لئیق احمد آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسوقت کی مسلم لیگ بھی آجکل کی مسلم لیگ کی طرح خاصی غیرلچکدار ثابت ہوئی تھی جس نے تخلیق پاکستان سے قبل غیرمسلمین کیساتھ بڑے بڑے وعدے تو کر لئے لیکن پاکستان بنتے ہی انہیں 67 سال بعد بھی ڈلیور نہ کر سکی
لئیق احمد بھائی یہ کالم اس بارہ میں نہیں ہے کہ مسیحی، ہندو، قادیانی، سکھ برادری کیخلاف ہونے والے مظالم کی مسلم اکثریت میں سے کس کس نے مذمت کی بلکہ اسکا مقصد ان تاریخی حقائق پر سے پردہ اٹھانا ہے جنکی بنیاد پر آج پاکستان اس نہج کو پہنچا ہے۔ اگر 1949 کا Objectives Resolution یا قرارداد مقاصد اپنے اصل متن میں پاس نہ ہوتا اور ہندو حزب اختلاف کے تحفظات کا اژالہ کر دیا جاتا تو آج اقلیت و اکثریت کا خلیج ہمارے معاشرے میں موجود ہی نہ ہوتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسوقت کی مسلم لیگ بھی آجکل کی مسلم لیگ کی طرح خاصی غیرلچکدار ثابت ہوئی تھی جس نے تخلیق پاکستان سے قبل غیرمسلمین کیساتھ بڑے بڑے وعدے تو کر لئے لیکن پاکستان بنتے ہی انہیں 67 سال بعد بھی ڈلیور نہ کر سکی
قرارداد مقاصد۔ کٹہرے میں
ڈاکٹر صفدر محمود
رہی قرارداد مقاصد تو آپ جانتے ہیں کہ قرارداد ہماری پہلی دستور ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو منظور کی تھی اور اس کا مقصد آئین سازی کے اصولوں اور بنیادوں کی وضاحت تھا، آپ کو یہ بھی علم ہوگا کہ یہ قرارداد ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان نے پیش کی تھی اور انہوں نے اپنی تقریر میں یہ واضح کیا تھا کہ یہ قرارداد بانیٴ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات کے قریب ہے۔ یا ان کے کی عکاسی کرتی ہے۔ جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے لیاقت علی خان قائداعظم کے دیرینہ ”ترین“ اور نہایت معتمد دوست اور رفیق کار تھے، تحریک پاکستان میں ان کا ساتھ طویل عرصے پر محیط تھا اور اسی لئے قائداعظم نے انہیں قیام پاکستان سے قبل عبوری کابینہ میں وزیر خزانہ بنوایا تھا اور پاکستان بننے کے بعد انہیں وزیراعظم نامزد کیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے زیادہ کوئی شخص قائداعظم کے ذہن، خیالات، تصورات اور امنگوں سے واقف نہیں تھا اس لئے میرے نزدیک لیاقت علی خان کا یہ بیان کہ قرارداد مقاصد قائداعظم کے تصورات کی عکاسی کرتی ہے نہایت اہم ہے بلکہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
ہاں یہ درست ہے کہ اقلیتوں کے نمائندوں بی کے دتا اور ایس سی چیتوپیڈیا نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان اراکین کا تعلق کانگرس پارٹی سے تھا لیکن ان کے علاوہ اس کی مخالفت پنجاب کے لیگی رکن میاں افتخار الدین نے بھی کی تھی جو واحد مسلمان رکن تھے جنہوں نے قرارداد مقاصد پر تنقید کے تیر برسائے۔ کانگرسی اراکین کو خدشہ تھا کہ پاکستان کی اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو برابری حاصل نہیں ہوگی جبکہ میاں افتخار الدین کی مخالفت کی بنیاد ان کا کیمونسٹ ذہن تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اصل میں جدوجہد اور جنگ امراء اور غرباء کے درمیان ہوگی نہ کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان… اور قرارداد مقاصد نے ان دونوں طبقوں کے درمیان فرق مٹانے کے لئے کچھ نہیں۔
اس قرار داد کامرکزی نقطہ فقط یہ تھا کہ حقیقی
اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے یہ اختیار پاکستان کی ریاست کو عوام کے ذریعے منتقل کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے اختیارات استعمال کریں گے۔سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں آئین و قانون سازی قرآن و سنیٰ کی حدود میں رہ کر کی جائے گی۔گویا یہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا نہ صرف پاکستان کے عوام سے وعدہ تھا بلکہ یہ اس آئین کا ایک طرح ابتدائیہ تھا جسے ابھی بننا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرار داد مقاصد کو آئین کا مستقل حصہ سمجھا جاتا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔
یہیں سے مذہبی اور روشن خیال حلقوں میں بحث و نزاغ کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے اور روشن خیال حلقے وقتاً فوقتاً قرار داد مقاصد پر پتھر پھینکتے رہتے ہیں اور اس کا رشتہ مذہبی انتہا پسندی سے جوڑتے رہتے ہیں حالانکہ برداشت(Tolarence )، معاشرتی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے حقوق و دفاع اسلام کے روشن اصول ہیں اور انتہا پسندی کی اسلام میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ مذہبی
انتہا پسندی کا پس منظر کچھ اور ہے نہ کہ قرار داد مقاصد۔
یہاں مجھے ایک نہیں دو باتیں یاد آگئیں۔ میں جب قرار داد مقاصد پر دستور ساز اسمبلی کی بحث پڑھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ جس بات نے اقلیتوں کے خدشات رفع کئے اور انہیں مطمئن کیا وہ نقطہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیارAuthorityپاکستان کی ریاست کے عوام کو منتقل کیا ہے۔ گویا اقتدار اعلیٰ کا یہ اختیار پاکستان کے عوام کو دیا گیا ہے
نہ کہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کو…اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اختیار میں پاکستان کے تمام شہری مذہب کی تمیز کے بغیر شریک ہیں۔ دوسری بات جس نے بار بار میرے ذہن پر دستک دی وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار سواداعظم یاعوام کو دیا ہے اور یہی جمہوریت کی بنیاد ہے کیونکہ جمہوریت میں عوام قوت کا سرچشمہ تصور ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں سوچیں تو پاکستان میں فوجی آمریتوں کا مسلط ہونا قرار داد مقاصد کے اصولوں کی نفی تھی۔ قرارداد مقاصد1949ء میں پاس ہو کر مستقل دستور کی حیثیت اختیار کرگئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ1958ء سے لے کر1999ء تک پاکستان میں جتنی فوجی مداخلتیں ہوئیں وہ قرار داد مقاصد کی مجرم تھیں اور انہیں سنگین غداری کامرتکب قرار دیا جاسکتا ہے۔
طویل بحث کو قارئین کے سوالات کے حدود اربع میں سمیٹتے ہوئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ اس قرار داد مقاصدکا ساتواں پیرا یوں تھا۔
Wherein adequate provision shall be made for the minorities freely to profess their religion and develop their culture
اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے کلچر کو پروان چڑھانے کی پوری آزادی ہوگی۔ قرارداد مقاصد کی یہ شق قائداعظم کی 11اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد والی تقریر کے قریب تھی جس میں انہوں نے کہا تھا:
You are free to go to your temples, you are free to go to your Mosques........ you may belong to any religion or easte are creed----- That has nothing to do with the business of the State.
قائداعظم کا یہ فرمان میثاق مدینہ کی روح کے مطابق تھا اور اس کا مطلب فقط اتنا سا ہے کہ آپ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں آزاد نہ جاسکتے ہیں اور مذہبی و عقیدے کے بنا پر آپ سے کوئی تمیز نہیں برتی جائے گی۔ اب ہوا یہ کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قرارداد مقاصد کے ساتویں پیرے سے لفظ Freelyحذف کر دیا گیا جسے بعض لوگ اقلیتوں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ میں نے یہ پیرا اوپر نقل کر دیا ہے اور میری ذاتی رائے میں لفظ Freelyنکالنے سے اقلیتوں کے حقوق پر اتنی بڑی زد نہیں پڑتی کہ اسے سازش قرار دیا جائے۔
مجھے ہرگز معلوم نہیں کہ یہ ٹائپ کی غلطی تھی یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا لیکن ظاہر ہے 1985ء کی اسمبلی کے فاضل اراکین میں سے کسی نے بھی اس کی نشاندہی نہ کی۔ شاید اصل قرارداد مقاصد ان کے سامنے نہیں تھی۔ اگر وہ نشاندہی کردیتے تو مسئلہ اسی وقت حل ہو جاتا، بہرحال اس کا کریڈٹ موجودہ اسمبلی کو جاتا ہے کہ اس نے اٹھارویں ترمیم میں اس کا ازالہ کر دیا ہے اور Freelyکے لفظ کو اپنی جگہ پر چسپاں کر دیا ہے۔ ہمیشہ دیر آئد درست آئد نہیں ہوتا لیکن اٹھارویں ترمیم کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے ۔