کیونکہ ہم اکثریت ہیں!

arifkarim

معطل
14-11-2014.jpg

قیصرانی ایچ اے خان لئیق احمد ناصر علی مرزا نایاب کاشفی حسینی انیس الرحمن محمود احمد غزنوی زرقا مفتی صائمہ شاہ عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد ابن رضا عمار ابن ضیا منقب سید زیک دوست الف نظامی
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
یہ ہمارا اجتماعی قومی المیہ ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے 67 سا بعد بھی ہم کبھی مولانا ابوالکلام آزاد کی اس ملک سے متعلق پیشگوئیوں کو یاد کرتے ہیں اور کبھی یہاں کے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ہندو مسنٹرز کی تنقیدی تقاریر کے گُن گاتے ہیں کہ وہ لوگ 67 برس پہلے بھی اپنی دور اندیشی کی بدولت ہمارے موجودہ منسٹرز سے کہیں زیادہ ذہین و فہیم تھے۔ یہ ہماری سابقہ جمہوری و عسکری حکومتوں کا ہی کارنامہ ہے کہ 1947 سے لیکر آج تک کوئی ایک بھی قومی لیڈر ہمیں عطا نہیں ہوا جو اگلے الیکشن سے آگے کا بھی اس قوم کیلئے کوئی خواب رکھتا ہو۔ جو بھی آیا، بس اپنی وقتی حکومت کو طول دینے کی سیاست ہی کرتار ہا اوراس چکر میں ملک، قوم و ملت کا کیا ہوگا، اسکا کسی نے نہ سوچا نہ کوئی عملی حکمت عملی تیار کی۔ اس اجتماعی غفلت کا نتیجہ پاکستان کے دائمی خراب حالات پیش کر رہے ہیں :(
 
یہ افسوس ناک بات درست ہے کہ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کے ساتھ ظلم کی بدترین مثال قائم کی گئی لیکن آپ یہ بھی دیکھئے کہ لبرل سے لیکر مذہبی جماعتوں کے لیڈروں تک نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور کسی طرف سے بھی اس ظلم کے حق میں بات نہیں کی گئی۔ اور یہ ساری مذمت اکثریت کی جانب سے کی گئی۔ اس اکثریت نے اس ظلم کی حمایت نہیں کی بلکہ ظلم کو ظلم ہی گردانا۔
 

کاشفی

محفلین
اکثریتی جماعت کی اوقات۔
پاکستان کی سڑکیں گھنٹوں بند کروانے والوں کی برطانیہ میں یہ اوقات ہے۔

10733974_10152530594576376_895792354031294004_n.jpg
 

arifkarim

معطل
یہ افسوس ناک بات درست ہے کہ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کے ساتھ ظلم کی بدترین مثال قائم کی گئی لیکن آپ یہ بھی دیکھئے کہ لبرل سے لیکر مذہبی جماعتوں کے لیڈروں تک نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور کسی طرف سے بھی اس ظلم کے حق میں بات نہیں کی گئی۔ اور یہ ساری مذمت اکثریت کی جانب سے کی گئی۔ اس اکثریت نے اس ظلم کی حمایت نہیں کی بلکہ ظلم کو ظلم ہی گردانا۔

لئیق احمد بھائی یہ کالم اس بارہ میں نہیں ہے کہ مسیحی، ہندو، قادیانی، سکھ برادری کیخلاف ہونے والے مظالم کی مسلم اکثریت میں سے کس کس نے مذمت کی بلکہ اسکا مقصد ان تاریخی حقائق پر سے پردہ اٹھانا ہے جنکی بنیاد پر آج پاکستان اس نہج کو پہنچا ہے۔ اگر 1949 کا Objectives Resolution یا قرارداد مقاصد اپنے اصل متن میں پاس نہ ہوتا اور ہندو حزب اختلاف کے تحفظات کا اژالہ کر دیا جاتا تو آج اقلیت و اکثریت کا خلیج ہمارے معاشرے میں موجود ہی نہ ہوتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسوقت کی مسلم لیگ بھی آجکل کی مسلم لیگ کی طرح خاصی غیرلچکدار ثابت ہوئی تھی جس نے تخلیق پاکستان سے قبل غیرمسلمین کیساتھ بڑے بڑے وعدے تو کر لئے لیکن پاکستان بنتے ہی انہیں 67 سال بعد بھی ڈلیور نہ کر سکی :(
 
لئیق احمد بھائی یہ کالم اس بارہ میں نہیں ہے کہ مسیحی، ہندو، قادیانی، سکھ برادری کیخلاف ہونے والے مظالم کی مسلم اکثریت میں سے کس کس نے مذمت کی بلکہ اسکا مقصد ان تاریخی حقائق پر سے پردہ اٹھانا ہے جنکی بنیاد پر آج پاکستان اس نہج کو پہنچا ہے۔ اگر 1949 کا Objectives Resolution یا قرارداد مقاصد اپنے اصل متن میں پاس نہ ہوتا اور ہندو حزب اختلاف کے تحفظات کا اژالہ کر دیا جاتا تو آج اقلیت و اکثریت کا خلیج ہمارے معاشرے میں موجود ہی نہ ہوتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسوقت کی مسلم لیگ بھی آجکل کی مسلم لیگ کی طرح خاصی غیرلچکدار ثابت ہوئی تھی جس نے تخلیق پاکستان سے قبل غیرمسلمین کیساتھ بڑے بڑے وعدے تو کر لئے لیکن پاکستان بنتے ہی انہیں 67 سال بعد بھی ڈلیور نہ کر سکی :(
 

arifkarim

معطل

اس کالم کے مطابق پاکستان میں اقلیت و اکثریت کی خلیج ختم کرنے کیلئے آئینی ترامیم کرنا ہوں گی اورقرارداد مقاصد جیسے بنیادی پیرگرافس کو حذف کرنا پڑے گا۔ میرا نہیں خیال نون لیگ جیسی اکثریتی سیاسی جماعت بھی اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے ہمارے اقلیتی بہن بھائیوں کی حفاظت کیلئے یہ آئینی ترامیم کر پائے گی۔
 
اس کالم کے مطابق پاکستان میں اقلیت و اکثریت ختم کرنے کیلئے آئینی ترامیم کرنی ہوں گی اورقرارداد مقاصد جیسے بنیادی پیرگرافس کو حذف کرنا پڑے گا۔ میرا نہیں خیال نون لیگ جیسی اکثریتی سیاسی جماعت بھی اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے ہمارے اقلیتی بہن بھائیوں کی حفاظت کیلئے آئینی ترامیم کر پائے گی۔
قرارداد مقاصد میں آپ کو اقلیتوں کے لئے کیا خرابی نظر آتی ہے؟
 

arifkarim

معطل
قرارداد مقاصد میں آپ کو اقلیتوں کے لئے کیا خرابی نظر آتی ہے؟
لگتا ہے آپنے اصل کالم پڑھا ہی نہیں۔ قرار داد مقاصد میں خرابیاں مجھے نہیں اس زمانہ کے حزب اختلاف میں شامل ہندو ممبران پارلیمان کو نظر آئیں تھی اور جو انہوں نے اس بارہ میں تحفظات پیش کئے تھے وہ 67 بعد بھی درست ثابت ہوئے:
b365.gif
 
مدیر کی آخری تدوین:
لگتا ہے آپنے اصل کالم پڑھا ہی نہیں۔ قرار داد مقاصد میں خرابیاں مجھے نہیں اس زمانہ کے حزب اختلاف میں شامل ہندو ممبران پارلیمان کو نظر آئیں تھی اور جو انہوں نے اس بارہ میں تحفظات پیش کئے تھے وہ 67 بعد بھی درست ثابت ہوئے:
b365.gif
میں نے کالم پڑھ لیا تھا اسی لئے تبصرہ کیا تھا۔ اگر آپ کو قرارداد مقاصد میں خرابی نظر نہیں آتی آپ کیوں اسے ختم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں؟
اس کالم کے مطابق پاکستان میں اقلیت و اکثریت کی خلیج ختم کرنے کیلئے آئینی ترامیم کرنا ہوں گی اورقرارداد مقاصد جیسے بنیادی پیرگرافس کو حذف کرنا پڑے گا۔ میرا نہیں خیال نون لیگ جیسی اکثریتی سیاسی جماعت بھی اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے ہمارے اقلیتی بہن بھائیوں کی حفاظت کیلئے یہ آئینی ترامیم کر پائے گی۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
میں نے کالم پڑھ لیا تھا اسی لئے تبصرہ کیا تھا۔ اگر آپ کو قرارداد مقاصد میں خرابی نظر نہیں آتی آپ کیوں اسے ختم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں؟
خرابی وہی ہے جو اسوقت کی حزب اختلاف نے تحفظات پیش کئے تھے۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے مجھے قرار داد مقاصد سے ذاتی طور پر کوئی نقصان یا نفع نہیں ہے البتہ ہماری دیگر مذہبی آبادیوں کو اسکی وجہ سے اچھا خاصا نقصان پہنچا ہے۔ کئی ہندو منسٹرز جو تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، وہ اس قرارداد کے پاس ہوتے ہی پاکستان چھوڑ کر بھارت چلے گئے کہ یہ قرارداد قائد اعظم کے پاکستان کیخلاف تھی۔ قائد اعظم ایک اسلامی پاکستان نہیں بلکہ ایک مسلم پاکستان دیکھنا چاہتے تھے جہاں اسلامی اقدار ہوں نہ کہ اسلامی عقائد ہوں۔ یہ اتنا بنیادی سافرق ہمارے اس زمانہ کے علماء و سیاست دانوں کی سمجھ میں نہ آیا اور انہوں نے محض اپنی اکثریت کی بنیاد پر حزب اختلاف کے تحفظات نظر انداز کرتے ہوئے اسے پارلیمان سے پاس کر ڈالا اور ہماری قوم 67 سال بعد بھی اسکے خوفناک نتائج اجتماعی طور پر بھگت رہی ہے۔
 
لئیق احمد آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسوقت کی مسلم لیگ بھی آجکل کی مسلم لیگ کی طرح خاصی غیرلچکدار ثابت ہوئی تھی جس نے تخلیق پاکستان سے قبل غیرمسلمین کیساتھ بڑے بڑے وعدے تو کر لئے لیکن پاکستان بنتے ہی انہیں 67 سال بعد بھی ڈلیور نہ کر سکی :(
لئیق احمد بھائی یہ کالم اس بارہ میں نہیں ہے کہ مسیحی، ہندو، قادیانی، سکھ برادری کیخلاف ہونے والے مظالم کی مسلم اکثریت میں سے کس کس نے مذمت کی بلکہ اسکا مقصد ان تاریخی حقائق پر سے پردہ اٹھانا ہے جنکی بنیاد پر آج پاکستان اس نہج کو پہنچا ہے۔ اگر 1949 کا Objectives Resolution یا قرارداد مقاصد اپنے اصل متن میں پاس نہ ہوتا اور ہندو حزب اختلاف کے تحفظات کا اژالہ کر دیا جاتا تو آج اقلیت و اکثریت کا خلیج ہمارے معاشرے میں موجود ہی نہ ہوتا۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اسوقت کی مسلم لیگ بھی آجکل کی مسلم لیگ کی طرح خاصی غیرلچکدار ثابت ہوئی تھی جس نے تخلیق پاکستان سے قبل غیرمسلمین کیساتھ بڑے بڑے وعدے تو کر لئے لیکن پاکستان بنتے ہی انہیں 67 سال بعد بھی ڈلیور نہ کر سکی :(

قرارداد مقاصد۔ کٹہرے میں
ڈاکٹر صفدر محمود

رہی قرارداد مقاصد تو آپ جانتے ہیں کہ قرارداد ہماری پہلی دستور ساز اسمبلی نے 12مارچ 1949ء کو منظور کی تھی اور اس کا مقصد آئین سازی کے اصولوں اور بنیادوں کی وضاحت تھا، آپ کو یہ بھی علم ہوگا کہ یہ قرارداد ہمارے ملک کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان نے پیش کی تھی اور انہوں نے اپنی تقریر میں یہ واضح کیا تھا کہ یہ قرارداد بانیٴ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے تصورات کے قریب ہے۔ یا ان کے کی عکاسی کرتی ہے۔ جہاں تک سیاستدانوں کا تعلق ہے لیاقت علی خان قائداعظم کے دیرینہ ”ترین“ اور نہایت معتمد دوست اور رفیق کار تھے، تحریک پاکستان میں ان کا ساتھ طویل عرصے پر محیط تھا اور اسی لئے قائداعظم نے انہیں قیام پاکستان سے قبل عبوری کابینہ میں وزیر خزانہ بنوایا تھا اور پاکستان بننے کے بعد انہیں وزیراعظم نامزد کیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے زیادہ کوئی شخص قائداعظم کے ذہن، خیالات، تصورات اور امنگوں سے واقف نہیں تھا اس لئے میرے نزدیک لیاقت علی خان کا یہ بیان کہ قرارداد مقاصد قائداعظم کے تصورات کی عکاسی کرتی ہے نہایت اہم ہے بلکہ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

ہاں یہ درست ہے کہ اقلیتوں کے نمائندوں بی کے دتا اور ایس سی چیتوپیڈیا نے اس کی مخالفت کی تھی۔ ان اراکین کا تعلق کانگرس پارٹی سے تھا لیکن ان کے علاوہ اس کی مخالفت پنجاب کے لیگی رکن میاں افتخار الدین نے بھی کی تھی جو واحد مسلمان رکن تھے جنہوں نے قرارداد مقاصد پر تنقید کے تیر برسائے۔ کانگرسی اراکین کو خدشہ تھا کہ پاکستان کی اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو برابری حاصل نہیں ہوگی جبکہ میاں افتخار الدین کی مخالفت کی بنیاد ان کا کیمونسٹ ذہن تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اصل میں جدوجہد اور جنگ امراء اور غرباء کے درمیان ہوگی نہ کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان… اور قرارداد مقاصد نے ان دونوں طبقوں کے درمیان فرق مٹانے کے لئے کچھ نہیں۔

اس قرار داد کامرکزی نقطہ فقط یہ تھا کہ حقیقی اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے یہ اختیار پاکستان کی ریاست کو عوام کے ذریعے منتقل کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود و قیود کے اندر رہ کر اپنے اختیارات استعمال کریں گے۔سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں آئین و قانون سازی قرآن و سنیٰ کی حدود میں رہ کر کی جائے گی۔گویا یہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا نہ صرف پاکستان کے عوام سے وعدہ تھا بلکہ یہ اس آئین کا ایک طرح ابتدائیہ تھا جسے ابھی بننا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرار داد مقاصد کو آئین کا مستقل حصہ سمجھا جاتا ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔

یہیں سے مذہبی اور روشن خیال حلقوں میں بحث و نزاغ کا آغاز ہوا جو آج تک جاری ہے اور روشن خیال حلقے وقتاً فوقتاً قرار داد مقاصد پر پتھر پھینکتے رہتے ہیں اور اس کا رشتہ مذہبی انتہا پسندی سے جوڑتے رہتے ہیں حالانکہ برداشت(Tolarence )، معاشرتی ہم آہنگی اور اقلیتوں کے حقوق و دفاع اسلام کے روشن اصول ہیں اور انتہا پسندی کی اسلام میں کوئی گنجائش ہی نہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کا پس منظر کچھ اور ہے نہ کہ قرار داد مقاصد۔

یہاں مجھے ایک نہیں دو باتیں یاد آگئیں۔ میں جب قرار داد مقاصد پر دستور ساز اسمبلی کی بحث پڑھ رہا تھا تو مجھے احساس ہوا کہ جس بات نے اقلیتوں کے خدشات رفع کئے اور انہیں مطمئن کیا وہ نقطہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیارAuthorityپاکستان کی ریاست کے عوام کو منتقل کیا ہے۔ گویا اقتدار اعلیٰ کا یہ اختیار پاکستان کے عوام کو دیا گیا ہے نہ کہ صرف پاکستان کے مسلمانوں کو…اس کا مطلب یہ ہے کہ اس اختیار میں پاکستان کے تمام شہری مذہب کی تمیز کے بغیر شریک ہیں۔ دوسری بات جس نے بار بار میرے ذہن پر دستک دی وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار سواداعظم یاعوام کو دیا ہے اور یہی جمہوریت کی بنیاد ہے کیونکہ جمہوریت میں عوام قوت کا سرچشمہ تصور ہوتے ہیں۔ اس پس منظر میں سوچیں تو پاکستان میں فوجی آمریتوں کا مسلط ہونا قرار داد مقاصد کے اصولوں کی نفی تھی۔ قرارداد مقاصد1949ء میں پاس ہو کر مستقل دستور کی حیثیت اختیار کرگئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ1958ء سے لے کر1999ء تک پاکستان میں جتنی فوجی مداخلتیں ہوئیں وہ قرار داد مقاصد کی مجرم تھیں اور انہیں سنگین غداری کامرتکب قرار دیا جاسکتا ہے۔
طویل بحث کو قارئین کے سوالات کے حدود اربع میں سمیٹتے ہوئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ اس قرار داد مقاصدکا ساتواں پیرا یوں تھا۔
Wherein adequate provision shall be made for the minorities freely to profess their religion and develop their culture
اس کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے کلچر کو پروان چڑھانے کی پوری آزادی ہوگی۔ قرارداد مقاصد کی یہ شق قائداعظم کی 11اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی میں اسمبلی کا صدر منتخب ہونے کے بعد والی تقریر کے قریب تھی جس میں انہوں نے کہا تھا:
You are free to go to your temples, you are free to go to your Mosques........ you may belong to any religion or easte are creed----- That has nothing to do with the business of the State.
قائداعظم کا یہ فرمان میثاق مدینہ کی روح کے مطابق تھا اور اس کا مطلب فقط اتنا سا ہے کہ آپ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں آزاد نہ جاسکتے ہیں اور مذہبی و عقیدے کے بنا پر آپ سے کوئی تمیز نہیں برتی جائے گی۔ اب ہوا یہ کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قرارداد مقاصد کے ساتویں پیرے سے لفظ Freelyحذف کر دیا گیا جسے بعض لوگ اقلیتوں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ میں نے یہ پیرا اوپر نقل کر دیا ہے اور میری ذاتی رائے میں لفظ Freelyنکالنے سے اقلیتوں کے حقوق پر اتنی بڑی زد نہیں پڑتی کہ اسے سازش قرار دیا جائے۔
مجھے ہرگز معلوم نہیں کہ یہ ٹائپ کی غلطی تھی یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا لیکن ظاہر ہے 1985ء کی اسمبلی کے فاضل اراکین میں سے کسی نے بھی اس کی نشاندہی نہ کی۔ شاید اصل قرارداد مقاصد ان کے سامنے نہیں تھی۔ اگر وہ نشاندہی کردیتے تو مسئلہ اسی وقت حل ہو جاتا، بہرحال اس کا کریڈٹ موجودہ اسمبلی کو جاتا ہے کہ اس نے اٹھارویں ترمیم میں اس کا ازالہ کر دیا ہے اور Freelyکے لفظ کو اپنی جگہ پر چسپاں کر دیا ہے۔ ہمیشہ دیر آئد درست آئد نہیں ہوتا لیکن اٹھارویں ترمیم کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے ۔
 

arifkarim

معطل
سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان میں آئین و قانون سازی قرآن و سنیٰ کی حدود میں رہ کر کی جائے گی۔
تو پھر قوانین توہین رسالت، اسلام سے علیحدگی، حدود آرڈیننس، قادیانیوں کیخلاف آرڈیننس وغیرہ کہاں سے آگئے؟
کیا قرآن و سنیٰ اس قسم کے فوجداری قوانین کی اجازت دیتا؟
مذہبی انتہا پسندی کا پس منظر کچھ اور ہے نہ کہ قرار داد مقاصد۔
مذہبی انتہاء پسندی کا پس منظر قرارداد مقاصد ہی ہے جہاں قوانین پاکستان کو سیکولر رکھنے کی بجائے اسلامی بنانے کی بھونڈی سی کوشش کی گئی۔ تمام اسلامی قوانین جو آئین پاکستان میں درج ہیں کی بنیاد یہی قرار داد مقاصد ہے جن میں سر فہرست توہین رسالت اور حدود آرڈیننس ہے جسکی وجہ سے اب تک لاتعداد بے گناہ پاکستانی موت اور جیل کی سزا کاٹ چکے ہیں!

اور یہی جمہوریت کی بنیاد ہے کیونکہ جمہوریت میں عوام قوت کا سرچشمہ تصور ہوتے ہیں۔
اور 1977 سے جو ہر الیکشن میں دھاندلی ہو رہی ہے اور عوامی رائے چرائی جا رہی ہے، اسکا کیا؟ کیا عوامی رائے چرا کر جمہوریت آجاتی ہے؟ :)

اب ہوا یہ کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں قرارداد مقاصد کے ساتویں پیرے سے لفظ Freelyحذف کر دیا گیا جسے بعض لوگ اقلیتوں کے خلاف سازش قرار دیتے ہیں۔ میں نے یہ پیرا اوپر نقل کر دیا ہے اور میری ذاتی رائے میں لفظ Freelyنکالنے سے اقلیتوں کے حقوق پر اتنی بڑی زد نہیں پڑتی کہ اسے سازش قرار دیا جائے۔ مجھے ہرگز معلوم نہیں کہ یہ ٹائپ کی غلطی تھی یا ایسا جان بوجھ کر کیا گیا لیکن ظاہر ہے 1985ء کی اسمبلی کے فاضل اراکین میں سے کسی نے بھی اس کی نشاندہی نہ کی۔ شاید اصل قرارداد مقاصد ان کے سامنے نہیں تھی۔
کیوں نہیں پڑتی؟ 1984 میں قادنیوں کیخلاف آرڈیننس ایکس ایکس پاس ہوا جس کے بعد ہی آئین پاکستان میں سے اقلیتوں کے لئے لفظ فریلی کو حذف کر دیا گیا تھا۔

اگر وہ نشاندہی کردیتے تو مسئلہ اسی وقت حل ہو جاتا، بہرحال اس کا کریڈٹ موجودہ اسمبلی کو جاتا ہے کہ اس نے اٹھارویں ترمیم میں اس کا ازالہ کر دیا ہے اور Freelyکے لفظ کو اپنی جگہ پر چسپاں کر دیا ہے۔
خالی آئینی ترامیم کر دینے سے کام نہیں چلے گا جب تک ان پر عمل درآمد حکومت وقت کی طرف سے نہیں ہوتا۔ کیا 18ویں ترمیم کے بعد ملک میں مذہبی انتہاء پسندی کم ہوئی ہے یا زیادہ ہوئی ہے؟

کس بات کا جناب؟ :)
 
قوانین توہین رسالت، اسلام سے علیحدگی، حدود آرڈیننس، قادیانیوں کیخلاف آرڈیننس وغیرہ
اسلامی قوانین ہیں اور اسلامی قوانیں کے ماخذ قراں اور سنت سے اخذ کردہ

یہ کس نے دعوی کیا ہے کہ قوم نے پاکستان سیکولر قوانیں کے لیے بنایا تھا یا یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ آئیں سیکولر ہوگا؟ یا کس اصول کے تحت پاکستان کو سیکولرآئین بنانا ضروری ہے

مذہبی انتہاء پسندی کا پس منظر قرارداد مقاصد کس طرح ہو سکتا ہے جبکہ اس میں توصاف کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے کلچر کو پروان چڑھانے کی پوری آزادی ہوگی
 
Top