انیس الرحمن
محفلین
گدھا کہانی
میرزا ادیب
ہمدرد نونہال (نومبر ١٩٨٩ تا اکتوبر ١٩٩٠)
قیمتی تحفہ
کرم الہی ایک چھوٹا سا دکاندار تھا، مگر قصبے کے لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرم الہی ایک نیک دل، سادہ مزاج اور دیانت دار آدمی تھا۔ گاہکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا۔ کبھی کسی کو اس سے شکایت کا موقع نہیں ملا تھا۔ بڑا ہنس مکھ تھا، مگر ایک غم اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا اور وہ غم اسے اپنے بیٹے کی طرف سے تھا۔ باپ نے لاکھ چاہا کہ اسکول میں داخل ہو کر کچھ لکھ پڑھ لے، مگر وہ ہر بار اسکول میں ایک دو گھنٹے گزار کر بھاگ آتا تھا۔ باپ نے جب یہ دیکھا کہ فخرو لکھنے پڑھنے سے بیزار ہے تو کوشش کی کہ وہ دکان داری کرے، لیکن وہ دکان میں بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
صبح سویرے کرم الہی تو ناشتہ کرنے کے بعد دوپہر کی روٹی ڈبے میں بند کر کے دکان کو روانہ ہو جاتا تھا اور فخرو پہلے تو ڈٹ کر ناشتہ کرتا تھا اور ماں کے چیخنے چلانے کے با وجود گھر سے نکل جاتا تھا۔ صرف دوپہر کو پیٹ بھرنے کی خاطر آجاتا تھا۔ پیٹ بھر کر پھر غائب ہوجاتا تھا اور شام کو کہیں جا کر لوٹتا تھا۔
ماں باپ، دونوں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے اور اب تو ساری کوششوں میں ناکام ہو کر انہوں نے فخرو سے کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ فخرو کو اور کیا چاہیے تھا۔ اسے آوارہ گردی کی پوری پوری آزادی مل گئی تھی۔ پہلے شام کو گھر لوٹ آتا تھا، مگر اب رات کے دس بجے سے پہلے اپنی شکل ہی نہیں دکھاتا تھا۔
کرم الہی بوڑھا آدمی تھا۔ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ پھر ایسا وقت آیا کہ وہ دکان پر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس حالت میں اس نے اپنے ایک اعتماد کے قابل رشتےدار کو دکان پر بیٹھا دیا تھا جو شام کے وقت دن بھر کی کمائی کرم الہی کے ہاتھ میں رکھ دیتا تھا۔ کرم الہی اپنی خوشی سے اسے کچھ دے دے تو دے دے، وہ خود کچھ نہیں مانگتا تھا۔
کرم الہی کے اس رشتےدار کا نام "کالو خاں" تھا اور فخرو اسے چچا کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ کالو خاں فخرو کی ماں کو آپا کہتا تھا۔ فخرو کے لچھن دیکھ دیکھ کر کالو خاں بھی کڑھتا رہتا تھا، مگر جہاں فخرو کے سگے باپ کو ناکامی ہوئی تھی وہاں وہ کیا کر سکتا تھا۔
کرم الہی کو جب اپنی موت کا یقین ہوگیا تو اس نے اپنے بیٹے کو تنہائی میں پاس بلایا اور بولا، "فخرو! میں تو اب دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ تم گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوتے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ میں کیا کر سکتا ہوں، تمھارے لیے دعا ہی کر سکتا ہوں۔ اللہ تمہیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے۔ میں نے تنہائی میں تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے بلایا ہے۔"
فخرو نے اپنی زبان سے تو نہ پوچھا کہ ابّا جان! یہ مقصد کیا ہے جس کے لئے آپ نے مجھے بلایا ہے، مگر یہ سوال اس کی آنکھیں پوچھ رہی تھیں۔
"میں تم سے کیا کہنا چاہتا ہوں جانتے ہو؟"
فخرو نے آہستہ سے جواب دیا، "نہیں۔"
"اچھا سنو! میرا ایک بڑا پرانا دوست ہے جو یہاں سے کافی دور ایک پہاڑی علاقے میں رہتا ہے۔ اسے لوگ بڑے ادب سے شاہ صاحب کہتے ہیں۔ اس نے ایک بار کہا تھا، کرم الہی! میں تمھارے بیٹے کو ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ اسے میرے ہاں بھیج دو۔ میں یہ تحفہ اسے دے دوں گا۔"
"تو ابّا جی!" فخرو نے بیتابی سے پوچھا۔
"میں تمہیں اس کے ہاں بھیج نہیں سکا۔ تم سے یہ بات کہی ہی نہیں تھی۔ اب کہتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے دوست کا پتا بتا دیتا ہوں، مگر ابھی اس کے پاس نہیں جانا۔ میرے مرنے کے بعد جانا۔"
"اچھا ابّا جی۔"
دو روز گزرے تو کرم الہی کی طبیت اور خراب ہوگی ۔ اس کی بیوی اور سارے رشتےدار اس کی زندگی سے مایوس ہوگے اور اسی رات کرم الہی دنیا چھوڑ گیا۔
ایک ہفتہ تو روتے پیٹتے بیت گیا۔ ایسی حالت میں فخرو اپنے باپ کے دوست کے پاس کیونکر جا سکتا تھا؟
فخرو اپنے منہ بولے چچا کو بھی باپ کی یہ بات بتا چکا تھا۔
ایک روز چچا نے کہا، "فخرو! اپنے ابّا کے دوست کے ہاں جا۔ کیا خبر وہ تمہیں کیسا قیمتی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا، مگر مجھے دکانداری کرنی ہے۔ تم اکیلے ہی جاؤ اور تحفہ لے کر واپس آجاؤ۔ ہاں تحفہ سنبھال کر لانا۔"
"جاتا ہوں چچا۔"
"پتا یاد ہے نا فخرو۔"
"یاد ہے، پوری طرح یاد ہے۔"
فخرو یہ پتا کیسے بھول سکتا تھا۔ یہاں سے تو اسے بڑے قیمتی تحفے کے ملنے کی امید تھی۔
جس روز فخرو اور چچا کے درمیان یہ باتیں ہوئیں اس کے دوسرے دن فخرو پوری طرح تیار ہو کر چل پڑا۔
ماں نے اسے روٹی ایک ڈبے میں بند کر کے دی تھی کہ فاصلہ لمبا ہے۔ بھوک لگے گی تو پیٹ بھر لے گا۔
سفر بڑا لمبا تھا، لیکن فخرو نے طے کر لیا۔ کیص گھنٹے متواتر چلنے کے بعد وہ اپنے باپ کے دوست کے گھر پہنچ گیا۔ ایک سفید داڑھی والے بوڑھے نے بڑی محبّت سے اسے گلے سے لگایا اور اپنے گھر کے اندر لے گیا۔
اس گھر میں اس کی بڑی خاطر تواضع ہوئی اور فخرو یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہا تھا کہ جو شخص میری اتنی خاطر کر رہا ہے وہ مجھے تحفہ کتنا اچھا دے گا۔
"لو بیٹا! اب میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔ تمہیں اپنا تحفہ دے دیتا ہوں۔ آؤ میرے ساتھ۔"
یہ بات سن کر فخرو اٹھ بیٹھا۔
"میرے پیچھے پیچھے آؤ۔"
"بہتر تایا جان!"
بوڑھا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پہنچا، دوسرے سے تیسرے میں۔ اس کے بعد وہ جہاں پہنچا وہ گھر کا آخری کمرہ معلوم ہوتا تھا۔
"قبول کرو فخرو بیٹا!"
فخرو یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔ اس کے تایا جی نے تو اسے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ قبول کیا کرے۔ وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔
"جی۔"
"بیٹا! یہ میرا تحفہ ہے۔"
وہ انہیں کیا کہتا۔ تحفہ تو اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
"میں نے اسی تفےا کا ذکر کیا تھا فخرو بیٹا!"
"مگر تایا جان! وہ تحفہ مجھے نظر نہیں آرہا۔"
"ارے! نظر نہیں آرہا۔ کیا کہہ رہے ہو؟ وہ دیکھو سامنے دروازے پر۔"
یہ بات سن کر فخرو نے سامنے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں ایک گدھا گھاس کھا رہا تھا۔
"تایا جان! وہاں تو بس ایک گدھا ہے۔"
"واہ میرے بیٹے! یہی تو وہ تحفہ ہے۔"
فخرو کو ایک دم یوں لگا جیسے کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔
"جی یہ گدھا؟" وہ صرف اتنا کہہ سکا۔
"ہاں بیٹا! یہ بہت ہی قیمتی تحفہ ہے۔ ابھی تم اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایک وقت آئے گا کہ تم سمجھ لو گے کہ یہ کتنا بڑا تحفہ ہے۔"
"اچھا جی۔"
"آؤ پہلے کھانا کھالو۔ تھک چکے ہو۔"
فخرو نے اس طرح کھانا کھایا جیسے یہ بھی اس کے لیے ایک مجبوری ہو۔ کھانا بہت لذیز تھا، مگر وہ تو اپنے باپ کے دوست کا قیمتی تحفہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوگیا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد ان بزرگ نے ایک بڑی نرم اور ملائم رسی کا ایک سرا فخرو کے ہاتھ میں دے دیا۔ دوسرا سرا گدھے کی گردن کے گرد بندھا ہوا تھا۔
"دیکھو بیٹا! اس سے بڑی محبّت کا سلوک کرنا۔ دیکھنا اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے اور ہاں یہ میرا تحفہ بھی ہے اور میری امانت بھی ہے۔"
صبح سویرے کرم الہی تو ناشتہ کرنے کے بعد دوپہر کی روٹی ڈبے میں بند کر کے دکان کو روانہ ہو جاتا تھا اور فخرو پہلے تو ڈٹ کر ناشتہ کرتا تھا اور ماں کے چیخنے چلانے کے با وجود گھر سے نکل جاتا تھا۔ صرف دوپہر کو پیٹ بھرنے کی خاطر آجاتا تھا۔ پیٹ بھر کر پھر غائب ہوجاتا تھا اور شام کو کہیں جا کر لوٹتا تھا۔
ماں باپ، دونوں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے اور اب تو ساری کوششوں میں ناکام ہو کر انہوں نے فخرو سے کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ فخرو کو اور کیا چاہیے تھا۔ اسے آوارہ گردی کی پوری پوری آزادی مل گئی تھی۔ پہلے شام کو گھر لوٹ آتا تھا، مگر اب رات کے دس بجے سے پہلے اپنی شکل ہی نہیں دکھاتا تھا۔
کرم الہی بوڑھا آدمی تھا۔ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ پھر ایسا وقت آیا کہ وہ دکان پر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس حالت میں اس نے اپنے ایک اعتماد کے قابل رشتےدار کو دکان پر بیٹھا دیا تھا جو شام کے وقت دن بھر کی کمائی کرم الہی کے ہاتھ میں رکھ دیتا تھا۔ کرم الہی اپنی خوشی سے اسے کچھ دے دے تو دے دے، وہ خود کچھ نہیں مانگتا تھا۔
کرم الہی کے اس رشتےدار کا نام "کالو خاں" تھا اور فخرو اسے چچا کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ کالو خاں فخرو کی ماں کو آپا کہتا تھا۔ فخرو کے لچھن دیکھ دیکھ کر کالو خاں بھی کڑھتا رہتا تھا، مگر جہاں فخرو کے سگے باپ کو ناکامی ہوئی تھی وہاں وہ کیا کر سکتا تھا۔
کرم الہی کو جب اپنی موت کا یقین ہوگیا تو اس نے اپنے بیٹے کو تنہائی میں پاس بلایا اور بولا، "فخرو! میں تو اب دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ تم گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوتے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ میں کیا کر سکتا ہوں، تمھارے لیے دعا ہی کر سکتا ہوں۔ اللہ تمہیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے۔ میں نے تنہائی میں تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے بلایا ہے۔"
فخرو نے اپنی زبان سے تو نہ پوچھا کہ ابّا جان! یہ مقصد کیا ہے جس کے لئے آپ نے مجھے بلایا ہے، مگر یہ سوال اس کی آنکھیں پوچھ رہی تھیں۔
"میں تم سے کیا کہنا چاہتا ہوں جانتے ہو؟"
فخرو نے آہستہ سے جواب دیا، "نہیں۔"
"اچھا سنو! میرا ایک بڑا پرانا دوست ہے جو یہاں سے کافی دور ایک پہاڑی علاقے میں رہتا ہے۔ اسے لوگ بڑے ادب سے شاہ صاحب کہتے ہیں۔ اس نے ایک بار کہا تھا، کرم الہی! میں تمھارے بیٹے کو ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ اسے میرے ہاں بھیج دو۔ میں یہ تحفہ اسے دے دوں گا۔"
"تو ابّا جی!" فخرو نے بیتابی سے پوچھا۔
"میں تمہیں اس کے ہاں بھیج نہیں سکا۔ تم سے یہ بات کہی ہی نہیں تھی۔ اب کہتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے دوست کا پتا بتا دیتا ہوں، مگر ابھی اس کے پاس نہیں جانا۔ میرے مرنے کے بعد جانا۔"
"اچھا ابّا جی۔"
دو روز گزرے تو کرم الہی کی طبیت اور خراب ہوگی ۔ اس کی بیوی اور سارے رشتےدار اس کی زندگی سے مایوس ہوگے اور اسی رات کرم الہی دنیا چھوڑ گیا۔
ایک ہفتہ تو روتے پیٹتے بیت گیا۔ ایسی حالت میں فخرو اپنے باپ کے دوست کے پاس کیونکر جا سکتا تھا؟
فخرو اپنے منہ بولے چچا کو بھی باپ کی یہ بات بتا چکا تھا۔
ایک روز چچا نے کہا، "فخرو! اپنے ابّا کے دوست کے ہاں جا۔ کیا خبر وہ تمہیں کیسا قیمتی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا، مگر مجھے دکانداری کرنی ہے۔ تم اکیلے ہی جاؤ اور تحفہ لے کر واپس آجاؤ۔ ہاں تحفہ سنبھال کر لانا۔"
"جاتا ہوں چچا۔"
"پتا یاد ہے نا فخرو۔"
"یاد ہے، پوری طرح یاد ہے۔"
فخرو یہ پتا کیسے بھول سکتا تھا۔ یہاں سے تو اسے بڑے قیمتی تحفے کے ملنے کی امید تھی۔
جس روز فخرو اور چچا کے درمیان یہ باتیں ہوئیں اس کے دوسرے دن فخرو پوری طرح تیار ہو کر چل پڑا۔
ماں نے اسے روٹی ایک ڈبے میں بند کر کے دی تھی کہ فاصلہ لمبا ہے۔ بھوک لگے گی تو پیٹ بھر لے گا۔
سفر بڑا لمبا تھا، لیکن فخرو نے طے کر لیا۔ کیص گھنٹے متواتر چلنے کے بعد وہ اپنے باپ کے دوست کے گھر پہنچ گیا۔ ایک سفید داڑھی والے بوڑھے نے بڑی محبّت سے اسے گلے سے لگایا اور اپنے گھر کے اندر لے گیا۔
اس گھر میں اس کی بڑی خاطر تواضع ہوئی اور فخرو یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہا تھا کہ جو شخص میری اتنی خاطر کر رہا ہے وہ مجھے تحفہ کتنا اچھا دے گا۔
"لو بیٹا! اب میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔ تمہیں اپنا تحفہ دے دیتا ہوں۔ آؤ میرے ساتھ۔"
یہ بات سن کر فخرو اٹھ بیٹھا۔
"میرے پیچھے پیچھے آؤ۔"
"بہتر تایا جان!"
بوڑھا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پہنچا، دوسرے سے تیسرے میں۔ اس کے بعد وہ جہاں پہنچا وہ گھر کا آخری کمرہ معلوم ہوتا تھا۔
"قبول کرو فخرو بیٹا!"
فخرو یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔ اس کے تایا جی نے تو اسے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ قبول کیا کرے۔ وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔
"جی۔"
"بیٹا! یہ میرا تحفہ ہے۔"
وہ انہیں کیا کہتا۔ تحفہ تو اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
"میں نے اسی تفےا کا ذکر کیا تھا فخرو بیٹا!"
"مگر تایا جان! وہ تحفہ مجھے نظر نہیں آرہا۔"
"ارے! نظر نہیں آرہا۔ کیا کہہ رہے ہو؟ وہ دیکھو سامنے دروازے پر۔"
یہ بات سن کر فخرو نے سامنے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں ایک گدھا گھاس کھا رہا تھا۔
"تایا جان! وہاں تو بس ایک گدھا ہے۔"
"واہ میرے بیٹے! یہی تو وہ تحفہ ہے۔"
فخرو کو ایک دم یوں لگا جیسے کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔
"جی یہ گدھا؟" وہ صرف اتنا کہہ سکا۔
"ہاں بیٹا! یہ بہت ہی قیمتی تحفہ ہے۔ ابھی تم اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایک وقت آئے گا کہ تم سمجھ لو گے کہ یہ کتنا بڑا تحفہ ہے۔"
"اچھا جی۔"
"آؤ پہلے کھانا کھالو۔ تھک چکے ہو۔"
فخرو نے اس طرح کھانا کھایا جیسے یہ بھی اس کے لیے ایک مجبوری ہو۔ کھانا بہت لذیز تھا، مگر وہ تو اپنے باپ کے دوست کا قیمتی تحفہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوگیا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد ان بزرگ نے ایک بڑی نرم اور ملائم رسی کا ایک سرا فخرو کے ہاتھ میں دے دیا۔ دوسرا سرا گدھے کی گردن کے گرد بندھا ہوا تھا۔
"دیکھو بیٹا! اس سے بڑی محبّت کا سلوک کرنا۔ دیکھنا اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے اور ہاں یہ میرا تحفہ بھی ہے اور میری امانت بھی ہے۔"
(جاری ہے)