گدھا کہانی (میرزا ادیب)

گدھا کہانی
میرزا ادیب
ہمدرد نونہال (نومبر ١٩٨٩ تا اکتوبر ١٩٩٠)
قیمتی تحفہ
کرم الہی ایک چھوٹا سا دکاندار تھا، مگر قصبے کے لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرم الہی ایک نیک دل، سادہ مزاج اور دیانت دار آدمی تھا۔ گاہکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا۔ کبھی کسی کو اس سے شکایت کا موقع نہیں ملا تھا۔ بڑا ہنس مکھ تھا، مگر ایک غم اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا اور وہ غم اسے اپنے بیٹے کی طرف سے تھا۔ باپ نے لاکھ چاہا کہ اسکول میں داخل ہو کر کچھ لکھ پڑھ لے، مگر وہ ہر بار اسکول میں ایک دو گھنٹے گزار کر بھاگ آتا تھا۔ باپ نے جب یہ دیکھا کہ فخرو لکھنے پڑھنے سے بیزار ہے تو کوشش کی کہ وہ دکان داری کرے، لیکن وہ دکان میں بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
صبح سویرے کرم الہی تو ناشتہ کرنے کے بعد دوپہر کی روٹی ڈبے میں بند کر کے دکان کو روانہ ہو جاتا تھا اور فخرو پہلے تو ڈٹ کر ناشتہ کرتا تھا اور ماں کے چیخنے چلانے کے با وجود گھر سے نکل جاتا تھا۔ صرف دوپہر کو پیٹ بھرنے کی خاطر آجاتا تھا۔ پیٹ بھر کر پھر غائب ہوجاتا تھا اور شام کو کہیں جا کر لوٹتا تھا۔
ماں باپ، دونوں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے اور اب تو ساری کوششوں میں ناکام ہو کر انہوں نے فخرو سے کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ فخرو کو اور کیا چاہیے تھا۔ اسے آوارہ گردی کی پوری پوری آزادی مل گئی تھی۔ پہلے شام کو گھر لوٹ آتا تھا، مگر اب رات کے دس بجے سے پہلے اپنی شکل ہی نہیں دکھاتا تھا۔
کرم الہی بوڑھا آدمی تھا۔ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ پھر ایسا وقت آیا کہ وہ دکان پر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس حالت میں اس نے اپنے ایک اعتماد کے قابل رشتےدار کو دکان پر بیٹھا دیا تھا جو شام کے وقت دن بھر کی کمائی کرم الہی کے ہاتھ میں رکھ دیتا تھا۔ کرم الہی اپنی خوشی سے اسے کچھ دے دے تو دے دے، وہ خود کچھ نہیں مانگتا تھا۔
کرم الہی کے اس رشتےدار کا نام "کالو خاں" تھا اور فخرو اسے چچا کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ کالو خاں فخرو کی ماں کو آپا کہتا تھا۔ فخرو کے لچھن دیکھ دیکھ کر کالو خاں بھی کڑھتا رہتا تھا، مگر جہاں فخرو کے سگے باپ کو ناکامی ہوئی تھی وہاں وہ کیا کر سکتا تھا۔
کرم الہی کو جب اپنی موت کا یقین ہوگیا تو اس نے اپنے بیٹے کو تنہائی میں پاس بلایا اور بولا، "فخرو! میں تو اب دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ تم گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوتے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ میں کیا کر سکتا ہوں، تمھارے لیے دعا ہی کر سکتا ہوں۔ اللہ تمہیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے۔ میں نے تنہائی میں تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے بلایا ہے۔"
فخرو نے اپنی زبان سے تو نہ پوچھا کہ ابّا جان! یہ مقصد کیا ہے جس کے لئے آپ نے مجھے بلایا ہے، مگر یہ سوال اس کی آنکھیں پوچھ رہی تھیں۔
"میں تم سے کیا کہنا چاہتا ہوں جانتے ہو؟"
فخرو نے آہستہ سے جواب دیا، "نہیں۔"
"اچھا سنو! میرا ایک بڑا پرانا دوست ہے جو یہاں سے کافی دور ایک پہاڑی علاقے میں رہتا ہے۔ اسے لوگ بڑے ادب سے شاہ صاحب کہتے ہیں۔ اس نے ایک بار کہا تھا، کرم الہی! میں تمھارے بیٹے کو ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ اسے میرے ہاں بھیج دو۔ میں یہ تحفہ اسے دے دوں گا۔"
"تو ابّا جی!" فخرو نے بیتابی سے پوچھا۔
"میں تمہیں اس کے ہاں بھیج نہیں سکا۔ تم سے یہ بات کہی ہی نہیں تھی۔ اب کہتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے دوست کا پتا بتا دیتا ہوں، مگر ابھی اس کے پاس نہیں جانا۔ میرے مرنے کے بعد جانا۔"
"اچھا ابّا جی۔"
دو روز گزرے تو کرم الہی کی طبیت اور خراب ہوگی ۔ اس کی بیوی اور سارے رشتےدار اس کی زندگی سے مایوس ہوگے اور اسی رات کرم الہی دنیا چھوڑ گیا۔
ایک ہفتہ تو روتے پیٹتے بیت گیا۔ ایسی حالت میں فخرو اپنے باپ کے دوست کے پاس کیونکر جا سکتا تھا؟
فخرو اپنے منہ بولے چچا کو بھی باپ کی یہ بات بتا چکا تھا۔
ایک روز چچا نے کہا، "فخرو! اپنے ابّا کے دوست کے ہاں جا۔ کیا خبر وہ تمہیں کیسا قیمتی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا، مگر مجھے دکانداری کرنی ہے۔ تم اکیلے ہی جاؤ اور تحفہ لے کر واپس آجاؤ۔ ہاں تحفہ سنبھال کر لانا۔"
"جاتا ہوں چچا۔"
"پتا یاد ہے نا فخرو۔"
"یاد ہے، پوری طرح یاد ہے۔"
فخرو یہ پتا کیسے بھول سکتا تھا۔ یہاں سے تو اسے بڑے قیمتی تحفے کے ملنے کی امید تھی۔
جس روز فخرو اور چچا کے درمیان یہ باتیں ہوئیں اس کے دوسرے دن فخرو پوری طرح تیار ہو کر چل پڑا۔
ماں نے اسے روٹی ایک ڈبے میں بند کر کے دی تھی کہ فاصلہ لمبا ہے۔ بھوک لگے گی تو پیٹ بھر لے گا۔
سفر بڑا لمبا تھا، لیکن فخرو نے طے کر لیا۔ کیص گھنٹے متواتر چلنے کے بعد وہ اپنے باپ کے دوست کے گھر پہنچ گیا۔ ایک سفید داڑھی والے بوڑھے نے بڑی محبّت سے اسے گلے سے لگایا اور اپنے گھر کے اندر لے گیا۔
اس گھر میں اس کی بڑی خاطر تواضع ہوئی اور فخرو یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہا تھا کہ جو شخص میری اتنی خاطر کر رہا ہے وہ مجھے تحفہ کتنا اچھا دے گا۔
"لو بیٹا! اب میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔ تمہیں اپنا تحفہ دے دیتا ہوں۔ آؤ میرے ساتھ۔"
یہ بات سن کر فخرو اٹھ بیٹھا۔
"میرے پیچھے پیچھے آؤ۔"
"بہتر تایا جان!"
بوڑھا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پہنچا، دوسرے سے تیسرے میں۔ اس کے بعد وہ جہاں پہنچا وہ گھر کا آخری کمرہ معلوم ہوتا تھا۔
"قبول کرو فخرو بیٹا!"
فخرو یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔ اس کے تایا جی نے تو اسے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ قبول کیا کرے۔ وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔
"جی۔"
"بیٹا! یہ میرا تحفہ ہے۔"
وہ انہیں کیا کہتا۔ تحفہ تو اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
"میں نے اسی تفےا کا ذکر کیا تھا فخرو بیٹا!"
"مگر تایا جان! وہ تحفہ مجھے نظر نہیں آرہا۔"
"ارے! نظر نہیں آرہا۔ کیا کہہ رہے ہو؟ وہ دیکھو سامنے دروازے پر۔"
یہ بات سن کر فخرو نے سامنے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں ایک گدھا گھاس کھا رہا تھا۔
"تایا جان! وہاں تو بس ایک گدھا ہے۔"
"واہ میرے بیٹے! یہی تو وہ تحفہ ہے۔"
فخرو کو ایک دم یوں لگا جیسے کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔
"جی یہ گدھا؟" وہ صرف اتنا کہہ سکا۔
"ہاں بیٹا! یہ بہت ہی قیمتی تحفہ ہے۔ ابھی تم اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایک وقت آئے گا کہ تم سمجھ لو گے کہ یہ کتنا بڑا تحفہ ہے۔"
"اچھا جی۔"
"آؤ پہلے کھانا کھالو۔ تھک چکے ہو۔"
فخرو نے اس طرح کھانا کھایا جیسے یہ بھی اس کے لیے ایک مجبوری ہو۔ کھانا بہت لذیز تھا، مگر وہ تو اپنے باپ کے دوست کا قیمتی تحفہ دیکھ کر بڑا پریشان ہوگیا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد ان بزرگ نے ایک بڑی نرم اور ملائم رسی کا ایک سرا فخرو کے ہاتھ میں دے دیا۔ دوسرا سرا گدھے کی گردن کے گرد بندھا ہوا تھا۔
"دیکھو بیٹا! اس سے بڑی محبّت کا سلوک کرنا۔ دیکھنا اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے اور ہاں یہ میرا تحفہ بھی ہے اور میری امانت بھی ہے۔"
(جاری ہے)
 
فخرو کا جی چاہتا تھا کہ کہے تایا جان! اپنا یہ قیمتی اور نایاب تحفہ اپنے پاس ہی رکھیں۔ مجھے یہ نہیں چاہیے، مگر وہ خاموش رہا۔
گدھے کا مالک کہہ رہا تھا، "میں نے جو کچھ کہا ہے وہ تم نے سمجھ لیا نا؟"
"جی ہاں پوری طرح سمجھ لیا۔"
"کیا سمجھا ہے بھلا؟"
اب فخرو زبان پر قابو نہ رکھ سکا اور بولا، "تایا جی! میں اسے گدھا نہیں بلکہ ہرن سمجھوں گا۔"
"پاگل ہوگئے ہو۔ ہرن اس کے سامنے کیا حقیقت رکھتا ہے۔ یہ تو۔۔۔۔ اب تمہیں کیا بتاؤں کہ یہ کیا ہے۔"
"معافی چاہتا ہوں تایا جی۔"
"اب کے میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ خوش خوش ہوجاؤ۔ دنیا کی ایک انمول چیز لیے جا رہے ہو۔ یہ بات بھولنا نہیں۔"
"اچھا تایا جان!"
اب عجیب تماشا ہوا۔ فخرو نے ہاتھ میں رسی پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو گدھا وہیں جم کر کھڑا ہوگیا۔
"تایا جی! اسے آپ سے بڑی محبّت ہے۔"
فخرو کہنا چاہتا تھا کہ آپ اسے اپنے گھر میں ہی رہنے دیں، لیکن ان کے چہرے پر غصّے کے تاثرات دیکھ کر چپ ہوگیا۔
"بیٹا! یہ تم سے بھی ایسی محبّت کرے گا جیسے تمہارا سگا بھائی ہو۔"
"جی!"
"دیکھو تو سہی ہوتا کیا ہے۔"
یہ کہہ کر بزرگ نے اپنے ہونٹ گدھے کے کان کے قریب لے جا کر کچھ کہا اور فخرو کو اشارہ کیا کہ اسے لے جائے۔ فخرو چلا تو اب گدھا چلنے لگا۔
دروازے سے نکل کر جب فخرو نے یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہ بزرگ رو رہے ہیں۔
"یہ شخص پاگل ہے۔ پتا نہیں ابّا جی کو یہ کیا سوجھی تھی کہ مجھے ایک پاگل کے ہاں تحفہ لینے کے لیے کہہ دیا۔"
فخرو راہ چلتے ہوئے غصّے کے مارے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور بار بار کسی تانگے یا گاڑی کے آگے آجاتا تھا، لیکن یہ گدھا تھا کہ فورا ایک طرف ہٹ جاتا تھا اور فخرو کو بھی ہٹنا پڑتا تھا۔ فخرو نے ایک عجیب بات دیکھی۔ جہاں جہاں سے وہ گزر رہا تھا آنے جانے والے لوگ گدھے کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ گھر پہنچ کر فخرو نے گدھے کو تو چھوڑا باہر اور خود اندر چلا گیا۔
اس کی ماں بری بیتابی سے قیمتی تحفے کا انتظار کر رہی تھی۔ جیسے ہی وہ اندر آیا بولی، "کہاں ہے وہ تحفہ؟"
"لے آیا ہوں اماں بہت خوش ہوگی دیکھ کر۔"
"ہے کہاں؟"
"باہر ہے۔"
"باہر کیوں چھوڑ آئے ہو؟ دماغ خراب ہوگیا ہے کیا؟"
"اماں! وہ اتنا شاندار تحفہ ہے کہ اسے اپنی کٹیا میں لانا مناسب نہیں ہے۔"
"کیا ہے وہ؟"
"جا کر دیکھ لو۔"
فخرو کی ماں بھاگ کر باہر گئی اور اسی طرح بھاگ کر واپس آگئی۔
"وہاں تو کچھ نہیں ہے۔"
"اماں! تم نے دروازے کے باہر ایک بے حد شاندار جانور نہیں دیکھا؟"
"وہ تو گدھا ہے۔"
"یہی وہ تحفہ ہے۔"
"ستیا ناس ہو تیرا، ماں سے مخول کرتا ہے۔"
"نہیں اماں! اللہ کی قسم میں مخول نہیں کر رہا۔ ابّا جی کے بہت ہی پیارے دوست نے یہی بہت ہی پیارا تحفہ دیا ہے۔"
ماں سر پکڑ کر پیڑھی پر بیٹھ گئی۔
دراصل اسے توقع تھی کہ اس کے بیٹے کو کوئی ایسا تحفہ ملے گا جس سے اس کے سارے دلدّر دور ہوجائیں گے، مگر یہ تو گدھا تھا۔
"ہم اس منحوس گدھے کا کیا کریں گے؟" اس نے خود سے سوال کیا۔
باہر بڑا شور برپا ہوگیا تھا۔
فخرو نے دروازے کے باہر جھانک کر دیکھا۔ محلے کے لڑکے گدھے کو کانوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے۔
"او چھوڑو اسے۔" وہ پکارا۔
لڑکوں پر اس کا ذرا سا بھی اثر نہ پڑا، بلکہ یہ ہوا کہ ایک شریر لڑکا گدھے کے اوپر جا بیٹھا۔
یکایک ایک عجیب تماشا ہوا۔ گدھے نے دو لتیاں جھاڑیں۔ دو لڑکے پیٹ پکڑ کر بیٹھ گئے۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر باقی لڑکے فورا بھاگ گئے۔ وہ لڑکا جو گدھے کے اوپر بیٹھا تھا وہ بھی چھلانگ مار کے غائب ہوگیا۔
فخرو نے یہ محسوس کر کے کہ لڑکوں نے اسے بڑا ستایا ہے، اس کی رسی پکڑ کر اندر لے آیا۔ ماں نے جو اسے اپنے سامنے دیکھا تو بپھر گئی، "اندر کیوں لے آئے ہو؟"
"کیا کرتا اماں! وہ لڑکے اسے مار مار کر ادھ موا کر دیتے یا لے جاتے۔"
"لے جاؤ اسے، میں اسے گھر کے اندر ہرگز نہیں رہنے دوں گی۔"
شام ہوگئی۔ ماں بیٹے کا جھگڑا جاری تھا کہ کالو خاں آگیا۔ اس نے ساری بات سنی تو بولا، "حوصلہ کرو۔ کیا پتا اس میں کیا کیا گن ہیں۔ اسے دوسرے کمرے میں باندھ دیتے ہیں۔"
ماں بڑی مشکل سے گدھے کو گھر میں رکھنے پر تیار ہوئی۔
(جاری ہے)
 
گدھا بک گیا
فخرو کے گھر میں گدھا کیا آیا ماں اور بیٹے کے لئے ایک مسئلہ بن گیا۔ دونوں کی رائے یہ تھی کہ یہ گدھا دے کر ان بزرگ نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ گھر کا خرچ مشکل سے پورا ہوتا ہے اب اس کے چارے کا انتظام کیسے کریں گے اور اس کی رکھوالی کیسے ہوگی۔ ماں کو خدشہ تھا کہ محلے کے بچے اسے چھوڑیں گے نہیں، جب بھی موقع ملا اسے لے جائیں گے اور پھر یہ کبھی واپس نہیں آے گا۔
"چلو اچھا ہوا۔ یہ ہمارے کس کام کا ہے۔" ماں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔
اور فخرو کا فیصلہ تھا، "ماں اسے بیچ دیں تو بہتر ہے۔ کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔"
ماں کو یہ بات سوجھی ہی نہیں تھی۔ سن کر خوش ہوگئی۔
یہ خیالات تو ماں اور فخرو کے تھے۔ چچا کو جب ان کے ان خیالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا، "میری رائے یہ نہیں ہے۔ وہ صاحب جنہوں نے اتنی محبّت سے یہ گدھا بطور تحفہ دیا ہے ضرور کوئی خوبی ہے اس میں، ورنہ انھیں خاص طور پر اپنے دوست کرم الہی سے اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟"
ماں بھری بیٹھی تھی، "مگر ہم اس کا کریں کیا؟ چارا کہاں سے لائیں گے؟"
چچا بولا، "چارے کی کوئی فکر نہ کریں آپا! یہ زمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں۔"
"یہ تو ہوا، لیکن اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟" ماں نے پوچھا۔
"فائدہ؟ فائدہ ضرور ہوگا۔"
"کیا چچا؟" یہ سوال فخرو نے کیا۔
"سنو فخرو! تمہیں کچھ کام کرنا پڑے گا۔ صبح سویرے گدھے کو لے کر سبزی منڈی جانا پڑے گا۔ منڈی میں سبزیوں کو اپنی دکانوں تک پہنچانے کے لئے دکانداروں کو تانگوں اور ریڑھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوتی ہے یا نہیں؟"
"ہوتی ہے چچا۔"
ماں بیٹے کی بلائیں لے کر بولی، "تم کیوں جاتے۔ میرا لال کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب ہر روز منڈی جایا کرے گا۔"
"ایسا ہی ہوگا۔ جاؤ بیٹا! اللہ تمہارا نگہبان ہو۔ خیر خیریت سے جاؤ اور خیر خیریت سے آؤ۔"
"اور جیبیں بھر کر آؤ۔" چچا نے ہنس کر کہا۔
"ضرور ضرور۔" ماں خوش ہوکر بولی۔
ماں اور چچا دونوں خوش تھے اور ادھر فخرو کو ایک قدم اٹھانا بھی دوبھر تھا۔
ماں نے بیٹے کی پیشانی چومی اور چچا کچھ دور اس کے ساتھ گیا۔
فخرو پہنچنے کو تو منڈی میں پہنچ گیا، مگر اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کرے تو کیا کرے۔
سبزی فروش دھڑا دھڑ سبزیاں خرید رہے تھے اور تانگوں اور ریڑھیوں پر لاد کر لے جا رہے تھے۔ ہر طرف شور برپا تھا۔ کان پر پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔
فخرو گدھے کی رسی پکڑایک طرف کھڑا تھا۔ تین بار دھکّے کھا کر لڑ کھڑا چکا تھا اور ہر بار لڑکھڑا کر چچا کو بد دعائیں دے چکا تھا۔ چوتھی بار دھکّا لگا تو وہ اس طرح ڈگمگایا کہ گدھے پر گر پڑا۔
"اندھے ہو۔ راستے پر کھڑے ہو۔" ایک شخص نے اسے غصّے سے کہا۔
"جی۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔"
"کیا بات ہے؟" اس شخص نے پوچھا۔
فخرو نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں وہ مقصد بتا دیا جس کے لیے وہ گدھے کے ساتھ گھر سے نکلا تھا۔
"تو تم گھر سے مزدوری کرنے نکلے ہو۔ کیا نام ہے تمہارا؟"
"فخرو۔"
"فخرو کیا نام ہوا؟"
"میرا نام فخر دین ہے۔"
"بس یہ بات ہے جس کے لیے دھکّے کھا رہے ہو۔"
"جی۔"
"میاں! یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔ شہر میں میری بڑی دکان ہے۔ منوں کے حساب سے سبزیاں لے جاتا ہوں۔ وہ چھکڑے دیکھ رہے ہو۔ ان کے پیچھے میرا اڈا ہے۔ روز آؤ۔ خوب کماؤ۔ آؤ میرے ساتھ۔"
وہ آدمی فخرو کو اپنے ساتھ ایک بیوپاری کے پاس لے گیا۔
"سراج! اس کے گدھے پر سبزیاں لاد دو۔"
سراج اور دو تین آدمیوں نے مختلف قسم کی سبزیوں سے بھری ہوئی تین بوریاں گدھے پر لاد دیں۔
"بس یہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔" اس شخص نے سراج اور اس کے آدمیوں کو گدھے پر نئی بوری رکھنے سے منع کر دیا۔
"میاں فخرو! یوں کرو یہاں کھڑے رہو۔ میرے چھکڑے سبزیاں لے کر آجاتے ہیں۔ پھر شہر چلیں گے۔" یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
فخرو گدھے کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ آدھ گھنٹہ گزرا ہوگا کہ وہ شخص آگیا۔
"چلو میاں! میرے چھکڑے چل پڑے ہیں۔"
منڈی سے باہر آکر وہ شخص ایک چھکڑے میں بیٹھ گیا۔ چھکڑے روانہ ہوئے تو فخرو بھی چلنے لگا اور اس کے ساتھ اس کا گدھا بھی۔ منڈی شہر سے دور نہیں تھی۔ بیس پچیس منٹ کے بعد چھکڑے ایک بڑی دکان کے سامنے رک گئے۔ فخرو بھی ٹھہر گیا۔ دکان سے دو آدمی نکلے اور چھکڑوں کی بوریاں دکان کے اندر لے جانے لگے۔ جب وہ خالی ہوگئے تو گدھے کا سامان بھی اتار لیا گیا۔
اس شخص نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پانچ کا نوٹ نکالا۔ "لو میاں! خوش ہوجاؤ۔"
پانچ کا نوٹ دیکھ کر فخرو کا خوشی اور حیرت سے عجب حال ہوگیا۔
"خوش ہو نا!"
"جی بڑا خوش ہوں۔"
"یہ میری دکان ہے۔ میرا اڈا تم نے دیکھ ہی لیا ہے۔ میرا نام ساری منڈی میں مشہور ہے۔ کبھی بھول جاؤ تو کسی سے بھی پوچھ لینا کہ رمضان خاں سبزی والے کے اڈے پر مجھے جانا ہے۔"
گھر جا کر فخرو نے پانچ کا نوٹ اپنی ماں کو دیا تو وہ نہال ہوگئی۔ اس نے الله کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس کے بیٹے نے زندگی میں پہلی بار کمائی کی ہے۔ چچا دکان بند کر کے آیا تو وہ بھی بہت خوش ہوا۔
پہلے پہل فخرو کو صبح سویرے منڈی جانا ایک مصیبت لگتا تھا، مگر ہر روز پانچ روپے ملنے لگے تو اسے اپنے اس کام سے کچھ دلچسپی ہوگئی۔
ایک رات بہت بارش ہوئی۔ منڈی میں اتنی کیچڑ ہوگئی کہ دو قدم چلنا بھی محال ہوگیا۔ فخرو بڑی مشکل سے رمضان خاں کے اڈے پر پہنچ سکا۔
رمضان خاں پراٹھے، چٹنی، اچار اور شامی کباب اپنے آگے رکھے ناشتہ کر رہا تھا۔
"آگئے میاں!"
"جی۔"
"آؤ پہلے ناشتہ کرو۔"
فخرو رات کی روٹی اور سالن یا دہی کا ناشتہ کرتا تھا۔ یہ نعمتیں دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ رمضان خان نے اسے شریک ہونے کے لئے کہا تو اس کا دل للچا رہا تھا تاہم اس نے کہا، "شکریہ جی۔"
"آؤ میاں! آؤ مزے سے کھاؤ۔"
فخرو اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہوگیا۔
(جاری ہے)
 
ناشتے کے بعد رمضان خاں نے چھکڑے پر بوریاں لدوائیں اور انہیں اپنی دکان کی طرف بھجوا دیا۔ فخرو حیران تھا کہ وہ اس کے گدھے کی طرف توجہ کیوں نہیں کر رہا۔
اب آسمان پر سورج پوری طرح چمکنے لگا تھا۔ فخرو دری کے اوپر بیٹھا تھا۔ اس کا گدھا پاس کھڑا تھا اور رمضان خاں مزے سے حقے کے کش لگا رہا تھا۔
"آج کیا معاملہ ہے۔ رمضان خاں میرے گدھے پر سبزیاں نہیں لدوا رہا۔"
فخرو کو اور تو کچھ نہ سوجھا اٹھ کر اپنے گدھے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
رمضان خان نے اسے کن اکھیوں سے دیکھا اورحقہ پیتا رہا۔
فخرو مایوس ہوگیا اور دری پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ رمضان خان نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ فخرو اس کے پاس چلا گیا۔
"بیٹھ جاؤ۔"
فخرو اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
رمضان خاں نے منہ سے کچھ نہ کہا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور اس کی جھولی میں ڈال دی۔
"یا الله! یہ کیا؟"
"میاں!"
"جی۔"
"نوٹ جیب میں ڈالو اور جلدی جلدی گھر چلے جاؤ۔ تمہاری ماں تمہاری منتظر ہوگی۔"
"یہ نوٹ کیسے؟ آج تو میں نے کام بھی نہیں کیا۔"
"تو۔۔۔۔"
"میاں! یہ مزدوری کب تک کرو گے۔ عزت کا کام نہیں ہے۔ دو سو رپے میں دکان میں ڈھیر سارا سودا ڈالو اور مزے کرو۔"
فخرو کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہہ نہ سکا۔ اٹھا اور گدھے کی رسی تھامی۔
"اسے چھوڑ دو۔ یہ میں نے خرید لیا ہے۔ دو سو رپے میں۔"
فخرو تنہا گھر پہنچا۔ ماں دروازے پر کھڑی تھی۔ روز فخرو دو ڈھائی گھنٹے کے بعد گھر آجاتا تھا، مگر اس روز اسے گھر سے گئے ہوئے چھ گھنٹے گزر گئے تھے۔ فخرو آتا ہوا دکھائی دیا تو ماں تیزی سے اس کی طرف گئی۔
"ہائے میں مرجاؤں۔ اتنی دیر لگا دی۔"
فخرو نے کچھ کہنے کے بجاے نوٹوں کی گڈی ماں کے ہاتھ میں دے دی۔
"اتنے نوٹ! آج تو میرے لال نے بہت کمائی کی ہے۔"
ماں نے اسے بے اختیار گلے سے لگا لیا اور بار بار اس کا ماتھا چوما۔
"وہ کہاں ہے؟"
"وہ رمضان خاں نے خرید لیا ہے۔ یہ رپے اسی کی قیمت تو ہیں۔"
"او تیرا بیڑا غرق۔ تیرا ستیا ناس کمائی والا گدھا بیچ دیا۔"
"اماں! میں نے نہیں بیچا۔ اس نے خرید لیا ہے۔"
یہ باتیں ہورہی تھیں کہ چچا دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے آگیا۔
"تمھارے لاڈلے نے گدھا بیچ دیا ہے۔"
"کہاں بیچ دیا۔ گدھا تو باہر کھڑا ہے۔"
"ہیں۔" ماں اور بیٹے دونوں کے منہ سے نکلا۔
تینوں بھاگے باہر۔ گدھا واقعی دروازے کے باہر کھڑا تھا۔
"یہ آ کس طرح گیا؟ ماں نے سوال کیا۔
چچا ہنس کر بولا، "یہ آ اس طرح گیا کہ الله نے اسے چار ٹانگیں دی ہیں۔ یہ ٹانگیں اسے یہاں لے آئیں۔"
فخرو پیار سے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھرنے لگا۔
"فخرو، بیچتے ہوئے اس کا خیال نہیں کیا۔ اب اسے پیار کر رہے ہو۔"
ماں کے یہ لفظ سن کر فخرو نے شرم سے سر جھکا لیا۔
محلے کے لڑکے آ پہنچے تھے اور بڑی دلچسپی سے گدھے کو دیکھ رہے تھے۔
"خالہ جان! ہم اسے ذرا سیر نہ کرائیں۔ اداس لگتا ہے۔" ایک لڑکا بولا۔
"نہ نہ۔ بھاگو یہاں سے۔" خالہ بولی۔
"لے جاؤ بیٹا!" چچا نے کہا، "کوئی حرج نہیں آپا! محلے کے بچے ہیں، خوش ہوجائیں گے۔"
یہ سننا تھا کہ دو لڑکوں نے گدھے کی رسی پکڑی۔ ماں چیختی رہی۔ لڑکے گدھے کو لے گئے۔
دو گھنٹے گزر گئے۔ لڑکے گدھے کو لے کر واپس نہ آئے۔ ماں گھبرانے لگی۔ ایک گھنٹہ اور بیت گیا۔ ماں چچا سے جھگڑنے لگی' "اور کراؤ سیر۔ روکا تھا میں نے۔ نہ جانے کہاں لے گئے ہیں بیچارے کو۔"
وقت گزرتا جا رہا تھا اور ماں کے ساتھ فخرو اور چچا کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ شام کے بعد ماں فخرو کو ساتھ لے کر اس لڑکے کے گھرمیں گئی جس نے کہا تھا، "خالہ اسے سیر نہ کرائیں۔"
"اکبر! کہاں ہے ہمارا جانور؟" ماں نے لڑکے سے پوچھا جو چارپائی پہ بیٹھا سلیٹ پر حساب کا کوئی سوال حل کر رہا تھا۔ ماں کا فقرہ سن کر اس نے اپنی ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"بہن! اس کا جواب مجھ سے سنو۔ خیر سے تمہارے لاڈلے نے گدھے کے پیسے وصول کر لئے تھے۔ اب تمہارا گدھے سے کیا واسطہ؟"
"تو۔۔۔۔؟"
ماں کہنا چاہتی تھی۔ گدھا تو تمہارا بیٹا ہمارے گھر سے لے کر گیا تھا، مگر بات کہہ نہ سکی۔ اکبر کی ماں فورا بول اٹھی، "وہی لے گیا ہے۔"
"کون؟"
"جس نے اسے خریدا ہے۔"
"اکبر کون ہوتا تھا اسے گدھا دینے والا؟" ماں کو غصّہ آگیا۔
اکبر کی ماں نے اسے غور کر دیکھا اور بولی، "اکبر بیچارا کیا کرتا۔ اس نے کہا، میں نے پورے دو سو رپے میں اسے خریدا ہے۔ یہ میرا ہے۔ منڈی سے بھاگ آیا ہے۔"
دونوں ماؤں کے درمیان لڑائی شروع ہوگئی۔ اکبر کا باپ بھی آگیا۔ وہ بھی بیوی کا ساتھ دینے لگا۔
محلے کے دو بزرگوں نے مداخلت کی۔ فخرو کی ماں کو سمجھایا، "گدھا جب بیچا جا چکا ہے تو یہ تمہارا نہیں رہا۔ اس کا ہوگیا جس نے اسے خریدا ہے۔"
"یہ تو ہمارے گھر سے لے کر گیا تھا۔" فخرو کی ماں نے اپنی طرف سے بڑی زبردست دلیل دی۔
بزرگ نے کہا، "یہ ٹھیک ہے اکبر گدھا تمہارے گھر سے لے گیا تھا، مگر یہ چیز اس کی تھی۔ وہ اس کا مالک ہے۔ کیوں فخرو! تم نے گدھا بیچا نہیں تھا؟"
فخرو کیا کہہ سکتا تھا۔ خاموش رہا۔
"بولتے کیوں نہیں جواب دو۔" بزرگ نے کہا۔
فخرو نے ہاں میں سر ہلایا۔
"معاملہ صاف ہے۔ فخرو نے گدھا بیچا ہے۔"
"اور دو سو رپے وصول کے ہیں۔" اکبر کی ماں بولی۔
"تم خاموش رہو اکبر کی ماں، ہمیں فیصلہ کرنے دو۔ تو میں کہہ رہا تھا فخرو نے گدھا بیچا۔ جس نے خریدا وہ اس کا مالک ہوگیا۔ گدھا بھاگ آیا، مگر اس سے خریدنے والے کی ملکیت تو ختم نہیں ہوئی۔"
ماں وہی بات کہے جا رہی تھی، "اکبر گدھا ہمارے گھر سے لے گیا تھا۔ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا فرض تھا کہ اسے واپس کرتے۔ گدھا لا کر دو ورنہ۔۔۔۔"
اکبر کی ماں لال پیلی ہوگئی۔ کہنے لگی، "تمھاری سمجھ پر تو پتھر پڑ گئے ہیں۔"
قریب تھا کہ لڑائی تیز ہوجاتی۔ چچا آگیا اور وہ منّت سماجت کر کے فخرو کی ماں کو گھر لے جانے لگا۔ فخرو بھی ماں کے ساتھ ساتھ جانے لگا۔
(جاری ہے)
 
گدھا ایک بلا ہے
سبزیوں کا ایک بڑا بیوپاری بچوں پر رعب جما کر گدھا اپنے گھر لے آیا۔ کئی لڑکے گدھے کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے۔ گھر کے قریب پہنچ کر رمضان خاں نے لڑکوں کو ڈانٹ پلائی، "جاؤ بھاگو یہاں سے، کبھی گدھا نہیں دیکھا تم نے؟"
رمضان بڑا رعب و داب والا آدمی تھا۔ لڑکے جانا تو نہیں چاہتے تھے، مگر رمضان خاں سے ڈر کر چلے گئے۔
لڑکوں کے جانے کے بعد رمضان خاں گدھے کی رسی پکڑ کر یوں کھڑا تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ اس کی بیوی خدیجہ نے اپنے شوہر کو اس حال میں دیکھا تو پوچھا، "انور کے ابّا کیا بات ہے؟ کیا سوچ رہے ہو؟"
"سوچ رہا ہوں کہ اسے رکھا کہاں جائے؟"
خدیجہ ہنس پڑی، "کیا گدھے کے لیے کوئی خاص مکان بنوانا پڑے گا؟"
رمضان خاں بیوی کی بات سن کر مسکرایا اور بولا، "خدیجہ یہ عام گدھا نہیں ہے۔ عام گدھا ہوتا تو میں اسے کیوں خریدتا؟"
"کیا خوبی ہے اس میں؟"
"میں نے دیکھا تھا کہ منڈی میں جہاں اسے کھڑا کر دیا جاتا تھا، کیا مجال جو وہاں سے ذرا ادھر ادھر ہو جائے۔ بوجھ سے بھی نہیں گھبراتا تھا۔ ریڑھی پر جتنا بوجھ لاد دیا، خوشی خوشی چل پڑا۔ بڑا اصیل گدھا ہے۔"
"اصیل تو مرغ ہوتا ہے۔" خدیجہ پھر ہنس پڑی۔
"یہ بھی اصیل ہے۔"
"تو اب اسے یہیں پکڑے کھڑے رہیں گے۔"
"ٹھیک ہے اسے اب وہاں رکھا جاے گا۔"
"کہاں؟"
رمضان نے بیوی کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ زور سے بیٹے کو انور کہہ کر پکارا۔ چودہ پندرہ برس کا لڑکا دروازے پر آگیا۔
"انور! اسے اسٹور کے ساتھ جو کمرہ ہے نا اس کے اندر چھوڑ آ۔
انور گدھے کی رسی پکڑنے کے لئے آگے بڑھا۔
"گدھے پوری بات تو سن لے۔"
"ہائے میرے بیٹے کو گدھا کہہ رہے ہو۔" خدیجہ کو شوہر پر غصّہ آگیا تھا۔
انور جو گدھے کے پاس رک گیا تھا باپ کو سوالیہ انداز سے دیکھنے لگا۔
"کمرے کا دروازہ بند کر دینا۔"
"اور کھڑکیاں روشندان؟" انور نے سوال کیا۔
"دیکھا خدیجہ! گدھوں والا سوال کیا ہے یا نہیں۔ او پگلے! جانور دروازے سے تو نکل سکتا ہے کھڑکیوں اور روشن دانوں سے کیسے نکلے گا؟"
"ابّا جی! آپ ہی نے تو کہا تھا کہ یہ گدھا عام گدھا نہیں ہے۔ کیا پتا کھڑکی میں سے نکل جائے۔"
"بس اب بکواس نہ کر۔ اسے چارہ پانی ڈالنا تمہارا کام ہوگا۔ رمضان خاں نے انور کے ہاتھ میں رسی دے دی۔
انور نے گدھے کو اسٹور کے قریب فالتو کمرے میں دھکیل دیا اور باہر آکر کھیلنے کے لئے دوستوں کے پاس چلا گیا۔
شام ابھی نہیں ہوئی تھی۔ انور کھیل کود کر گھر واپس آیا تو ماں نے کہا، "انور! گھر میں ایک مہمان آیا ہوا ہے۔ بھوک لگی ہوگی اسے۔"
"یاد آگیا امی، کرتاہوں انتظام۔"
"تمہارا ابّا تاکید کر کے گیا تھا کہ اسے شام سے پہلے پہلے چارا ڈال دیا جائے۔"
"اچھا امی!"
خدیجہ باورچی خانے میں آگئی اور کھانا تیار کرنے میں مصروف ہوگئی۔"
وہ ایک ہانڈی میں سے تھوڑا سا سالن ڈوئی میں ڈال کر یہ اندازہ کر رہی تھی کہ نمک مرچ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ یکایک اسے احساس ہوا کہ باورچی خانے میں کوئی آیا ہے۔ اس نے سامنے دیکھا۔ انور دیوار کے پاس کھڑا تھا۔
"کیا کر رہا ہے یہاں؟"
"امی! وہ کہانی سنی ہے نا آپ نے جس میں ایک جادوگرنی شہزادی کو بکری بنا دیتی ہے۔"
"ہاں سنی ہے۔ پھر؟"
"امی! یہ جو گدھا ہے نا گدھا نہیں ہے۔"
"تو کہنا کیا چاہتا ہے؟"
"امی! میں سچ کہتا ہوں۔ یہ گدھے کے روپ میں۔۔۔۔ اماں! کیا کہوں یہ گدھے کے روپ میں کوئی اور ہے۔"
خدیجہ جھنجھلا گئی، "میں پوچھتی ہوں تو کہنا کیا چاہتا ہے؟"
"کمرے کے اندر سے۔" انور نے اپنا دایاں ہاتھ لہرایا۔
"نہیں ہے کمرے میں؟"
"کہہ تو رہا ہوں یہ گدھا نہیں ہے کوئی اور ہے۔"
خدیجہ نے ڈوئی وہیں ہانڈی کے اوپر رکھی اور تیزی سے نکل کر اس کمرے میں گئی جہاں گدھے کو رکھا گیا تھا۔
"کہاں ہے وہ؟"
انور مسکرا کر کہنے لگا، "امی! وہ یہاں ہوتا تو گھبرانے کی بات ہی کیا تھی۔ پتا نہیں کس طرح نکل گیا۔ جیسے اسے پر لگ گئے ہوں۔"
"اور وہ روشندان سے نکل گیا۔"
"اور کیا۔"
"اب باپ کو کیا جواب دے گا؟"
"ابّا پوچھیں گے تو کہہ دوں گا کہ یہ گدھا نہیں ہے کوئی بری خطر ناک چیز ہے۔"
ماں بیٹا ابھی کمرے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ رمضان خاں آگیا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ کچھ ہوگیا ہے۔ بولا، "معاملہ کیا ہے؟"
خدیجہ اور انور دونوں خاموش کھڑے رہے۔
"میں کہتا ہوں کیا ہوا؟"
انور تو چپ رہا۔ خدیجہ کہنے لگی، "کیا مصیبت لے آئے تھے گھر میں۔۔۔۔ غائب ہوگیا ہے۔"
"کیا؟" رمضان خان نے سمجھ لیا تھا کہ اس کی بیوی نے کیا کہا ہے۔ پھر بھی اس نے سوال پوچھ لیا۔
"وہ جسے دو سو روپے میں خرید کر لائے تھے پتا نہیں کیسے چلا گیا۔" خدیجہ نے جواب دیا۔
"ابّا! آپ مانیں گے نہیں۔"
خدیجہ نے بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، "یہ کہتا ہے اس گدھے میں کوئی اور ہے۔"
"ہاں کوئی اور ہے اور میں جانتا ہوں وہ کون ہے؟"
"کون ہے ابّا؟"
"اس کے اندر تم خود ہو۔"
"میں ابّا۔۔۔۔ توبہ۔ میں تو انسان ہوں اور یہ گدھا ہے۔"
"تم اس کے اندر ہو یا باہر۔ ہو گدھے۔ دونوں دروازے بند کر دیے تھے؟"
"جی ہاں۔"
"دونوں اندر سے بند کیے تھے؟"
"بالکل۔ اندر سے بند کیے تھے۔"
"میں نے کہا تھا نا تم گدھے ہو۔ ارے تم نے دونوں دروازے اندر سے بند کردیے تھے تو تمہیں بھی گدھے کے ساتھ کمرے کے اندر ہونا چاہیے تھا۔"
انور حیران ہو کر باپ کو دیکھنے لگا۔
"انور! تمہارا ابّا بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تم نے ایک دروازہ اندر سے بند کیا اور دوسرے سے باہر گئے، مگر اسے بند کرنا بھول گئے۔ کیوں ہے نہ یہی بات؟"
انور شرمندہ ہو کر خاموش رہا۔
"یہ پھر وہاں چلا گیا ہے۔" رمضان خان نے بڑے اعتماد سے کہا۔
"فخرو کے گھر میں؟" خدیجہ میں پوچھا۔
"اور کہاں؟"
"میں دیکھ آؤں وہاں جا کر۔" انور بولا۔
"میں کہتا ہوں وہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔"
(جاری ہے)
 
تھوڑی دیر بعد باپ بیٹا فخرو کے گھر کے آگے فخرو کی ماں سے باتیں کر رہے تھے۔ رمضان خاں ذرا نرمی سے کہہ رہا تھا، "دیکھو بہن! یہ گدھا میرا ہے۔ میں اسے دو سو روپے دے کر خرید چکا ہوں، بزرگ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میں ہی اس گدھے کا مالک ہوں۔"
"تو آپ اپنی رقم واپس لے لیں۔"
"ہرگز نہیں۔ میں گدھا ہی لوں گا جسے میں نے اتنی بڑی رقم دے کر خریدا ہے۔" رمضان خاں نے جواب دیا۔
تکرار بڑھ جاتی کہ چچا دکان بند کر کے آگیا۔ اس نے جھگڑا ختم کرنے کی خاطر دکان کی دیوار سے بندھے ہوے گدھے کو کھولا اور اس کی رسی رمضان خاں کی طرف بڑھا دی، "خاں صاحب! لے جائیے، مگر یہ آپ کے ہاں رہے گا نہیں۔"
رمضان خاں غصّے سے کہنے لگا، "یہ کیا اس کا باپ بھی رہے گا۔"
"ٹھیک ہے خاں صاحب! اس کا باپ ہی رہے گا۔ یہ نہیں رہے گا۔"
رمضان خاں بڑبڑاتا ہوا گدھے کی رسی تھامے چلا گیا۔
رمضان خاں گدھے کو لے کر واپس آیا تو اس کی بیوی اور بیٹے دونوں کی رائے تھی کہ اسے وہاں چھوڑ کر دو سو رپے لے آتے تو اچھا تھا، مگر رمضان خاں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی، گرج کر بولا، "نہیں، میں ہار نہیں مانوں گا۔ دیکھوں گا اب کیسے جاتا ہے۔"
"تو کیا کر لوگے؟" خدیجہ کا سوال تھا۔
"میں اسے وہاں رکھوں گا کہ کہیں جا آ ہی نہیں سکے گا۔ انور آؤ اسے کوٹھے پر لے جائیں۔"
ماں بیٹے کو یہ کام برا لگا، مگر رمضان خاں تو ایک ضدّی آدمی تھا۔ وہ مجبور ہوگئے۔ کسی نہ کسی طرح گدھے کو اوپر کوٹھے پر پہنچا دیا۔
"اب رہے گا یہیں۔"
"لیکن انور کے ابّا! ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ آخر دو سو رپے۔"
"تم چپ رہو۔ میں جانتا ہوں اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔"
"کیا ہوگا انور کے ابّا؟"
"اس سزا سے بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔"
"اب اس کے اندر۔"
"بکو مت۔ کچھ نہیں ہے اس کے اندر۔ چالاک ہے اور بہت چالاک ہے۔ میں اس کی چالاکی ختم کر کے چھوڑوں گا۔"
رمضان خاں نے خود کوٹھے پر گدھے کو چارا دیا اور اطمینان کے ساتھ نیچے آگیا۔
رات کا پچھلا پہر تھا۔ رمضان خاں گہری نیند سو رہا تھا کہ خدیجہ نے اس کا شانہ ہلا کر سرگوشی سے کہا، "انور کے ابّا!"
رمضان خاں سویا رہا۔ خدیجہ نے دوبارہ کہا، "انور کے ابّا! اٹھو۔" اب کے خدیجہ نے اس کا شانہ زور زور سے ہلایا۔
رمضان خاں نے آنکھ کھول دی۔
"میں نے کہا انور کے ابّا! باہر کوئی ہے۔"
"کون؟"
"میں کیا جانوں۔ سایہ سا دیکھا ہے۔"
"کب؟"
"ابھی ابھی۔ دیکھو چور ہوگا یا۔۔۔۔"
رمضان خاں جان گیا اس کی بیوی کیا کہنا چاہتی تھی۔
"نہیں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔"
"تم نے سیڑھیوں کا دروازہ بند بھی کیا تھا۔ انور کو بیوقوف کہتے تھے اور اب۔۔۔۔"
رمضان خاں نے جلدی سے بتی جلائی اور دروازے کے پاس آگیا۔ خدیجہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آگئی۔
دونوں بڑے دروازے کی طرف بھاگے۔
دروازہ بند تھا۔
"چھت پر تو دیکھا ہوتا۔" خدیجہ نے کہا۔
"ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں دیکھتا ہوں چھت پر جا کر۔"
رمضان خاں جلد ہی واپس آگیا۔
"وہاں نہیں ہے۔" اس نے اپنی بیوی کو اطلاع دی۔
"نہیں ہے۔ تو نکل گیا۔"
اور یہ کہتے ہوے پریشانی اور گھبراہٹ میں خدیجہ نے دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ یکایک گدھا جو اندھیرے میں کہیں کھڑا تھا تیر کی سی تیزی سے نکل گیا۔
"دروازہ کیوں کھول دیا تھا تم نے؟" رمضان خان بیوی پر گرجا۔
"مجھے کیا پتا تھا وہ نامراد یہیں کہیں چھپا کھڑا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھنا چاہا تھا کہ باہر تو نہیں چلا گیا۔" خدیجہ نے اپنی طرف سے دلیل دی۔
"دروازہ بند تھا۔ باہر کیسے جا سکتا تھا۔ اس گھر کے سب لوگ بیوقوف ہیں۔ اول درجے کے احمق ہیں۔ گدھے کے گدھے ہیں۔"
"میں کہتی ہوں اب اس منحوس کو باکل نہیں لانا۔" یہ کہہ کر خدیجہ نے دروازہ بند کر دیا۔
"کیا کیا ہے؟" رمضان خان نے بیوی سے پوچھا۔
"کچھ بھی تو نہیں کیا۔"
خدیجہ ٹکٹی باندھ کر دروازے کو دیکھ رہی تھی۔
"میں پوچھتا ہوں دروازہ کھولا کیوں تھا؟"
خدیجہ گم سم کھڑی رہی۔
"دروازہ بند رہتا تو وہ منحوس گھر سے نکل سکتا تھا؟" رمضان خاں کا لہجہ غضب ناک ہوگیا۔
خدیجہ کی حالت اب بھی ویسی کی ویسی تھی۔
"اب میں نہیں جاؤں گا خود جانا۔ میری دو سو کی رقم ڈوب گئی۔"یہ کہتے ہوے رمضان خاں واپس جانے لگا۔ خدیجہ وہیں کھڑی رہی۔ پھر وہ بھی جانے لگی۔
رمضان خاں منڈی جانے کے لئے صبح سویرے جاگا کرتا تھا۔ اس دن دیر ہوگئی۔ وہ جاگا تو سورج نکل چکا تھا۔ وہ پلنگ سے نیچے اترا تو دیکھا کہ خدیجہ اپنے پلنگ کی پائنتی پر بیٹھی ہے اور چھت کو گھور گھور کر دیکھ رہی ہے۔
"خدیجہ؟"
"ہاں انور کے ابّا۔"
"کیا ہے۔ سوئي نہیں تھی؟"
"نہیں۔"
"کیوں؟"
"میں سوچتی رہی ہوں کہ میں نے دروازہ کیوں کھول دیا تھا۔"
"اب یہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔"
"انور کے ابّا! میں نے دروازہ کھول دیا تھا۔ کیوں کھول دیا تھا؟"
"میں کیا بتاؤں تم نے کیوں کھول دیا تھا۔"
"بتاؤ نا۔"
"پاگل ہوگئی ہو۔ دروازہ تم نے کھولا تھا اور پوچھ مجھ سے رہی ہو کہ میں نے دروازہ کیوں کھولا تھا۔"
"انور کے ابّا! لگتا ہے یہ کوئی بلا ہے۔ یہ گدھا بلا ہے، کوئی بلا ہے انور کے ابّا۔"
خدیجہ رونے لگی۔
"اچھا بلا ہے تو اب اسے ہرگز ہرگز یہاں نہیں لاؤں گا۔ دو سو رپے کا نقصان ہوگیا ہے۔ خیر اب ناشتہ تیار کرو مجھے منڈی جانا ہے۔"
خدیجہ آہستہ آہستہ اٹھ کر باہر جانے لگی۔
(جاری ہے)
 
گدھا رحمت بن گیا
سات روز گزر گئے تھے اور سبزیوں کا بیوپاری رمضان خاں گدھا لینے کے لیے نہیں آیا تھا۔ فخرو، فخرو کی ماں اور چچا تینوں کو توقع تھی کہ گدھا جب ایک بار پھر اس کے گھر سے کسی نہ کسی طرح واپس آگیا ہے تو رمضان خاں دوسرے ہی روز آکر جھگڑا کرے گا اور گدھا اپنے ہاں لے جانے کا اصرار کرے گا، مگر نا جانے کیا بات تھی کہ اس نے اپنی شکل نہیں دکھائی تھی۔
"اب نہیں آئے گا رمضان کا بچہ۔" فخرو کی ماں نے خوش ہو کر چچا کو اطلاع دی۔
"میرا بھی یہی خیال ہے۔ اس نے سمجھ لیا ہے کہ گدھا اس کے ہاں ٹکے گا نہیں۔"
"اور کیا گدھا ہمارا ہے۔" یہ فخرو کے الفاظ تھے۔
"مفت میں دو سو مل گئے ہیں چچا"
"پاگل ہوگئے ہو فخرو! یہ اس کی امانت ہے۔ جب چاہے گا لے جائے گا۔"
فخرو پر اوس پڑ گئی۔
"کالو!" فخرو کی ماں نے چچا کو مخاطب کیا۔
"کیوں آپا!"
"گھر کے لیے کچھ برتن لانے ہیں۔ فخرو کے کپڑے دیکھ رہے ہو کیا حال ہے ان کا۔"
"آپا! تم چاہتی ہو میں یہ امانت کی رقم خرچ کر دوں۔ نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ فخرو کو کل سے کام کرنا ہوگا۔"
فخرو نے ان سات دنوں میں پہلے کی طرح خوب آوارہ گردی کی تھی۔ اس نے سوچا تھا کہ اب اس کے دن اسی طرح مزے میں گزریں گے۔ لیکن چچا کی بات سن کر وہ سہم سا گیا۔
"اب منڈی کیسے جائے گا فخرو؟ رمضان خاں اس سے گدھا چھینے بغیر نہیں رہے گا۔" فخرو کی ماں نے فخرو کی ترجمانی کی۔
"رمضان خاں کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟" چچا نے پوچھا۔
"منڈی جائے گا تو رمضان اسے دیکھ گا نہیں۔"
"آپا! شہر میں صرف ترکاریوں ہی کی منڈی نہیں ہے۔ پھلوں کی منڈی بھی ہے۔ ہے کہ نہیں؟"
فخرو کی ماں خاموش رہی۔
"ہمار فخرو پھلوں کی منڈی جایا کرے گا اور وہی کام کرے گا جو اس منڈی میں کرتا تھا۔"
"مگر چچا! میں پھل گدھے پر کیسے لادوں گا؟"
"کیوں؟ کیا تکلیف ہوگی تمہیں؟ گدھا سبزیوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے تو پھلوں کا بوجھ کیوں نہیں اٹھا سکتا؟
یہ لفظ کہہ کر چچا کسی کام سے باہر گیا۔
فخرو کی حالت ایسی تھی جیسے اسے کسی بڑی سزا کا حکم سنایا گیا ہو۔ ماں نے محبّت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
"دکھی کیوں ہوتے ہو فخرو۔ بیٹے کام کرتے ہی اچھے لگتے ہیں۔"
"اماں! یہ گدھا، کیا مصیبت آئی ہے ہمارے گھر میں۔ اسے گدھا ہی دینا تھا ہمیں! یہ بھی کوئی تحفہ ہے۔ میرا جی چاہتا ہے اماں! اسے لے جا کر واپس کر آؤں۔"
"نہ، نہ پتر! بڑا شریف اور محبّت کرنے والا جانور ہے۔ ہم سے کتنی محبّت کرتا ہے۔ کہیں ٹکتا ہی نہیں۔ فوراً واپس آ جاتا ہے۔"
فخرو کی ماں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔
"میں نے فیصلہ کر لیا ہے اماں! میں اب اسے کسی منڈی ونڈی نہیں لے جاؤں گا۔"
چچا واپس آ گیا تھا اور اس نے فخرو کی بات سن لی تھی۔
"دیکھتا ہوں تم کس طرح نہیں جاؤ گے۔ مفت کی روٹیاں توڑتے شرم نہیں آتی۔جوان ہو، تمہاری عمر کے لڑکوں نے گھر سنبھال رکھے ہیں۔ تمہیں آوارہ پھرنے کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ کام کرو گے تو روٹی ملے گی۔ سمجھ لیا نا؟"
فخرو کی ماں نے دیکھا کہ کالو خاں بڑے غصّے میں ہے تو بولی، "کالو، جائے گا۔ منڈی جائے گا میرا کماؤ بیٹا۔"
"کماؤ بیٹا ہے تو صبح سویرے جاگ کر پھلوں کی منڈی میں جائے گا۔"
"فخرو نے تو پھلوں کی منڈی دیکھی ہی نہیں۔" ماں نے کہا۔
"میں دکان بند کر کے اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور کسی بیوپاری سے اس کی واقفیت بھی کروا دوں گا۔"
فخرو اور اس کی ماں خاموش ہوگئے۔
چچا دکان بند کر کے گھر آگیا اور فخرو کو اپنے ساتھ پھلوں کی منڈی میں لے گیا۔ ایک بیوپاری سے اس کا تعارف بھی کرا دیا۔
"یہ کل آئے گا گدھے کے ساتھ۔ سودا گدھے پر لاد کر دکان پہنچا دیا کرے گا۔"
"اچھا۔"
بیوپاری مان گیا۔
راستے میں چچا فخرو کو سمجھاتا رہا، "اچھے لڑکے کام سے کبھی نہیں گھبراتے۔ کام کرو گے تو سکھ پاؤ گے۔"
فخرو چچا کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔
دوسرے دن فخرو منڈی میں جانے کے خیال سے آدھی رات تک کروٹیں بدلتا رہا، پھر سو گیا۔
سوتے وقت اس نے دعا کی تھی، "الله کرے رمضان خاں آ کر گدھے کو اپنے گھر لے جائے۔"
وہ خواب دیکھ رہا تھا کہ وہ گدھا لیے جا رہا ہے کہ رمضان خاں آتا ہے اور کہتا ہے، "میرا گدھا واپس کرو۔"
وہ گدھے کی رسی رمضان خاں کے ہاتھوں میں دیتا ہے کہ اس کی کان میں چچا کی آواز گونجی، "اٹھو! منڈی میں جانے کا وقت ہوگیا ہے۔"
فخرو اٹھ بیٹھا۔
"آپا نے ناشتہ تیار کر لیا ہے۔ پیو دودھ کا گلاس اور الله کا نام لے کر جاؤ منڈی۔"
فخرو غسل خانے سے باہر آیا تو ماں دودھ کا گلاس لیے کھڑی تھی۔
"پی لو میرے چاند! میرے لال پی لو۔"
فخرو نے آدھا گلاس دودھ پی کر گلاس چوکی کے اوپر رکھ دیا۔
"باقی پی لو نا۔" ماں نے اصرار کیا۔
"اماں بس!"
چچا گدھے کے ساتھ دروازے کے باہر کھڑا تھا اس نے آواز دی، "فخرو! آؤ جلدی کرو۔"
فخرو کی آنکھوں میں نیند بھری تھی، مگر چچا کے ڈر سے باہر آگیا۔
چچا نے گدھے کی رسی اس کے ہاتھ میں دی۔
"بسم الله پڑھ کر جاؤ۔ الله کامیاب کرے گا۔" ماں نے فخرو کو پیار کیا اور اسے گدھے کی رسی تھامے آہستہ آہستہ جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔
نیند کی وجہ سے فخرو کے قدم بار بار ڈگمگا جاتے تھے۔ وہ خود کو مشکل سے سنبھال کر گدھے کی رسی تھامے چلنے لگتا تھا۔ منڈی اور اس کے درمیان ابھی کافی فاصلہ تھا۔
ایک مقام پر جہاں کئی نئے مکان بنائے جا رہے تھے اس پر نیند نے ایسا غلبہ کیا کہ اس نے اپنا سر گدھے کی گردن پر رکھ دیا اور بازو پھیلا دیے۔ گدھا ذرا رکا اور پھر چلنے لگا۔
گدھا چلا تو وہ تیورا کر گر پڑا۔
"ارے گدھے!" اس نے غصّے سے کہا۔
"ٹھہرو تو ذرا۔ دیکھتا ہوں تجھے۔" یہ کہہ کر فخرو اس کی پشت پر بیٹھ گیا۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ نیند کی وجہ سے اس کا سر جھکے جا رہا تھا۔
تھوڑی دور آگے جا کر اس کا سر پھر گدھے کی گردن سے جا لگا اور اپنے آپ کو سنبھالنے کے بجائے وہ لیٹ گیا۔ اردگرد کے لوگ شوق اور دل چسپی سے یہ تماشا دیکھنے لگے، مگر گدھے نے رکنے کا نام نہ لیا۔
گدھا چلتا گیا چلتا گیا اور فخرو اس کی پشت پر بےخبر سوتا رہا۔
فضا میں سورج چمکنے لگا تھا۔ دھوپ ہر طرف پھیل گئی تھی۔
یکایک گدھا اچھلا اور اس کے اس طرح اچھلنے سے فخرو اس کی پشت سے نیچے زمین پر گر پڑا۔
"ہیں! یہ میں کہاں آگیا ہوں۔"
فخرو نے آنکھیں ملتے ہوئے سامنے دیکھا۔ پہاڑوں کا ایک سلسلہ حد نگاہ تک چلا گیا تھا۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں اونچے اونچے درخت نظر آرہے تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ گدھا اسے ایک ویرانے میں لے آیا ہے جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔
"ہت تیرے کی!" اس نے آگے بڑھ کر گدھے کے سر پر مکا مارا۔ گدھے پر تو کوئی اثر نہ ہوا، البتہ اس کا ہاتھ دکھنے لگا۔ نیند اب بھی اس کی آنکھوں میں بھری ہوئی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر گدھے کے نیچے گھاس اگی ہوئی تھی۔
اس نے گدھے کا کان پکڑ کر اسے گھاس سے ہٹایا اور خود نرم نرم گھاس پر لیٹ گیا۔
فخرو دیر تک گہری نیند سوتا رہا۔ وہ اس وقت بھی سو رہا تھا جب اس نے آنکھ کھول کر دیکھا کہ گدھا اس کے کرتے کا دامن منہ میں دبائے ایک طرف اسے لیے جا رہا ہے۔
"اوئے گدھے کے بچے! یہ کیا بدتمیزی ہے!"
اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے کرتے کا دامن گدھے کے دانتوں سے نکالے، گدھے نے منہ کھول کر خود ہی اس کا دامن چھوڑ دیا۔
وہ حیران و پریشان بڑ کے ایک درخت کے نیچے بیٹھا کرتے کا دامن اپنے پیٹ پر پھیلا رہا تھا کہ اس نے گدھے پر نظر ڈالی جو ایک گڑھے میں تھوتھنی ڈالے کھڑا تھا اور سر ہلا رہا تھا۔
وہ اٹھا اور اس گڑھے کے پاس گیا۔ نیچے ایسی چمک تھی کہ وہ ایک دم ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔
گدھے نے تھوتھنی گڑھے سے نکالی۔ اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنی تھوتھنی گڑھے میں ڈال دی۔
فخرو گڑھے کی طرف آیا تو گدھے نے فورا اپنی تھوتھنی اس میں سے نکال لی۔
(جاری ہے)
 
Top