گدھا کہانی (میرزا ادیب)

شمشاد

لائبریرین
انیس بھائی مجھے بھیج دیتے، میں ایک ہی دفعہ ساری ٹائپ کر کے پوسٹ کر دیتا۔ تاکہ سب کی گدھے سے جان چھوٹ جاتی۔
 
اس نے اندازہ لگا لیا کہ گدھا چاہتا ہے کہ وہ گڑھے کے اندر دیکھے۔ فخرو نے دیکھا کہ اب کے چمک زیادہ ہوگئی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا دایاں ہاتھ گڑھے کے اندر ڈالا۔ سخت سی چیزیں اس کے ہاتھ سے مس کرنے لگیں۔
اس نے ہی سخت چیزیں مٹھی میں بند کرکے باہر نکال لیں۔مٹھی کو کھولا تو ان سخت رنگا رنگ چیزوں سے روشنی اس طرح پھوٹ رہیتھی کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کے ارد گرد چراغ جلاٹھے ہوں۔
وہ ان رنگ برنگے شیشوں کو دیکھتا رہا۔
"یہ بڑی ےقیمتی چیزیں ہیں۔" اس کے ذہن میں خیال آیا۔
اس نے گڑھے میں بیک وقت دونوں ہاتھ ڈال دیےاور شیشوں کے رنگین ٹکڑوںکو مٹھیوں میں بند کرکے بانہیں باہرنکالیں۔
تین مرتبہ اس نے یہی عمل کیا۔
اس کے آگے رنگین شیشوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔ چوتھی مرتبہ اس نے ہاتھ ڈالا تو صرف ایک ٹکڑا مٹھی میں بند کرکے باہر لا سکا۔
گویا اس نے گڑھے میں دبے ہوئے سارے کے سارے ٹکڑے باہر نکال لیے تھے۔
وہ بار بار ان رنگارنگ ٹکڑوں کو دیکھتا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی جارہی تھی۔
اس کے دماغ میں ایک سوال ابھرا، "انہیں گھر میں لے جاؤں کیسے؟"
وہ اس سوال پر غور کر ہی رہا تھا کہ گدھے نے آگے بڑھ کر پھر اس کے کرتے کا دامن اپنے دانتوں میں دبا دیا اور جلد ہی اسے چھوڑ دیا۔
"ٹھیک ہے عقلمند گدھے۔"
اس نے اپنا کرتا اتارا اور سارے ٹکڑے اس میں سمیٹ کر گانٹھ باندھ دی۔
گدھا خود بخود چلنے لگا۔ اس نے پوٹلی گدھے کی پشت پر رکھی اور خود اس کے اوپر اس طرح بیٹھ گیا کہ آنے جانے والوں کی نظر اس پوٹلی پر نہیں پڑ سکتی تھی۔
ویرانے سے نکل کر وہ شہر میں پہنچ گیا۔ اسے راستے کا کوئی علم نہیں تھا۔ گدھا ہی اسے لے آیا تھا۔
ویرانے میں تو اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا، وہاں کوئی تھا ہی نہیں، مگر شہر میں لوگ آ جا رہے تھے، ان کے لیے وہ ایک تماشا بن گیا تھا۔
آدھا دھڑ ننگا اور گدھے پر بیٹھا ہوا۔
عجیب تماشا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر تالیاں بجانے لگے۔ ایک لڑکا اس کی طرف بڑھا تو گدھے نے دولتی ماری جو لڑکے کے ہاتھ پر لگی۔ وہ ہائے کہہ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد کسی نے گدھے کے پاس آنے کی جرات نہ کی۔
فخرو اسی حالت میں اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔
اس کی ماں کوئی سودا خرید کر دروازے میں داخل ہورہی تھی۔
"وے فٹے منہ تیرا!" اس نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر کہا۔
فخرو نے سنی ان سنی کردی اور گدھے کو دروازے میں سے نکال کر اندر لے آیا۔
"وے تو پاگل تو نہیں ہوگیا فخرو"!
فخرو جلدی سے نیچے اترا۔ پوٹلی چارپائی پر رکھ کر اس کے اوپر کپڑے ڈال دیے۔
ماں اس کی پاگلانہ حرکتیں دیکھ دیکھ کر پاگل ہورہی تھی۔
"تیرا بیڑا غرق ہو کر کیا رہا ہے تو؟"
"ماں، چپ۔" فخرو نے اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ دیا۔
"اللہ کے لیے دروازہ بند کردو۔"
ماں تو کھڑی ہی رہی۔ فخرو نے جلدی سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔
"اماں۔"
"ہوں۔"
"خزانہ۔۔۔۔ خزانہ اماں۔"
"کیا؟"
"اللہ قسم خزانہ!"
فخرو نے کپڑے ہٹا کر پوٹلی کھولی۔ روشنی سے ماں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
"دیکھا اماں۔"
"ہیں یہ کیا؟"
"چپ اماں۔"
فخرو نے پھر پوٹلی کو کپڑوں میں چھپا دیا۔
"چچا کو بلا لاؤ اماں۔"
"تم بلا لاؤ۔"
"نہیں اماں! میں یہیں رہوں گا۔"
ماں دروازہ کھول کر چلی گئی۔
فخرو نے اندر سے کنڈی لگالی۔ گھبراہٹ میں اس کا سانس بار بار رک جاتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد باہر سے چچا کی آواز آئی، "فخرو۔"
فخرو نے دروازہ کھول دیا۔ ماں اور چچا اندر آگئے۔
"مصیبت کیا ہے؟" چچا بولا۔
فخرو نے منہ سے کچھ نہ کہا۔ کپڑے ہٹا کر پوٹلی نکالی۔ پوٹلی میں سے روشنی چھن چھن کر باہر آرہی تھی اور چچا نے جب اسے کھولا تو حیرت سے اس کے ڈیلے پھیل گئے۔
فخرو نے جلدی جلدی واردات سنا دی۔
"بس اب بالکل خاموش رہو۔ یہ ہیرے ہیں۔"
"ہیرے!" ماں اور بیٹے نے منہ سے بیک وقت کہا۔
"چپ۔۔۔۔ چپ۔۔۔۔ چپ!"
چچا پوٹلی کوٹھری کے اندر لے گیا اور اسے کہیں چھپا کر باہر آیا۔
شام سے پہلے پہلے چچا نے دو سو رپے خرچ کرکے اعلی درجے کا لباس خریدا۔ ایک اشرفی رومال میں اچھی طرح باندھی اور گھر سے نکل آیا۔ شام کے بعد لوٹا تو بہت سارا سامان اس کے ساتھ تھا۔ سب نے مل کر سامان ٹیکسی سے اتارا اور گھر کے اندر لے گئے۔
"ہمارے دن پھر گئے ہیں آپا! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ یہ گدھا ہمارے لیے رحمت بن گیا ہے۔" چچا نے کہا۔
تینوں اپنے ہاتھ گدھے کی پشت پر پھیرنے لگے۔
(جاری ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ لیجیے حضرات انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ اب آپ اگلی، اس سے اگلی اور اس سے بھی اگلی قسط ملاحظہ فرمائیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی​
پانچویں قسط​
رمضان خاں گدھا لے گیا​
(میرزا ادیب)​
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال مارچ ۱۹۹۰)​
فخرو کے خاندان کو وہ غیبی خزانہ کیا ملا اس کی تو تقدیر بدل گئی۔ چچا کالو خان ہر روز گھر کے لیے کوئی نہ کوئی نئی چیز خرید لاتا۔ ایک روز وہ ایک لمبی چوڑی دری خرید لایا۔ دوسرے روز چائے کا بڑھیا سیٹ لے آیا۔ آپا کے لیے شان دار لباس تیار کروایا گیا۔ فخرو کے لیے ایسے کپڑے گھر میں آ گئے جن کا اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔​
یہ ساری بڑی خوش گوار تبدیلی گدھے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اس لیے تینوں ہی اسے بڑا پیار کرنے لگے تھے۔ گھر کے چھوٹے سے لان میں وہ آزادی سے رہتا تھا۔ صاف سُتھری گھاس پر ہر وقت بیٹھا رہتا تھا۔ پانی اسے ایک بڑے سے شیشے کے ٹب میں دیا گیا تھا۔​
گدھا بظاہر بہت خوش تھا اور خوش کیوں نہ ہوتا اسے پیار ملا تھا اور پیار کے علاوہ اس کی خوب خاطر تواضع بھی ہو رہی تھی۔​
اس روز چچا یہ دیکھنے کے لیے کہ گدھے کے لیے ضرورت کی ہر چیز موجود ہے، دالان میں گیا، گھاس بھی موجود تھی، پانی بھی۔ اس کی نظر دیوار پر پڑی تو وہاں موٹے لفظوں میں لکھا ہوا تھا :​
"یہاں بادشاہ سلامت رہتے ہیں۔"​
یہ لفظ فخرو نے لکھے تھے۔ فخرو باقاعدگی سے اسکول کبھی نہیں گیا تھا مگر جتنا وقت اس نے وہاں صرف کیا تھا اس میں تھوڑا سا لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ چچا یہ فقرہ پڑھ کر ہنس پڑا۔​
وہ باہر آیا تو دیکھا کہ فخرو شان دار لباس پہنے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگائے کرسی پر بیٹھا ہے۔​
"میرے پیارے بھتیجے!" کالو خاں نے پیار سے کہا۔​
"پیارے چچا جان!" فخرو نے ادب اور احترام کے ساتھ ذرا جُھک کر جواب دیا۔​
"آج ارادہ کیا ہے پیارے بھتیجے؟" پیارے چچا جان! آج بادشاہ سلامت کو باہر سیر کرانے کا ارادہ ہے۔" "نہ بابا ایسا نہ کرنا۔"​
"کیوں چچا جان؟ دیکھیے نا بادشاہ سلامت ہر وقت ایک جگہ پر رہتے ہوئے گھبرا گئے ہوں گے۔ باہر ٹھنڈی ہوا میں گھومیں پھریں گے تو ان کو خوشی ہو گی۔"​
"خوشی تو ضرور ہو گی، مگر پیارے بھتیجے وہ رمضان خاں بیوپاری!" "کیسی باتیں کرتے ہیں چچا جان! اب وہ ہمارے بادشاہ سلامت کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔" اسی دوران ماں بھی آ گئی۔​
"کیا بحث ہو رہی ہے چچا بھتیجے میں؟" ماں نے آتے ہی پوچھا۔ "اماں! بات یہ ہے میں ذرا بادشاہ سلامت کو سیر کے لیے باہر لے جانا چاہتا ہوں۔"​
"بادشاہ سلامت! یہ کون ہے؟" ماں نے حیرت سے پوچھا۔​
"یہ ہیں ہمارے بادشاہ سلامت۔" فخرو نے گدھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ماں بے اختیار ہنس پڑی اور بولی، "سبحان اللہ! یہ بادشاہ سلامت بن گیا۔" "ہمارے لیے تو بادشاہ سلامت ہے نا اماں!"​
"ضرور ہے، مگر کالو خاں تم کیا کہتے ہو!" ماں نے چچا سے پوچھا۔​
"آپا! وہ جو ہے ناں رمضان خاں بیوپاری، کوئی شرارت نہ کر دے۔"​
"ہٹاؤ اُس منحوس کو۔ کچھ کرے تو سہی، اسے اندر کرا دیں گے ہم۔" ماں نے ہاتھ کو لہراتے ہوئے کہا۔​
"اچھا تمہاری مرضی۔" یہ کہہ کر چچا اور ماں دونوں چلے گئے۔ اس کے بعد فخرو نے گدھے کے گلے میں بندھی ہوئی ریشمی رسی ہاتھ میں پکڑی اور بڑے ٹھاٹ سے باہر نکا۔ وہ بازار میں چند قدم ہی چلا ہو گا کہ آنے جانے والے لوگ انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ بالخصوص اسکولوں کو جو بچے جا رہے تھے وہ ان کے پاس آ کر رُک گئے۔ فخرو اکڑ اکٹر کر چل رہا تھا۔ اسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ایک لڑکا جو کافی شریر تھا دوڑ کر فخرو کے پاس آیا۔ اس نے پہلے تو جھک کر سلام کیا، پھر بولا :​
"جناب فخرو جی!"​
"کیا بات ہے؟" فخرو نے اکڑی ہوئی گردن اس کی طرف موڑی۔" یہ خوب صورت ہرن کہاں سے آیا ہے؟" جو بچے وہاں جمع ہو گئے تھے یہ فقرہ سُن کر ہنس پڑے۔ اس سے پہلے کہ فخرو جواب دینے کی کوشش کرے ایک اور لڑکا بولا :​
"یہ ہرن نہیں ہے۔"​
"تو کیا ہے؟" پہلے لڑکے نے پوچھا۔ "یہ ایک ایسا نایاب جانور ہے جس کی نسل ختم ہو گئی ہے۔" تیسرے لڑکے نے مجمع میں سے سر نکال کر تائید کی۔ "میرا خیال ہے یورپ کے کسی چڑیا گھر سے تحفے میں بھیجا گیا ہے۔" "بالکل درست۔" کئی لڑکوں نے تائید کی۔​
"ہائے کتنا پیارا ہے۔" پہلے لڑکے نے گدھے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔​
"اور یہ دُم۔" دوسرے لڑکے نے اس کی دُم کھینچی۔ گدھے نے دولتی جھاڑی۔​
لڑکا جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ دولتی ایک اور لڑکے کے سینے میں جا لگی۔ وہ چیخا :​
"ہائے مر گیا!"​
ایک لڑکے نے گدھے پر دوہتڑ مارا۔ گدھے نے ایک مرتبہ اور دولتی جھاڑی اور بھاگ نکلا۔ لڑکے شور مچاتے ہوئے اس کے پیچھے جانے لگے۔ فخرو پریشان ہو گیا۔ اس نے پورے زور سے دوڑنے کی کوشش کی اور گدھے کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے گدھے کی رسی پکڑی ہی تھی کہ لڑکے آ گئے۔​
"مت چھوڑو اِسے۔" ایک ساتھ کئی آوزایں آئیں۔ فخرو دھکا کھا کر گر پڑا۔ لڑکوں نے گدھے کا گھیراؤ کر لیا۔​
"چھوڑو بادشاہ سلامت کو!" فخرو نے چیخ کر کہا۔​
یہ سن کر قہقہوں کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ فخرو اٹھنے کو تو اٹھ بیٹھا۔ مگر کچھ نہ کر سکا۔ لڑکے گدھے کو گھیر کر لے جا رہے تھے۔ فخرو ان کی طرف بھاگا لیکن کئی لڑکوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔​
"چھوڑو، چھوڑو مجھے۔" لڑکے اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لڑکے گدھے کو لیے چلے جا رہے تھے۔ وہ اسے کبھی کبھی پیٹ بھی دیتے تھے۔​
اچانک قریب سے ایک گرجتی ہوئی آواز آئی :​
"چھوڑو بدتمیزو!"​
فخرو نے اُدھر دیکھا۔ کچھ دور رمضان خاں بیوپاری کھڑا تھا۔​
"چھوڑو دو ورنہ ہڈیاں توڑ دوں گا۔" لڑکوں نے ایک لحیم شحیم آدمی کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو رفو چکر ہو گئے۔​
"واہ وا فخرو میاں! کیا شان ہے! سبحان اللہ!" رمضان خاں نے فخرو کے دائیں شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔​
"بڑی مہربانی خاں صاحب!"​
"ارے مہربانی کیسی ہم تو تمہارے خادم ہیں، خادم!" "شرمندہ نہ کریں۔ آج آپ نے میری بڑی مدد کی ہے۔" فخرو نے بڑے خلوص سے کہا۔ "میں نے کہا نا ہم تو تیرے خادم ہیں۔ کوئی ہمارے فخرو کو تنگ کر کے تو دیکھے، ہڈیاں مروڑ دیں گے اس کی۔"​
رمضان خاں کو یوں للکارتے ہوئے دیکھ کر کچھ لوگ وہاں جمع ہو گئے۔​
"ارے تم کیا تماشا دیکھنے آئے ہو!" رمضان خاں گرجا۔ وہ لوگ تتر بتر ہو گئے۔​
"اچھا خاں صاحب!" فخرو نے اپنے بادشاہ سلامت کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا، "چل بادشاہ سلامت!"​
"کیا کہا؟" رمضان خاں نے حیران ہو کر پوچھا۔​
"یہ بادشاہ سلامت ہیں۔" "یہ جناب گدھا صاحب؟"​
"جی بادشاہ سلامت کہیے خاں صاحب!" رمضان نے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر رکھ دیئے۔​
"غلطی ہو گئی، معاف کرنا۔ یہ گدھا صاحب نہیں بادشاہ سلامت ہیں۔ معاف کر دیا نا؟"​
"کوئی بات نہیں،" فخرو نے کہا۔ "فخرو دوست!" رمضان خاں نے فخرو کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ "جی خاں صاحب!"​
"ایک بات ہے۔ ذرا میرے ساتھ ایک شان دار ہوٹل میں چل کر چائے پی لو۔ اللہ قسم مزہ آ جائے گا۔"​
"نہ خاں صاحب! کیوں تکلیف کرتے ہیں۔" "میری خوشی اسی میں ہے۔"​
"تو میری خوشی بھی اسی میں ہے۔" دونوں ایک قریبی ریستوران کے گئے۔ اب معاملہ گدھے کا تھا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔​
"اسے تو اندر نہیں لے جا سکتے۔" رمضان خاں نے کہا۔ "کوئی بات نہیں۔ بادشاہ سلامت باہر رہیں گے۔"​
رمضان خاں فکر مند ہو گیا کہ کوئی اسے لے نہ جائے۔ فخرو نے اس کی فکر مندی بھانپ لی اور بولا:​
"خاں صاحب! یہ بادشاہ سلامت بڑے ہی بادشاہ سلامت ہیں۔ کوئی ان کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔ دولتیاں جھاڑنے میں ان کا جواب نہیں ہے۔"​
"تو ٹھیک ہے۔" رمضان خاں کو اطمینان ہو گیا۔​
فخرو نے گدھا ریستوراں کے باہر کھڑا کر دیا اور دونوں اندر چلے گئے۔ فخرو کو ایک بڑی اور شان دار ریستوراں کے اندر جانے کا زندگی میں پہلا موقع ملا تھا۔ وہ رونق، شان و شوکت دیکھ کر حیران و پریشان ہو گیا۔ رمضان خاں نے اسے ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھا دیا۔ فضا میں ہلکی ہلکی موسیقی کی لہریں سی تیر رہی تھی۔ باوردی بیرے ٹرے اٹھائے ادھر سے ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔​
ایک بیرا ادب سے فخرو کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔​
"کیا کھاؤ گے فخرو میاں؟" رمضان خاں نے فخرو سے پوچھا۔ فخرو بھلا کیا جواب دیتا۔ بولا، "خاں صاحب! جو آپ پسند کریں۔"​
"اچھا ٹھیک ہے۔" اور رمضان خاں نے بیرے کو آرڈر دیا :​
"لے آؤ پیسٹری، کیک، کباب اور جو کچھ ہے۔"​
بیرا مسکرا کر چلا گیا۔ چند منٹ بعد ان کی میز پر ڈھیروں چیزیں رکھی تھیں۔ گلاب جامن، پیسٹری، کیک، کباب وغیرہ۔​
"کھاؤ یہ سب کچھ تمہارے لیے ہے۔" آپ کھائیں۔" "تو بسم اللہ۔" رمضان خاں نے گلاب جامن اٹھا کر منھ میں ڈال لی۔ یہی کام فخرونے کیا۔ رمضان خاں نے پیسٹری کا ایک ٹکڑا اٹھایا۔ اس کے گرد جو کاغذ لپٹا ہوا تھا اسے اتارا اور اسے بھی منھ میں رکھ لیا۔​
فخرو نے اُسے کاغذ اتارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس نے اُسی طرح پیسٹری دانتوں کے درمیان رکھ لی۔​
سامنے میز کے گرد جو دو آدمی بیٹھے تھے وہ بڑی دل چسپی سے فخرو کو دیکھ رہے تھے۔ ایک تو فخرو کے منھ کے اندر کاغذ تھا اور پھر ان دو آدمیوں کی طنزیہ نظریں ۔ فخرو کو پیسٹری حلق سے اُتارنا مشکل ہو گیا۔ عجیب حالت ہو گئی اس کے چہرے کی۔ ایک بیرے نے جلدی سے پانی کا گلاس اسے دیا۔ پانی کے دو گھونٹ پی کر اس کی مشکل دور ہو گئی۔​
اس کے بعد فخرو نے کوئی پیسٹری نہ کھائی۔ دوسری چیزیں کھاتا رہا۔ جب سیر شکم ہو گیا تو رمضان خاں نے کہا، "فخرو بیٹا٬" "جی خاں صاحب!"​
"اللہ نے بڑا احسان کیا ہے تم پر۔ تمہارے چچا کی دکان خوب چل رہی ہے۔ بڑا مال آ رہا ہے۔یہ قیمتی کپڑے۔ سبحان اللہ۔"​
یہ کہتے ہوئے رمضان نے فخرو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔​
"خاک دُکان چلتی ہے خاں صاحب!" فخرو کی بات سن کر رمضان مسکرنے لگا۔ "تو میاں! یہ مال آیا کہاں سے؟" فخرو نے بے دھڑک کہہ دیا، "یہ بادشاہ سلامت کی مہربانی ہے۔"​
رمضان خاں نے بیرے کو اور چیزیں لانے کے لیے کہا، مگر فخرو نے کہا :​
"بس خاں صاحب! پیٹ بھر گیا ہے۔"​
"آج تو میرا دل چاہتا ہے ساری دنیا کی نعمتیں تمہارے آگے ڈھیر کر دوں۔"​
رمضان خاں ذرا رُکا اور پھر بولا، "میرے پیارے بھتیجے یہ تو بتاؤ بادشاہ سلامت نے مہربانی کی کیسے؟"​
فخرو نے وہ سارا واقعہ سنا دیا جس میں خزانہ ملا تھا۔​
رمضان خاں ساری رؤداد چپ چاپ بڑی توجہ سے سنتا رہا۔ جب فخرو سب کچھ سںا کر خاموش ہو گیا تو رمضان خاں کنے لگا :​
"فخرو بیٹا! یہ اللہ کی دین ہے۔ وہ نیلی چھتری والا جس کو چاہے دے جس کو چاہے نہ دے۔ تم بڑے خوش قسمت ہو۔ اللہ تمہیں اور خزانہ دے۔"​
دونوں اٹھے اور باہر آئے۔ گدھا وہیں کھڑا تھا۔​
"معاف کرنا بادشاہ سلامت! تمہیں تکلیف دی۔" فخرو نے گدھے کے سامنے جُھک کر کہا۔ "فکر نہ کرو بیٹا! بادشاہ سلامت بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ معاف کر دیا ہے تمہیں۔" یہ کہہ کر رمضان خاں گدھے کی پُشت پر ذرا ہاتھ پھیرتے ہوئے تڑپ کر بولا : "اُف میرے اللہ!" خاں صاحب نے جلدی سے ہاتھ اپنے کُرتے پر ملتے ہوئے کہا۔​
"کیا ہوا خاں صاحب؟" "میرے اختیار میں ہو تو ان شریر لڑکوں کو مار مار کر گنجا کر دوں۔ ان کی ہڈیاں توڑ ڈالو۔" "ہوا کیا ہے آخر؟" رمضان خاں نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا :​
"تم دیکھ نہیں رہے۔ ان ظالموں نے بادشا سلامت کو مارا ہے۔ کان بُری طرح مروڑے ہیں۔ پتا نہیں میں نے کس طرح ہاتھ پھیرا ہے۔ میرے ہاتھوں پر خون لگ گیا ہے۔ توبہ تونہ اللہ کی بے زبان مخلوق پر یہ ظلم!"​
"اچھا!" فخرو نے رمضان خاں کی بات پر یقین کر لیا۔​
"اس پر ایک خاص مرہم لگایا جائے تو آرام آئے گا۔" "خاص مرہم کہاں سے ملے گا؟"​
فخرو نے پوچھا۔ "بازار میں نہیں ملتا۔ اس پورے شہر میں نہیں ہے۔ میرے دادا جان نہ جانے کہاں سے لائے۔ زخموں کے لیے تریاق ہے۔صرف ہمارے گھر میں ہے۔" "تو مجھے دے دیں مہربانی ہو گی۔"​
رمضان خاں نے انکار میں سر ہلایا، " اس کے لگانے کا خاص طریقہ ہے۔ صرف میں لگا سکتا ہوں یا میری بوڑھی ماں۔" "تو کیا کیا جائے؟" "بیٹا! اسے صرف ایک رات کے لیے چھوڑ جاؤ۔ کل سویرے تمہارے گھر میں ہو گا۔"​
فخرو کے چہرے کے اثرات بتا رہے تھے کہ اسے یہ بات منظور نہیں ہے۔ رمضان نے پھر کہا، "پیارے بھتیجے! اپنے چاچے کی بات پر شک کرتے ہو۔ لعنت ہے ایسے چاچے پر۔"​
"نہیں خاں صاحب! میں بھلا کیا کہہ سکتا ہوں۔ مگر میری ماں اور میرا چچا!"​
"انہیں راضی کرنا میرا کام ہے۔" رمضان خاں نے گدھے کی رسی پکڑ لی اور دونوں چلنے لگے۔ گدھا بھی ساتھ چل رہا تھا۔​
(جاری ہے)​
 

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی​
چھٹی قسط​
گدھے کی کارستانی​
(میرزا ادیب)​
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال اپریل ۱۹۹۰)​
فخرو نے اپنے گھر کی راہ لی تو رمضان خاں بہت خوش خوش گدھے کی رسی پکڑے اپنے مکان کی طرف جانے لگا۔ وہ چلتے ہئے بڑے سُہانے خواب دیکھ رہا تھا۔ خزانہ پانے کی امید میں اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا تھا۔​
اپنے مکان پر پہنچا تو دیکھا کہ گھر کے بیرونی دروازے پر بڑا سا تالا لگا ہوا ہے۔​
"یہ کم بخت کہاں چلی گئی؟" اس کی بیوی کبھی کبھی دروازے پر تالا لگا کر اپنے میکے چلی جاتی تھی اور چابی ساتھ والے گھر میں دے جاتی تھی۔ رمضان خاں سوچ ہی رہا تھا کہ ساتھ والے گھر کا ایک بچہ چابی لے کر آ گیا۔​
"یہ چابی دے گئی ہیں چاچی!" بچے نے کہا۔​
"اچھا! کب آئیں گی۔ کچھ کہہ کر گئی ہیں؟" رمضان خاں نے بچے سے پوچھا۔​
"کہہ رہی تھیں جلد ہی آ جاؤں گی۔"​
رمضان خاں نے گھر کا دروازہ کھولا اور گدھے کو سب سے آخری کمرے میں بند کر دیا اور باورچی خانے میں جا کر حلوے کی پلیٹ لے آیا۔ یہ حلوا رات کو اس بیوی نے بنایا تھا اور اس کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ رمضان خاں چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ممکن ہو گدھے کو لیکر خزانے کی تلاش میں روانہ ہو جائے، مگر فخرو نے اسے بتایا تھا کہ وہ صبح سویرے گھر سے نکلا تھا تو اسے بھی صبح سویرے ہی نکلنا چاہیے۔ اس نے یہ ارادہ کر لیا، مگر اس کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی اور دل میں ڈرتا بھی تھا کہ جب وہ گدھے کے ساتھ باہر جائے گا تو محلے والے اور دوسرے لوگ ضرور اُسے دیکھیں گے اور پوچھیں گے بھئی کہاں جا رہے ہو۔ وہ کسی کو کیا بتائے گا؟ سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ شام کے اندھیرے میں نکلے تاکہ کوئی شخص اس سے کوئی سوال نہ کرے۔​
وقت گزارنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس نے یہ کیا کہ گھر کو تالا لگا کر چابی ہمسائے کے ہاں دے کر منڈی کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ وقت گزر جائے اور وہ شام کے اندھیرے میں روانہ ہو سکے۔​
ایک گھنٹے کے بعد اس کی بیوی آ گئی۔ بچے نے اسے بتایا کہ چاچا آئے تھے اور گدھے کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔​
"یہ مصیبت پھر آ گئی!" رمضان کی بیوی خدیجہ نے چابی لی، تالا کھولا اور اندر چلی گئی۔ آخری کمرے کی باہر کی کُنڈی لگی ہوئی تھی۔ اس نے کنڈی کھولی، ذرا آگے بڑھی تھی کہ گدھے نے دولتی جھاڑی جو اُس کے پیٹ پر لگی۔ خدیجہ ہائے کر کے بیٹھ گئی۔ غصے سے اس کا بُرا حال تھا۔ ذرا سنبھلی تو گدھے کی پشت پر زور سے دوہتڑ مارا۔ گدھے نے پھر دولتی ماری۔ دوسری مرتبہ دولتی کھا کر اس کا پارا کافی چڑھ گیا۔​
"ٹھہر تو ذرا! کرتی ہوں تیرا قیمہ۔" یہ کہہ کر وہ باہر نکلی اور ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھا لائی۔ خود ذرا دور رہ کر اس نے گدھے پر ڈنڈا برسانا شروع کر دیا۔​
"تیرا قیمہ نہ بنا دوں تو میرا نام خدیجہ نہیں۔" وہ اسے ڈنڈے مارتی گئی مارتی گئی، مگر گدھا پُر سکون کھڑا رہا۔​
"کوئی بلا ہے یہ!" وہ دل میں ڈر گئی اور پھولے ہوئے سانس کے ساتھ باہر نکل کر بھاگتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی۔ چند منٹ بعد اپنے لیے چائے بنانے لگی۔ کیتلی کے پانی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس نے چائے کی پتی نکالنے کے لیے الماری کھول کر ڈبا نکالا تو یکایک اس کی نگاہ دروازے پر پڑ گئی۔ گدھا باہر کھڑا تھا اور اس کی سر باورچی خانے کے اندر تھا۔ وہ ڈر کر بولی، "چل دفع دور ہو۔" اس نے چائے کا ڈبہ گدھے کے سر پر دے مارا۔ سر فوراً پیچھے ہٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ تیزی سے نکلی اور ڈرائنگ روم میں چلی گئی اور ابھی صوفے پر بیٹھنا ہی چاہ رہی تھی کہ گدھے نے اپنی تھوتھنی دروازے کے اندر ڈال کر اسے خوف زدہ کر دیا۔​
"یہاں بھی آ گئی بلا!"​
وہ اُٹھی اور دوسرا دروازہ کھول کر نکل بھاگی۔ بے خیالی میں وہ آخری کمرے تک چلی گئی۔ باہر ہی سے اس نے دیکھا کہ گدھا اندر تھا۔ "ہیں یہ تو اندر ہے! کیسے میرے پیچھے آ گیا۔" ڈر کے مارے اس کا بُرا حال تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور دوبارہ ڈرائنگ روم میں آ گئی۔​
سامنے ایک دروازے کا پردہ ہل رہا تھا۔ اس نے جو اُدھر دیکھا تو یہ دیکھ کر سخت حیران اور خوف زدہ ہو گئی کہ پردے کے پیچھے گدھے کے پاؤں دکھائی دے رہے تھے۔ وہاں سے نکل کر وہ سونے کے کمرے میں چلی گئی اور جلدی سے لحاف اپنے اوپر ڈال لیا۔ دو تین منٹ کے بعد اس نے لحاف سے منھ ذرا باہر نکال کر دیکھا۔ گدھا اندر آ رہا تھا۔ اس نے تکیہ گدھے کی طر پھینکا۔ تکیہ اس کے جسم سے لگ کر فرش پر گر پڑا۔ اس نے دوبارہ چہرہ لحاف کے اندر کر لیا۔ وہ لحاف کے اندر چُھپی رہی کہ ہمسائے کا لڑکا آ کر بولا، "چاچی! باہر وہ آئے ہیں۔"​
خدیجہ نے یہ آواز سنی تو چہرے سے لحاف ہٹا کر کہا، "اصغٖر!"​
"جی چاچی!" "وہ بلا!" اصغر اس کی بات سمجھ نہ سکا۔ "وہ گدھا دیکھا ہے اصغر!" "نہیں"​
"جاؤ اپنے ابا کو بلا لاؤ، جلدی کرو۔"​
اصغر بھاگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اصغر کا ابا آ گیا اور بولو، "کیا ہوا بھابھی؟"​
"یہ گدھا۔۔۔ بڑی بلا ہے۔۔۔ مار ڈالے گا مجھے۔" اصغر کا باپ ہنس پڑا۔​
گدھا مار ڈالے گا۔ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟"​
"یہ بلا ہے۔ اس کے اندر کوئی بہت بڑی بلا چھپی ہوئی ہے۔" وہ پھر ہنس پڑا۔​
"کیا ہو گیا ہے بھابی آپ کو!"​
"تم نہیں جانتے۔ میں جانتی ہوں۔ اللہ کے لیے اسے یہاں سے نکال دو۔"​
"بھابی وہی لوگ آئے ہیں۔ فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں۔"​
"اللہ کے لیے جلدی سے اس بلا کو ان کے حوالے کر دو۔ جلدی۔" "بھابی آپ تو باہر آئیں۔" "نہ نہ مجھے اس منحوس سے ڈر لگتا ہے۔ جلدی اسے ان کو دے دو۔"​
"مگر وہ ہے کہا؟" "یہیں تھا۔" "یہاں تو کوئی نہیں۔" "کہیں ہو گا، جلدی کرو۔ دالان کے ساتھ والے کمرے میں دیکھو۔"​
اصغر کا ابا وہاں چلا گیا۔ خدیجہ بھی آہستہ آہستہ باہر آئی۔ اصغر کا ابا مسکراتا ہوا آ رہا تھا۔ "بھابی! وہ تو بڑے آرام سے وہاں ہے۔ دالان کے ساتھ والے کمرے میں۔"​
"فوراً دے دو۔"​
اصغر کا ابا جانے ہی لگا تھا کہ اس کا بیٹا انور آ گیا۔​
"تو کہاں مر گیا تھا؟ وہ بلا مجھے مار ڈالتی تو!"​
"اماں میں دریا پر گیا تھا۔ اور اماں! وہ فخرو۔۔۔"​
انور نے اپنا فقرہ مکمل بھی نہین کیا تھا کہ اس کی ماں چیخ کر بولی، "حوالے کر دو ان کے۔"​
"اماں! ابا جان۔"​
خدیجہ نے پھر اس کی بات کاٹ کر کہا، "میں جو کہتی ہوں۔ حوالے کرو ان کے، نکالو اسے میرے گھر سے۔ فوراً دھکا دو۔"​
انور خاموش کھڑا رہا۔ اصغر کا باپ آ گیا اور بولا :​
"حوالے کر دیا ہے ان کے!"​
"شکر ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے وہ ایک بلا ہے۔ بلا بھی چھوٹی نہیں۔ بہت بڑی بلا۔"​
اصغر کا باپ ہنس پڑا۔ "بھابی! آپ تو خوامخواہ ڈر رہی ہیں۔" "ایک گدھے سے!" انور بولا۔​
"خاموش رہ۔ تو گھر کے باہر تھا۔ کیا پتا تجھے اس بلا نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔" "ایک گدھا کیا کر سکتا ہے، اماں!"​
خدیجہ نے غصے میں اپنے بیٹے کے گال پر زور سے تھپڑ مارا۔​
"میں بکواس کر رہی ہوں۔ مخول سمجھتا ہے میری بات کو۔ دُور ہو جا میری آنکھوں سے۔" انور گال پر ہاتھ رکھے چلا گیا۔​
"بھابی! آج تم کو ہو کیا گیا ہے؟"​
"پاگل ہو گئی ہوں۔ دماغ پھر گیا ہے میرا۔ بس، چھوڑ دو مجھے۔" اس لمحے رمضان خاں آ گیا۔ "یہ گھر کے دروازے پر کیا میلا لگا ہے؟ ہوا کیا ہے؟" رمضان خاں نے بیوی سے پوچھا۔ بیوی کے بجائے اصغر کے باپ نے جواب دیا، "بھابی ڈر گئی ہیں۔"​
"کس سے؟" "وہ جو گدھا ہے نا؟" "ہاں جسے میں نے دو سو روپے میں خریدا تھا۔ اس کمرے میں ہے۔"​
"اب نہیں ہے۔" "کیا کہا اب نہیں ہے!" "اُسے فخرو وغیرہ لے گئے ہیں۔"​
"لے گئے ہیں۔ کیسے لے گئے ہیں۔ کس نے دیا ہے انہیں؟"​
"میں نے دیا ہے۔" " کیوں؟" غصے سے رمضان خاں کا چہرہ تمتمانے لگا۔​
"بھابی اس سے بُری طرح ڈر گئی تھیں۔" "میری سمجھ میں خاک بھی نہیں آیا۔ خدیجہ یہ کیا معاملہ ہے؟"​
خدیجہ بھری بیٹھی تھی، بول اٹھی :​
"اگر وہ بلا یہاں رہے گی تو میں ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہوں گا۔ کہہ دیا ہے میں نے۔ اب اسے بالکل نہیں لانا۔"​
"خدیجہ!" رمضان خاں نے نرمی سے کہا، "میں نے اسے دو سو کی رقم دے کر خریدا ہے۔"​
"بھاڑ میں جائے دو سو کی رقم۔ میرا آخری فیصلہ ہے۔ اسے لاؤ گے تو میں یہاں نہیں رہوں گی۔ بالکل نہیں رہوں گی۔"​
"مگر کیوں؟" اب کے اصغر کے ابا نے جواب دیا، "رمضان خاں بھابی کہتی ہے اس گدھے کے اندر کوئی بلا چُھپی ہوئی ہے۔"​
"چھوٹی نہیں، بہت بڑی بلا ۔" خدیجہ نے کہا۔ "پاگل ہو گئی ہو۔ وہ گدھا ہے۔"​
"گدھا نہیں ہے۔" "تو کیا انسان ہے۔" "بلا ہے۔ بس میں نے کہہ جو دیا ہے کہ وہ یہاں آیا تو میں ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہوں گی۔"​
میاں بیوی میں جھگڑا بڑھتا جا رہا تھا۔ اصغر کے ابا نے صلح صفائی کرانی چاہی :​
"رمضان خاں لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت چُپ ہو جاؤ۔ بھابی، تم بھی چُپ ہو جاؤ۔"​
یہ کہتے ہوئے اصغر کا ابا رمضان خاں کو اپنے ساتھ لے گیا۔​
رات کو خدیجہ پلنگ پر لیٹنے کو تو لیٹ گئی، مگر نیندکہاں اس کی آنکھوں میں۔ بار بار کروٹ بدلتی تھی اور دروازے کی طرف دیکھتی تھی۔​
رمضان خاں قریبی پلنگ پر بیٹھا لیجر میں حساب کتاب لکھ رہا تھا اور کن انکھیوں سے بیوی کو دیکھتا بھی جاتا تھا۔​
خدیجہ اٹھ بیٹھی اور پلنگ سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ "خدیجہ! کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ وہ گدھا ہے، لیکن عام گدھا نہیں ہے۔ اس کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتیں۔"​
"اور جو کچھ میں جان گئی ہوں اس سے تم بے خبر ہو۔" خدیجہ بولی۔​
"مثلاً کیا جان گئی ہو؟"​
"اس کے اند بلا چُھپی ہوئی ہے۔"​
"خدیجہ! سنو ذرا صبر سے سنو۔ اس کے اندر بلا چُھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ ۔۔۔"​
"بلکہ کیا؟" خدیجہ نے پوچھا۔​
"میں بتا نہیں سکتا کہ اس کے اندر ہے کیا۔ اور جو کچھ ہے اس کے ذریعہ سے ہم ایک دن کے اندر اندر لکھ پتی بن سکتے ہیں۔ میں بتاتا ہوں تمہیں کیسے۔"​
رمضان نے جو کچھ فخرو سے سُنا تھا، بیوی کو سُنا دیا۔​
"اب تم ہی بتاؤ اس کے اندر کیا چُھپا ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں صرف ایک دن کے لیے مجھے یہ گدھا مل جائے تو میں اپنے گھر میں خزانہ لا سکتا ہوں۔"​
"خزانہ؟"​
"خزانہ نہیں تو اور کیا۔ فخرو خزانہ ہی تو لایا تھا۔"​
خدیجہ سوچ میں ڈوب گئی۔​
(جاری ہے)​
 

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی
ساتویں قسط
رمضان خاں کی قسمت
(میرزا ادیب)
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال مئی ۱۹۹۰)
"آج کیا پکائیں فخرو پُتر؟" دیگچی مانجھتے ہوئے فخرو کی ماں نے فخرو سے پوچھا۔
"إماں جو پکانا چاہیں پکا لیں۔" فخرو نے جواب دیا۔
"پُتر! ہر روز پلاؤ، زردہ، قورمہ، چکن، بُھنا ہوا گوشت، تیتر اور بٹیرے کھا کھا کر میں تو تنگ آ گئی ہوں۔" ماں نے کہا۔
"تو اماں کوئی نئی چیز پکا لو آج۔"
ماں نے ذرا سوچ کر کہا، "پُتر میرا تو جی چاہتا ہے کہ آج وہی کچھ کھائیں جو پہلے کھایا کرتے تھے۔ دال، چاول، کیوں؟"
"بالکل ٹھیک اماں۔" فخرو نے ناشتے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
"دکان سے لے آؤ۔" "کیا؟" "ایک سیر چاول۔" فخرو نلکے کے نیچے ہاتھ دھونے لگا۔ "ایک سیر چاول! نہ اماں۔"
"تو کیا ایک من پکاؤں۔ آدھا سیر چاول کافی نہیں ہم تینوں کے لیے؟"
"اماں! مجھے اپنی دکان سے بھی ایک سیر چاول لاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ منڈی جا کر ایک بوری خرید کر لاؤں گا۔ اس سے کم نہیں۔"
"اکھٹی ایک بوری! پاگل ہو گئے ہو کیا؟"
"ہاں اماں! اس سے کم کیا لاؤں۔ اب ہم امیر ہو گئے ہیں۔ امیر آدمی ڈھیر ساری چیزیں خریدا کرتے ہیں۔"
ماں ہنس پڑی، "اچھا چنے کی دال بھی لے آنا۔ آج ہی تو پکانی ہے۔ آدھا سیر نہیں سیر لے آنا۔ پھر کبھی جی چاہا تو پکا لیں گے۔"
فخرو نے دالان والے کمرے کے دروازے میں سے اندر جھانکا۔ "بادشاہ سلامت آئیے ذرا منڈی چلیں۔" فخرو اپنے گدھے کی رسی تھام کر اسے باہر لانے لگا۔
"اماں شرم آتی ہے۔"
"فخرو! آج تمہیں بار بار شرم کیوں آ رہی ہے؟ ایک سیر چاول لاتے ہوئے شرم آتی ہے، اب گدھے کو باہر لے جاتے ہوئے شرم آنے لگی ہے۔"
"باہر جاتے ہوئے شرم نہیں اماں۔۔۔ "
"تو پھر؟"
"اماں! یہ ہیں بادشاہ سلامت، بوجھ اٹھائیں گے؟"
ماں بے اختیار ہنس پڑی، "باؤلے تو نہیں ہو گئے فخرو، تم اسے بادشاہ سلامت سمجھتے ہو تو سمجھا کرو، ہے تو گدھا نا!
فخرو نے جلدی سے اپنے دائیں ہاتھ کی اُنگلی ہونٹوں پر رکھ کر ماں کو چپ ہو جانے کا اشارہ کیا، "اماں! یہ تو ۔۔۔ ۔" فخرو کو ایسے الفاظ نہیں ملے جن سے وہ گدھے کے متعلق کوئی تعریفی کلمہ کہتا۔
"خیر اب جاؤ باتیں نہ بناؤ۔"
فخرو گدھے کی رسی پکڑ کر چلنے لگا۔ وہ منڈی میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگ اناج کی بوریاں ریڑھوں پر رکھ رہے ہیں۔ اس نے ایک ریڑھے والے سے چاول کی بوری لے جانے کی بات کی۔ ریڑھے والے نے پیسے بتا دیئے۔ اس ریڑھے والے نے ایک قریبی بیوپاری سے چاول کی بوری اٹھا کر اپنے ریڑھے پر رکھ دی اور دال کا لفافہ بھی رکھ دیا۔
"پیسے؟" فخرو نے بیوپاری سے پوچھا۔
"کوئی پیسہ ویسہ نہیں جناب!"
فخرو یہ فقرہ سُن کر حیران ہو گیا، "جی میں نے چاول کی بوری اور دال کی جو قیمت ہے وہ پوچھی ہے۔"
"اور میں نے بھی اسی کا جواب دیا ہے۔" بیوپاری مسکرا رہا تھا۔
"کیا مطلب؟" فخرو نے گھبرا کر پوچھا۔
"مطلب وطلب کچھ نہیں۔ پیسہ دھیلا کچھ نہیں۔"
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟" فخرو جیب سے نوٹ نکال کر انہیں ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا۔
"آپ لے جائیں بسم اللہ۔"
"مگر میں کیسے لے جاؤں قیمت ادا کیے بغیر!"
"میں نے اس کی قیمت لے لی ہے۔" بیوپاری برابر مسکرائے جا رہا تھا۔
"نہیں لی۔ میں نے ادا نہیں کی۔" فخرو نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
"آپ نے ادا نہیں کی۔ کسی اور نے ادا کر دی ہے برخوردار!"
"کس نے؟" "ملنا چاہتے ہو؟" "کیوں نہیں؟" "تو آؤ۔"
بیوپاری اسے ایک دُکان کےاندر لے گیا۔ آخری دیوار میں ایک دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔ بیوپاری اس میں سے گزرنے لگا۔
"آ جاؤ بھئی!" اس نے دروازے میں سے نکلتے ہوئے کہا۔
فخرو اپنے گدھے کی رسی پکڑے دروازے میں سے گزرنے لگا۔
دروازے سے کچھ دور ایک چارپائی کے اوپر ایک شخص بیٹھا حقا پی رہا تھا۔ فخرو کی طرف اس کی پیٹھ تھی، اس لیے فخرو اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ بیوپاری چُپکے سے کھسک گیا۔ فخرو آگے بڑھا۔ چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص نے منھ اس کی طرف پھیرا۔ یہ رمضان تھا جو اس کو دیکھ کر بولو، "آؤ میرے پیارے بھتیجے!"
"خان صاحب! یہ کیا؟" فخرو اور کچھ نہ کہہ سکا۔
"ارے بیٹھ تو جاؤ۔" رمضان خاں نے چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔
"چاول اور دال کے پیسے آپ نے کیوں دیئے؟"
"تو کیا ہوا۔ ہمارا حساب چلتا رہتا ہے۔"
رمضان خاں گدھے کو دیکھنے لگا۔ "بادشاہ سلامت بھی خیریت سے ہیں نا!"
فخرو نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ "آپ نے پیسے کیوں دیئے"
"پاگلوں کی سی بات کیوں کرتے ہو؟ میاں! تم ٹھہرے ہمارے بھتیجے اور میں تمہارا چچا! میں نے پیسے دے دیئے تو کیا ہوا۔"
"شکریہ بہت بہت مگر ۔۔۔ ۔۔"
"ارے پیارے بھتیجے! اس میں شکریے کی کیا بات ہے۔ اللہ جانتا ہے مجھے تم سے کتنی محبت ہے، پیار ہے۔ اب میں تم سے کبھی دو سو روپے نہیں مانگوں گا۔ گدھا نہیں مانگوں گا۔ مجھے بتاؤ میں تمہاری کیا خدمت کر سکتا ہوں۔"
فخرو شرمندہ ہو گیا۔ "چچا جان! ایسا مت کہیں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں۔"
"تم پیارے بھتیجے ہو۔ میں کچھ نہیں کہوں گا۔ کچھ نہیں مانگوں گا۔"
ایک شخص شربت کے دو گلاس لے آیا۔ "پیو بیٹا!" رمضان خاں نے ایک گلاس فخرو کی طرف بڑھایا۔
"مجھے بڑا شرمندہ کر رہے ہیں۔" فخرو نے شربت کا گلاس خالی کر دیا۔ رمضان خاں نے دوسرا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔ "توبہ توبہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟"
"پی لو بیٹا!"
"نہیں جی یہ آپ پیئیں۔" رمضان نے گلاس ہاتھ میں لے لیا اور گھونٹ گھونٹ پی لیا۔
"تو خاں صاحب!"
"پھر خاں صاحب۔ چچا جان کہتےہوئے شرم آتی ہے۔" رمضان خاں اسے ڈانٹنے لگا۔
"اوہ معاف کر دیجیے۔ تو چچا جان! بتائیے نا میں کیا کروں۔"
رمضان خاں کسی سوچ میں پڑ گیا۔ کئی لمحے بیت گئے۔ گلاس آدھا ہو چکا تھا۔ رمضان خاں نے اسے نیچے رکھ دیا۔ "تم میرے بھتیجے! کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ بڑی معمولی بات ہے۔"
"بتائیے نا۔"
بتانے کو تو بتا دیتا ہوں، پر دیکھنا مجھے شرمندہ نہ کر دینا۔" رمضان خاں نے حُقے کے دو لمبے لمبے کش لگائے۔ فخرو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ "چاہتا تھا ذرا قسمت آزمائی کر لوں، بس۔"
"وہ کیسے؟"
"ہو سکتا ہے کہ قسمت مجھ پر بھی مہربان ہو جائے اور مجھے بھی کچھ مل جائے۔ عزیز بھتیجے! تمہارا بادشاہ سلامت مجھے بھی وہاں لے جائے جہاں کوئی خزانہ دبا ہوا ہو۔"
فخرو سناٹے میں آ گیا۔ رمضان خاں نے اس کی کیفیت بھانپ لی۔ "پیارے بھتیجے! میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم یوں کرو اپنے گھر چلے جاؤ۔ چاول کی بوری اور دال تھوڑی دیر بعد تمہارے گھر پہنچ جائے گی۔"
فخرو نے محسوس کیا کہ اس کی آواز بھرا گئی ہے۔ اس کا دل نرم پڑ گیا۔ "چچا جان!"
"کہو بیٹے"
"ایسا ہو گا نہیں، یہ بادشاہ سلامت ۔۔۔ ۔"
"میرا کام نہیں کریں گے۔ یہ کہنا چاہتے ہو؟" فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔
"یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔ قسمت سے تو لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ اچھا بھتیجے! میری ضرورت ہو تو مجھے یاد کر لینا۔"
رمضان خاں خاموشی سے حُقے کے کش لگانے لگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ "فخرو! جاؤ بیٹا تمہاری ماں تمہاری راہ دیکھ رہی ہو گی۔" رمضان خاں نے دائیں ہاتھ سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔ فخرو نے رمضان خاں کے مایوس چہرے کو دیکھا۔ اس کو رحم آ گیا، "چچا جان!"
"کہو بھتیجے۔"
"یہ بھلا ہو گا کیسے؟"
رمضان خاں نے حُقے کی نے منھ سے نکال کر فخرو کو غور سے دیکھا اور بولا، "بڑی آسان ترکیب ہے۔ تم اس کے اوپر لیٹ کر گئے تھے، ہم اسے آزاد چھوڑ دیں گے۔ جدھر جانا چاہے چلا جائے۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ پھر جو کچھ ہونا ہو گا ہو جائے گا۔" فخرو نے حیرت اور دل چسپی سے اس کی ترکیب سُنی۔
"کیوں میرے پیارے بھتیجے! کیسی ترکیب ہے؟" فخرو خاموش رہا۔
"میں تو پہلے ہی سمجھتا تھا کہ تم مانو گے نہیں۔"
"میں مان گیا ہوں۔"
"واہ وا، میرے عزیز ترین بھتیجے!" رمضان خاں نے فخرو کو خود سے لپٹا لیا۔
"پھر کب؟" رمضان خاں نے چند لمحوں کے بعد پوچھا۔
"جب آپ مناسب سمجھیں۔"
"آج کیسا رہے گا؟" رمضان خاں کی آواز سے اس کے دل کی بے تابی ظاہر ہو رہی تھی۔
"ابھی تو دن کا اُجالا ہے۔"
"تو شام کو!"
"ٹھیک ہے۔ میں آ جاؤں گا۔ آپ کے گھر شام کو۔"
فخرو کے جانے کے بعد رمضان خاں وہیں بیٹھا رہا۔ بار بار خوشی سے اس کا چہرہ دمک اُٹھتا تھا۔ ریڑھا چاول اور دال چھوڑ کر واپس آ گیا تو رمضان خاں نے اپنے گھر کی راہ لی۔
"خدیجہ!" اس نے اپنی بیوی کو اپنے کمرے میں بُلا کر کہا، "آج بہت کچھ ہونے والا ہے۔"
"کیا ہونے والا ہے؟" بیوی کی آواز خاصی بلند بھی۔
"آہستہ بولو۔ دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں۔ سنو! خزانہ ۔۔۔ "
"کیا؟"
"خزانہ ملنے والا ہے۔"
خدیجہ ہنس پڑی، "اللہ تیری شان!"
"شام کو جائیں گے۔ کسی سے کچھ نہیں کہنا!" "تم نے کچھ بتایا ہی نہیں تو بتاؤں گی کسی کو کیا۔" بس دیکھنا ہوتا کیا ہے۔ تمہارے گھر میں ہیروں کا انبار لگ جائے گا۔ "چُپ ہو جاؤ۔" خدیجہ نے بار بار پوچھا کہ ہو گا کیا، مگر رمضان نے ہر بار اسے خاموس رہنے کی تلقین کر دی۔
شام ہونے ہی والی تھی کہ رمضان خاں ایک بڑا سا تھیلا لے کر اس جگہ جا کھڑا ہوا جہا سے اس کے گھر کو راستہ جاتا تھا۔ وہ کھڑا رہا۔ شام ذرا ڈھلی تو فخرو گدھے کے ساتھ آ گیا۔ دونوں میں سے کسی نے بھی کچھ نہ کہا اور چل پڑے۔ گدھا آگے آگے اور وہ دونوں پیچھے پیچھے۔ گدھا ایک ویرانے میں پہنچ گیا۔ ایک طرف پہاڑ کھڑے تھے۔ ادھر اُدھر اونچے اونچے پیڑ پھیلے ہوئے تھے۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ گدھا ایک جگہ رک گیا۔
"چچا" فخرو نے سرگوشی کی۔
"کیا؟"
"جاؤ، وہاں وہ ٹھہر گیا ہے۔"
"اچھا۔"
رمضان خاں گدھے کے ایک طرف جُھک کر کھڑا ہو گیا۔ گدھے نے ایک جگہ اپنے پیر سے مٹی ہٹائی اور پیچھے ہٹ گیا۔ رمضان خاں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گیا۔ مٹی کے اندر ہاتھ ڈالا تو اس کی انگلیاں سخت چیزوں سے مَس کرنے لگیں۔ اس نے یہ سخت چیزیں تھیلے میں بھرنی شروع کر دیں، یہاں تک کہ اس کی اُنگلیاں پھر مٹی کو چھونے لگیں۔ وہ بھرے ہوئے تھیلے کو اٹھائے واپس جانے لگا۔ مگر گدھا وہاں نہیں تھا، فخرو بھی نہیں تھا۔
وہ تھیلے کا بوجھ اٹھائے ویران راستے پر چلنے لگا۔ ذرا پتا کھڑکتا یا زور سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آتی تو وہ ڈر کر تھیلا چھاتی سے لگا لیتا۔ کافی رات گزر چکی تھی۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا۔ اس نے دروازے پر آہستہ سے دستک دی۔ خدیجہ جاگ کر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ لالٹین پکڑے آ گئی اور دروازہ کھول دیا۔
"خدیجہ! دروازہ بند کر دو۔" خدیجہ نے تھیلا دیکھ لیا تھا۔ اس نے اسے پکڑنے کے ہاتھ بڑھایا۔
"صبر کرو۔"
دونوں ایک کمرے میں آ گئے۔ خدیجہ نے لالٹین ایک طرف رکھ لی۔ رمضان خاں کا چہرہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ تاہم اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ یہی حال خدیجہ کا تھا۔
"سب دروازے بند ہیں؟"
"ہاں۔"
رمضان خاں نے چارپائی کے اوپر تھیلا رکھ کر اس میں ہاتھ ڈالا اور مُٹھی بھر کر باہر نکالی۔ مُٹھی کو سفید چادر پر خالی کیا تو ادھر اُدھر پتھر کے ٹکڑے بکھر گئے۔ دونوں حیرت زدہ ہو گئے۔
(جاری ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
یہ قسطیں بغیر پروف ریڈ کے پوسٹ کی جا رہی ہیں۔ غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں۔ تاکہ ٹھیک کی جا سکیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
گدھا کہانی
آٹھویں قسط
فخرو کی پٹائی
(میرزا ادیب)
(مطبوعہ ہمدرد نو نہال جون ۱۹۹۰)
"واہ وا! کیا ہیرے اور جواہرات لائے ہو۔ اب تو ہم لکھ پتی اور کروڑ پتی ہو جائیں گے۔" خدیجہ نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا۔​
ادھر رمضان خاں کی یہ حالت تھی کہ بھونچکا سے ہو کر رہ گیا تھا۔​
"چُپ کیوں ہو؟ بولتے کیوں نہیں؟" خدیجہ نے چیخ کر پوچھا۔​
"بڑا دھوکہ ہوا۔"​
رمضان خاں کے منھ سے ایک باریک سے آواز نکلی۔​
"بڑی شان سے گئے تھے۔ وہ لڑکا فخرو ایک پاجی دھوکے باز ہے۔"​
"نہیں، اس نے دھوکہ نہیں دیا۔"​
"تو پھر کس نے دیا ہے؟"​
"اس نے، گدھے نے۔"​
یہ لفظ سُنتے ہی خدیجہ برس پڑی، "نام نہ لو اس بلا کا۔ میں کہتی ہوں وہ بہت بڑا شیطان ہے۔ گدھا نہیں ہے۔ سمجھتے ہی نہیں ہو۔ اب مزہ آ گیا نا۔ کیا کرو گے اس خزانے کا۔ کسی سے کیا کہو گے۔ خزانہ لینے گیا اور پتھر لے آیا۔ میں جانتی تھی یہی کچھ ہو گا۔ مانتے ہی نہیں تھے۔ خزانہ لاؤں گا۔ کیا خزانہ لے آئے ہو۔"​
رمضان خاں سخت بے زار ہو گیا تھا، "اب چُپ بھی ہوتی ہو یا نہیں؟"​
"میرے چپ ہونے سے کیا ہو گا؟ سنبھالو اپنا خزانہ۔ چُھپا کر رکھو کہیں۔ کسی کی نظر نہ پڑ جائے۔" یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئی۔​
اس کے جانے کے بعد رمضان خاں کی یہ حالت تھی کہ کبھی افسوس سے اپنے ہاتھ ملتا تھا اور کبھی پتھر کے ٹکڑے اٹھا کر انہیں آنکھوں کے قریب لا کر غور سے دیکھنے لگتا تھا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔ خود سے کہتا تھا، "گدھے نے میرے سامنے اپنے پاؤں سے مٹی ہٹائی تھی اور مجھے چمک دکھائی دی تھی۔ ہیرے لگتے تھے۔ پھر، پھر!" اس نے لالٹین بجھا دی اور اندھیرے میں وہیں لیٹ گیا۔​
صبح کے دُھندلکے فضا میں پھیل رہے تھے۔ ماسی رکھی کے مرغ نے بانگ دینی شروع کر دی تھی۔ وہ ساری رات گھنٹہ بھر سو سکا تھا اور یہ نیند بھی بُرے بُرے خواب لے کر آئی تھی۔ سارا واقعہ اس کے ذہن میں بار بار اُبھر آتا تھا اور وہ محسوس کرنے لگتا تھا جیسے فخرو کے ساتھ چلا جا رہا ہے۔ ویران مقام پر گدھا مٹی پاؤں سے ہٹانے لگتا ہے اور وہ سخت چیزیں اپنے تھیلے میں ڈال رہا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ پتھر کے ٹکڑوں کے پاس بیٹھا رہا۔​
اس کی بیوی صبح ہوتے ہی سب سے پہلے اس کے لیے لسی کا بڑا سا گلاس اور حقہ تازہ کر کے لے آتی تھی، مگر اس صبح وہ نہ آئی۔​
اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ اُٹھا اور دروازے پر آیا، "کون ہے؟"​
"میں ہوں فخرو۔"​
اس نے دروازہ کھول دیا۔ فخرو نے مسرت انگیز لہجے میں کہا، "مبارک ہو خاں صاحب، نہ نہ، چچا جان۔"​
"مبارک۔ ہاں ٹھیک ہے۔ اندر آؤ۔" فخرو اس کے بدلے ہوئے لہجے پر پریشان ہو گیا۔​
"بھتیجے!"​
"جی چچا جان! معاف کرنا رات جلدی چلا گیا۔ وہ بادشاہ سلامت بھاگنے لگے تھے۔ کیا کرتا۔ مجھے بھی پیچھے پیچھے بھاگنا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے۔"​
ہاں، ہاں اللہ کا بڑا شکر ہے اور تمہارا بھی بڑا شکریہ۔ بھتیجے! یہ ہیرے تمہارے بادشاہ سلامت نے دیئے ہیں۔ جتنے چاہو لے لو۔ بلکہ سارے کے سارے لے لو۔" یہ کہتے ہوئے رمضان خاں حیران و پریشان فخرو کو کمرے کے اندر لے گیا۔​
فخرو نے داخل ہوتے ہی پتھر دیکھے اور اس کی حیرت اور پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا۔​
"وہ دیکھو!" رمضان خاں نے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ "یہ ہیں وہ ہیرے اور جواہرات جو تمہارے بادشاہ سلامت نے دیے ہیں۔" فخرو ان ٹکڑوں کو دیکھتا رہ گیا۔​
"تمہیں ملیں ہیرے اور مجھے پتھر کے ٹکڑے۔ دھوکا دیا ہے مجھے!" رمضان خاں نے گرج کر کہا۔​
فخرو ڈر گیا۔ اور تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ بولا، "چچا جان! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ میں نے آپ کو بالکل بالک دھوکا نہین دیا۔"​
"تو پھر دھوکا کس نے دیا ہے؟" فخرو خاموش رہا۔​
"میں پوچھتا ہوں پھر دھوکا کس نے دیا ہے؟" رمضان خاں دوبارہ گرجا۔​
خدیجہ بھی آ گئی تھی۔ "کیا کہہ رہے ہو؟ دھوکا کس نے دیا ہے۔ اس نے دیا ہے اور کس نے دیا ہے۔ اس نے۔" خدیجہ نے زور سے فخرو کی پیٹھ پر دوہٹر مارا۔​
"ہائے بے بے!" فخرو درد سے تڑپ اُٹھا۔​
"اب یہاں سے جائے تو کہیں۔ میں اس کی جان لے کر رہوں گی۔" خدیجہ پھر دوہتڑ مارنے کے لیے آگے بڑھی۔ فخرو جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ "اتنا بڑا دھوکا ہمارے ساتھ۔" خدیجہ نے غصے سے کہا۔​
فخرو رونے لگا تھا۔ "چچی جی! اللہ کی قسم! میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا۔"​
"تو یہ کیا پڑا ہے تمہارے آگے؟ اندھے ہو گئے ہو۔ نظر نہین آتا کچھ؟ یہ ہیرے جواہرات ہیں؟ بولو بولتے کیوں نہیں؟" خدیجہ نے چند ٹکڑے اٹھا کر فخرو پر دے مارے۔​
"خدیجہ! تم چُپ رہے۔ مجھے پوچھنے دو۔"​
"میں کیوں چُپ رہوں گی۔ سارے شہر کو بتاؤں گی کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔" "میں کہتا ہوں مجھے بات کرنے دو۔ تم چلی جاؤ۔"​
"کیوں جاؤں۔ اس کی بوٹیاں نہ نوچوں گی۔"​
خدیجہ کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئی تھیں۔ رمضان خاں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کمرے سے باہر لے جانے لگا۔​
رمضان خاں واپس آیا تو فخرو زار و قطار رہ رہا تھا۔ "فخرو!" رمضان خاں کا لہجہ ذرا نرم تھا، "تم کہتے ہو تم نے دھوکہ نہیں دیا۔"​
"اللہ قسم میں سچ کہتا ہوں۔ وہ آپ کو لے گیا تھا۔ بادشاہ۔۔۔۔"​
"تاکہ مجھے پتھر ملیں اور تم کو لے گیا تھا تو ہیرے دینے کے لیے۔ ہیں؟"​
فخرو نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے گالوں پر بہتے ہوئے آنسو پونچھے۔​
"جواب دو مجھے، ایسا کیوں ہوا؟"​
فخرو دو تین لمحے سسکیاں بھرتا رہا۔ پھر بولا، "چچا جان! پتا نہیں کیا بات ہے۔؟"​
"بات تو کوئی ہو گی۔ سچ سچ کہو، بولو، صاف صاف کہو۔"​
"میں کیا کہوں۔ میں اس سے بھائیوں سے بڑھ کر پیار ۔۔۔۔"​
"وہ گدھا تمہارا بھائی ہے؟"​
"مجھے اس سے بڑا ہی پیار ہے۔ وہ بھی مجھ سے بڑا پیار کرتا ہے۔" فخرو نے سر جُھکا لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ رمضان خاں کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا ہے۔​
خدیجہ دروازے پر آ گئی۔ غصے سے اس کی مُٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ رمضان خاں نے اسے دیکھا تو غصے سے بولا، "میں نے کہا ہے اُدھر رہو۔ پھر آ گئی ہو۔ جاؤ۔ چلی جاؤ، جاتی ہو کہ نہیں۔" خدیجہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔​
رمضان خاں کمرے میں ٹہلنے لگا تھا اور فخرو دیوار سے لگ کر کھڑا تھا۔​
"فخرو!" رمضان خاں کے لہجے میں بڑی نرمی تھی۔​
"جی چچا جان!"​
"ایک بات غور سے سن لو۔ تم نے بار بار اللہ کی قسم کھائی ہے۔ کھائی ہے کہ نہیں؟"​
"کھائی ہے۔"​
"تو قسم کھا کر یہ بھی کہو کہ یہ گدھا تم لوگوں کا نہیں میرا ہے۔ میں نے دو سو کی رقم دے کر اسے خریدا تھا۔ کھاؤ قسم!" فخرو ہاں میں سر ہلانے لگا۔​
"کھاؤ قسم!"​
"اللہ قسم۔"​
"کیا اللہ قسم؟"​
"آپ ٹھیک کہتے ہیں۔"​
"قسم کھا کر کہو۔ یہ گدھا آپ خرید چکے ہیں۔"​
فخرو نے یہ الفاظ کہے، "بادشاہ سلامت آپ خرید چکے ہیں۔"​
"بادشاہ سلامت تمہارے لیے ہو گا۔ میرے لیے گدھا ہے، گدھا کہو۔"​
"جی، گدھا آپ خرید چکے ہیں۔"​
"اور جب خرید چکا ہوں تو یہ میرا ہے۔ ہے کہ نہیں؟​
"جی ہاں۔"​
"تو میری چیز مجھے ملنی چاہیے۔"​
"جی ہاں۔" فخرو رمضان کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر ڈر گیا۔​
"تو میں تمہیں چھوڑے دیتا ہوں۔ گھر جاؤ اور اپنی ماں اور چاچے سے کہہ دو کہ میری امانت میرے حوالے کر دیں، ورنہ حشر نشر کر دوں گا۔"​
"اچھا جی۔"​
"کہہ دو گے ناں۔"​
"جی، جی۔"​
"تو جاؤ۔"​
فخرو کمرے سے نکلا۔ اسے خدشہ تھا کہ خدیجہ اسے کہیں دیکھ نہ لے۔ مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ تیزی سے گھر کے بڑے دروازے سے نکل کر جلدی جلدی قدم اٹھانے لگا۔​
خدیجہ آ گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھا اور بولی، "وہ کہاں ہے؟"​
رمضان خاں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ چلا گیا ہے۔​
"کیوں؟"​
"خدیجہ!" رمضان خاں نے اسے کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا، "سنو! میں نے اسے بھیج دیا ہے۔"​
"کیوں؟ ویسے ہی۔ اس دھوکے باز کو!"​
"خدیجہ! اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں نے راز کی بات معلوم کر لی ہے۔"​
"راز کی بات"​
"ہاں مجھے اپنی ناکامی کا علم ہو گیا ہے۔ یہ ایک راز ہے۔ ابھی نہیں۔ تم کو بتاؤں گا مگر تم اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ بس یہ سمجھ لو۔ ہیرے ملیں، خزانہ ملے گا۔"​
خدیجہ اپنے شوہر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔​
(جاری ہے)​
 
Top