گرگٹ - انتون چیخوف

حسان خان

لائبریرین
گرگٹ - انتون چیخوف

پولیس کا داروغہ اوچمیلوف نیا اوورکوٹ پہنے، بغل میں ایک بنڈل دبائے بازار کے چوک سے گزر رہا تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے لال بالوں والا پولیس کا ایک سپاہی ہاتھ میں ایک ٹوکری لیے لپکا چلا آ رہا تھا۔ ٹوکری ضبط کیے گئے کروندوں سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔ چاروں طرف خاموشی۔۔۔۔ چوک میں ایک بھی آدمی نہیں۔۔۔۔ بھوکے لوگوں کی طرح دکانوں اور شراب خانوں کے کھلے ہوئے دروازے خدا کی تخلیق کو اداسی بھری نگاہوں سے تاک رہے تھے، یہاں تک کہ کوئی بھکاری بھی آس پاس دکھائی نہیں دیتا تھا۔

"اچھا! تو تو کاٹے گا؟ شیطان کہیں کا!" اوچمیلوف کے کانوں میں اچانک یہ آواز آئی، "پکڑ تو لو، چھوکرو! جانے نہ پائے! اب تو کاٹنا منع ہو گیا ہے! پکڑ لو! آ۔۔۔ آہ"

کتے کی پیں پیں کی آواز سنائی دی۔ اوچمیلوف نے مڑ کر دیکھا کہ بیوپاری پچوگن کی لکڑی کی ٹال میں سے ایک کتا تین ٹانگوں سے بھاگتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ کلفدار چَھپی ہوئی قمیض پہنے، واسکٹ کے بٹن کھولے ایک آدمی اسکا پیچھا کر رہا ہے۔ وہ کتے کے پیچھے لپکا اور اسے پکڑنے کی کوشش میں گرتے گرتے بھی کتے کی پچھلی ٹانگ پکڑ لی۔ کتے کی پیں پیں اور وہی چیخ 'جانے نہ پائے!" دوبارہ سنائی دی۔ اونگھتے ہوئے لوگ دکانوں سے باہر گردنیں نکال کر دیکھنے لگے، اور دیکھتے دیکھتے ایک بھیڑ ٹال کے پاس جمع ہو گئی، گویا زمین پھاڑ کر نکل آئی ہو۔

"حضور! معلوم پڑتا ہے کہ کچھ جھگڑا فساد ہو رہا ہے!" سپاہی بولا۔

اوچمیلوف بائیں جانب مڑا اور بھیڑ کی طرف چل دیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹال کے پھاٹک پر وہی آدمی کھڑا ہے۔ اس کی واسکٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ وہ اپنا داہنا ہاتھ اوپر اٹھائے، بھیڑ کو اپنی لہولہان انگلی دکھا رہا تھا۔ لگتا تھا کہ اس کے نشیلے چہرے پر صاف لکھا ہوا ہو "ارے بدمعاش!" اور اس کی انگلی جیت کا جھنڈا ہے۔ اوچمیلوف نے اس شخص کو پہچان لیا۔ یہ سنار خُوکِن تھا۔ بھیڑ کے بیچوں بیچ اگلی ٹانگیں پھیلائے ملزم، سفید گرے ہاؤنڈ کا پلا، چھپا پڑا، اوپر سے نیچے تک کانپ رہا تھا۔ اس کا منہ نکیلا تھا اور پیٹھ پر پیلا داغ تھا۔ اس کی آنسو بھری آنکھوں میں مصیبت اور ڈر کی چھاپ تھی۔

"یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے یہاں؟" اوچمیلوف نے کندھوں سے بھیڑ کو چیرتے ہوئے سوال کیا۔ "یہ انگلی کیوں اوپر اٹھائے ہو؟ کون چلا رہا تھا؟"

"حضور! میں چپ چاپ اپنی راہ جا رہا تھا، بالکل گائے کی طرح،" خوکن نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر، کھانستے ہوئے کہنا شروع کیا، "مستری مِترِچ سے مجھے لکڑی کے بارے میں کچھ کام تھا۔ یکایک، نہ جانے کیوں، اس بدمعاش نے میری انگلی میں کاٹ لیا۔۔۔ حضور معاف کریں، پر میں کام کاجی آدمی ٹھہرا،۔۔۔۔ اور پھر ہمارا کام بھی بڑا پیچیدہ ہے۔ ایک ہفتے تک شاید میری انگلی کام کے لائق نہ ہو پائے گی۔ اس لیے مجھے ہرجانہ دلوا دیجیے۔ اور حضور، قانون میں بھی کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہم جانوروں کو چپ چاپ برداشت کرتے رہیں۔۔۔۔ اگر سبھی ایسے ہی کاٹنے لگیں، تب تو جینا دوبھر ہو جائے گا۔"

"ہوں۔۔ اچھا۔۔" اوچمیلوف نے گلا صاف کر کے، تیوریاں چڑھاتے ہوئے کہا، "ٹھیک ہے۔۔۔۔ اچھا، یہ کتا ہے کس کا؟ میں اس معاملے کو یہیں نہیں چھوڑوں گا! کتوں کو کھلا چھوڑے رکھنے کے لیے میں ان لوگوں کو مزا چکھاؤں گا! جو لوگ قانون کے مطابق نہیں چلتے، انکے ساتھ اب سختی سے پیش آنا پڑے گا! ایسا جرمانہ ٹھوکوں گا کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ بدمعاش کہیں کے! میں اچھی طرح سکھا دوں گا کہ کتوں اور ہر طرح کے مویشیوں کو ایسے چھٹا چھوڑ دینے کا کیا مطلب ہے! میں اسکی عقل درست کر دوں گا، یلدرن!" سپاہی کو مخاطب کر کے داروغہ چلایا، "پتہ لگاؤ کہ یہ کتا ہے کس کا، اور رپورٹ تیار کرو! کتے کو فورا مروا دو! یہ شاید پاگل ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں، یہ کتا کس کا ہے؟"

"شاید جنرل ژِگالوف کا ہو!" بھیڑ میں سے کسی نے کہا۔

"جنرل ژگالوف کا؟ ہوں۔۔۔ یلدرن، ذرا میرا کوٹ تو اتارنا۔ اف، بڑی گرمی ہے۔۔۔۔ معلوم پڑتا ہے کہ بارش ہو گی۔ اچھا، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے تمہیں کاٹا کیسے؟ اوچمیلوف خوکن کی جانب مڑا، "یہ تمہاری انگلی تک پہنچا کیسے؟ یہ ٹھہرا چھوٹا سا اور تم ہو پورے لمبے چوڑے۔ کسی کیل ویل سے انگلی چھیل لی ہو گی اور سوچا ہو گا کہ کتے کے سر منڈ کر ہرجانہ وصول کر لو۔ میں خوب سمجھتا ہوں۔ تمہارے جیسے بدمعاشوں کی تو میں نس نس پہچانتا ہوں!"

"اِس نے اُس کے منہ پر جلتی سگریٹ لگا دی تھی، حضور! یوں ہی مذاق میں اور یہ کتا بیوقوف تو ہے نہیں، اس نے کاٹ لیا۔ یہ شخص بڑا اوٹ پٹانگ ہے، حضور!"

"او بھینگے! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ جب تو نے دیکھا نہیں، تو گپ کیوں مارتا ہے؟ اور سرکار تو خود سمجھدار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو اس کا فیصلہ عدالت کو کرنے دو۔ یہ قانون میں لکھا ہے۔۔۔۔ ہم سب اب برابر ہیں۔ خود میرا بھائی پولیس میں ہے۔۔۔۔ بتائے دیتا ہوں۔۔۔۔ ہاں۔۔۔"

"بند کرو یہ بکواس!"

"نہیں، یہ جنرل صاحب کا کتا نہیں ہے،" سپاہی نے سنجیدگی سے کہا، "ان کے پاس ایسا کوئی کتا ہے ہی نہیں، ان کے تو سبھی کتے شکاری پونڈر ہیں۔"

"تمہیں ٹھیک معلوم ہے؟"

"جی سرکار۔"

"میں بھی جانتا ہوں۔ جنرل صاحب کے سب کتے اچھی نسل کے ہیں، ایک سے ایک قیمتی کتا ہے ان کے پاس۔ اور یہ تو بالکل ایسا ویسا ہی ہے، دیکھو نا! بالکل مریل ہے۔ کون رکھے گا ایسا کتا؟ تم لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہوا؟ اگر ایسا کتا ماسکو یا پیٹرسبرگ میں دکھائی دے تو جانتے ہو کیا ہو؟ قانون کی پروا کیے بنا، ایک منٹ میں اُس سے چھُٹی پالی جائے۔ خوکن! تمہیں چوٹ لگی ہے۔ تم اس معاملے کو یوں ہی مت ٹالو۔۔۔۔ ان لوگوں کو مزا چکھانا چاہیے۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔"

"لیکن ممکن ہے، یہ جنرل صاحب کا ہی ہو،" سپاہی بڑبڑایا، "اسکے ماتھے پر تو لکھا نہیں ہے۔ جنرل صاحب کے احاطے میں میں نے کل بالکل ایسا ہی کتا دیکھا تھا۔"

"ہاں ہاں، جنرل صاحب کا تو ہے ہی!" بھیڑ میں سے کسی کی آواز آئی۔

"ہوں۔۔۔ یلدرن، ذرا مجھے کوٹ تو پہنا دو۔ ابھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا، مجھے سردی لگ رہی ہے۔ کتے کو جنرل صاحب کے یہاں لے جاؤ اور وہاں معلوم کرو۔ کہہ دینا کہ میں نے اِسے سڑک پر دیکھا تھا اور واپس بھجوایا ہے۔ اور ہاں، دیکھو، یہ کہہ دینا کہ اسے سڑک پر نہ نکلنے دیا کریں۔ معلوم نہیں، کتنا قیمتی کتا ہو اور اگر ہر بدمعاش اس کے منہ میں سگریٹ گھسیڑتا رہا تو کتا بہت جلدی تباہ ہو جائے گا۔ کتا بہت نازک جانور ہوتا ہے۔ اور تو ہاتھ نیچا کر، گدھا کہیں کا۔ اپنی گندی انگلی کیوں دکھا رہا ہے؟ سارا قصور تیرا ہی ہے۔"

"یہ جنرل صاحب کا باورچی آ رہا ہے، اس سے پوچھ لیا جائے۔ اے پروخور! ذرا ادھر تو آنا، بھائی۔ اس کتے کو دیکھنا، تمہارے یہاں کا تو نہیں ہے؟"

"واہ! ہمارے یہاں کبھی بھی ایسا کتا نہیں تھا۔"

"اس میں پوچھنے کی کیا بات تھی؟ بیکار وقت خراب کرنا ہے،" اوچمیلوف نے کہا، "آوارہ کتا ہے، یہاں کھڑے کھڑے اس کے بارے میں بات کرنا وقت برباد کرنا ہے۔ تم سے کہا گیا ہے کہ آوارہ ہے تو آوارہ ہی سمجھو۔ مار ڈالو اور چھٹی پاؤ۔"

"ہمارا تو نہیں ہے،" پروخور نے پھر آگے کہا، "یہ جنرل صاحب کے بھائی کا کتا ہے۔ ہمارے جنرل صاحب کو گرے ہاؤنڈ کے کے کتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، پر ان کے بھائی صاحب کو یہ نسل پسند ہے۔"

"کیا؟ جنرل صاحب کے بھائی آئے ہیں؟ ولاڈمیر ایوانِچ؟" اچنبھے سے اوچمیلوف بول اٹھا، اسکا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ "ذرا سوچو تو! مجھے معلوم بھی نہیں۔ ابھی ٹھہریں گے کیا؟"

"ہاں۔"

"واہ جی واہ! وہ اپنے بھائی سے ملنے آئے اور مجھے معلوم بھی نہیں کہ وہ آئے ہیں۔ تو یہ ان کا کتا ہے؟ بہت خوشی کی بات ہے۔ اسے لے جاؤ۔ کیسا پیارا ننہا سا منا سا کتا ہے۔ اِسکی انگلی پر جھپٹا تھا۔ بس بس، اب کانپو مت۔ غر۔۔۔ غر۔۔۔ شیطان غصے میں ہے۔۔۔ کتنا بڑھیا پلا ہے۔"

پروخور نے کتے کو بلایا اور اسے اپنے ساتھ لے کر ٹال سے چل دیا۔ بھیڑ خوکن پر ہنسنے لگی۔

"میں تجھے ٹھیک کر دوں گا۔" اوچمیلوف نے اسے دھمکایا اور اپنا لبادہ لپیٹتا ہوا بازار کے چوک کے بیچ اپنے راستے چلا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بہت عمدہ شراکت۔ ہو سکے تو مآخذ بھی لکھ دیجیے۔ بہت شکریہ!
بہت خوب۔ A Chameleon کا عمدہ ترجمہ ۔ ہو سکے تو مترجم کا نام بتائیے۔

یہ افسانہ کچھ ماہ پہلے میں نے ہندی میں شائع ایک افسانوی مجموعے سے چنا تھا۔ مترجم (جن کا نام اب مجھے یاد نہیں) نے اسے روسی سے ہندی میں ترجمہ کیا تھا۔ میں نے بس اسی ترجمے کو اردو کے قالب میں ڈھال دیا۔ اب ترجمہ تو نہیں کہہ سکتے، کیونکہ میں نے صرف رسم الخط تبدیل کیا ہے اور ہندی کے نامانوس الفاظ کی جگہ اردو کے متبادل ڈال دیے ہیں۔ جملوں کی اور کہانی کی ساخت کم و بیش وہی ہے۔
 

انتہا

محفلین
بہت خوب حسان صاحب، اب ذرا اس کو بھی پڑھیے۔ یہ ایک قدیم اردو کا نمونہ ہے، اس کا حوالہ کچھ وقت بعد دوں گا۔
25ڈپٹی صاحب کا کتا
داروغا جی محلے کی سڑک پر خراماں خراماں تشریف لے جارہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بید کا ٹکڑا ہے، جس کی دم میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لگے ہوئے ہیں وہ اس کو اس طرح ہلاتے اور گھماتے چلے جاتے ہیں کہ چمڑے کے ٹکڑوں کا ایک پھول ہوا میں جن جاتا ہے۔ سیاہ فام چہرے گھنی مونچھوں سے ڈھکے ہوئے موٹے موٹے ہونٹ ہیں۔ جس کی گرفت میں ایک سلگتا ہوا سگریٹ ہے، اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے وہ ہر طرف دیکھتے جاتے ہیں گویا محلے کے ہر درو دیوار پر اور ہر دروازے میں دو نہیں ایک چھپا ہوا چور نظر آنے والا ہے!
سڑک پر کھیلتے ہوئے بچے داروغا جی کو دیکھ کر اپنے اپنے گھروں کے دروازوں کی طرف بھاگنے لگے!
محلہ کی پنہاریوں نے راستا چھوڑ کر اپنے گھونگھٹ لمبے کر لئے!۔ اس طرح داروغا جی محلے میں شام کا پہرا لگا رہے ہیں!!
’’کیوں بے دیکھتا نہیں!‘‘
بھنگی نے جھاڑو چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے سلام کیا۔ داروغا جی نے جیب سے رومال نکال کر اپنی ناک کو لگایا تاکہ سڑک پر بھنگی کی جھاڑو سے جو خاک اڑ رہی تھی وہ ان کے سریع الحس ناک میں داخل نہ ہونے پائے۔
”خاں صاحب! ہم دیکھتے ہیں تمہارے ہاں اب تاش بہت کھیلا جاتا ہے۔‘‘ خاں صاحب معہ اپنے احباب کے گھبرا کر چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔“
”آئیے داروغا جی! آئیے حُقّا تو پیتے جایئے۔‘‘
”کیوں جی! گیہوں کا بھائو پھر تم نے بڑھا دیا؟‘‘
بنیا دکان سے اتر کر سڑک پر آگیا:۔
’’نہیں تو ہجور!‘‘ اس نے گڑگڑا کر کہا۔‘‘ بھلا سرکاروں سے بھائو تائو کیا۔
’’ادہر آبے!‘‘ داروغا جی نے ایک لونڈے کو، گائیں ہکائے لئے جارہا تھا، بلایا ’’دیکھ! تیرے گھر تازا مکھن ہو تو اپنی ماں سے کہنا۔ ایک پائو بھر تھانے میں پہنچا دے!۔‘‘
داروغا جی اپنے چمڑے کا ٹکڑا گھماتے ہوئے چلے جارہے ہیں! خان بائی کے دکان کے سامنے ایک کتا بیٹھا ہوا تھا۔ کیا جانے کیا سمجھ کر وہ بھوکنے لگا۔
’’کیوں بے!‘‘ داروغا جی کُتّے سے مخاطب ہوئے ’’بہت دانت نکالتا ہے۔‘‘ ایک چابک لگا کر:۔
’’اور لے گا؟‘‘ محلے والوں کی طرف مخاطب ہوکر۔ ’’کیوں جی۔ تم لوگ ان کٹکھنے کتوں کو مارتے بھی نہیں۔ عجیب لوگ ہیں اس محلے کے۔ کیوں جی! معلوم ہے قانون کیا کہتا ہے؟ قانون کہتا ہے کہ کاٹنے والے کتے کو فوراً مار دیا جائے۔ مارنا تو ذرا دو لاتیں اس مردود کے! بھونکے جاتا ہے! بھونکے جاتا ہے۔‘‘
دو ایک آدمی دوڑ پڑے۔ کتے کا پٹا پکڑ کر اس کو دھپانا شروع کیا۔ کتا ٹیائوں ٹیائوں کر رہا ہے۔ داروغا جی نے اپنا چمڑے کا ٹکڑا بغل میں اور سگریٹ منھ سے نکال کر انگلیوں میں دبا لیا ہے۔ ان کی آنکھوں میں روشنی بڑھ گئ ہے!
’’مارو بہت گلا پھاڑتا ہے، موذی ہے!۔‘‘
اب تو محلے کے بچے بوڑھے، جوان سب ہی سمٹ آئے۔ دکان دار بھی اپنی دکانوں کے تختوں سے اٹھ کر سڑک پر آگئے۔ داروغا جی کے حکم سے کتا پٹیا جارہا ہے!
محلے کے دوسرے سرے کی دکان پر ایک ’’جُوآن‘‘ بھی بیٹھا ہوا حقا پی رہا تھا، اس نے جو سنا کہ داروغا جی محلے میں آگئے تو وہ بھی اپنی پیٹی کمر میں اور صافا سر پر درست کرتا ہوا اٹھا، محلے والے جمع ہیں۔ داروغا جی پہلا سگریٹ ختم کرکے دوسرا سلگا رہے ہیں۔ اور کتا پٹ رہا ہے!
کتا چھوٹی نسل کا بھورے بالوں والا۔ خاصا خوبصورت کتا تھا۔ کبھی نان بائی کی دکان کے سامنے آجایا کرتا تھا۔ مزاج کا ذرا کڑوا تھا اور کم بخت کو داروغا اور غیر داروغا کی پہچان نہ تھی۔
اس وقت اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں دم ٹانگوں کے اندر مڑ کر گویا چپک گئی تھی زبان ایک انچ سے زیادہ باہر نکلی ہوئی تھی، اس کا ہر انداز رحم طلب تھا!
’’یہ کتا کہیں چھوٹے صاحب کا نہ ہو۔‘‘ کانسٹبل نے داروغا کے کان سے منھ ملا کر کہا۔
’’ارے کس کا ہے یہ کتا؟۔‘‘ داروغا جی نے محلے والوں سے سوال کیا۔ مار پیٹ اب بند ہوگئی۔
شیخ جی! جو ابھی ابھی شور پکار سن کر مسجد سے نکلے تھے۔ دبی زبان سے کہنے لگے:۔
’’یہ کتا تو، صاحب میرے، وہی نا، جو نئے ڈپٹی صاحب آئے ہیں ان کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘
ایک لونڈا بول پڑا۔
دیکھا تو ان ہی کے دروازے پر ہے داروغا جی،
داروغا جی نے سگریٹ کی جلتی ہوئی دم نالی کی طرف پھینک دی۔ کچھ کھانسے۔
’’بھئی کتا تو اچھی نسل کا ہے۔ ہو نہ ہو ڈپٹی صاحب ہی کا ہوگا۔ ذرا ادھر تو لائو اس کو‘‘ کتے کے سر پر انہوں نے ہاتھ پھیرا۔
’’اچھا کتا ہے۔ نئے ڈپٹی صاحب آدمی شوقین ہیں۔‘‘
پھر کتے کے سر پر تھپکی دی۔ وہ مانوس نہیں ہوتا دم اس کی ابھی تک ٹانگوں کے اندر ہے۔ اب وہ چیختا تو نہیں۔ مگر غرائے جاتا ہے۔
’’مزاج کا ذرا گرم ہے یہ کتا۔ یہی تو علامت ہے اس بات کی کہ اچھی نسل کا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر داروغا جی نے محلے والوں کی طرف دیکھا گویا اپنی پہچان اور شناخت کی داد چاہتے ہیں۔ کلو نان بائی نے اپنی دکان کے تختے پر سے پکارا۔
’’اجی نہیں، داروغا جی! یہ سسرا تو روز میری دکان کے سامنے بیٹھا رہتا ہے، بھلا ڈپٹی صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔‘‘
کسی نے جواب دیا۔
’’نہیں جی، پاگل ہو، اس کا پٹا نہیں دیکھا، پالتو ہے جی، بازاری نہیں ہے۔‘‘ داروغا جی نے تیسرا سگریٹ سلگایا۔ ان کا پارا ذرا چڑھنے لگا۔
’’ارے یہاں! تم اتنے محلے والے ہو کسی کو معلوم نہیں کہ کتا کس کا ہے۔ عجب بے خبر لوگ ہو تم! اس محلے کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
’’ہاں صاحب! ہاں صاحب! ہمیں معلوم ہے یہ کتا ڈپٹی صاحب کا ہے۔ ہم نے ہزار دفعہ اس کو ان کی کرسی کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
’’ارے میاں! تم بھی عجیب آدمی ہو خاں صاحب‘‘داروغا جی نے جلدی سے فرمایا۔ ’’کھڑے دیکھ رہے ہو۔ کتا غریب پٹ رہا ہے۔ اور روکتے بھی نہیں۔ بھلا یہ کیا ظلم ہے کہ سب کے سب غریب کتے پر ٹوٹ پڑیں۔ چھوڑ دو، اس کا پٹا چھوڑ دو جی! معلوم نہیں کہاں سے گھیر گھار کر اس کو لے آئے۔ اور کہتے ہو کہ دکان کے سامنے پڑا رہتا ہے! معلوم نہیں تم لوگوں کو؟ جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے، ابھی چاہوں تو دو چار کا چالان کردوں! غضب خدا کا، غریب کتا کس بری طرح پیٹا گیا ہے۔ تم لوگ انسان ہو یا جانور بے زبان جانوروں پر یہ ظلم؟ اس وقت میں نہ آگیا ہوتا تو تم لوگ تو مار ہی ڈالتے ڈپٹی صاحب کے کتے کو!‘‘
کانسٹبل کی مخاطب ہوکر فرمانے لگے۔
’’لے بھئی، ذرا اٹھا تو لے اس غریب کو سنبھال کر، چل ڈپٹی صاحب کے یہاں پہنچا دیں۔‘‘
محلے والوں کی طرف رخ کرکے۔
’’دیکھو جی! خبردار، آئندہ ایسی حرکت نہ کی جائے۔ ورنا باندھ لے جائوں گا دس پانچ کو۔‘‘
(تین پیسے کی چھوکری)
 

انتہا

محفلین
بہت عمدہ شراکت۔ ہو سکے تو مآخذ بھی لکھ دیجیے۔ بہت شکریہ!
بہت خوب۔ A Chameleon کا عمدہ ترجمہ ۔ ہو سکے تو مترجم کا نام بتائیے۔
یہ افسانہ کچھ ماہ پہلے میں نے ہندی میں شائع ایک افسانوی مجموعے سے چنا تھا۔ مترجم (جن کا نام اب مجھے یاد نہیں) نے اسے روسی سے ہندی میں ترجمہ کیا تھا۔ میں نے بس اسی ترجمے کو اردو کے قالب میں ڈھال دیا۔ اب ترجمہ تو نہیں کہہ سکتے، کیونکہ میں نے صرف رسم الخط تبدیل کیا ہے اور ہندی کے نامانوس الفاظ کی جگہ اردو کے متبادل ڈال دیے ہیں۔ جملوں کی اور کہانی کی ساخت کم و بیش وہی ہے۔

کچھ مماثلت نظر آئی اپنی ترجمہ کی گئی کہانی سے؟ آپ نے جہاں سے کہانی لی ہے اگر اس کی تاریخ تصنیف بھی مل جائے تو کچھ اندازہ کرنا آسان ہو جائے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نہ تو ہندی ترجمہ کا ماخذ اور نہ ہی مترجم کا نام یاد ہے۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ یہ افسانہ معروف روسی ادیب انتون چیخوف کا ہے جن کا سالِ انتقال 1904 ہے۔ شاید جو کہانی آپ نے پیش کی ہے، وہ چیخوف کی کہانی سے ماخوذ ہو۔
 

انتہا

محفلین
نہ تو ہندی ترجمہ کا ماخذ اور نہ ہی مترجم کا نام یاد ہے۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ یہ افسانہ معروف روسی ادیب انتون چیخوف کا ہے جن کا سالِ انتقال 1904 ہے۔ شاید جو کہانی آپ نے پیش کی ہے، وہ چیخوف کی کہانی سے ماخوذ ہو۔
جی اسی کی تحقیق کرنی ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
@انتہا، یہ تین پیسے کی چھوکری سے اقتباس خود ٹائپ کیا ہے یا کوئی فائل مل گئی ہے؟ مجھے تو ہر جگہ ’پستک گندھ پستک گندھ‘ محسوس ہوتی ہے!!
 

انتہا

محفلین
کچھ مماثلت نظر آئی اپنی ترجمہ کی گئی کہانی سے؟ آپ نے جہاں سے کہانی لی ہے اگر اس کی تاریخ تصنیف بھی مل جائے تو کچھ اندازہ کرنا آسان ہو جائے گا۔
نہ تو ہندی ترجمہ کا ماخذ اور نہ ہی مترجم کا نام یاد ہے۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ یہ افسانہ معروف روسی ادیب انتون چیخوف کا ہے جن کا سالِ انتقال 1904 ہے۔ شاید جو کہانی آپ نے پیش کی ہے، وہ چیخوف کی کہانی سے ماخوذ ہو۔
جی اسی کی تحقیق کرنی ہے۔
الف عین انکل، کیا آپ اس بارے میں کچھ رائے دے سکتے ہیں؟
 
یہ افسانہ جس کا نام ہے " ڈپٹی صاحب کا کتا " قاضی عبدالغفار صاحب کا ہے۔ میں نے یہ افسانہ پہلے نہیں پڑھا تھا صرف " تین پیسے کی چھوکری " کے حوالے سے کہ رہا ہوں کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ یہ قاضی عبدالغفار کے افسانوں کے مجموعے کا نام ہے اور ہو سکتا ہے کہ چیخوف کے افسانے سے ماخوذ ہو کیونکہ اردو افسانے میں شروع میں اس کا چلن تھا۔ چیخوف کے افسانے " اوور کوٹ " سے متاثر ہو کر غلام عباس اور راجندر سنگھ بیدی نے افسانے لکھے تھے۔ قاضی صاحب نے رسالے بھی جاری کیے ۔ انہوں نےجان گالزوردی کے مشہور ناول " دی ایپل ٹری " کا " سیب کا درخت " کے نام سے ترجمہ بھی کیا تھا۔
 
Top