گاندھی کا فلسفۂِ عدمِ تشدد اور حماس---منیر احمد خلیلی

گاندھی کا فلسفۂِ عدمِ تشدد اور حماس
منیر احمد خلیلی
غزہ کے المیہ نے خود مسلمان معاشروں کے اندر متعدد مباحث کو جنم دیا ہے۔غزہ پر چھ سال پہلے کی ہولناک غارت گری کے موقع پر بھی یہ موقف سامنے آیا تھااور اب پھر کچھ حلقوں میں دہرایا جا رہا ہے کہ حماس کو مسلح مزاحمت کا راستہ ترک کر دینا چاہیے۔راکٹوں اور اسلحہ کے بجائے مہاتما گاندھی کے فلسفہِ عدمِ تشدد کو ہتھیار بنانا چاہیے۔گاندھی نے وقت کی ایک بہت بڑی استعماری قوت کو تحریکِ عدمِ تشدد کے زور پرہندوستان چھوڑنے اور آزادی دینے پر مجبور کر دیا تھا۔ترکی کے ایک اسلام پسند دانشور مصطفےٰ اکیول کا کالم پچھلے دنوں وہاں کے ایک انگریزی اخبار ’حُریّت ‘ چھپا۔ انہوں نے یہی نصیحت کی۔کئی اور اطراف سے بھی یہی آواز سنائی دی۔یہ رائے پیش کرنے والوں کے درد اور اخلاص میں کوئی شک نہیں لیکن ایک بہت بڑی حقیقت ان کی نظر وں سے اوجھل ہے۔مغرب کی استعماری قوتیں جنہوں نے برّ صغیر پاک و ہند کے علاوہ کئی اور بلادِ اسلامیہ پر اپنے استعماری پنجے گاڑے تھے ان کے مزاج ، مقاصد اور ان کے لیے اختیار کردہ ذرائع کا موازنہ اسرائیل کے فلسطین پر قبضے سے کیا جائے تو ہمیں بہت بڑا فرق نظر آتا ہے۔ انگریزوں نے تجارت کے راستے جب ہندوستان پراپنا قبضہ جمایا تو وہ ہندوستانی عوام کو دو نمبر شہری بنا کر رکھنے اور ان کے مقابلے میں اپنی حاکمانہ شان قائم کرنے کے خواہشمند تھے۔ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے سامنے اس ملک کے کروڑوں باشندے سر افگندہ رہیں لیکن وہ یہاں کے عوام کو صفحۂِ ہستی سے مٹا ڈالنا نہیں چاہتے تھے۔انہیں حکومت کرنے اور خدمات لینے کے لیے رعایا کے سروں کی ضرورت تھی۔پھر ایک اور بات یہ تھی کہ مغربی اقوام عیسائیت کی پیروکار ہیں عیسائیت ایک تبلیغی مذہب ہے۔استعماری حکومتوں کے زیرِ سایہ بے شمار مشنری ادارے سرگرم تھے جو خدمتِ انسانی کی آڑ میں انہی لوگوں میں سے اپنا شکار تلاش کرتے اور ان کو اپنے مذہب کا حلقہ بگوش بنانے کی کوشش کرتے تھے۔لیکن یہودیت ایک نسلی مذہب ہے۔یہودیت اپنی تاریخ کے ہر دور میںآدمیت کی فصل اجاڑنے کی کوشش میں رہی ہے ۔ فساد اور بگاڑ کی آگ بھڑکا کر اس نے ہمیشہ انسانیت کی تباہی کا سامان کیاہے۔ تخریب کے بیج بونا اس کا ہمیشہ شعار رہا ہے۔بنی نوع انسان ہی نہیں، خود خالقِ کائنات کے مقابلے میں یہود بے خوفی کی شرمناک مثالیں پیش کرتے رہے ۔ان کی اس بے خوفی کے پیچھے ان خرافات نے اہم کردار ادا کیا جو ان کے مذہبی لٹریچر کا حصہ ہیں۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے مُورثِ اعلیٰ حضرت یعقوب علیہ السلام ایک بار ساری رات اللہ تعالیٰ کے ساتھ(نعوذُ باللہ) کشتی کرتے رہے اور آخر غالب آگئے۔ان کی مکروہ تاریخ یہ ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ ان کے سامنے اللہ کے رسول ہیں وہ ان کو قتل کرتے رہے اور پھر سینہ ٹھونک کر یہ کہتے رہے کہ ہاں ہم نے اللہ کے رسول کو قتل کیا۔ جب اللہ اور اس کے رسولوں کے بارے میں ان کے عقائد اور رویے ایسے ہیں تو تعجب کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر نہ ان کے دل پسیجیں اور نہ ان کے ضمیر ملامت کریں۔آخرت سے بے خوفی کی اسی کیفیت نے ان کے اندر یہ عقیدہ پختہ کیا کہ غیر یہودی (Gentile) کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی پامالی پر اللہ کے ہاں ان سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔ اس قوم کی یہی مجرمانہ ذہنیت تھی جس کی وجہ سے تاریخ کے طویل ادوار میں یہ معتوب اور محکوم اور قابلِ نفرت بنی رہی۔یہودی مدتوں تک ملک ملک مارے مارے پھرتے رہے ۔یورپی اقوام نے ان نہ کبھی برابری کا درجہ دیا تھا اور نہ ان کو لائقِ عزت سمجھا تھا۔قرونِ وُسطیٰ کے بعد کی مغرب کی شاعری اور ڈراموں اور ناولوں پربھی نظر ڈالی جائے تو یہودیوں کا ذکر بڑی حقارت کے ساتھ ملتا ہے۔انہی چیزوں کا بدلہ لینے کے لیے انہوں نے پُر اسرار سوسائٹیوں اور خُفیہ تنظیموں کے ذریعے اقوامِ عالَم کے اندر تخریب کے بیج بوئے اور ان کی تباہی کے پروگرام بنائے ۔ اڑھائی تین صدیاں پہلے Illuminatiاور فری میسن جیسی تحریکیں اٹھائیں اور روٹری انٹرنیشنل کلب اور دیگر عالمی سطح کے فورم تشکیل دیے جن کا مقصد اذہان و افکاراور اخلاق میں فسادڈالنا تھا ۔انہی کے تحت عالمی نظامِ معیشت اور سیاست کو اپنی مٹھی میں لینے کے راستے نکالے۔غیر یہودی اقوام اور خاص طور پرمسلمان ملکوں کی عسکری قیادتوں پر ڈورے ڈالے گئے۔ بیوروکریسی کے اعلیٰ دماغوں کو زیرِ دام لایاگیا۔ادب و صحافت کے مشاہیر کو مسحور کیا گیا۔ جمہوریت جو انسان کے بنائے ہوئے نظاموں میں اس وقت سب سے مقبول و معروف سیاسی نظام ہے ،اس میں جن حقوق اور آزادیوں کی ضمانت ہے ان سے سب سے زیادہ فائدہ یہودیوں نے اٹھایا۔جمہوریت ہی ذریعے انہوں نے مغربی معاشروں میں برابری کی حیثیت منوائی اور اپنے خلاف پائی جانے والی نفرت کے آگے بند باندھا۔ جمہوری آزادیوں کے طفیل معیشت کے منبعوں اور میڈیا پر ان کو اجارہ داری حاصل ہوئی ۔ آزادیِ رائے کے اپنے حق کو استعمال کیا اور دوسروں کے حق پر قدغن لگوائی کہ نازی جرمنی کے مظالم اور آتشی بھٹیوں (holocaust)میں یہودیوں کے جلائے جانے کے انکار کو قابلِ سزا جُرم قرار دلوا دیا۔جس نفرت کا یہ خود شکار رہے آج اس کا رُخ انہوں نے مسلمانوں، حماس اور فلسطینیوں کی طرف موڑ دیا ہے اور ان کو جمہوری آزادیوں کے شجر کا پھل چکھنے دینا تو درکنار انہیں جینے کے حق سے بھی محروم کر رہے ہیں۔فلسطینی اسرائیلیوں کے ہاتھوں اہانت و تذلیل کا کیسا نشانہ ہیں اور وہ انہیں کس طرح کتوں بلیوں اور چوہوں اور کاکروچوں کے درجے پر سمجھتے ہیںیہ جاننے کے لیے عالمی شہرت یافتہ برطانوی صحافی رابرٹ فِسک کی کتابThe Great War for Civilisationمیں فلسطین سے متعلق وقائع پر ایک نظر ضرور ڈال لینی چاہیے۔
انیسویں صدی کے اواخر تک یہودیوں نے مغربی اقوام میں اپنا گہرا اثر قائم کر لیا تھا۔اب انہوں نے اپنے لیے ایک ایسے وطن کا منصوبہ بنایا جو ان کا مرکزِ عقیدہ بھی ہو، ان کی سیاسی اورعسکری قوت کی علامت بھی بنے اور حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کے بعد کھوئی ہوئی عزت اور طاقت کی بازیابی کا ذریعہ بھی ثابت ہو ۔صَھْیون (Zion) القدس میں ایک پہاڑی کا نام بھی ہے ، یہودی عوام کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا رہا اور یہودی معبد یا کنیسہ یا کلیسا کو بھی صَھْیون کہتے ہیں۔کسی ملک کی پارلیمنٹ اس کے سیاسی نظام اور فیصلوں کا سرچشمہ ہوتی ہے۔اسرائیلی پارلیمنٹ کو
Knessetکا نام دیا گیاکیوں کہ اس میں یہودی کلیسائی روح بھی دوڑ رہی ہے اوریہ صَھْیونی (Zionist) مادّی، سیاسی اور عسکری عزائم کی تکمیل کا ادارہ ہے۔بات چلی تھی کہ حماس کوگاندھی کے فلسفۂِ عدمِ تشدد کو اختیار کرنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ عدمِ تشدد کی تحریک وہاں نتائج دکھاتی ہے جہاں مخالف فریق میں کچھ تھوڑی بہت اخلاقی حِس، شرافت کی رمق اور انسانیت کی روح موجود ہو۔’ اعلانِ بالفور ‘سے لے کر آگے پچھلی صدی کے تیسرے عشرے تک کم و بیش پندرہ سال تک فلسطینیوںں نے اپنی حق تلفیوں اور محرومیوں اور صَھیونی دہشت گردی کے مقابلے میں جس صبر کا مظاہرہ کیا وہ ’عدمِ تشدد ‘ پر عمل ہی کی ایک صورت تھی۔ اعلانِ بالفور کے بعد ہر سال تقریباً دس ہزار یہودیوں کی باہر سے فلسطین میں آمد جاری رہی۔وہ خود بھی مرفّہ حال تھے اور ان کی عالمی تنظیمیں اور سر پرست قوتیں بھی انہیں بھاری فنڈ فراہم کر رہی تھیں۔انہوں نے غُنڈہ جتھے اور دہشت گرد گروہ تشکیل دیے جوفلسطینی عربوں کو ہراساں کر کے جبراً ان کی زمینوں پر قبضے کر رہے تھے۔ادھر دمشق اور بیروت میں بیٹھے بڑے بڑے لینڈ لارڈوں نے جب ان مالدار نو آبادکاروں کا سیلاب دیکھا تو انہوں نے بھی فلسطین میں اپنی وسیع جائدادیں بیچنی شروع کر دیں۔1922 میں فلسطین کے اندر یہودیوں کی تعداد چوراسی ہزار تھی اور عرب فلسطینی پانچ لاکھ نوے ہزار تھے۔1937 میںیہودی چار لاکھ سے تجاوز کر چکے تھے۔1949میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا یہودی آبادی سوا سات لاکھ تھی اور عرب گھَٹ کر اڑھائی لاکھ رہ گئے تھے۔موضوع اس وقت آبادی کا تناسب نہیں بلکہ غزہ کے مظلوموں کے لیے کچھ بہی خواہوں اور ہمدردوں کی طرف سے یہ مشورہ ہے کہ وہ چونکہ اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ اسرائیل کی عسکری قوت کے ساتھ ٹکرا کر اپنی بقا کا انتظام کر سکیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ وہ گاندھی جی کے فلسفۂِ عدمِ تشدد کو
اپنا ہتھیا بنائیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ رواں صدی کے ابتدائی پانچ برس تک جاری رہنے والا ’انتفاضہ‘ بھی توعدمِ تشدد کی ہی ایک شکل تھی جس میں اسرائیلی ٹینکوں اور جدید ترین اسلحہ کامقابلہ چھوٹے چھوٹے بچے اپنی غلیلوں سے کر رہے تھے ۔کیا صھیونی یہودیوں نے ان معصوم بچوں کی غلیلوں کا جواب ہلاکو اور چنگیز خان سے بھی بڑھ کر وحشیانہ انداز میں نہیں دیا تھا؟بربریت فطرت میں داخل ہو تو عدمِ تشدد کا کوئی نسخہ کارگر نہیں ہوتا۔یہ وہی گھناؤنی فطرت ہے جوایک بار پھر ابل کر سامنے آئی اور اہلِ غزہ کے خلاف ایسے وحشیانہ آپریشن کی صورت میں ڈھلی جو اپنی طوالت، رہائشی عمارتوں ، مارکیٹو ں،بازاروں، سکولوں، اسپتالوں، اور انفرا سٹرکچر کی تباہ کاریوں اور ہزاروں انسانی جانوں کے اتلاف کے لحاظ سے کسی بھی بڑی جنگ سے کم نہیں ہے۔ اور آخر میں بے حِسی کے ہاتھوں راکھ بنی ڈیڑھ ارب مِلّتِ اسلامیہ میں پوشیدہ غیرت و حمیت کی ایک چنگاری کا ذکر جس کا نام سعیدہ وارثی ہے۔ ہمارے وطن کی مٹی سے نمو پانے والی یہ غیرت مند خاتون وزارت پر لات مار کر ڈیوڈ کیمرون کی حکومت سے اس لیے الگ ہو گئیں کہ فلسطینی مظلوموں کے معاملے میں انہیں اس حکومت کا رویہ اور نقطۂِ نظر اخلاقی جواز اور اعلیٰ انسانی قدروں سے یکسر خالی نظر آئی ۔

http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/گاندھی-کا-فلسفۂِ-عدمِ-تشدد-اور-حماس
 

arifkarim

معطل
لیکن یہودیت ایک نسلی مذہب ہے۔یہودیت اپنی تاریخ کے ہر دور میں آدمیت کی فصل اجاڑنے کی کوشش میں رہی ہے ۔ فساد اور بگاڑ کی آگ بھڑکا کر اس نے ہمیشہ انسانیت کی تباہی کا سامان کیاہے۔ تخریب کے بیج بونا اس کا ہمیشہ شعار رہا ہے۔بنی نوع انسان ہی نہیں، خود خالقِ کائنات کے مقابلے میں یہود بے خوفی کی شرمناک مثالیں پیش کرتے رہے ۔ان کی اس بے خوفی کے پیچھے ان خرافات نے اہم کردار ادا کیا جو ان کے مذہبی لٹریچر کا حصہ ہیں۔

میں حیران تھا کہ اس بے بنیاد الزام پر ابھی تک زیک بھائی کا کوئی تبصرہ کیوں نہیں آیا سوائے ریٹنگ کے۔ خیر یہود قوم کے بارہ میں اس قسم کی بے بنیاد باتوں کو antisemitism یا یہود نفرت کہا جاتا ہے۔ اور یہ امریکہ میں ایک سنگین جُرم ہے۔ نازیوں کے ہاتھوں یورپی یہود کی نسل کشی اسی قسم کی مفروضوں کا نتیجہ تھی۔

یہودی اپنی تعداد کے تناسب سے دنیا میں سب سے زیادہ نوبل انعام لینے والے اور ذہانَت کی اکائی یعنی IQ کے حساب سے دنیا کی سب سے ذہین قوم ہیں۔
http://immortallife.info/articles/entry/why-is-the-iq-of-ashkenazi-jews-so-high

یہودی نوبل انعام لینے والے:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Jewish_Nobel_laureates

اسرائیلی ایجادات اور دریافتیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Israeli_inventions_and_discoveries


13 یہودی ایجادات اور دریافتیں جنہوں نے دنیا تبدیل کردی:
1۔ لیزر
2۔پیس میکر
3۔ڈی این اے انجینئرنگ
4۔اسٹین لیس اسٹیل
5۔نظریہ اضافیت، جو بعد میں متعداد ایجادات جیسے ایٹمی توانائی وغیرہ میں کام آیا
6۔ متعدد ویکسیز جنکے بعد دائمی بیماریاں اب ناپید ہو چکی ہیں
7۔پولیو ویکسین
8۔ایٹم بم ، ہاؤڈروجن بم اور جیسے دیگر جوہری بم
9۔بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام
10۔گوگل، انٹرنیٹ سرچنگ کا بے تاج بادشاہ
11۔ فیس بُک، انٹرنیٹ پرسماجی روابط کا بے تاج بادشاہ
12۔واٹس ایپ، موبائل فون پر سماجی روابط کا بے تاج بادشاہ
13۔انٹرنیٹ، جسکے بغیر آج ہم یہاں انکی قوم کے خلاف بغض نہ پھیلا سکتے

http://www.jspacenews.com/10-jewish-inventions-changed-world/11/
http://thejewishmiracle.wordpress.com/2011/06/30/jews-and-the-internet/
http://forward.com/articles/193103/whatsapp-founder-jan-koums-jewish-rags-to-riches-t/?p=all

میں نے اوپر مضحکہ خیز کی ریٹنگ سے بچنے کیلئے وکی پیڈیا کے علاوہ اور بھی روابط فراہم کر دئے ہیں۔ اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔
 

زیک

مسافر
میں حیران تھا کہ اس بے بنیاد الزام پر ابھی تک زیک بھائی کا کوئی تبصرہ کیوں نہیں آیا سوائے ریٹنگ کے۔ خیر یہود قوم کے بارہ میں اس قسم کی بے بنیاد باتوں کو antisemitism یا یہود نفرت کہا جاتا ہے۔ اور یہ امریکہ میں ایک سنگین جُرم ہے۔
نہیں یہ امریکہ میں بالکل بھی جرم نہیں ہے۔

رہی بات ایسی بگٹری پر تبصرہ کرنے کی تو یہ محفل کا روز کا معمول ہے
 

زیک

مسافر
ویسے بھی اس آرٹیکل میں اتنی لمبی لمبی کہانیاں چھوڑی گئی ہیں کہ ان کا سنجیدہ جواب دینا مشکل ہے۔
 

محمد اسلم

محفلین
میں تو اسے بھی سو کالڈ یہودی سازش ہی سمجھوں گا کہ جس طریق سے فلسطینی مسلمان کچھ حاصل کر سکتے ہیں،،،، اُسی طریق سے مسلمانوں کو بیزار اور نفرتزدہ بنا دیا جائے۔۔۔ یعنی طریق امن و صلح،،، اور مثال گاندھی کی دینے والوں کو شاید سیرت محمدی :pbuh: کا ادراک نہیں ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
بھیڑیا بھیڑوں کے ریوڑ میں آن گھسا ۔۔۔۔اس کو کاٹا،اسے پھاڑا۔۔۔۔اس کے بچے کو بھنبھوڑا۔۔۔۔۔کچھ بھیڑوں نے مرتے مرتے کچھ شور کیا۔۔۔۔۔اس پہ "عالمی برادری" نے بھیڑوں کو "نصیحت" کی۔۔۔۔کہ شور نہ کرو۔۔بری بات ہے۔۔۔گندی بچیو!
 
آخری تدوین:

محمد اسلم

محفلین
بھیڑیا بھیڑوں کے ریوڑ میں آن گھسا ۔۔۔۔اس کو کاٹا،اسے پھاڑا۔۔۔۔اس کے بچے کو بھنبھوڑا۔۔۔۔۔کچھ بھیڑوں نے مرتے مرتے کچھ شور کیا۔۔۔۔۔اس پہ "عالمی برادری" نے بھیڑوں کو نصیحت کی۔۔۔۔کہ شور نہ کرو۔۔بری بات ہے۔۔۔گندی بچیو!
جھوٹی بات
 
Top