گردشی قرضے- circular debts

الف نظامی

لائبریرین
کراچی: (دنیا نیوز) ایف پی سی سی آئی نے کیپسٹی چارجز کے معاملے کو سپریم کورٹ اور ایس آئی ایف سی میں پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔


قائم مقام صدر ایف پی سی سی آئی عبدا لمہیمن خان کا کہنا ہے کہ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے فارنزک آڈٹ کا حکم دیا جائے، آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے از سر نو کیے جائیں۔

عبدا لمہیمن خان نے کہا کہ آئی پی پیز کے کیپسٹی چارجز کو ختم کیا جائے اور صرف جنریٹ کی جانے والی بجلی کی ادائیگی کی جائے، اوور انوائسنگ کو روکنے کے لیے کڑی نگرانی کی اشد ضرورت ہے۔
 

علی وقار

محفلین
آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدے از سر نو کیے جائیں۔
آج کل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے آئی پی پیز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ایسا محتاط انداز میں کیا جائے تو اچھی بات ہے وگرنہ قانونی طور پر تو آئی پی پیز کی پوزیشن نہایت مضبوط ہے۔
 

زیک

مسافر
آج کل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے آئی پی پیز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ایسا محتاط انداز میں کیا جائے تو اچھی بات ہے وگرنہ قانونی طور پر تو آئی پی پیز کی پوزیشن نہایت مضبوط ہے۔
پاکستانیوں نے ریکوڈک سے کچھ نہیں سیکھا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آج کل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے آئی پی پیز پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

ایسا محتاط انداز میں کیا جائے تو اچھی بات ہے وگرنہ قانونی طور پر تو آئی پی پیز کی پوزیشن نہایت مضبوط ہے۔
کسی نجی پاور پروڈیوسر کمپنی کے ساتھ معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد آپ کا کیا خیال ہے ، قانونی پوزیشن کتنی مضبوط ہوگی ؟

نوے کی دہائی میں جو معاہدات کئے گئے ان میں سے کافی ایسے ہوں گے جن کی مدت ختم ہونے والی ہوگی۔

متعلقہ:
فرنس آئل پر چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس ختم کرنے کا فیصلہ
commissioned ipps
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
کسی نجی پاور پروڈیوسر کمپنی کے ساتھ معاہدے کی مدت ختم ہونے کے بعد آپ کا کیا خیال ہے ، قانونی پوزیشن کتنی مضبوط ہوگی ؟

نوے کی دہائی میں جو معاہدات کئے گئے ان میں سے کافی ایسے ہوں گے جن کی مدت ختم ہونے والی ہوگی۔

متعلقہ:
فرنس آئل پر چلنے والے مہنگے پاور پلانٹس ختم کرنے کا فیصلہ
جی ہاں، معاہدے کی مدت ختم ہو جانے پر تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ معاہدے نوے کی دہائی میں بھی ہوئے تھے اور آج سے پندرہ برس قبل بھی ہوئے تھے۔ عوام کی حالت آپ کے سامنے ہے۔ معاہدے کرنے والوں کی خیر ہو!

چاہتے تو ہم بھی ہیں کہ معاہدے از سر نو کیے جائیں لیکن یہ کام ایسا آسان نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
25 جولائی ، 2024
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور نے وزارت توانائی سے آئی پی پیز مالکان، ان کے معاہدے اور دیگر تفصیلات طلب کر لیں۔


چیئرمین قائمہ کمیٹی نے وزارت توانائی کو ہدایات کی ہے کہ 1992 سے اب تک تمام آئی پی پیز معاہدوں کی اصل دستاویزات پیش کی جائیں، آئی پی پیز کے سرمایہ کاروں اور مالکان کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور 1992 سے اب تک آئی پی پیز کو دی جانے والی کپیسٹی پیمنٹ کا ریکارڈ بھی فراہم کیا جائے۔


وزارت توانائی کو ہدایت کی گئی ہے کہ تمام آئی پی پیز کے نرخوں کا دیگر ترقی پذیر ممالک کے پاور پلانٹس سے موازنہ کر کے پیش کیا جائے اور دیگر ممالک آئی پی پیز سے کس ریٹ پر بجلی خرید رہے ہیں اس متعلق بھی تفصیلات فراہم کی جائیں۔


قائمہ کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں آئی پی پیز کو فنی خرابیوں کے باعث بند کرنے کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور گزشتہ چھ برسوں کا ونڈ پاور پلانٹس کے معاہدوں اور نرخوں کا ریکارڈ دیا جائے جبکہ آئی پی پیز کے معاہدوں میں ردوبدل کا ریکارڈ بھی پیش کیا جائے۔


کمیٹی کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ 1992 سے اب تک پاور پالیسی کی تفصیلات فراہم کی جائیں، آئی پی پیز نصب ہونے سے بجلی کی پیداواری صلاحیت کی رپورٹ، ملک میں بجلی کی طلب اور پیداوار کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے جبکہ 50 میگا واٹ سے زائد فرنس آئل اور گیس کے آئی پی پیز کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں۔
 

علی وقار

محفلین
25 جولائی ، 2024
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے پاور نے وزارت توانائی سے آئی پی پیز مالکان، ان کے معاہدے اور دیگر تفصیلات طلب کر لیں۔


چیئرمین قائمہ کمیٹی نے وزارت توانائی کو ہدایات کی ہے کہ 1992 سے اب تک تمام آئی پی پیز معاہدوں کی اصل دستاویزات پیش کی جائیں، آئی پی پیز کے سرمایہ کاروں اور مالکان کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور 1992 سے اب تک آئی پی پیز کو دی جانے والی کپیسٹی پیمنٹ کا ریکارڈ بھی فراہم کیا جائے۔


وزارت توانائی کو ہدایت کی گئی ہے کہ تمام آئی پی پیز کے نرخوں کا دیگر ترقی پذیر ممالک کے پاور پلانٹس سے موازنہ کر کے پیش کیا جائے اور دیگر ممالک آئی پی پیز سے کس ریٹ پر بجلی خرید رہے ہیں اس متعلق بھی تفصیلات فراہم کی جائیں۔


قائمہ کمیٹی نے یہ بھی کہا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں میں آئی پی پیز کو فنی خرابیوں کے باعث بند کرنے کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور گزشتہ چھ برسوں کا ونڈ پاور پلانٹس کے معاہدوں اور نرخوں کا ریکارڈ دیا جائے جبکہ آئی پی پیز کے معاہدوں میں ردوبدل کا ریکارڈ بھی پیش کیا جائے۔


کمیٹی کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ 1992 سے اب تک پاور پالیسی کی تفصیلات فراہم کی جائیں، آئی پی پیز نصب ہونے سے بجلی کی پیداواری صلاحیت کی رپورٹ، ملک میں بجلی کی طلب اور پیداوار کا مکمل ریکارڈ فراہم کیا جائے جبکہ 50 میگا واٹ سے زائد فرنس آئل اور گیس کے آئی پی پیز کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں۔
قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے دلیپ کمار (محمد یوسف خان) کے حقیقی بھانجے ہونے کا حق ادا کر دیا۔ یہ محض خانہ پُری ہی ہے یعنی اداکاری ہی ہے کہ عوام کی نظروں میں معتبر بنا جائے۔ بال کبھی ایک کورٹ میں چلی جاتی ہے کبھی دوسری میں۔ آئی پی پیز کا معاملہ حکومت تو کیا، عدالت کے بس سے بھی باہر ہے۔ اب تو دُعا ہی کی جا سکتی ہے کہ آئی پی پیز خود ہی ہم پر احسانِ عظیم کریں اور معاہدوں میں کچھ نرمی کر دیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ذوالفقار احمد چیمہ لکھتے ہیں:

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں بجلی مہنگی کرنے اور عوام کا کچومر نکالنے میں IPPS کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کا بہت بڑا حصہ ہے.

یہ معاہدے پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئے تھے، اسکے بعد تمام بڑے صنعتکاروں نے یہ پاور پلانٹ لگا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور غریب عوام کی ہڈیوں کا گودا تک نکال لیا اور خوب مال بنایا.

ان آئی پی پیز کے پاکستانی مالکان پیپلز پارٹی، نون لیگ اور پی ٹی آئی کی قیادت کے بہت قریبی لوگ ہیں، کسی لیڈر کے یہ فرنٹ مین ہیں، کسی کے فنانسر اور ڈونر ہیں اور کسی کے دوست یا بیٹے ہیں.

یہی وجہ ہے کہ تینوں میں سے کسی حکومت نے ان مالکان کا گریبان پکڑ کر انہیں ظالمانہ شرائط ختم کر کے منصفانہ شرائط لکھنے پر مجبور نہیں کیا. یعنی ان تینوں پارٹیوں کی قیادت عوام کے مقابلے میں عوام کا خون چوسنے والوں کے ساتھ کھڑی ہوئی جو انتہائی افسوسناک بات ہے

اسی لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ عوام کے دکھوں کا مداوا صرف وہ کر سکتا ہے جو:
خود کلین ہو یعنی اسکے دامن پر مالی یا اخلاقی کرپشن کا کوئی داغ نہ ہو
اور نہ وہ خود اس کاروبار میں ہو اور نہ اسے کسی سرمایہ دار سے چندے یا ڈونیشن کا لالچ ہو
جو قابل اور باصلاحیت ہو
اور جو مافیاز کے آگے سرنڈر نہ کرے بلکہ انہیں کچلنے کی جرات اور ہمت رکھتا ہو

سوچیں اور ، غور کریں کہ ملک کو مزید بربادی سے بچانے کا کیا حل ہے
 

علی وقار

محفلین
یہ معاہدے پیپلز پارٹی کے دور میں ہوئے تھے، اسکے بعد تمام بڑے صنعتکاروں نے یہ پاور پلانٹ لگا کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور غریب عوام کی ہڈیوں کا گودا تک نکال لیا اور خوب مال بنایا.
کافی حد تک یہ بات درست لگتی ہے۔
ظالمانہ شرائط ختم کر کے منصفانہ شرائط لکھنے پر مجبور نہیں کیا
اب انہیں یوں مجبور کیا نہیں جا سکتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یہ محض خانہ پُری ہی ہے یعنی اداکاری ہی ہے کہ عوام کی نظروں میں معتبر بنا جائے۔

خانہ پُری یا اداکاری تو تب ہو جب پہلے اس موضوع پر کسی نے آواز نہ اٹھائی ہو۔ اسی لڑی کے پہلے مراسلے کو دیکھیے 2014 کا ہے۔

آئی پی پیز کے موضوع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے سب سے پہلے آواز اٹھائی۔ اور دیگر لوگ بھی اس پر بات کرتے رہے ہیں۔

آئی پی پیز کا معاملہ حکومت تو کیا، عدالت کے بس سے بھی باہر ہے۔
اب انہیں یوں مجبور کیا نہیں جا سکتا۔
سبجیکٹ ٹو دی کنڈیشن ڈیٹ:
power plant capacity to generate electricity remains same over period of time
اب یہاں آڈٹ کی بات تو آئے گی کہ مختلف ادوار میں کیپیسٹی کی جانچ کیے بغیر رقم کیوں ادا کی گئی۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
خانہ پُری یا اداکاری تو تب ہو جب پہلے اس موضوع پر کسی نے آواز نہ اٹھائی ہو۔ اسی لڑی کے پہلے مراسلے کو دیکھیے 2014 کا ہے۔

آئی پی پیز کے موضوع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے سب سے پہلے آواز اٹھائی۔ اور دیگر لوگ بھی اس پر بات کرتے رہے ہیں۔



سبجیکٹ ٹو دی کنڈیشن ڈیٹ:
power plant capacity to generate electricity remains same over period of time
اب یہاں آڈٹ کی بات تو آئے گی کہ مختلف ادوار میں کیپیسٹی کی جانچ کیے بغیر رقم کیوں ادا کی گئی۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں ہم الجھ سکتے ہیں، ذمہ داروں کو سزائیں دی جا سکتی ہیں، تاہم آئی پی پیز کا بال بیکا کرنامشکل ہے۔ ایک یہ صورت بچتی ہے کہ اُن پر اس حد تک اخلاقی دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اپنے منافع کو کم رکھنے پر آمادہ ہو جائیں۔ بصورت دیگر قانونی طور پر آپ اُن کے خلاف کچھ زیادہ نہیں کر سکتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
آئی پی پیز-10(18)/2020 تاریخ 6 اکتوبر 2020 ء کو سرکاری ملکیت والے پاور پراجیکٹس (آر ایل این جی آئی پی پیز) کے آر او ای کو ڈالر انڈیکسیشن کے ساتھ 16 فیصد آئی آر آر سے کم کرکے 12 فیصد آئی آر آر کردیا گیا۔ پاور ریگولیٹر نیپرا نے اس پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے 12 فیصد آئی آر آر کر دیا ہے لیکن ڈالر انڈیکسیشن برقرار رہا۔


1- پہلے قدم کے طور پر حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سرکاری پاور پلانٹس سے ڈالر انڈیکسیشن کو ختم کرے۔ 12 فیصد منافع معقول لگتا ہے لیکن روپے پر مبنی ہونا چاہئے۔ یہ اقدام نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ اسی طرح کی شرائط پر بات چیت کے لئے ایک مثال قائم کرے گا ، جس سے زیادہ پائیدار اور مساوی توانائی کے شعبے کو فروغ ملے گا۔

2- سرکاری شعبے میں فرسودہ اور غیر موثر پیداواری سہولیات کو مرحلہ وار ختم کرنا چاہئے تاکہ کیپیسٹی کی ادائیگیوں کے بوجھ کو کم سے کم کیا جاسکے اور صرف موثر پلانٹس کے آپریشن کو یقینی بنایا جاسکے۔

3- 1994 اور 2002 کی پالیسیوں کے تحت قائم آئی پی پیز کے ساتھ کسی معاہدے کی تجدید نہیں کی جانی چاہئے۔

۔۔۔۔

4- تھرمل پاور پلانٹس پر کلی طور پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ یہ مہنگے بھی ہیں اور ماحول دشمن بھی۔ پاکستان میں گرمی کا باعث تھرمل پاور پلانٹس بھی ہیں۔
متعلقہ:

حکومت کے آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے، کیا سستی بجلی کا خواب پورا ہوگا؟

 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
اس خبر کے مطابق،
پاکستان میں حکومت نے آئی پی پیز کے حکام سے طویل مذاکرات کے بعد ایک نئے میمورینڈم آف انڈرسٹنڈنگ (ایم او یو) پر دستخط کیے ہیں جس کا باقاعدہ اعلان وزیرِ اعظم عمران خان نے 14 اگست کو کیا تھا۔
///


ایم او یو سے بات آگے بڑھی؟
 

الف نظامی

لائبریرین
1- پہلے قدم کے طور پر حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام سرکاری پاور پلانٹس سے ڈالر انڈیکسیشن کو ختم کرے۔ 12 فیصد منافع معقول لگتا ہے لیکن روپے پر مبنی ہونا چاہئے۔ یہ اقدام نجی سرمایہ کاروں کے ساتھ اسی طرح کی شرائط پر بات چیت کے لئے ایک مثال قائم کرے گا ، جس سے زیادہ پائیدار اور مساوی توانائی کے شعبے کو فروغ ملے گا۔

2- سرکاری شعبے میں فرسودہ اور غیر موثر پیداواری سہولیات کو مرحلہ وار ختم کرنا چاہئے تاکہ کیپیسٹی کی ادائیگیوں کے بوجھ کو کم سے کم کیا جاسکے اور صرف موثر پلانٹس کے آپریشن کو یقینی بنایا جاسکے۔

3- 1994 اور 2002 کی پالیسیوں کے تحت قائم آئی پی پیز کے ساتھ کسی معاہدے کی تجدید نہیں کی جانی چاہئے۔

۔۔۔۔

4- تھرمل پاور پلانٹس پر کلی طور پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ یہ مہنگے بھی ہیں اور ماحول دشمن بھی۔ پاکستان میں گرمی کا باعث تھرمل پاور پلانٹس بھی ہیں۔
5-بہت سے منصوبے حکومت پنجاب کے ہیں اور حکومت پنجاب چاہے تو کیپیسٹی پیمنٹ ختم کر سکتی ہے۔
بیرسٹر علی ظفر ، یو ٹیوب ویڈیو ،3:12
 

علی وقار

محفلین
معاہدے پر منحصر ہے کہ کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔

ریاستی سطح پر جب معاہدہ کر لیا جائے تو پھر اس کی خلاف ورزی کرنے کا سوچنا بھی نہیں چاہیے۔

معاہدے کرتے وقت ہماری عقل سمجھ کہاں تھی؟ بہتر ہے کہ اب انہیں ووٹ نہ دیں جنہوں نے ایسے ظالمانہ معاہدے کیے۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
4- تھرمل پاور پلانٹس پر کلی طور پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ یہ مہنگے بھی ہیں اور ماحول دشمن بھی۔ پاکستان میں گرمی کا باعث تھرمل پاور پلانٹس بھی ہیں۔

سی پیک کے 21 ارب ڈالر سے وہ پلانٹ جو چین نے آلودگی کی وجہ سے ختم کر دیے تھے وہ 2013میں پاکستان میں آ کر لگے۔
شہزاد چوہدری ، یو ٹیوب ویڈیو 2:26
 

علی وقار

محفلین
Top