بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
اوپر جو پی ڈی ایف کا لنک دیا ہے اس کا ٹیکسٹ نیچے ہیں اور دوستوں سے درخواست ہیں کہ اگر کوئی ٹائپنگ میں مسنگ ہو تو وہ بھی نوٹ کرادیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لھوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَھا ھُزُوًا أُولَئِكَ لَھمْ عَذَابٌ مُھينٌ(سورہ لقمان آیات نمبر ۶)
المصابیح الغَراء
للوقایَۃ
عن عذاب الغناء
قرآان، حدیث اور اجماع ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالی سے
افاضہ
فقیہ العصر مفتی اعظم حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ تعالی
تحریر
حضرت مفتی محمد ابراھیم صاحب صادق آبادی مدظلہ
المصابیح الغَراء
للوقایۃ
عن عذاب الغناء
گانے بجانےپر
اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لغنت
زلزلہ، خسف، مسخ
اور
طرح طرح کے عذابوں کی وعیدیں
o آیات قرآنیہ
o احادیث مبارکہ
o ائمہ اربعہ رحمہم اللہ تعالی
گانا باجا سننا حرام ہے اور ہر برائی کی جڑ
سوال : ہمار ے کالج میں اسلامیات کے پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ موسیقی کے آلات کے ساتھ اچھے گیت ،گانے اور قوالیاں سننا شرعاًجائز ہے ، اسے ناجائز اور حرام بتلانا مولویوں کی باتیں ہیں، دلیل یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دف بجایا گیا ، بچیاں گاتی رہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہ فرمایا ،موسیقی کے جدید آلات بھی دف کی ترقی یافتہ شکل ہیں ، موسیقی سننے میں کوئی مضایقہ نہیں کہ یہ روح کی غذا ہے اور صو فیۂ کرام سماع کا مستقل شعل رکھتے تھے -
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالئے اور پروفیسر صاحب کے دلائل کا بھی جائزہ لیجئے-
الجواب باسم ملھم الصّواب
ماتم کا مقام ہے کہ جس رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے راگ باجوں کا مٹانا اپنی بعثت کا مقصد بتایا اسی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نہاد اُمتی آج اس گناہ پر دل و جان سے فدا ہیں - بلکہ اس بے حیائی کو سند جواز مہیا کرنے کے لئے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں ، ان ظلمت جدیدہ کے متوالوں کو یہ موٹی سی حقیقت کون سمجھائے کہ اللہ تعالی کی شریعت چودہ سو سال سے مکمل ہے،اس کا ہر مسئلہ اٹل ،لازوال اور قیامت تک کے لئے محفوظ ہے - تمہاری موا فقت یا مخالفت سے کسی مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتاجو شرعاًحلال ہے وہ قیامت تک حلال رہے گی اور جو چیز ازروئے شرع حرام ہے وہ بھی رہتی دنیا تک حرام ہی رہے گی گو کہ دنیا بھر کے ووٹ اس کے خلاف پڑجائیں-
شریعتِ مطہر ہ میں موسیقی کی حرمت کا مسئلہ بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے جس پر دلیل پیش کرنے کی چنداں حاجت نہیں اس قسم کے قطعی حرام کو مباح وجائز قرار دینے کی جسارت بالکل ایسی ہی ہے جیسے کو ئی سرپھرا یہ کہنے لگے کہ شریعت کی رو سے زنا ،شراب نوشی ،سودخوری اور رشوت جائز ہے- ظاہر ہے اس قسم کی یا وہ گوئی کسی درجہ میں بھی لائق اعتناء نہیں نہ ہی اس قابل ہے کہ اسکی تردید میں وقت ضائع کیا جائے، مگر کیا کیاجائے ؟ اس دورِ ہوا پرستی میں علم و تحقیق کے عنواں سے جو خس و خاشاک بھی پیش کیا جائے اسے مبادیا ت دین سے نا آشنا جدید طبقے میںِ'' جدید تحقیق ''کے عنواں سے جلد پزیر ائی حاصل ہوجاتی ہے ، اس طرح کفر والحاد اس بد قسمت معاشرہ میں باسانی کھپ جاتاہے-
اکبر نے مر حوم نے کیا خوب کہا ہے --
اُنھوں نے دین کب سیکھا ہے رہ کر شیخ کے گھر میں
پلے کا لج کے چکر میں مرے صا حب کے دفتر میں
ان تمہیدی سطو ر کے بعد ہم موسیقی کی حرُ مت کے دلائل پیش کرتے ہیں
دلائل حرم
آیاتِ قرانیہ
(۱) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَھا ھُزُ وًا أولٰئِكَ لَھمْ عَذَابٌ مُھينٌ(سورہ لقمان آیات نمبر ۶)
"" اور بعض آدمی ایسا ہے جو ان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اسکی ہنسی اڑا دے، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے ""
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عن ابی الصھباء البکری انہ سمع عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی و ھوا یسال عن ھذہ الایۃ (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ) فقال عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ الغناء واللہ الذی لاالہ الا ھویرددھاثلاث مرات۔
وکذا قال ابن عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنہم و عکرمۃ و سعیدبن جبیر و مجاھد و مکحول و عمرو بن شعیب و علی بن بذیمہ رحمہم اللہ تعالی:
وقال الحسن البصری رحمہ اللہ تعالی نزلت ھذہ الایۃ(وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِی لَھُوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللہِ) فی الغناء والمزامیر۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ ۴۵۷ جلد ۳)
""حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ لھوالحدیث سے مراد گانا بجانا ہے
حضرت ابنِ عباس و جابر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت عکرمہ ، سعید بنِ جبیر ،مجاہد مکحول ، عمر بن شعیب اور علی بن ہذیمہ رحمہم اللہ تعالی سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے-اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں یہ آیت گانے اور راگ باجوں کے متعلق اتری ہے""
یہی تفسیر قرطبی ص ۵۱ج ۱۴ ، بغوی ص ۴۰۸ج ۴ ، خازن ص ۴۶۸ج ۳ ، مظہری ص ۲۴۶ج ۷ میں مفصل مذکور ہے
(۲) واستفزز من استطعت منہم بصوتک الایہ (سورہ ۱۷ آیات نمبر ۶۴)
""اور پھسلالے ان میں سے جس کو تو پھسلا سکے اپنی آواز سے""
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وقولہ تعالی( واستفزز من استطعت منہم بصوتک ) قیل ھو الغناء قال مجاھد رحمہ اللہ تعالی بالھو والغناء ای استخفھم بذٰلک و قال ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فی قولہ( واستفزز من استطعت منہم بصوتک) قال کل داع دعا الی معصیۃ اللہ عزہ وجل و قالہ ، قتادہ رحمہ اللہ تعالی واختارہ ابن جریر رحمہ اللہ تعالی (تفسیر ابن کثیر صفحہ ۵۰ جلد ۳)
اس آیت میں شیطانی آواز سے گانا بجانا مراد ہے امام مجاہد رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے(اے ابلیس) تو اُنھیں کھیل تماشوں اور گانے بجانے کے ساتھ مغلوب کر۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں-اس آیت میں ہر وہ آواز مراد ہے جو اللہ تعالی کی نافرمانی کی طرف دعوت دے،یہی حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالی کا ہے اور اسی کو ابن جریر رحمہ اللہ تعالی نے اختیار فرمایا ہے-
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اسی کے ذیل میں فرماتے ہیں
و من المعلوم ان الغناء من اعظم الدواعی الی المعصیۃ ولھذا فسر صوت الشیطان بہ (اغاثۃ اللھفان صفحہ ۲۵۵ جلد ۱ )
اور سب کو معلوم ہے کہ مصیبت کی طرف دعوت دینے والوں میں گانا بجانا سب سے بڑھ کر ہے اسی وجہ سے شیطان کی آواز کی تفسیر اسی کے ساتھ کی گئی
(۳) افمن ھذاالحدیث تعجبون° و تضحکون والا تبکون وانتم سامدون ° (سورہ نجم ۵۳ آیات نمبر ۵۹ ، ۶۰)
"سو کیا تم لوگ اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو اور تم تکبرکرتے ہو"
لفظ ""سامدون "" کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہماقال الغناء ھی یمانیۃ اسمدلناغن لنا و کذا قال عکرمۃ رحمہ اللہ تعالی (تفسیر ابن کثیر صفحہ ۲۶۰ جلد ۴)
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اس کے معنی ہیں ۔''گانا''اور یہی قول عکرمہ رحمہ اللہ تعالی کاہے -
تفسیر ابن جریر صفحہ ۴۳ جلد ۲۷ ، قرطبی صفحہ ۱۲۳ جلد ۱۷ ، روح لمعانی صفحہ ۷۶ جلد ۲۷ وغیرھا میں بھی یہی مذکور ہے ۔
(۴) والذین لا یشھدون الزور واذا مرو بالغو مرو اکراما ( الفرقان ۵۳ آیات نمبر ۷۲)
"اور وہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے اور اگر بیہودہ مشغلوں کے پاس کو ہوکر گزریں تو سنجیدگی کے ساتھ گزرتے ہیں۔"
اما ابوبکر جصاص رحمہ اللہ تعالی اس کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
عن ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی الزور الغناء (احکام القرآان صفحہ ۳۴۷ جلد
"امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ زور کے معنٰی ہیں گانا بجانا"
علامہ حسین بن مسعود بغوی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
قال محمّد بن حنفیّہ رحمہ اللہ تعالٰی لا یشھدون اللغو ولغناء ۔ (معالم التنزیل ص۲۵۱ ج۴)
حضرت محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ بے ہودہ باتوں اور گانے بجانے کی مجلس میں شامل نہیں ہوتے۔
"حضرت امام ابن جریر رحمہ اللہ مختلف اقوال کو جمع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فاولی الاقوال بالصواب فی تأ ویلہ ان یقال الذین لا یشھدون الزور شیئا من الباطل لاشرکاً ولا غناءً ولاکذباً ولا غیرہ وکل ما لزمہ اسم الزور ۔ (تفسیر ابن جریر ص۲۹ ج ۱۹)
"سب سے صیح قو ل یہ ہے کہ یو ں کہا جائے :وہ (رحمان کے بندے) کسی قسم کے باطل میں شریک نہیں ہوتے نہ شرک میں اور نہ گانے بجانے میں اور نہ جھوٹ میں اور نہ اس کے علاوہ کسی ایسے عمل میں جس پر "زور"کا اطلاق ہو "
احادیث مبارکہ
(۱) لیکون من امتی اقوام یستحلّون الحرّ والحریر والخمر والمعازف ۔ (بخاری)
"میری اُمت میں کچھ لوگ پید ا ہونگے جو زنا ،ریشم ، شراب اور راگ باجو ں کو حلال قرار دیں گے"
(۲) لیشربن ناس من امتی الخمر یسمونھا بغیراسمھا یعزف علٰی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللہ بھم الارض ویجعل منھم القردۃ والخنازیر ۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حبان)
"میری اُ مت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر ، انکی مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہونگی ، اللہ اُنھیں زمین میں دھنسا دیگا اور ان میں سے بعض کو بندر خنزیر بنادیگا"
(۳)عن نافع رحمہ اللہ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ اسمع صوت زمارۃ راعٍ فوضع اصبعیہ فی اذنیہ وعدل راحلتہ عن الطریق وھو یقول یا نافع! یا نافع! اتسمع؟ فاقول نعم! فمضٰی حتٰی قلت لا! فرفع یدہُ وعدل راحلتہ الی الطریق وقال رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمع زمارۃ راعٍ فصنع مثل ھٰذٰ ۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ، احمد)
"نافع رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو راہ چلتے ایک گڈریئے کی بانسری کی آواز سنائی دی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور راستہ سے ایک طرف ہٹ کر چلنے لگے اور مجھ سے بار بار پوچھتے !۔"کیا بانسری کی آواز تمھیں سُنائی دے رہی ہے"؟ میں جواب دیتا جی ہاں!اسی طرح انگلیاں کانوں میں دیئے چلتے رہے ، حتی کہ میں نے کہا "اب آواز نہیں آرہی "تب انگلیاں کانوں سے ہٹائیں اور راستہ چلنے لگے ،پھر فرمایا ، ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی بعینہ یہی واقعہ پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کانوں میں انگلیا ں دے لیں اور یہی عمل فرمایا"
سوچنے کا مقام ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس شیطانی آواز کو لمحہ بھر سننا گوارا نہ فرمایا آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا اس پر اس درجہ فریفتہ ہیں کہ انھیں لمحہ بھر اس کی جدائی گوارا نہیں اور چوبیس گھنٹے انکی محفلوں کی گرم بازاری اسی لعنت پر موقوف ہے،اور اس کی وبا اتنی کثرت سے ہے کہ کوئی شریف آدمی کسی کوچہ وبازار سے کانوں میں انگلیاں دئیے بغیر گزر نہیں سکتا-
(۴) فی ھٰذہ الامۃ خسف ومسخ و قذف فقال رجل من المسلمین یا رسول اللہ! ومتیٰ ذٰالک؟ قال اذا ظھرت القیان و المعازف وشربت الخمور ۔ (جامعہ ترمذی)
"اس اُمت پر یہ آفتیں آئیں گی زمین میں دھنسنا ، شکلوں کا مسخ ہونا اور پتھروں کی بارش - ایک صحابی نے دریافت کیا ، یا رسول اللہ یہ کب ہوگا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! جب گانے والی عورتوںاور راگ باجوں کا دور دورہ ہوگا اور سرعام شراب نوشی ہوگی"
(۵) انّ االلہ عزّوجل بعثنی ھدی ورحمۃ للمؤمنین وامرنی بمحق المزامیر والاوتار والصّلیب وامرالجاھلیۃ ۔ (احمد ، ابوداؤدالطیالسی)
"مجھے اللہ تعالی نے مؤمنین کے لئے ہدایت ورحمت بناکر مبعو ث فرمایا ہے اور باجے شرکیہ تعویذ گنڈے ،صلیب اور زمانۂ جاہلیت کے غلط کاموں کے مٹانے کا حکم فرمایا ہے "
(۶) الکوبۃ حرام والدّن حرام والمزامیر حرام (مسدّد ، بیقھی ، بزار)
طبلہ ، سارنگی حرام ہیں اور شراب کے برتن حرام ہیں اور باجے بانسری حرام ہیں ۔
(۷) الغناء ینبت النفاق فی القلب کما ینبت الماء القبل ۔ (ابو داؤد ، بیقھی ، ابن ابی الدنیا)
"گانا بجا نا دل میں نفاق اُگاتا ہے جیسا کہ پانی سبزے کو اُگاتا ہے"
(۸) وظھرت القینات والمعازف وشربت الخمور ولعن آخر ھٰذہ الامۃ اوّلھا فارتقبوا عندذالک ریحا حمراء ازلزلۃ وخسفا و مسخا و قذفا و اٰیات تتابع کنظام بال قطع سلکہ ۔ (جامعہ ترمذی)
"جب گانے والی عورتوں اور راگ باجوں کا ظہور ہو اور شرابیں کثرت سے پی جائیںاور اس اُمت کے آخری لوگ پہلے زمانہ کے لوگوں پر طعن و تشنیع کرنے لگیں تو ایسے ان عذابوں کا انتظار کرو ، سرخ آندھیاں ، زلزلے ، زمین مین دھنسنا ، شکلوں کا بگڑنا ، پتھروں کی بارش اور ایسی نشانیاں جو پے درپے اس طرح آئیں جیسے پرانا بوسید ہ ہار جس کی لڑی ٹوٹ جائے اور دانے ایک ایک کرکے بکھر جائیں "
(۹) اذا فعلت امتی خمس عشرہ خصلۃ حلت بھاالبلاء وفیھا واتخذت القیان والمعزون ۔ (جامع ترمذی)
"جب میری ا ُ مت یہ پندرہ کام بکثرت کرنے لگے تو ان پر مصیبت اُترے گی منجملہ ان کے ایک یہ کہ گانے والی عورتیں اور باجے بانسریاں عام ہو جائیں"
(۱۰) صوتان ملعونان فی الدنیا وا لاخرۃ مزمار عند نغمۃ وزنۃ عند مصیبۃ ۔ (البزار ، بیقھی ، ابن مردویۃ)
دو آوازیں دنیا اور آخرت میں ملعون ہیں ، ایک گانے کے ساتھ راگ باجوں کی آواز ،دوسری مصیبت کے وقت چیخنے چِلانے کی آواز "
(۱۱) نھیت عن صوتین احمقین فاجرین صوت عند نغمۃ لھو و لعب و مزامیر الشیطان و صوت عند مصیبۃ لطم وجوہ و شق جیوبٍ ۔ (أمصنف ابن ابی شیبہ ص۳۹۳ ج ۳ وغیرھا)
"میں دو حماقت اور فسق وفجور سے بھری آوازوں سے روکتاہوں ایک لہوولعب اور شیطانی باجوں کے ساتھ گانے کی آواز ، دوسری مصیبت کے وقت چہرے پیٹنے اور گریبانوں کو چاک کرکے نوحہ کی آواز "
(۱۲) الجرس مزامیر اشیطان ( صحیح مسلم، سنن ابی داؤد)
"گھنٹی شیطان کے باجے ہیں"
(۱۳) یمسخ قوم من ھٰذہ الامۃ فی آخر الزمان قردۃ و خنازیر قالو یا رسول اللہ الیس یشھدون ان لا الہ الا للہ وانّ محمدًا رسول اللہ قال بلٰی ویصومون و یحجون ویصلون قیل فما بالھم؟ قال اتخذوا المعازف والقینات ۔ (مسند ابن ابی الدنیا)
"آخر زمانہ میں اس اُمت کے کچھ لوگ بندروں خنزیروں کی صورت میں مسخ کئے جائیں گے - صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا ! یا رسول اللہ کیا وہ اس بات کی گواہی نہ دیں گے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے رسو ل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر روزے رکھیں گے ، حج کریں گے اور نماز پڑھیں گے ، عر ض کیا گیا پھر کس سبب سے یہ عذاب ہوگا ؟ فرمایا ! راگ باجوں اور گانے والی لونڈیوں کا شغل اختیار کرنے کے سبب"
اختصار کے پیش نظر ہم انہی چند روایات پر اکتفاء کرتے ہیں - حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ کی کتاب "کشف الغناء عن وصف الغناء" مندرج احکام القرآن ص ۲۰۳ ج ۳ ۔ اس مو ضوع پر جامع کتاب ہے جس مہں کئی روایا ت ہیں ، مولانا عبد المعز نے اس کتاب کا ترجمہ کیا ہے بنام"اسلام اور موسیقی"اس میں اور بھی بہت زیادہ روایا ت جمع کردی ہیں -
اجماع ائمہ اربعہ رحمہ اللہ تعالی
گانے بجانے کی حُرمت پر ائمۂ اربعہ رحمہم اللہ تعالی کا اجماع منعقد ہے اور ان کے مذاہب کی مستند کتب سے اس پر بیسوں عبارات پیش کی جاسکتی ہیں مگر ہم صرف ایک ایک عبارت پر اکتفاء کرتے ہیں -
(۱) اما م زین الدین ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
(قولہ او یغنّی الناس) لانہ یجمع الناس علی ارتکاب کبیرہ کذا فی الھدایۃ و ظاھرہ انّ الغناء کبیرہ وان لم یکن للناس بل لا سماع نفسہ رفعا للوحشۃ ، وھو قول شیخالاسلام رحمہ اللہ تعالٰی فانہ قال بعموم المنع ۔
وفی المعراج الملاھی نوعان محرم وھو الاٰلات المطربۃ من غیر الغناء کالمزمار سواء کان من عود او قصب کالشبابۃ او غیر کالعود والطنبور لما روی ابو امامہ رضی اللہ عنہ انہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ان اللہ بعثنی رحمۃ للعالمین وامرنی بمحق المعازف والمزامیر ولا نہ مطرب مصدّ عن ذکراللہ تعالٰی والنوع الثانی مباح وھو الدفّ فی النکاح ۔ (البحرالرائق ص ۸۸ ج ۷)
"لوگوں کے سامنے گانے والے کی شہادت قبول نہیں اس لئے کہ وہ لوگوں کو ایک کبیر ہ گناہ کے ارتکاب پر جمع کر رہا ہے ، ہدایہ میں یونہی ہے ، اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ گانا ایک کبیرہ گناہ ہے گو کہ لوگوں کے لئے نہ گایا جائے بلکہ دھشت و تنہائی دُور کرنے کے لئے صرف اپنے لئے گایا جائے ، اور یہی شیخ الاسلام خواہرزادہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اُنھوں نے گانےکو مطلقاً منع لکھا ہے-
اور معراج الدرایۃ میں ہے کہ کھیل تماشے دو قسم کے ہیں ، ایک تو حرام ہے ،اور وہ ہے گائے بغیر صرف ہیجان و مستی پیدا کرنے والے آلات کی آواز جیسے بانسری خواہ لکڑی کی ہو یا نرکل کی جیسے شبابہ یا بانسری کے سوا کوئی اور آلہ ہو جیسے عود اطنبور ۔
حُرمت کی وجہ حضو ر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے مجھے جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے اور باجے تاشے اور بانسریا ں مٹانے کا حکم فرمایا ہے -
حُرمت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ مستی آور اور زکر الہی سے مانع ہے -
اور تفریح کی دوسری قسم جائز ہے اور وہ ہے نکاح کے موقع پر دف بجانا "
اکثر فقہا رحمہم اللہ تعالی نے اسے بھی ناجائز قرار دیا ہے ، تفصیل آگے آرہی ہے -
(۲)علامہ محمد بن محمد حطّاب مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال فی التوضیح الغناء ان کان بغیر اٰلۃ فھو مکروہ ۔
وامّا الغناء باٰلۃ فان کانت ذات اوتارکالعود والطنبور فممنوع وکذالک المزمار و الظاھر عند بعض العلماء انّ ذالک یلحق بالمحرمات وان کان محمد اطلق فی سماع العودانہ مکروہ ، وقد یرید بذالک التحریم ، و نص محمد بن الحکیم علٰی انّ سماع العود تردّبہ الشھادۃ قال وان کان ذالک مکروھا علٰی کل حال وقد یرید بالکراھۃ التحریم کما قدّمنا ۔ (مواھب الجلیل ص ۱۵۳ ج ۶)
"تو ضیح میں ہے کہ گانا اگر بغیر آلات موسیقی کے ہو تو وہ مکروہ ہے ، یہاں مکروہ سے مراد ہے -
اور آلات کے ساتھ گانا اگر ایسے آلہ کے ساتھ ہے جو تاروں والا ہے جیسے عود اور طنبور تو یہ گانا ممنوع ہے اور اسی طرح بانسری بھی ممنوع ہے-
محمد بن حکیم رحمہ اللہ تعالی نے تصریح فرمائی ہے کہ عود سُننے والے کی گواہی رد کی جائے گی ، اس کا سننا ہر حال میں مکروہ ہے ، یہاں مکروہ سے حرام مراد ہے جیسے گزرچکا"
(۳)امام ابو حامد غزالی شافعی رحمہ اللہ حرمت غناء کے متعلق حضرت امام ابو حنیفہ ، سفیان ثوری ، مالک بن انس و دیگت علماء رحمہ اللہ کا مذہب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں ۔
وقال الشافی رحمہ اللہ فی کتاب اٰداب القضاء : ان الغناء مکروہ یشبہ الباطل ومن استکثر منہ فھو سفیہ ترددّ شھادۃ ۔
قال الشافعی رحمہ اللہ صاحب الجاریہ اذاجمع الناس لسماعہا فھو سفیہ ترددّ شھادہ ۔
وحکی عن الشافعی رحمہ اللہ انہ کان یکرہ الطقطقۃ بالقضیب ویقول وضعتہ الزّنادقہ لیشتغلوابہ عن القرآن ۔ (احیاء علوم الدین ص ۲۶۹ ج ۲)
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کتا ب آداب القضا ء میں لکھتے ہیں کہ گانا بجانا ایک مکروہ اور باطل مشغلہ ہے جو اس میں زیادہ انہماک رکھے وہ احمق ہے ، اسکی گواہی رد کر دی جائے گی -
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ گانے والی لونڈی کا مالک اگر گانا سنا نے کے لئے لوگوں کو جمع کر ے تو وہ بھی احمق اور مردود الشہادۃ ہے-
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی سے مروی ہے کہ چھڑی بجانے سے جو ٹک ٹک کی آواز پید ا ہو وہ بھی مکروہ اور ناپسندیدہ ہے یہ فتنہ زندیق لوگوں کی ایجاد ہے تاکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کو قرآن مجید سے عافل کردیں-
(۴) علامہ علی بن سلمان مرداوی حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
قال فی الرعایہ یکرہ سماع الغناء والنوح بلا اٰلۃ لھو ایحرم معھا و قیل بدونھا من رجل وامرأۃ (الانصاف ص ۵۱ ج۱۲)
الرعایہ میں ہے کہ گانا اور نوحہ آلات موسیقی کے بغیر مکروہ ہے ، اور ان الات کے ساتھ حرام ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان آلات کے بغیر بھی حرام ہی ہے خواہ مرد کی آواز ہو یا عورت کی -
آگے لکھتے ہیں :
قال فی الفروع یکرہ غناء وقال جماعۃ یحرم وقال فی الترغیب اختارہ الاکثر ۔ (حوالہ بالا)
فروع میں لکھا ہے کہ گانا مکروہ ہے اور علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ حرام ہے اور ترغیب میں لکھا ہے کہ اکثر حضرات نے اس قول حرمت کو اختیار کیا ہے -
نتیجہ میں کوئی اختلاف نہیں اس لئے کہ مکروہ بھی بحکم حرام ہی ہے –
مو سیقی کے جواز پر عموماً دو دلائل پیش کئے جاتے ہیں :
(۱) شادی کے موقع پر دف بجانا حدیث سے ثابت ہے اور مو سیقی بھی دف ہی کی ترقی یا فتہ شکل ہے -
جواب : احادیث میں جس دف کا ذکر ہے وہ صرف نکاح کے موقع پر کچھ دیر کے لئے بجایا جاتا تھا ، شادی کے علاوہ بِلاضرورت بجانے والوں کو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ دُروں کی سزا دیتے تھے-
ان الفاروق رضی اللہ عنہ اذا سمع صوت الدّفّ بعث ینظر فان کان فی الولیمۃ سکت وان کان فی غیرہ عمد بالدرّۃ (فتح القدیر ص ۳۶ ھ ۶ ، البحر الرائق ص ۸۸ ج ۷)
پھر یہ دف پیٹنے والی عموماً بچیاں ہو تی تھیں مردوں کا دف کہیں ثابت نہیں - پھر یہ دف بھی اہلِ عرب کی عادت کے مطابق بالکل سادگی سے پیٹا جاتا تھا نہ اس میں جھانجھ ہوتی تھی نہ رقص وسرور یا طرب و مستی کا کوئی اور نشان،فی زمانہ ایسے دف کا وجود کہیں نظر نہیں آتا –
مع ھٰذا مذکورہ بالا شرائط کی رعایت سے دف پیٹنے کی گنجائش بھی حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ، احناف میں سے اکثر فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ اسے بھی ناجائز قرار دیتے ہیں -
قال التور بشتی رحمہ اللہ انہ حرام علٰی قول اکثر المشائخ وماورد من ضرب الدفّ فی العرس کنایہ عن الاعلان (امدادالفتاویٰ ص۲۸۳ ج ۲)
امام تور پشتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دف اکثر مشائخ کے قول کے مطابق حرام ہے اور شادی کے موقع پر جو دف بجانا ثابت ہے اس سے اعلان و تشہیر مراد ہے -
امدادالفتاوی میں تور پشتی رحمہ اللہ کا یہ قول بحوالہ شرح نقایہ ، نصاب الاحتساب و بستان العارفین منقول ہے ۔ آخری دو کتابیں موجود نہیں شرح نقایہ میں سرسری تلاش سے دستیاب نہیں ہوا، بہر حال نصوص محرمہ کے پیش نظر یہ توجیہ کرنا لازم ہے اور کوئی تأویل بعید نہیں عام محاورات کے مطابق ہے ۔
اعلان و تشہیر کے لئے یہ کنایہ عرف عام میں بہت مشہور اور زبان زد ہے ، مثلاً
"ببانگ دہل کہہ رہے ہیں"
"ڈھو ل بجارہے ہیں "
"ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں"
"نقارہ پیٹ رہے ہیں"
ہم اُپر ذکر کر آئے ہیں کہ یہ اختلاف سادہ دف کے متعلق ہے ، ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں-
المراد بہ الدف الذی کان فی زمن المتقدمین واماما علیہ الجلاجل فینبغی ان کون مکروھا بالاتفاق (مرقاۃ المفاتیح ص ۲۱۰ ج۶)
اس سے مراد وہ دف ہے جو متقدمین کے دور میں استعما ل ہوتاتھا ، جھانجھ دار دف بالاتفاق مکروہ ہے -
مکروہ کا اطلاق حرام پر کیا گیا ہے جیسے اوپر گزرا-
(۲) بعض صوفیہ سے منقو ل ہے کہ وہ ساز بجا کر سماع کرتے تھے-
جواب: اول تو مسائل شرعیہ میں کسی صوفی کے قول وعمل سے استناد خلاف اصول ہے ، اس موقع پر حضرت مجد د الف ثانی قدس سرہ جو خود بہت بڑے صوفی اور عارف ہیں ان کا یہ ارشاد رکھنے کے قابل ہے :
عمل صوفیہ درحلّ و حرمت سند نیست ہمیں بس است کہ ما ایشان را معذور داریم و ملامت نہ کنیم ، و مرایشان را بحقّ سبحانہ و تعالٰی مفوّض داریم ، اینجا قول ابی حنیفہ و امام ابی یوسف وامام محمد رحمہم اللہ معتبر است نہ عمل ابوبکرشبلی و ابوحسن نوری رحمہما اللہ۔
"علت و حرمت میں صوفیہ کا عمل حجّت نہیں ، بس اتنا ہی کا کہ ہم انھیں معذور گردانیں اور ان پر ملامت نہ کریں۔ اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپر د کریں، یہاں امام ابو حنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالیٰ کا قول معتبر ہے نہ کہ ابوبکر شبلی ابو الحسن نوری رحمہما اللہ تعالیٰ کا عمل ۔"
دوسرے ان صوفیہ کا سماع مخصوص احوال میں بطور دواء و علاج ہوتاتھا اور اسمیں وہ حضرات بہت سی شرائط ملحوظ رکھتے تھے جن کی تفصیل یہ ہے:
قال الخیر الرملی رحمہ اللہ :
ومن اباحہ من المشائخ الصوفیّہ فلمن تخلّی عن الھوٰی و تحلّی بالتقوٰی و احتیاج الی ذٰلک احتاج المریض الی الدواء ولہ شرائط :
احدھا : ان لا یکون فیھم امرد۔
والثانی : ان لا یکون جمیعھم الامن جنسھم لیس فیھم فاسق ولا اھل الدنیا ولا امرأۃ۔
والثالث : ان تکون نیّۃ القوّال الاخلاص لا اخذ الاجر والطعام۔
والرّابع : وان لا یجتمعو ا لاجل طعام او فتوح۔
والخامس : لا یقومون الّا مغلوبین۔
والسادس : لا یظھرون وجدً الّاصادقین (الفتاوٰی الخیریۃ ص ۱۷۹ ض ۲)
اور مشایخ صوفیہ میں سے جس نے سماع کو جائز کہا ہے تو ان شرطوں سے کہ صاحبِ سماع خواہشِ نفس سے پاک اور زیور تقوٰی سے مزین ہو اور سماع کے لئے اسے ایسی احتیاج و مجبوری ہو جیسے مریض کو دواء کے لئے ہوتی ہے ، اور اس کے جواز کے لئے کئی شرائط ہیں-
پہلی شرط:سماع کرنے والوں میں کوئی بے ریش نہ ہو-
دوسری شرط: سب عارفین کاملین ہوں ، ان میں کوئی فاسق و فاجر طالب دنیا اور عورت نہ ہو-
تیسری شرط: قوال کی اخلاص پر مبنی ہو ، مزدوری ، معاوضہ اور کھانا مد نظر نہ ہو -
چوتھی شرط:مجمع کھانے یا دیگر دنیوی اعراض کے لئے اکٹھا نہ ہوا ہو-
پانچویں شرط: اس دوران قیام نہ کریں الاّ یہ کہ مغلوب اور بے خود ہوجائیں -
چھٹی شرط : وجد و مستی کا اظھار نہ کریں الّا یہ کہ سچّے ہوں، ریاد تصنّع نہ ہو۔
پھر ان شرائط کی پابندی کے ساتھ بھی سماع صرف کامل درجہ منتہٰی کے عارفین کرتے تھے -مبتدی سالک کو سختی سے منع فرماتے تھے –
امام الطائفہ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر سماع سے توبہ کی کہ اب ان شرطوں کی پابندی اُٹھتی جارہی ہے-
قال الشیخ السھروردی رحمہ اللہ :
وقیل ان الجنید ترک السماع فقیل لہ کنت تسمع ؟ فقال مع من ؟ قیل لہ تسمع لنفسک ؟ فقال ممّن ؟ لانھم کانو ا لایسمعون الامن مع اھل فلمّا فقد الاخوان ترک فما اختاروا السماع حیث اختاروہ الّا بشرط و قیود و اٰداب (عرارف المعارف ص۱۱۴ ض ۱)
حضرت جنید رحمہ اللہ تعالیٰ نے سماع چھوڑ دیا تھا اس سے دریافت کیا گیا !آ پ سنتے تھے ؟ فرمایا : کس کے ساتھ ؟عرض کیا گیا ! آ پ تنہائی میں سنتے ہیں ؟ فرمایا ! کس سے ؟
یہ حضرات قیود و شرائط سے سنتے تھے جب وہ مفقود ہوگئیں تو سماع چھوڑدیا"
حضرت مفتی اعظم قدس سرہ رقمطراز ہیں :
ان ھذہ الشرائط لا تکاد توجد فی زماننا فلا رخصہ فی السماع فی عصرنا اصلا کیف ؟ وقد تاب سیّد الطائفہ جنید قد سرہُ عن السماع لعدم استجماع الشرائط فی عصرہ (احکام القرآن ص ۲۳۲ ج ۳)
یہ شرائط ہمارے زمانہ میں قطعاً نہیں پائی جاتیں ، لہذا اس دور میں سماع کی قطعاً اجازت نہیں ، اور اجازت ہو کیونکر ؟ جبکہ سید الطائفہ حضرت جنید قدس سرہ نے بایں سبب سماع سے توبہ کی تھی کہ انکے زمانہ میں تما م شرائط کی پابندی نہ رہی -
کوئی انصاف سے کہے کہ آ ج کل کی قوالی کو صوفیہ کے سماع سے کوئی دور کی نسبت بھی ہے ؟
صوفیہ کا مقصد وحیدا اصلاح قلب تھا۔جبکہ یہان حظِّ نفس اور لذت کوشی کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد ہی نہیں۔
باقی یہ دلیل کہ موسیقی روح کی غذا ہے لاجواب ہے ، واقعی ! جو خبیث روحیں قرآن وحدیث کی شیریں آ واز سے چین نہ پاتی ہوں، اور ذکر اللہ کی شراب صافی سے بھی انھیں حظّ نہ ملتا ہوتو انکی غذا غناء و مزامیر اور موسیقی ہی ہو سکتی ہے ۔ نصیب اپنا اپنا۔
راگ باجوں ، ساز و موسیقی اور مروّج قسم کی قوالیوں کا سننا شریعت کی رو سے حرام ہے، ان منکرات کو جائز کہنا الحاد و بے دینی کے سوا کچھ نہیں ، انھیں جائز ثابت کرنے کی نامبارک کوششیں درحقیقت وہی الحاد ہے جس کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی ہے کہ اس اُمت کے کچھ لوگ کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کریں گے مگر جائز و حلال سمجھ کر- واللہ العاصم من جمیع الفتن وھوالھادی الی سبیل لرشاد ۔
محمد ابراھیم
نائب مفتی دارالافتاء والارشاد
۲۹ جمادی الآخرہ ۱۴۱۱ ہجری۔