سودا کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟

صائمہ شاہ

محفلین
کیوں میں تسکینِ دل، اے یار! کروں یا نہ کروں؟
نالہ جا کر پسِ دیوار کروں یا نہ کروں؟

سُن لے اک بات مری تُو کہ رمق باقی ہے
پھر سخن تجھ سے ستمگار کروں یا نہ کروں؟

ناصحا! اُٹھ مرے بالِیں سے کہ دَم رکتا ہے
نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں؟

سخت مشکل ہے کہ ہر بات کنایہ سمجھو
ہے زباں میرے بھی، گفتار کروں یا نہ کروں؟

موسمِ گُل ہے، میں صیّاد سے جا کر یارو
ذکرِ مرغانِ گرفتار، کروں یا نہ کروں

حال باطن کا نمایاں ہے مرے ظاہر سے
میں زباں اپنی سے اظہار کروں یا نہ کروں؟

عہد تھا تجھ سے تو پھر عمر وفا کرنے کا
اِن سلوکوں پہ، جفا کار، کروں یا نہ کروں؟

کوچۂ یار کو میں، رشکِ چمن، اے سوداؔ
جا کے بادیدۂ خوںبار کروں یا نہ کروں؟
 

کاشفی

محفلین
واہ! بہت ہی خوب۔
عہد تھا تجھ سے تو پھر عمر وفا کرنے کا
اِن سلوکوں پہ، جفا کار، کروں یا نہ کروں؟
 

عمر سیف

محفلین
موسمِ گُل ہے، میں صیّاد سے جا کر یارو
ذکرِ مرغانِ گرفتار، کروں یا نہ کروں

بہت خوب ۔۔ واہ ۔
 
میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک
ایک مدت ہوئی فیض کی ایک غزل نذر سوداء پڑھی تھی

"فکر دلداریء گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

قصہء سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوہء یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں

جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں

یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں

گویا اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں

ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیء گفتار کروں یا نہ کروں"

تب اس غزل سے شناسائی ہوئی بلاشبہ بہت خوب غزل ہے
شراکت کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
 

صائمہ شاہ

محفلین
میری پسندیدہ غزلوں میں سے ایک
ایک مدت ہوئی فیض کی ایک غزل نذر سوداء پڑھی تھی

"فکر دلداریء گلزار کروں یا نہ کروں
ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں

قصہء سازشِ اغیار کہوں یانہ کہوں
شکوہء یارِ طرحدار کروں یا نہ کروں

جانے کیا وضع ہے اب رسمِ وفا کی اے دل
وضعِ دیرینہ پہ اصرار کروں یا نہ کروں
جانے کس رنگ میں تفسیر کریں اہلِ ہوس
مدحِ زلف و لب و رخسار کروں یا نہ کروں

یوں بہار آئی ہے امسال کہ گلشن میں صبا
پوچھتی ہے گزر اس بار کروں یا نہ کروں

گویا اس سوچ میں ہے دل میں لہو بھر کے گلاب
دامن و جیب کو گلنار کروں یا نہ کروں

ہے فقط مرغِ غزلخواں کہ جسے فکر نہیں
معتدل گرمیء گفتار کروں یا نہ کروں"

تب اس غزل سے شناسائی ہوئی بلاشبہ بہت خوب غزل ہے
شراکت کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
شاہ صاحب جانے کیسے میری نظر نہیں پڑی اس پر مگر شکریہ اس عمدہ حوالے پر
 
Top