سید زبیر
محفلین
بیان درد
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ ' نہیں دل کو میرے قرارہے
کروں اس ستم کا میں کیا بیاں، مرا غم سے سینہ فگار ہے
یہ رعایا ہند تبہ ہوئی، کہو کیا کیا ان پہ جفا ہوئی
جسے دیکھا حاکم وقت نے ،کہا یہ بھی قابل دار ہے
یہ کسی نے ظلم بھی ہے سنا کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گنہ
ولے کلمہ گویوں کی سمت سےابھی ان کے دل میں بخار ہے
نہ تھا شہر دہلی،یہ تھا اک چمن،کہو کس طرح کا تھا یاں امن
جو خطاب تھا وہ مٹا دیا، فقط اب تو اجڑا دیار ہے
یہی تنگ حال جو سب کا ہے،یہ کرشمہ قدرت رب کا ہے
جو بہار تھی سو خزاں ہوئی، جو خزاں تھی اب وہ بہار ہے
شب و روز پھول میں جو تلٍے،کہو خار غم کو وہ کیا سہے
ملے طوق قید میں جب انھیں،کہا گل کے بدلے یہ ہار ہے
سبھی جا وہ ماتم سخت ہے ،کہو کیسی گردش بخت ہے
نہ وہ تاج ہے نہ وہ تخت ہے،نہ وہ شاہ ہے نہ وہ دیار ہے
جو سلوک کرتےتھے اور سے، اب وہ دیکھیں کس طور سے
وہ ہیں تنگ چرخ کے جور سے،رہا تن پہ ان کے نہ تار ہے
نہ وبال تن ہے سر مرا، نہیں جان جانے کا ڈر ذرا
کٹے غم ہی نکلےجو دم مرا،مجھے اپنی زندگی بار ہے
کیا ہے غم ظفر تجھے حشرکا جو خدا نے چاہا تو برملا
ہمیں ہے وسیلہ رسول کا ، وہ ہمارا حامی کار ہے
بہادر شاہ ظفر
ماخوذ از 'قومی شاعری کے ۱۰۰ سال' مرتبہ علی جواد زیدی
پرکاش شاکھا 'محکمہ اطلاعات ، اتر پردیش