عمار ابن ضیا
محفلین
گذشتہ روز پرانے کاغذات کو الٹ پلٹ کرتے ہوئے ایک ورق میرے سامنے آیا جس پر 5 دسمبر 2007ء کی تاریخ درج تھی اور چار اشعار لکھے تھے۔ ملاحظہ ہوں:
جو کچھ ہو اپنے عشق کا انجام، ٹھیک ہے
گر ساتھ میں ہو تم تو ہر اک کام ٹھیک ہے
اک گھونٹ ہو دوا کا کہ ہو جام زہر کا
آجائے گر مریض کو آرام ٹھیک ہے
شہرت کی انتہائی بلندی پہ آگیا
عمار تیرے شہر میں بدنام ٹھیک ہے
عمار یہ غزل ہے کہ تک بندیاں فقط؟
آغاز جس کا ٹھیک نہ انجام ٹھیک ہے
جو کچھ ہو اپنے عشق کا انجام، ٹھیک ہے
گر ساتھ میں ہو تم تو ہر اک کام ٹھیک ہے
اک گھونٹ ہو دوا کا کہ ہو جام زہر کا
آجائے گر مریض کو آرام ٹھیک ہے
شہرت کی انتہائی بلندی پہ آگیا
عمار تیرے شہر میں بدنام ٹھیک ہے
عمار یہ غزل ہے کہ تک بندیاں فقط؟
آغاز جس کا ٹھیک نہ انجام ٹھیک ہے