گائے، بھینس، بکری، مرغی اکانومی

جاسم محمد

محفلین
گائے، بھینس، بکری، مرغی اکانومی
حسن نثار
25 فروری ، 2020

215020_3090962_updates.jpg

فوٹو: فائل

تھے تلخ بہت بندہ ٔمزدور کے اوقات ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات اور سچ یہ کہ صدیوں بلکہ ہزاریوں سے ان میں کوئی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔

چندرگپت، اشوک ہو، سلاطین دہلی ہوں یا آلِ تیمور اور پھر انگریز، روکھی سوکھی اور دو وقت کی روٹی ہی ان کا مسئلہ اور مقدر تھی، ہے اور نجانے کب تک رہے گی، بجا کہ ٹیکنالوجی نے معقول تعداد میں متوسط طبقہ پیدا کیا لیکن بندہ ٔمزدور کی اوقات اورکے اوقات کی تلخی میں کوئی کمی نہیں آئی اور یہی بات دیسی میموں اور کالے پیلے بھورے صاحبان کو سمجھ نہیں آ رہی ورنہ وہ سوشل میڈیا پر گائے، بھینس، بکری، مرغی کی معیشت کا بے رحمانہ مذاق نہ اڑاتے۔

دوباتیں سمجھنے کی ہیں اول یہ کہ ڈھور ڈنگر کو مال مویشی کہتے ہیں، اسی لئے محاورہ ہے کہ پٹواری کی بھینس مری تو پورا گاؤں تعزیت کیلئے جمع ہو گیا لیکن جب پٹواری خود مرا تو تعزیت کرنے والے خال خال دکھائی دیئے۔

اشفاق احمد مرحوم نے یونہی نہیں لکھا تھا کہ غریب آدمی مرغی اس وقت کھاتا ہے جب خود بیمار ہو یا پھر اس کی مرغی بیمار ہو میں نے بھی کبھی لکھا تھا کہ پولٹری کے موجد کا شکریہ ادا کرو ورنہ آج عوام اپنی اولادوں کو چڑیا گھر لے جا کر مرغا مرغی کے درشن کراتے اور بتاتے کہ بچو!ہمارے بزرگ کبھیکبھی یہ پرندہ نما کھایا بھی کرتے تھے۔

کبھی غور کریں بندۂ مزدور کی زندگی بیحد BASIC تھی اور ہے جسے نہ کبھی کوئی بادشاہت تبدیل کر سکی نہ جمہوریت نہ فوجی آمریت، نہ کوئی قائد عوام اصل عوام کو کوئی ریلیف دے سکا نہ کوئی مرد مومن مرد حق ان کی پوٹلیاں تبدیل کر سکا بلکہ الٹا نوبت لنگرخانوں تک آپہنچی جو اس سے پہلے صرف مزاروں درباروں تک محدود تھے۔

ایک عجیب وغریب ذاتی تجربہ آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں، جس کا جی چاہے چیلنج کرکے دیکھ لے کہ لاہور جیسے شہر کا بھی حال کیا ہے، میں نے پہلا گھر 1980-81ء میں بنایا تو پہلی بار بغور بندۂ ٔمزدور کی لنچ پوٹلیوں کا جائزہ لیا۔

رنگین سی پوٹلی میں دو تین پراٹھے یا موٹی روٹیاں، گُڑ، پیاز، کوئی سوکھا سالن(سبزی دال) یا ایسا آملیٹ جس میں پیاز وغیرہ ٹھوک کے ڈالا گیا ہوتا، پھر چھ سات سال بعد بیدیاں روڈ پر ٹھیٹھر نامی گاؤں میں فارم ہاؤس بنایا جب اس کا رواج ہی نہ تھا۔

فارم ہی فارم تھا جس میں بانس لگوائے ہاؤس بہت مختصر لیکن خاصی اونچائی پر تھا، اس کی تعمیر میں بھی بندۂ مزدور کا مینیو وہی تھا جو اوپر عرض کر چکا، پھر 2000ء میں یعنی پندرہ سولہ سال بعد بیلی پور آباد کیا اور ہانسی حویلی کی تعمیر شروع کی تو بندہ ٔمزدور کا مینیو پھر وہی کا وہی تھا۔

مہنگائی جتنی بھی بڑھ جائے، روپیہ جتنا بھی گھٹ جائے، مزدور کا یہ مینیو اس کے مقدر کی طرح تبدیل نہیں ہوسکتا جس کی انتہا یہ کہ تقریباً تین ساڑھے تین سال پہلے جب موجودہ گھر زیر تعمیر تھا، میں نے بیسمنٹ میں سب مزدوروں کو ایک بار پھر باجماعت لنچ کرتے دیکھا تو صرف پیکنگ میں یہ تبدیلی نظر آئی کہ اس بار پوٹلیاں کپڑے کی نہیں پلاسٹک کی تھیں لیکن مینیو 100 فیصد وہی تھا۔

نہ کھانا تبدیل ہوا تھا نہ کھانے والے نہ ان کے نصیب، صدیوں نہیں ہزاریوں کی بھوک ہے جو ان کے DNA میں بھی ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے کہ جو اب متمول بھی ہو چکے لیکن حالت یہ کہ شادیوں وغیرہ پہ کھانا کھلتا ہے تو لوگ بھی کھلتے ہیں جو جمہوریت کا حسن بھی ہے اور بہترین انتقام بھی۔

کبھی سیاسی پارٹیوں کے اجتماعات پر سالگرہ کے کیکوں پر یلغار دیکھی ہے آپ نے؟ دشت تو دشت ہیں دیگیں بھی نہ چھوڑی ہم نے عرض کرنے کا مقصد یہ کہ پیٹ بھرے (؟) نہیں جانتے کہ گاؤں کے کسی عام کمی مزارع کے گھرانے میں گائے، بھینس، بکریوں اور چند مرغیوں کا مطلب کیا ہے۔

یہ بیچارے اپنے جانوروں کی خدمت کرتے ہیں، مفت کی چرائی کے ساتھ یہ ان کا علاج بھی عموماً خود ہی کرلیتے ہیں، ان کا دودھ، دہی، گھی، لسی ان کا من وسلویٰ ،کچھ کھالیا کچھ بیچ لیا، یہاں تک کہ گوبر کی کھاد یا اپلے بھی مال ہے اور جب دیسی انڈا بکتا ہے تو یہ کوئی دیسی میم سوچ بھی نہیں سکتی کہ ان انڈوں سے کیا برآمد ہوتا ہے۔

گائے، بھینس، بکری، مرغی، بچہ دیدے تو یہ لاٹری سے کم نہیں ہوتا، مبارکبادیں وصولتے اور خوشی سے پھولتے ہیں، گائے، بھینس، بکری امید سے ہو تو کہتے ہیں ہری ہو گئی جیسے کھیتی ہری ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس لئے اس پروگرام کو جگتیں نہ ماریں اور دعا دیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح اسے بھی افسران اور وچولے ہی نہ لے اڑیں، اس پروگرام میں خامی ہی صرف یہ ہے کہ ڈاکیئے ہی ڈاک غائب نہ کر دیں، مال مویشی دیانتداری سے بندۂ مزدور تک پہنچ گیا تو اسے خاصی ریلیف مل سکتی ہے کہ ریلیف کی اقسام اور سائز اپنا اپنا ہوتا ہے۔
 

احمد محمد

محفلین
معذرت کے ساتھ، مجھے کسی سیاسی بحث کا شوق ہے نہ خواہش۔۔ مگر اس تحریر کو پڑھ کر رہ نہیں پا رہا۔
اتنے سال ان مہاشے اور ان کے قائدین نے گیان تو جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، فرانس، کوریا، جاپان، ملائشیا، ہانگ کانگ اور نجانے کون کون سے ممالک کے دئیے اور اب بھاشن مرغی، بکری، بھینس اور کٹے کے دے رہے ہیں اور اس پر بھی لوگوں کی تنقید سے تکلیف ہو رہی ہے۔ جبکہ خود انہوں نے ساری زندگی تنقید کرتے گذاری ہے۔

جب علم تھا کہ بندۂ مزدور کے اوقات تبدیل ہونے کے نہیں ہیں تو یہ بکواس پہلے کرنی تھی نا۔ یا یہ کہ مزدور کی قسمت اور اس کے مینو میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، اس بات کا ادراک ہی ان 20 ماہ میں ہوا ہے؟؟؟

اب آ جاتے ہیں اس کالم کی جانب۔۔۔ اس نام نہاد دانشور نے 1980 میں پہلا مکان بنایا آخری 3 سال قبل۔ اب ان 28 برس کو ہی لے لیں اور شمار کر لیں کون کتنا عرصہ رہا اور بندہ مزدور کے اوقات تبدیل نہ ہوئے۔

اس کالم نگار کے ہی دئے گئے اعداد و شمار کو واضع 2 ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے مگر 17 سال کو چھوڑ کر اس کی ساری تنقید 11 سال کے لیے وقف ہے۔

محترم نے کمال خوبصورتی سے پاکستان میں فارم ہاؤسز کے بانی بن گئے۔ اب جاسم محمد صاحب ذرا ایک کام تو کریں۔ 1980 سے اب تک کی سٹیٹمنٹ تو ڈھونڈ کر بتائیں کہ انہوں نے ٹیکس کتنا دیا ہے؟ گھر تو انہوں نے بے شمار گنوا دیئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اتنے سال ان مہاشے اور ان کے قائدین نے گیان تو جرمنی، اٹلی، ہالینڈ، فرانس، کوریا، جاپان، ملائشیا، ہانگ کانگ اور نجانے کون کون سے ممالک کے دئیے اور اب بھاشن مرغی، بکری، بھینس اور کٹے کے دے رہے ہیں اور اس پر بھی لوگوں کی تنقید سے تکلیف ہو رہی ہے۔ جبکہ خود انہوں نے ساری زندگی تنقید کرتے گذاری ہے۔
پاکستان جس کی اکثریتی آبادی آج بھی دیہی علاقوں میں رہتی ہے کیا لیپ ٹاپ، پیلی ٹیکسیاں چلا کر اپنے حالات بہتر کرے یا اپنے مال مویشیوں کی تعداد بڑھا کر؟ اس کا جواب آپ کے تنقیدی ذہن پر چھوڑتا ہوں۔
اس خطے کی معاشی تاریخ پڑھ لیں۔ انگریز کی یہاں آمد سے قبل ہندوستان دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھی جو پوری دنیا کی کل پیداوار کا ۲۵ فیصد تھی۔ اس زمانہ میں بعض ریاستوں جیسے بنگال اور میسور کی فی کس آمدنی برطانیہ سے بھی زیادہ تھی۔ یہی وجہ تھی جو انگریز نے ہندوستان حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پھر قبضہ کے بعد صرف سو سال میں یہاں کی معاشی، سماجی بنیادیں تباہ کرکے فرار ہو گئے
 

احمد محمد

محفلین
پاکستان جس کی اکثریتی آبادی آج بھی دیہی علاقوں میں رہتی ہے کیا لیپ ٹاپ، پیلی ٹیکسیاں چلا کر اپنے حالات بہتر کرے یا اپنے مال مویشیوں کی تعداد بڑھا کر؟ اس کا جواب آپ کے تنقیدی ذہن پر چھوڑتا ہوں۔
اس خطے کی معاشی تاریخ پڑھ لیں۔ انگریز کی یہاں آمد سے قبل ہندوستان دنیا کی دوسری بڑی معیشت تھی جو پوری دنیا کی کل پیداوار کا ۲۵ فیصد تھی۔ اس زمانہ میں بعض ریاستوں جیسے بنگال اور میسور کی فی کس آمدنی برطانیہ سے بھی زیادہ تھی۔ یہی وجہ تھی جو انگریز نے ہندوستان حاصل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پھر قبضہ کے بعد صرف سو سال میں یہاں کی معاشی، سماجی بنیادیں تباہ کرکے فرار ہو گئے
سوال آپ سے کچھ اور کیا تھا، جواب میں آپ نے من پسند اقتباس لے کر حسبِ روایت تشدد کر دیا۔ :yell:

مزید کچھ درکار نہ ہے۔ بس اتنا ہی کہوں گا کہ۔۔۔ اب مجھے کافی آرام ہے اور :blacksheep: کے ساتھ ہی خوش ہوں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال آپ سے کچھ اور کیا تھا، جواب میں آپ نے من پسند اقتباس لے کر حسبِ روایت تشدد کر دیا۔
محترم نے کمال خوبصورتی سے پاکستان میں فارم ہاؤسز کے بانی بن گئے۔ اب جاسم محمد صاحب ذرا ایک کام تو کریں۔ 1980 سے اب تک کی سٹیٹمنٹ تو ڈھونڈ کر بتائیں کہ انہوں نے ٹیکس کتنا دیا ہے؟ گھر تو انہوں نے بے شمار گنوا دیئے ہیں۔
آپ کے سوال کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔ حسن نثار نے اپنے گھروں میں سرمایہ کاری کا ذکر کیا ہے۔ پہلا گھر انہوں نے ۱۹۸۰ میں بنایا۔ یہ وہی زمانہ ہے جب پاکستانی معیشت manufacturer economy سے rentier economy کی جانب چلنا شروع ہوئی تھی۔ اسی دور میں نت نئی ہاؤسنگ سکیموں نے جنم لیا جو آجکل کے جنات جیسے بحریہ، ڈی ایچ اے وغیرہ بن چکے ہیں۔
ذرا سوچئے جب ملک میں پیسا بنانے کا سب سے آسان طریقہ محض مکانات و محلات میں سرمایہ کاری رہ جائے گا تو اس ملک کی پوری معیشت کا پہیا جام کیونکر نہ ہوگا۔ ان محلات میں آپ جتنی بھی سرمایہ کاری کر لیں۔ ان سے حاصل ہونے والی آمدن سے آپ بیرونی دنیا سے تجارت نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مقامی کرنسی میں ہوتی ہے۔
اس لئے بجائے ملکی پیداوار اور برآمداد بڑھانے کے ۱۹۸۰ سے حکومتوں کا فوکس یہی ایک ریئل اسٹیٹ سیکٹر رہا۔ جس کے سنگین نتائج بھی آپ دیکھ چکے رہیں۔
ملک میں ایک چھوٹا سا اشرافیہ طبقہ جو یہ فارم ہاوسز و محلات سستے وقتوں میں خریدنے کی وجہ سے آج بہت خوشحال ہے۔ جبکہ عوام کی اکثریت آج بھی کرائے کے مکانوں میں غربت کی وجہ سے دھکے کھا رہی ہے
 

فرقان احمد

محفلین
معجزے کی اُمید کم از کم ہمیں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہی ہو گی تاہم خان صاحب سے یہ توقع تھی کہ شاید بلا امتیاز احتساب کر گزریں۔ جب یہ توقع بھی اُٹھ گئی تو اب اُن میں اور دیگر روایتی سیاست دانوں میں کوئی جوہری فرق شاید باقی نہ رہ گیا۔ ایمان داری کا منجن بھی کب تک کوئی بیچے، اور تماشائی بھی کب تک کمرشل ٹون میں یہ راگ اور بپتا سنتے پھریں! سننے والوں کے کان پک گئے، اور ایک خان صاحب ہیں کہ ان کا جی نہیں بھرا۔ ابھی اور سُنائیں گے!
 

جاسم محمد

محفلین
معجزے کی اُمید کم از کم ہمیں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہی ہو گی تاہم خان صاحب سے یہ توقع تھی کہ شاید بلا امتیاز احتساب کر گزریں۔ جب یہ توقع بھی اُٹھ گئی تو اب اُن میں اور دیگر روایتی سیاست دانوں میں کوئی جوہری فرق شاید باقی نہ رہ گیا۔ ایمان داری کا منجن بھی کب تک کوئی بیچے، اور تماشائی بھی کب تک کمرشل ٹون میں یہ راگ اور بپتا سنتے پھریں! سننے والوں کے کان پک گئے، اور ایک خان صاحب ہیں کہ ان کا جی نہیں بھرا۔ ابھی اور سُنائیں گے!
آئینی طور پر وزیر اعظم پانچ سال کیلئے آتا ہے۔ برداشت کریں۔ چیخیں تو نکلیں گی! :)
 

عرفان سعید

محفلین
معجزے کی اُمید کم از کم ہمیں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہی ہو گی تاہم خان صاحب سے یہ توقع تھی کہ شاید بلا امتیاز احتساب کر گزریں۔ جب یہ توقع بھی اُٹھ گئی تو اب اُن میں اور دیگر روایتی سیاست دانوں میں کوئی جوہری فرق شاید باقی نہ رہ گیا۔ ایمان داری کا منجن بھی کب تک کوئی بیچے، اور تماشائی بھی کب تک کمرشل ٹون میں یہ راگ اور بپتا سنتے پھریں! سننے والوں کے کان پک گئے، اور ایک خان صاحب ہیں کہ ان کا جی نہیں بھرا۔ ابھی اور سُنائیں گے!
یہ تو ہو گا!
:)
 

جاسم محمد

محفلین
تاہم خان صاحب سے یہ توقع تھی کہ شاید بلا امتیاز احتساب کر گزریں۔
خان صاحب اگر:
وزیروں کو پکڑیں تو حکومت خطرے میں
اپوزیشن کو پکڑیں تو جمہوریت خطرے میں
صحافیوں کو پکڑیں تو صحافت خطرے میں
دانشوروں کو پکڑیں تو آزادی اظہار خطرے میں
تاجروں کو پکڑیں تو معیشت خطرے میں
جرنیلوں کو پکڑیں تو ملکی سالمیت خطرے میں
بیروکریٹس کو پکڑیں تو سرکاری مشینری خطرے میں
وکیلوں کو پکڑیں تو عدلیہ خطرے میں
ججوں کو پکڑیں تو جاسوسی اور بدنیتی
یہی گول دائرہ کا سفر کریں جیسا کہ پچھلے 72 سال میں کیا ہے اور وزیر اعظم ہذا پر تنقید کرتے رہیں کہ انہوں نے کیا کچھ نہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
خان صاحب اگر:
وزیروں کو پکڑیں تو حکومت خطرے میں
اپوزیشن کو پکڑیں تو جمہوریت خطرے میں
صحافیوں کو پکڑیں تو صحافت خطرے میں
دانشوروں کو پکڑیں تو آزادی اظہار خطرے میں
تاجروں کو پکڑیں تو معیشت خطرے میں
جرنیلوں کو پکڑیں تو ملکی سالمیت خطرے میں
بیروکریٹس کو پکڑیں تو سرکاری مشینری خطرے میں
وکیلوں کو پکڑیں تو عدلیہ خطرے میں
ججوں کو پکڑیں تو جاسوسی اور بدنیتی
یہی گول دائرہ کا سفر کریں جیسا کہ پچھلے 72 سال میں کیا ہے اور وزیر اعظم ہذا پر تنقید کرتے رہیں کہ انہوں نے کیا کچھ نہیں۔
پہلے جملے پر رُک جانا بہتر تھا، ایسی حکومت سے بہتر ہے کہ استعفیٰ دے دیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ایسے لڑنے سے بہتر تھا کہ میدان میں ہی نہ اُترتے۔
جب بھٹو اور نواز شریف دو تہائی اکثریت لینے کے باوجود ملک کے طاقتور مافیاز سے ٹکر نہ لے سکے تو اتحادیوں کے سہارے قائم حکومت میں عمران خان کیا کر لیتے؟ جتنا بہت وہ کر رہے ہیں اسے بھی غنیمت جانئے :)
 
Top