غالب گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو

غزل

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو

ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو

ہمیں پھر ان سے امید، اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو

بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو

مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور
"فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو"
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ​
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو​
واہ بہت ہی خوب ۔​
 

طارق شاہ

محفلین
غزلِ
مرزا اسداللہ خاں غالب

گئی وہ بات کہ، ہو گفتگو تو کیوں کر ہو!
کہے سے کچھ نہ ہُوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو!


ہمارے ذہن میں اِس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ، ہو تو کہاں جائیں، ہو تو کیوں کر ہو!


ادب ہے اور یہی کشمَکش تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومَگو، تو کیوں کر ہو!


تُمھیں کہو کہ گُزارا صنم پرستوں کا
بُتوں کی ہواگرایسی ہی خُو، تو کیوں کر ہو!


اُلجھتے ہو تم، اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہْر میں ہوں ایک دو، تو کیوں کر ہو!


جسے نصِیب ہو روزِ سِیاہ، میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو، تو کیوں کر ہو!


ہمیں پھر اُن سے اُمید، اور اُنھیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو، تو کیوں کر ہو!


غلط نہ تھا ہمیں خط پر گُماں تسلّی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو!


بتاؤ، اُس مژہ کو دیکھ کرہو مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فرو، تو کیوں کر ہو!


مجھے جُنوں نہیں غالبؔ،! ولے بقولِ حضور
"فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو!"

بہت خُوب انتخاب صاحب!
بہت سی داد اور تشکّر، غالب کی اس طرحی غزل کے انتخاب اور شیئر کرنے پر!
بہت خوش رہیں اور لکھتے رہیں
(ایک آدھ جگہ غلطی درست کردی ہے )
 
Top