۔ انھیں ببر شیر، جونا شیر اور کرنالی شیر کی یاد آتی لیکن وہ اسے ایک بھولا بسرا خواب سمجھ کر نظر انداز کردیتے۔ کبھی کبھی کوئی جانور نیند میں بڑبڑانے لگتا ۔
سارے جہاں سے اچھا، جنگل نشاں ہمارا
ہم جانور ہیں اس کے، یہ گلستاں ہمارا
پنجرے میں ہیں اگر ہم، آزاد کل جوہوں گے
سمجھو ہمیں وہیں پر ، دل ہو جہاں ہمارا
دوسرے جانور اسے سن کر حیران رہ جاتے۔ شاید یہ بے معنی قسم کے الفاظ انھوں نے پہلے بھی سنے تھے، یا شاید انھوں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ کچھ الفاظ تو اِس قدر عجیب تھے کہ جن کو سن کر اِن کی چیخیں نکل جایا کرتیں مثلاً
چرتے ہیں ہم جہاں پر وہ ہے زمین اپنی
اُڑتے ہیں جس فضاء میں وہ آسماں ہمارا
جن جانوروں کے پنجرے پانی کی ٹنکی کے سامنے تھے، وہ دیکھتے تھے کہ اِس ٹنکی پر جانورستان کا انوکھا نعرہ درج تھا۔’’ تمام جانور آپس میں برابر ہیں مگر کچھ جانور زیادہ برابر ہیں‘‘۔ بندروں کو یقین تھا کہ کسی زمانے میں اس ٹنکی پر اور کچھ بھی لکھا ہوا ہوتا تھا لیکن اُن کے معصوم ذہن اس سے آگے سوچنے سے معذور تھے۔ اب تو یہی ان کا حال تھا اور یہی ان کا مستقبل۔