نمرہ
محفلین
کیوں بنی خوں نابہ نوشی ، بادہ خواری آپ کی
کس لیے ہے بے خودی غفلت شعاری آپ کی
کیوں رمِ جانانہ کے بدلے ہے از خود رفتگی
کس لیے شوخی ہوئی ہے بے قراری آپ کی
منفعل سازِ دمِ ناہید نغمے کیا ہوئے
کیوں گزرتی ہے فلک سے آہ و زاری آپ کی
آشنا سے ہو گئے ، بےگانگی جاتی رہی
ہو گئی کس آشتی دشمن سے یاری آپ کی
بوئے گل سے ہو مکدر ، کس کی بو آئی ہے یاد
خاک اڑانے کیوں لگی بادِ بہاری آپ کی
عشقِ مہ رو میں تڑپتے ہو نہیں تو کس لیے
جوں کتاں ہر شب قبا ٹکڑے ہے ساری آپ کی
مجھ کو حیراں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہو کیوں
ایسی محوِ یاس ہے امیدواری آپ کی
جی جلا جاتا ہے کیوں ہر لحظہ ، کس پر دل گیا
لے گئی قابو سے جاں بے اختیاری آپ کی
کیوں ہے رنگِ زرد پر گلگونہ اشکِ سرخ کا
کس لیے ملنے لگی رنگت ہماری آپ کی
ہائے کیا بے تاب ہو کر دھر لیا سینے پہ ہاتھ
کھل گئی ، مہ وش کہے سے ، دل فگاری آپ کی
سرمہ دینے لگتے ہو جس وقت رونا آئے ہے
بارے ہے اب تک تو باقی شرم ساری آپ کی
دل گیا، دم پر بنی، آنکھیں لڑیں، کہتی ہے حال
بے قراری، آہ و زاری، اشک باری آپ کی
قطرہ ہائے اشک گنتے ہو اگر روتا ہوں میں
اس قدر خو ہو گئی اختر شماری آپ کی
کس صنم کی بندگی میں بت پرستی چھوڑ دی
ہو گئی مومن کی سی کیوں دین داری آپ کی