جاسم محمد
محفلین
گرمی کا شکارجیکب آباد انسانوں کے لیے ناقابلِ رہائش بن رہا ہے ، بین الاقوامی ماہرین
ویب ڈیسک اتوار 10 مئ 2020
امریکی اور برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ نمی اور گرمی کے تحت ویٹ بلب ٹمپریچر پاکستان کے شہر جیکب آباد میں اپنی حدود کو چھورہا ہے۔ فوٹو: اخترسومرو، رائٹرز، بحوالہ نیوسائنٹسٹ
لندن: برطانوی اور امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک اور مقامات ایسے ہیں جو ایک ساتھ گرمی اور رطوبت بڑھنے سے انسانی رہائش کے لیے تیزی سے غیرموزوں ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں پاکستان کا جیکب آباد اور متحدہ عرب امارات کا شہر راس الخیمہ سرِ فہرست ہیں۔
اپنی نوعیت کے پہلے مطالعے میں ماہرین نے کہا ہے کہ اوپر بیان کردہ دونوں شہروں کا درجہ حرارت اب 24 گھنٹے میں ایک یا دو مرتبہ کم ازکم ایک یا دو گھنٹے کے لیے اس حد تک جاپہنچتا ہے جسے ٹی ڈبلیو پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے دنیا بھر کے موسمیاتی اسٹیشن کا بغور مطالعہ کیا ہے۔
اس مظہر کو ویٹ بلب ٹمپریچر (ٹی ڈؓبلیو) کہا جاتا ہے جس میں ایک ہی ساتھ کسی علاقے میں گرمی اور نمی دونوں کو ناپا جاتا ہے۔ یہ درجہ حرارت ایسے تھرمامیٹر سے ناپا جاتا ہے جو گیلے کپڑے میں لپٹا ہوتا ہے۔ اگر اس صورتحال میں ٹی ڈبلیو 35 ہوجائے تو جسم پسینہ بہاکر خود کو ٹھنڈا نہیں رکھ سکتا ۔ لیکن اس سے کم مقدار بھی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے جس میں 2003 کی یورپی ہیٹ ویو قابلِ ذکر ہے۔ 17 سال قبل یورپ میں ٹی ڈبلیو صرف 28 تھا لیکن اس کے باوجود ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی اور برطانوی ماہرین نے پوری دنیا میں ٹی ڈبلیو کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ 1979 کے بعد سے دنیا کے کئی خطوں یں ویٹ بلب ٹیمپریچر کے 27 اور 35 ٹی ڈبلیو پہنچنے کی شرح دوگنی ہوچکی ہے۔ جبکہ طبی ماہرین کا اصرار ہے کہ 35 ڈی ڈبلیو ایک آخری حد ہے جس کے بعد جسم کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں بالخصوص جیکب آباد، جبکہ خلیجِ فارس، بھارت اور شمالی امریکا کے بعض حصے ایسے ہیں جہاں پہلی مرتبہ 35 درجے سینٹی گریڈ ٹی ڈبلیو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ سب اعدادوشمار اب حتمی دریافت کے بعد سائنسی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔
’ ان تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے ہم انسانی صحت و بقا کے خطرات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ دن میں یہ کیفیت کم وقت کے لیے ہورہی ہے لیکن پوری دنیا میں ہم اس حد کو تیزی سے عبور کررہے ہیں،‘ ٹام میتھیوز نے تبایا جو لوبورو یونیورسٹی، برطانیہ کے سائنسداں ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کیفیت سے یہ تمام علاقے ان موسمیاتی پیشگوئیوں سے کہیں تیزی سے گرم ہورہے ہیں جو عالی ماڈلنگ کے تحت کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر میتھیوز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بالخصوص پاکستان اور بھارت کے مزید کئی علاقے گرمی کی اس حد میں آسکتے ہیں ۔ انہوں نے ان علاقوں میں گھروں اور دفاتر کو ٹھنڈا رکھنے پر بطورِ خاص زور دیا۔
دوسری جانب اس مطالعے سے الگ تھلگ ایک اور موسمیاتی ماہر اسٹیون شیروڈ کہتے ہیں کہ اگرچہ پیمائشیں درست ہیں لیکن انسانی جسم اس سے بھی زیادہ گرمی برداشت کرسکتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ افریقہ اور دیگر کئی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی بنا پر یہ تحقیق عالمی آبادی کے لیے انتہائی خطرناک قرار نہیں دی جاسکتی۔
ویب ڈیسک اتوار 10 مئ 2020
امریکی اور برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ نمی اور گرمی کے تحت ویٹ بلب ٹمپریچر پاکستان کے شہر جیکب آباد میں اپنی حدود کو چھورہا ہے۔ فوٹو: اخترسومرو، رائٹرز، بحوالہ نیوسائنٹسٹ
لندن: برطانوی اور امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک اور مقامات ایسے ہیں جو ایک ساتھ گرمی اور رطوبت بڑھنے سے انسانی رہائش کے لیے تیزی سے غیرموزوں ہوتے جارہے ہیں۔ ان میں پاکستان کا جیکب آباد اور متحدہ عرب امارات کا شہر راس الخیمہ سرِ فہرست ہیں۔
اپنی نوعیت کے پہلے مطالعے میں ماہرین نے کہا ہے کہ اوپر بیان کردہ دونوں شہروں کا درجہ حرارت اب 24 گھنٹے میں ایک یا دو مرتبہ کم ازکم ایک یا دو گھنٹے کے لیے اس حد تک جاپہنچتا ہے جسے ٹی ڈبلیو پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے دنیا بھر کے موسمیاتی اسٹیشن کا بغور مطالعہ کیا ہے۔
اس مظہر کو ویٹ بلب ٹمپریچر (ٹی ڈؓبلیو) کہا جاتا ہے جس میں ایک ہی ساتھ کسی علاقے میں گرمی اور نمی دونوں کو ناپا جاتا ہے۔ یہ درجہ حرارت ایسے تھرمامیٹر سے ناپا جاتا ہے جو گیلے کپڑے میں لپٹا ہوتا ہے۔ اگر اس صورتحال میں ٹی ڈبلیو 35 ہوجائے تو جسم پسینہ بہاکر خود کو ٹھنڈا نہیں رکھ سکتا ۔ لیکن اس سے کم مقدار بھی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے جس میں 2003 کی یورپی ہیٹ ویو قابلِ ذکر ہے۔ 17 سال قبل یورپ میں ٹی ڈبلیو صرف 28 تھا لیکن اس کے باوجود ہزاروں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
امریکی اور برطانوی ماہرین نے پوری دنیا میں ٹی ڈبلیو کا تجزیہ کیا ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ 1979 کے بعد سے دنیا کے کئی خطوں یں ویٹ بلب ٹیمپریچر کے 27 اور 35 ٹی ڈبلیو پہنچنے کی شرح دوگنی ہوچکی ہے۔ جبکہ طبی ماہرین کا اصرار ہے کہ 35 ڈی ڈبلیو ایک آخری حد ہے جس کے بعد جسم کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ پاکستان میں بالخصوص جیکب آباد، جبکہ خلیجِ فارس، بھارت اور شمالی امریکا کے بعض حصے ایسے ہیں جہاں پہلی مرتبہ 35 درجے سینٹی گریڈ ٹی ڈبلیو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ سب اعدادوشمار اب حتمی دریافت کے بعد سائنسی ریکارڈ کا حصہ بن چکے ہیں۔
’ ان تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے ہم انسانی صحت و بقا کے خطرات کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اگرچہ دن میں یہ کیفیت کم وقت کے لیے ہورہی ہے لیکن پوری دنیا میں ہم اس حد کو تیزی سے عبور کررہے ہیں،‘ ٹام میتھیوز نے تبایا جو لوبورو یونیورسٹی، برطانیہ کے سائنسداں ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس کیفیت سے یہ تمام علاقے ان موسمیاتی پیشگوئیوں سے کہیں تیزی سے گرم ہورہے ہیں جو عالی ماڈلنگ کے تحت کی گئی ہیں۔ ڈاکٹر میتھیوز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بالخصوص پاکستان اور بھارت کے مزید کئی علاقے گرمی کی اس حد میں آسکتے ہیں ۔ انہوں نے ان علاقوں میں گھروں اور دفاتر کو ٹھنڈا رکھنے پر بطورِ خاص زور دیا۔
دوسری جانب اس مطالعے سے الگ تھلگ ایک اور موسمیاتی ماہر اسٹیون شیروڈ کہتے ہیں کہ اگرچہ پیمائشیں درست ہیں لیکن انسانی جسم اس سے بھی زیادہ گرمی برداشت کرسکتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ افریقہ اور دیگر کئی ممالک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اسی بنا پر یہ تحقیق عالمی آبادی کے لیے انتہائی خطرناک قرار نہیں دی جاسکتی۔