محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
کیوں آج کل جناب کے تیور بدل گئے
اتنے حسیں گلاب کے تیور بدل گئے
دانتوں میں اب فراق کی ہڈی اٹک گئی
آنتوں میں اب کباب کے تیور بدل گئے
ان کو نشے میں اپنا ہی عاشق سمجھ لیا
جب عشق کی شراب کے تیور بدل گئے
بیوی کا سر کھلا ہے تو شوہر پہ ہیلمیٹ
پردہ ہے ، پر حجاب کے تیور بدل گئے
مجنون سورہا ہے تو لیلیٰ ہے دربدر
اب عشق کی کتاب کے تیور بدل گئے
ماتھے پہ تیوری ہے ، نگاہوں میں خون ہے
ہے حسن ، پر شباب کے تیور بدل گئے
رہتے ہیں یہ بچھڑتے سمندر سے سَرسَری!
پھر آج کیوں سحاب کے تیور بدل گئے