں پہلی بار آئیں۔ اس کے بعد آنے والے یورپی یہاں کینیڈا کے ساحل جو بحراوقیانوس کے کنارے واقع تھے، کی مہم جوئی کی غرض سے آئے۔ ان میں جان کابٹ جو 1497 میں اور مارٹن فروبشر 1576 میں انگلینڈ کی طرف سے آئے۔ فرانس کی طرف سے جیکوئس کارٹیئر 1534 میں اور ڈی چیمپلین 1603 میں آئے۔ پہلی باقاعدہ یورپی آبادکاری کا آغاز فرانسیسیوں نے پورٹ رائل میں1605 میں اور کیوبیک سٹی میں 1608 میں کیا۔ برطانوی آبادکاری کا آغاز نیوفاؤنڈ لینڈ میں 1610 میں ہوا
سترہویں صدی کا بیشتر حصہ برطانوی اور فرانسیسی کالونیوں نے ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہ کر گزارا۔ فرانسیسی کالونی مکمل طور پر سینٹ لارنس نامی دریا کی وادی میں محدود رہے اور برطانوی تیرہ کالونیوں سے لے کر جنوب تک آباد رہے۔ تاہم جوں جوں علاقے، سمندری حدود، کھالوں اور مچھلیوں کی کمی ہوتی گئی، فرانسیسیوں، برطانیوں اور ساحلی قبائل کے درمیان جنگیں چھڑتی گئیں۔ 1689 سے 1763کے دوران چار جنگیں لڑئی گئیں۔ یہ جنگیں فرانسیسی اور مقامی انڈینز کے مابین تھیں۔ 1763کے معاہدہ فرانس کی شرائط کے تحت فرانس کے وہ سارے علاقے جو شمالی امریکہ میں دریائے مسیسیپی کے مشرقی علاقہ برطانیہ کے قبضے میں آگئے، ماسوائے دور افتادہ جزائرجو سینٹ پیئرے اور میکوائلین کہلاتے تھے۔
جنگ کے بعد برطانیوں نے محسوس کیا کہ اب وہ زیادہ تر فرانسیسی بولنے والے رومن کیتھولک علاقے میں گھر گئے ہیں جہاں کے باشندے حال ہی میں برطانوی راج کے خلاف ہتھیار اٹھا چکے ہیں۔ صورتحال سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے 1774 میں ایک نیا ایکٹ منظور کیا جسے کیوبیک ایکٹ کانام دیا گیا۔ اس نئے ایکٹ کے تحت کیوبیک کے مقبوضہ علاقے میں فرانسیسی زبان، کیتھولک عقائد اور فرانسیسی شہری قوانین کو نافذ کیا گیا۔ اس ایکٹ کے برطانیہ کے لیے بہت سے غیر متوقع اور ناپسندیدہ نتائج سامنے آئے۔ سب سے پہلے تو تیرہ کالونیوں کے آباد کار بہت ناراض ہوئے، جس سے امریکی انقلاب کو مدد پہنچی۔ دوسرا ریاست ہائے متحدہ کی آزادی کے بعد برطانوی سلطنت کےتقریبا پچاس ہزار وفادار کیوبیک، نووا سکوٹیا ، پرنس ایڈورڈ آئی لینڈ اور نیو فاؤنڈ لینڈ میں منتقل ہوگئے۔ ان کی آمد کو نووا سکوٹیا میں اچھی نظر سے نہ دیکھا گیا اور نیو برونسوک کو اس کالونی سے 1784 میں باہر نکال دیا گیا۔ اب آئینی ایکٹ کے تحت انگریزی بولنے والے وفاداروں کو کیوبک میں بسانے کے لیے صوبے کو دو حصوں یعنی فرانکوفون یعنی فرانسیسی بولنے والے زیریں کینیڈا اور اینگلوفون یعنی انگریزی بولنے والے بالائی کینیڈا میں 1791 میں تقسیم کر دیا گیا
کینیڈا امریکہ اور برطانوی راج کے درمیان ہونے والی جنگ میں شامل تھا اور اس کے کامیابی نے کینیڈا پر طویل المدتی اثرات مرتب کیے جن میں قومی اتحاد و یگانگت اور برطانوی نژاد شمالی امریکیوں کا جذبہ قومیت پرستی شامل ہے ۔ برطانیہ اور آئر لینڈ سے 1815 میں کینیڈا میں بڑے پیمانے پر امیگریشن ہوئی۔ کئی معاہدوں کے نتیجے میں امریکہ اور کینیڈا کے درمیان طویل المدتی امن قائم ہوا
جنگ بغاوت کی ناکامی کے بعد کالونیوں کے افسروں نے سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا اور 1839 میں ڈرہم رپورٹ جاری کی۔ ایک وجہ، جو کہ اینگلو فون یعنی انگریزی بولنے والوں اور فرانکو فون یعنی فرانسیسی بولنے والے لوگوں کے لیے 1837 میں بغاوت کا سبب بنی، فرانسیسی کینیڈینز کا برطانوی کلچر میں انضمام تھا۔ دونوں کینیڈا کو ملا کر ایک وفاقی کالونی بنا دی گئی اور اسے متحدہ صوبہ ہائے کینیڈا کا نام دیا گیا۔ برطانیہ اور امریکہ کے درمیان 1846 میں طے پانے والی اوریگان ٹریٹی کا انجام اوریگان سرحدی تنازعہ کی صورت میں ہوا۔ اس کی وجہ سے مغربی سرحد کو 49th parallel تک پھیلا دیا گیا اور اوریگان کنٹری/کولمبیا ڈسٹرکٹ پر مشترکہ قبضہ ختم ہوگیا۔ اسی کی وجہ سے وینکوور آئی لینڈ کی کالونی 1849میں وجود میں آئی اور فریزر کینیان میں سونے کی تلاش کے لیے دوڑ لگ گئی۔ برٹش کولمبیا کی کالونی میں یہ کام 1858میں شروع ہوا، اگرچہ یہ دونوں کینیڈا کے متحدہ صوبے سے بالکل الگ تھلگ تھے۔ 1850 کے اواخر تک کینیڈا کے رہنماؤں نے بہت سی تحقیقی مہمات اس نیت سے بنائیں کہ اس سے رُپرٹس لینڈ اور ارکٹک ک علاقے کا قبضہ لیا جا سکے۔ بلند شرح پیدائش کی وجہ سے کینیڈا کی آبادی میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا، یورپی امیگریشن اسی دوران امریکہ منتقل ہونا شروع ہو گئی، خصوصا فرانسیسی کینڈینز نیو انگلینڈ کی طرف منتقل ہوئے
عظیم اتحادکے فورا بعد چارلوٹے ٹاؤن کانفرنس اور پھر کیوبیک کانفرنس 1864میں اور پھر 1866کی لندن کانفرنس کے بعد تین کالونیوں کینیڈا، نووا سکوٹیا اور نیو برنزوک نے اس کنفیڈریشن کا انتظام سنبھال لیا۔ برطانوی شمالی امریکہ ایکٹ نے کینیڈاکے نام سے ایک ڈومینن بنا دی جس میں چار صوبے اونٹاریو، کیوبیک، نووا سکوٹیا اور نیو برنزوک شامل تھے۔جب کینیڈا نے رپرٹس لینڈ اور شمال مغربی علاقے کا انتظام سنبھالاجو 1870 میں ملا کر شمال مغربی علاقہ بنتے تھے تو ان کی توجہ میٹس سے ہٹ گئی اور اس کے نتیجے میں سرخ دریائی بغاوت نے جنم لیا اور بالآخر مینیٹوبہ کا صوبہ تشکیل پایا اور جولائی 1870 میں کنفیڈریشن میں شامل ہوا۔ برٹش کولمبیا اور جزائر وینکوور (جو کہ 1866میں متحد ہوگئے) اور جزائر پرنس ایڈورڈ کی کالونی کنفیڈریشن کو بالترتیب 1871 اور 1873 میں شامل ہوئے۔ یونین کو آپس میں ملانے اور مغربی صوبوں پر اپنا انتظام برقرار رکھنے کے لیے کینیڈا نے پورے براعظم کو ملانے والی ٹرین کی تین پٹریاں بچھائیں جن میں سب سے اہم کینیڈین پیسیفک ریلوے تھی۔ اس کی مدد سے ڈومینن لینڈز ایکٹ کے تحت امیگرینٹس کی چراہگاہوں کی طرف منتقل ہونے کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کی وجہ سے نارتھ ویسٹ ماؤنٹڈ پولیس کو قائم کیا گیا
جوں جوں آباد کار چراہگاہوں کی طرف ٹرینوں کی مدد سے منتقل ہوئے تو آبادی بڑھتی چلی گئی، شمال مغربی علاقوں کو صوبے کا درجہ دے دیا گیا جس سے البرٹا اور ساسکاچیوان 1905میں بنے
1914 میں جب برطانیہ نے پہلی جنگ عظیم میں شمولیت کا اعلان کیا تو کینیڈا خود بخود جنگ میں شریک ہو گیا۔ اس نے رضاکاروں پر مبنی ڈویژنز بھیجیں تاکہ مغری محاذ پر قومی ذمہ داری کا دفاع کیا جاسکے۔ ہلاکتیں اتنی بڑھ گئیں کہ وزیر اعظم رابرٹ بورڈن کو 1917 میں عام لام بندی یعنی جبری فوجی بھرتی کا حکم دینا پڑا جس کی کیوبیک میں شدت سے غیر مقبولیت پیدا ہوئی اور اس کی کنزرویٹو پارٹی نے اپنی حمایت کھودی۔ اگرچہ آزادی پسند جبری بھرتی کی وجہ سے بہت منقسم تھے لیکن پھر بھی وہ ایک نمایاں سیاسی پارٹی بن کر ظاہر ہوئے
1919 میں کینیڈا نے لیگ آف نیشنز میں اپنی مرضی سے شمولیت اختیار کی اور 1931 میں ویسٹ منسٹر کے دفتر نے تصدیق کی کہ اس کی مرضی کے بغیر برطانوی پارلیمان کینیڈا پر کوئی بات نہیں کر سکتی۔ اسی دوران عظیم معاشی بحران جو کہ 1929 میں ہوا، نے کینیڈا کو ہر طرح سے متائثر کیا۔ البرٹا اور ساکس چیوان میں جنم لینے والی باہمی دولت مشترکہ فیڈریشن نے ٹومی ڈوگلس کی ویلفئیر سٹیٹ والی بات کا اشارہ دیا جس کی 1940سے 1950 میں داغ بیل پڑی۔ 1930 کے اواخر میں جرمنی سے تسلی بخش جواب ملنے کے بعد لبرل وزیر اعظم ولیم لوئن میکنزی کنگ نے پارلیمنٹ کے فیصلے کی توثیق کردی کہ کینیڈا 1939 میں دوسری جنگ عظیم میں شامل ہوں اور انہوں نے اپنے فوجی دستوں کو جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے قبل متحرک کیا۔ جنگ کے دوران کینیڈا کی معیشت نے بہت تیزی سے ترقی کی جس کی بڑی وجہ کینیڈا ، برطانیہ، چین اور روس کے لیے جنگی ہتھیاروں کی تیاری تھی۔ جنگ کے اختتام پر کینیڈا کی فوجی طاقت کا شمار دینا کی بڑی فوجی طاقتوں میں ہوا۔ 1949 میں نیو فاؤنڈ لینڈ کی ڈومینن نے کنفیڈریشن میں شمولیت اختیار کی اور کینیڈا کا دسواں صوبہ بنا۔ کینیڈا کے سو سال مکمل ہونے پر 1967 میں جنگ کے بعد مختلف یورپی ممالک سے امیگریشن کا تانتا بندھ گیا۔ اس سے کینیڈا کی جمہوری شکل تبدیل ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ویت نام کی جنگ کے دوران امریکہ سے جنگ کے باغی بھی کینیڈا کے مختلف حصوں میں آکر آباد ہوئے۔ بڑھتی ہوئی امیگریشن، شرح پیدائش میں اضافہ اور مضبوط معیشت کی وجہ سے 1960کے عشرے کے دوران کینیڈا کا شمار امریکہ کے برابر ہونے لگا۔ اس کے رد عمل کے طور پر کیوبیک میں خاموش انقلاب برپا ہوا اور ایک نئے قوم پرست جذبے کی ابتدا ہوئی
نومبر 1981 کے دوران ہونے والی وزرا کی میٹنگ میں صوبائی اور وفاقی حکومت نے یہ طے کیا کہ آئین میں سے رجوع کیا جائے تاکہ اس میں ترمیم کا طریقہ کار طے کیا جائے۔ اگرچہ کیوبیک کی حکومت نے اس کی مخالفت کی، پھر بھی 17 اپریل 1982کو کینیڈا نے ملکہ الزبتھ دوم کی منظوری سے اپنے آئین کو برطانوی آئین سے علیحدہ کر لیا اور اپنے آپ کو ایک آزاد مملکت کا درجہ دے دیا اگرچہ دونوں ممالک ابھی بھی مشترکہ علامتی بادشاہت کے ماتحت تھے
آزادی کے بعد 1960 کے خاموش انقلاب کے دوران کیوبیک بہت سی سماجی اور معاشی تبدیلیوں سے گزرا۔ کچھ کیوبیک کے رہائشی زیادہ صوبائی خود مختاری یا کینیڈا سے جزوی یا مکمل آزادی پر زور دینے لگے۔ انگریزی اور فرانسیسی بولنے والوں کا اختلاف بہت بڑھ گیا۔ 1980کے دوران ہونے والے ریفرنڈم میں کثرت سے اور 1995 میں ہونے والے دوسرے ریفرنڈم میں لوگوں نے 50.6% کی نسبت 49.4% کے معمولی سے فرق سے کینیڈا سے آزادی کو مسترد کردیا۔ اسی دوران 1997 میں سپریم کورٹ نے اس بات کو اگرچہ مسترد کردیا لیکن دریں خانہ آزادی کی تحریک چلتی رہی
امریکہ کےساتھ معاشی اتحاد دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بڑھنے لگا۔1987 کے امریکہ-کینیڈا آزادانہ تجارت کے معاہدے سے یہ بات مزید واضح ہوئی۔ موجودہ دہائیوں میں کینیڈا کے لوگ اپنی ثقافتی خود مختاری کے لیے بہت پریشان ہیں کیونکہ ٹی وی شوز، فلمیں اور کمپنیاں بہت زیادہ عام ہو گئی ہیں۔ تاہم کینیڈا کو اپنے عالمگیری نظام صحت پر اور کثیر الثقافی ملک ہونے پر فخر ہے