زرقا مفتی
محفلین
مفتی صاحب سال کے بارہ مہینے ایک ہی سبزی رغبت سے کھاتے ہیں۔ یہ سبزی مجھے بالکل پسند نہ تھی۔ اسے نہ کھانے پر بارہا امی سے ڈانت کھائی اور کبھی کبھاربھوکے رہنے کو ترجیح دی ۔ مگر اب کیا کیجئے شوہر کی پسند نا پسند کو ملحوظ خاطر رکھنا ہر بیوی کے فرائض منصبی میں شامل ہے ۔ اس لئے اس نا پسندیدہ سبزی کا ہمارے گھر ہر روز موجود ہونا مقدور ٹھہرا۔ بچے یہ سبزی نہیں کھاتے اس لئے ایک سالن الگ بنتا ہے ۔ میرا چھوٹا بیٹا روزانہ یہ پوچھتا ہے ماما آپ ایک ہی سبزی روزانہ کیوں پکا لیتی ہیں۔ اب اسے کیا بتاؤں یہی کہہ دیتی ہوں کہ آپ کے لئے متبادل سالن موجود ہے وہ کھالیں اور چُپ رہیں۔
دو روز پہلے ملازم کو سو روپے دے کربازار بھیجا کہ ایک کلو کدو اور دو چار ٹماٹر لے آئے ۔ بازار پہنچ کر اس نے فون کیا کہ کدو 120 روپے کلو میں دستیاب ہیں اب کیا لاؤں؟ جھلا کر اسے کہا کچھ مت لاؤ ۔ کڑی بنا لی اور اپنے نمبر کٹوا لئے ۔ اگلے روز ایک بھولا بھٹکا سبزی والا گھر کے باہر سے گزرا تو میری ملازمہ کہنے لگی باجی آپ کو سبزی لے دوں۔ میں نے کہا ہاں کدو لے دو۔ اس نے 80 روپے کے عوض ایک کلوکدو لے دئیے۔ اب تو خوشی کی بجائے اور جھلاہٹ ہوئی کہ ایک روز میں کونسی کدو کی نئی فصل آ گئی کہ چالیس روپے کلو سستے ہو گئے۔
پھر یاد آیا کہ کچھ روز پہلے پنجاب حکومت نے گراں فروشی کے خلاف مہم چلانے کے لئے اخبار میں آدھے صفحے کا اشتہار دیا ۔ اس اشتہار میں عوام کو گراں فروشوں کی شکایت کرنے کے لئے افسران کے فون نمبر مہیا کئے گئے تھے۔ فورا اخبار نکالا اور فون ملا دیا شکایت کی مگر وہاں سے جواب ملا کہ آپ سبزی خریدنے سے پہلے دوکاندار سے ریٹ لسٹ طلب کیجئے اور اس کے مطابق نرخ ادا کرنے پر اصرار کیجئے اگر دوکاندار مقررہ نرخ پر سبزی نہ دے تو پھر شکایت درج کروائیے گا۔ اب سوچا کہ بازار جانے پہلے نرخ معلوم ہوں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ سو خادم اعلی کو ایک ٹویٹ بھیج دی کہ عوام کو سرکاری نرخنامہ کہاں سے دستیاب ہو گا۔ خادم اعلی نے میری ٹویٹ کا کوئی جواب نہیں دیا خیر گوگل پر تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ اپنے شہر کا نام اور پرائس لکھ کر ایک ایس ایم ایس 80024 پر بھیجیں تو جواب میں 36 اشیائے ضروریہ کا نرخنامہ ایس ایم ایس کی صورت مل جاتا ہے۔نرخنامہ ملا تو معلوم ہوا کدو کا سرکاری نرخ 53 روپے کلو ہے ۔
آج مفتی صاحب کہیں جا رہے تھے تو کہا واپسی پر کدو لیتے آئیے گا۔ وہ خالی ہاتھ واپس آئے کہنے لگے کہ دوکاندار کدو 100 روپے کلو فروخت کر رہا تھا میں نے اُ سے نرخ نامہ طلب کیا تو کہنے لگا کدو کا سرکاری نرخ 53 روپے ہے مگر میں نے منڈی سے مہنگے خریدے ہیں۔ مجسٹریٹ میری دوکان پر آیا تھا میں نے منڈی کے آڑھتی سے اُس کی بات کروا دی اور اس نے مجھے کدو 100 روپے کلو فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ مجھے یہ تاویل پسند نہیں آئی اور میں نے انہیں مجسٹریٹ کو فون کرنے کے لئے کہا۔ مجسٹریٹ نے اب شکایت سن لی اور گھنٹے بعد موقع پر آنے کی حامی بھر لی۔ اتنے میں بے موسمی برسات شروع ہو گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد مجسٹریٹ کا فون آیا کہ میں موقع پر پہنچ گیا ہوں آپ بھی آ جایئے ۔ مفتی صاحب نے کہا کہ بارش بہت تیز ہے آپ خود ہی کاروائی کر لیجیے ۔ دس منٹ بعد مجسٹریٹ کا پھر فون آیا کہ دوکان پر ایک بچہ موجود تھا اس کے والد نے اس کی بہت پٹائی کی ہے میں نے ان کو تنبیہہ کر دی ہے ۔
سو ہم نے گراں فروشی کے خلاف مہم تو شروع کر دی مگر ہمیں سرکاری نرخ پر کدو نہ مل سکے ۔ آج مفتی صاحب کو مرغی کا سالن ہی کھانا پڑا۔
اب آپ کا کیا مشورہ ہے ؟؟؟
زرقا مفتی
دو روز پہلے ملازم کو سو روپے دے کربازار بھیجا کہ ایک کلو کدو اور دو چار ٹماٹر لے آئے ۔ بازار پہنچ کر اس نے فون کیا کہ کدو 120 روپے کلو میں دستیاب ہیں اب کیا لاؤں؟ جھلا کر اسے کہا کچھ مت لاؤ ۔ کڑی بنا لی اور اپنے نمبر کٹوا لئے ۔ اگلے روز ایک بھولا بھٹکا سبزی والا گھر کے باہر سے گزرا تو میری ملازمہ کہنے لگی باجی آپ کو سبزی لے دوں۔ میں نے کہا ہاں کدو لے دو۔ اس نے 80 روپے کے عوض ایک کلوکدو لے دئیے۔ اب تو خوشی کی بجائے اور جھلاہٹ ہوئی کہ ایک روز میں کونسی کدو کی نئی فصل آ گئی کہ چالیس روپے کلو سستے ہو گئے۔
پھر یاد آیا کہ کچھ روز پہلے پنجاب حکومت نے گراں فروشی کے خلاف مہم چلانے کے لئے اخبار میں آدھے صفحے کا اشتہار دیا ۔ اس اشتہار میں عوام کو گراں فروشوں کی شکایت کرنے کے لئے افسران کے فون نمبر مہیا کئے گئے تھے۔ فورا اخبار نکالا اور فون ملا دیا شکایت کی مگر وہاں سے جواب ملا کہ آپ سبزی خریدنے سے پہلے دوکاندار سے ریٹ لسٹ طلب کیجئے اور اس کے مطابق نرخ ادا کرنے پر اصرار کیجئے اگر دوکاندار مقررہ نرخ پر سبزی نہ دے تو پھر شکایت درج کروائیے گا۔ اب سوچا کہ بازار جانے پہلے نرخ معلوم ہوں تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ سو خادم اعلی کو ایک ٹویٹ بھیج دی کہ عوام کو سرکاری نرخنامہ کہاں سے دستیاب ہو گا۔ خادم اعلی نے میری ٹویٹ کا کوئی جواب نہیں دیا خیر گوگل پر تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ اپنے شہر کا نام اور پرائس لکھ کر ایک ایس ایم ایس 80024 پر بھیجیں تو جواب میں 36 اشیائے ضروریہ کا نرخنامہ ایس ایم ایس کی صورت مل جاتا ہے۔نرخنامہ ملا تو معلوم ہوا کدو کا سرکاری نرخ 53 روپے کلو ہے ۔
آج مفتی صاحب کہیں جا رہے تھے تو کہا واپسی پر کدو لیتے آئیے گا۔ وہ خالی ہاتھ واپس آئے کہنے لگے کہ دوکاندار کدو 100 روپے کلو فروخت کر رہا تھا میں نے اُ سے نرخ نامہ طلب کیا تو کہنے لگا کدو کا سرکاری نرخ 53 روپے ہے مگر میں نے منڈی سے مہنگے خریدے ہیں۔ مجسٹریٹ میری دوکان پر آیا تھا میں نے منڈی کے آڑھتی سے اُس کی بات کروا دی اور اس نے مجھے کدو 100 روپے کلو فروخت کرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ مجھے یہ تاویل پسند نہیں آئی اور میں نے انہیں مجسٹریٹ کو فون کرنے کے لئے کہا۔ مجسٹریٹ نے اب شکایت سن لی اور گھنٹے بعد موقع پر آنے کی حامی بھر لی۔ اتنے میں بے موسمی برسات شروع ہو گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد مجسٹریٹ کا فون آیا کہ میں موقع پر پہنچ گیا ہوں آپ بھی آ جایئے ۔ مفتی صاحب نے کہا کہ بارش بہت تیز ہے آپ خود ہی کاروائی کر لیجیے ۔ دس منٹ بعد مجسٹریٹ کا پھر فون آیا کہ دوکان پر ایک بچہ موجود تھا اس کے والد نے اس کی بہت پٹائی کی ہے میں نے ان کو تنبیہہ کر دی ہے ۔
سو ہم نے گراں فروشی کے خلاف مہم تو شروع کر دی مگر ہمیں سرکاری نرخ پر کدو نہ مل سکے ۔ آج مفتی صاحب کو مرغی کا سالن ہی کھانا پڑا۔
اب آپ کا کیا مشورہ ہے ؟؟؟
زرقا مفتی