سعادت
تکنیکی معاون
شاید نویں جماعت میں تھا جب ایک دن کتابوں کی مقامی دکان میں دو نئے کامِکس نظر آئے۔ ایک تو کامِک میگزین تھا جو کراچی سے نیا نیا شائع ہوا تھا۔ اس میگزین کا نام اب یاد نہیں ہے، لیکن انگریزی میں تھا اور اس کا مرکزی سلسلہ طلسمِ ہوشربا کی قسط وار کامِک کہانی تھا۔ فیروزسنز نے طلسمِ ہوشربا کی داستان بچوں کے لیے دس کتابی حصوں میں شائع کی تھیں، جن میں سے کچھ میں نے پڑھ رکھی تھیں، سو اس میگزین کو خرید لیا اور دلچسپی سے پڑھا۔ اگلے مہینے کا شمارہ بھی خریدا، لیکن اس کے بعد وہ میگزین دوبارہ کسی دکان پر نظر نہیں آیا۔ جہاں سے بھی پوچھا، یہی جواب ملا کہ وہ میگزین بند ہو گیا ہے۔
دوسرا کامِک مشہورِ زمانہ Tintin تھا۔ اس وقت تو علم بھی نہیں تھا کہ ٹِنٹِن کتنا مشہور کردار ہے، لیکن سرسری طور پر ورق گردانی کرنے پر ڈرائنگ پسند آئی تو اُس کی بھی ایک کتاب، غالباً Land of Black Gold تھی، خرید لی۔ بعد میں علم ہوا کہ ٹِنٹِن کے خالق، بیلجیئن کارٹونِسٹ ایغژے (Hergé ) ڈرائنگ کی اِس طرز (ligne claire—فرانسیسی میں ’واضح لکیر‘) کے لیے جانے جاتے ہیں۔ گھر پہنچ کر پڑھنا شروع کیا تو بہت مزا آیا۔ فیصلہ کیا کہ اب ہر مہینے ملنے والے جیب خرچ میں سے بچت کر کے ٹِنٹِن کے کارناموں کی ساری کتابیں خریدنی ہیں۔ مزید تین یا چار کتابیں خریدیں بھی، اور ان کی ’حفاظت‘ کے پیشِ نظر انہیں اپنے گھر میں رکھنے کی بجائے نانا جی کے گھر میں رکھا، لیکن پھر گھروں کی تبدیلی کے دوران وہ کتابیں گُم ہو گئیں۔ آج تک اس بات کا شدید افسوس ہے۔
کافی عرصے کے بعد ٹِنٹِن کی کتابیں دوبارہ مختلف دکانوں میں نظر آنی شروع ہوئیں، لیکن ان کے مکالموں کی لیٹرنگ میں فرق محسوس ہوا۔ انٹرنیٹ پر تلاش کیا تو علم ہوا کہ جو کتابیں میں نے بچپن میں پڑھی تھیں، ان میں مکالموں کو ہاتھ سے لکھا گیا تھا، جبکہ نئے ایڈیشنز میں مکالموں کے لیے ایک فونٹ استعمال کیا گیا ہے۔ ٹِنٹِن کے مداحوں نے اس تبدیلی پر بہت شور مچایا تھا کہ لیٹرنگ میں جو چاشنی تھی وہ فونٹ میں نہیں۔ مجھے بھی یہ تبدیلی اُس وقت تو پسند نہیں آئی (شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میری اپنی لیٹرنگ والی کتابیں، تین چار ہی سہی، گُم ہو گئی تھیں اور لوگ اب ان کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے)، لیکن بعد میں اپنے آپ کو تسلی دی کہ کم از کم ٹِنٹِن کی کتابیں اب بآسانی دستیاب تو ہیں۔ اب جب بھی موقع ملتا ہے تو ٹِنٹِن کی ایک کتاب خرید لیتا ہوں اور مزے سے پڑھتا ہوں (گو ابھی تک آدھا سیٹ بھی مکمل نہیں ہوا!)
دوسرا کامِک مشہورِ زمانہ Tintin تھا۔ اس وقت تو علم بھی نہیں تھا کہ ٹِنٹِن کتنا مشہور کردار ہے، لیکن سرسری طور پر ورق گردانی کرنے پر ڈرائنگ پسند آئی تو اُس کی بھی ایک کتاب، غالباً Land of Black Gold تھی، خرید لی۔ بعد میں علم ہوا کہ ٹِنٹِن کے خالق، بیلجیئن کارٹونِسٹ ایغژے (Hergé ) ڈرائنگ کی اِس طرز (ligne claire—فرانسیسی میں ’واضح لکیر‘) کے لیے جانے جاتے ہیں۔ گھر پہنچ کر پڑھنا شروع کیا تو بہت مزا آیا۔ فیصلہ کیا کہ اب ہر مہینے ملنے والے جیب خرچ میں سے بچت کر کے ٹِنٹِن کے کارناموں کی ساری کتابیں خریدنی ہیں۔ مزید تین یا چار کتابیں خریدیں بھی، اور ان کی ’حفاظت‘ کے پیشِ نظر انہیں اپنے گھر میں رکھنے کی بجائے نانا جی کے گھر میں رکھا، لیکن پھر گھروں کی تبدیلی کے دوران وہ کتابیں گُم ہو گئیں۔ آج تک اس بات کا شدید افسوس ہے۔
کافی عرصے کے بعد ٹِنٹِن کی کتابیں دوبارہ مختلف دکانوں میں نظر آنی شروع ہوئیں، لیکن ان کے مکالموں کی لیٹرنگ میں فرق محسوس ہوا۔ انٹرنیٹ پر تلاش کیا تو علم ہوا کہ جو کتابیں میں نے بچپن میں پڑھی تھیں، ان میں مکالموں کو ہاتھ سے لکھا گیا تھا، جبکہ نئے ایڈیشنز میں مکالموں کے لیے ایک فونٹ استعمال کیا گیا ہے۔ ٹِنٹِن کے مداحوں نے اس تبدیلی پر بہت شور مچایا تھا کہ لیٹرنگ میں جو چاشنی تھی وہ فونٹ میں نہیں۔ مجھے بھی یہ تبدیلی اُس وقت تو پسند نہیں آئی (شاید ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میری اپنی لیٹرنگ والی کتابیں، تین چار ہی سہی، گُم ہو گئی تھیں اور لوگ اب ان کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے)، لیکن بعد میں اپنے آپ کو تسلی دی کہ کم از کم ٹِنٹِن کی کتابیں اب بآسانی دستیاب تو ہیں۔ اب جب بھی موقع ملتا ہے تو ٹِنٹِن کی ایک کتاب خرید لیتا ہوں اور مزے سے پڑھتا ہوں (گو ابھی تک آدھا سیٹ بھی مکمل نہیں ہوا!)