ایم اے راجا
محفلین
گداگری ایک لعنت ۔
حدیثِ نبوی ہیکہ نیچے والے ہاتھ سے اوپر والا ہاتھ بہتر ہے، یعنی مانگنے والے سے دینے والا اچھا ہے، ہمارے ملک میں آجکل گداگری باقاعدہ ایک پیشہ بن گیا ہے اور اس پیشہ میں لوگ جوک در جوک شامل ہورہے ہیں ملک کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے شہر اور قصبے بھی اسکا شکار ہیں، حکومتی ادارے بھی اسکے ذمہ دار ہیں۔ ماہ رمضان میں خصوصن گداگر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں یہ لوگ جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں، ایک سروے رپورٹ کے مطابق بڑے شہروں خصوصن کراچی کے بڑے چھوٹے چوراہے باقاعدہ اس ماہ میں گداگر مافیا گداگروں کو ٹھیکے میں دیتی ہے اور ذمہ دار ادارے بھی اس میں سے اپنا ایک خاص حصہ وصول کرتے ہیں۔ گداگری نہ صرف ملک کے لیئے بدنامی اور رسوائی کا سبب ہے بلکہ یہ بہت سے جرائم کو بھی جنم دیتی ہے، اخباروں میں اکثر آتا رہتا ہے کہ گداگر ڈکیتی اور اس کے متعلق معلومات کا سبب بنتے ہیں وہ خاص طور پر بھکارنے گھروں میں مانگنے کے بہانے داخل ہوکر خواتین کو اکیلا دیکھ کر وارداتیں کرتی ہیں اور گھروں کے متعلق ایسی معلومات جرائم پیشہ افراد تک پہنچانے کا سبب بھی ہیں۔
دیکھا گیا ہیکہ گداگروں کو اگر کوئی شخص راشن لے کر دینا کی آفر کرے تو وہ انکار کردیتے ہیں اور کیش مانگتے ہیں۔ موبائیل فون نے انکے رابطے مزید بڑھا دیئے ہیں۔
چوراہوں پر بیٹھے گداگروں کو کون یہاں چھوڑ کر جاتا ہے اور کون انکو شام کو یا مخصوص وقت پر لیکر جاتا ہے کوئی نہیں جانتا۔ یہ گداگر بچوں کے اغوا اور انھیں اس پیشے سے وابستہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں، عرب ملکوں میں اگوا شدہ بچوں کو اونتوں کی دوڑ کے لیئے اسمگل کتنے میں بھی گداگروں کا برا ہاتھ ہے۔ ان پیشہ ور گداگروں کی وجہ سے ضررت مندوں کو بھی انکا حق نہیں ملتا کیونکہ یا تو یہ لوگ لیلیتے ہیں یا پھر انکی وجہ سے لوگ بدزن ہو گئے ہیں اور وہ ضرورت مند گداگروں ( حقیقی گداروں) کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔
عام حضرات کو چاہئیے کہ وہ اس پیشہ سے وابستہ لوگوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اپنی خیرات وغیرہ دینے کے لیئے اپنے عزیز و اقارب اور محلے میں ضرورت مندوں کو ڈھونڈھیں کیونکہ ایسا حکم اسلام اور شریعت میں بھی دیا گیا ہے۔
زمہ دار اداروں کو بھی یہ چاہئیے کہ وہ اس لعنت سے ملک و قوم کو نجات دلانے کے لیئے خصوصی اقدامات کریں۔ اور ایسے گداگر جو کہ جعلی طور پر معزور بن کر ملک و قوم کو لوٹ رہے ہیں میری نظر میں وہ جرائم پیشہ ہیں اور ایک جرم کر رہے ہیں انکے خلاف باقاعدہ اور بڑے پیمانے پر آپریشن کریں۔ آپکو شاید حیرت ہو کہ ایسے گداگر نہ صرف گاڑیوں کے مالک ہیں بلکہ اچھے گھروں کے مالک بھی ہیں اور اگر دکھانے کو جھونپڑیوں میں رہ رہے ہیں تو انکی جھونپڑیوں میں بھی ڈش کیبل اور دوسری لگژریز موجود ہیں میں نے ایک ایسے گداگر کی جھونپڑی کا اتفاقن وزٹ کیا اور دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس میں اے سی لگا ہوا ہے پوچھنے پر اسنے بتایا کہ میں اکثر بیمار رہتا ہوں اور گرمی برداشت نہیں ہوتی اس لیئے ٹکہ ٹکہ جوڑ کر یہ لگوایا ہے، کیا ہم لوگ انتہائی ضرورت میں بھی ایسے کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں ( میری مراد ملک کی اسی فیصد سے زائد سفید پوش آبادی سے ہے) اور پھر واپڈا کے اہلکار اسے مفت بجلی کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں۔
اس موضوع پر بہت سی ڈاکومینٹریز بنی ہیں بہت سے کالم لکھے گئے ہیں لیکن کچھ نہیں ہوا۔ عوام کو اس جہاد میں خود حصہ لینا ہوگا تب ہی یہ لعنت اپنے انجام کو پہنچے گی۔
ایم اے راجا
میرپورخاص سندھ
میرپورخاص سندھ