سید ذیشان
محفلین
پاکستان میں ایک پندرہ سالہ لڑکے نے اس غلط فہمی میں کہ وہ توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے، اپنا ہی ہاتھ کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا۔ اُس کے اس اقدام پر اُس کے والدین اور پڑوسی اُسے خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لاہور سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ واقعہ تقریباً چار روز قبل لاہور سے جنوب کی جانب کوئی 125 کلومیٹر دور حجرہ شاہ مقیم کے نواح میں پیش آیا۔
مقامی پولیس چیف نوشیر احمد نے اے ایف پی کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک قریبی گاؤں کی ایک مسجد میں ایک اجتماع کے دوران امام نے کہا کہ جو لوگ پیغمبر اسلام سے محبت کرتے ہیں، وہ اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ پھر امام نے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا کہ وہاں موجود لوگوں میں سے کس کس نے نماز ادا کرنا چھوڑ دی ہے۔
اس سوال کے جواب میں پندرہ سال محمد انور نے، جو اس سوال کو اچھی طرح سے سن ہی نہیں سکا تھا، غلطی سے اپنا ہاتھ بلند کر دیا۔ اس پر وہاں موجود ہجوم نے اُسے توہینِ رسالت کا مرتکب قرار دے دیا۔
بتایا گیا ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کے فوراً بعد محمد انور اپنے گھر گیا اور اُس نے اپنا وہ ہاتھ کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا، جو اُس نے امام کے سوال کے بعد فضا میں بلند کیا تھا۔ پولیس چیف کے مطابق بعد ازاں محمد انور نے اس ہاتھ کو پلیٹ میں سجایا اور لے جا کر امام کو پیش کر دیا۔
پولیس سربراہ نوشیر احمد نے بتایا کہ اُس نے ایک ویڈیو دیکھی ہے، جس میں گاؤں کے لوگ اس نوجوان کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے اور اُس کے والدین اپنے بیٹے کے اقدام پر فخر کا اظہار کر رہے تھے۔
پولیس چیف نے کہا کہ اس واقعے کے حوالے سے کوئی شکایت وغیرہ سامنے نہیں آئی ہے، اس لیے کوئی پولیس رپورٹ بھی درج نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اس کیس کے سلسلے میں کسی طرح کی کوئی تحقیقات کی جائیں گی۔
بیس کروڑ کی آبادی کے حامل پاکستان میں توہینِ رسالت ایک حساس موضوع ہے، جہاں غیر مصدقہ الزامات کے بعد بھی پُر تشدد واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر ملزمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔
ناقدین کا، جن میں یورپی حکومتیں بھی شامل ہیں، کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر ذاتی رنجشوں کا بدلہ لینے کے لیے توہینِ مذہب کے قوانین کو غلط اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ماخذ
حجرہ شاہ مقیم(اردو ویوز تازہ ترین اخبار) سچے عاشق رسول ﷺ پندرہ سالہ انور علی نے محفل نعت میں غلطی سے اٹھنے والا ہاتھ ٹوکے سے کاٹ دیا اور پلیٹ میں ڈال کر گستاخ کہنے والے مولوی کو پیش کردیا۔ محفل نعت میں خطیب نے سوال کیا کہ جو نبی ﷺ کو نہیں مانتا ہاتھ کھڑا کرے۔ غلطی سے پندرہ سالہ انور علی کا ہاتھ اٹھ گیا جس پر خطیب نے اسے کہا کہ تم نبی ﷺ کو نہیں مانتے جس پر انور علی نے ہاتھ کاٹ لیا۔
تفصیلات کے مطابق راجو وال کے نواحی گاؤں خانکا 3/D میں گزشتہ رات مدینہ مسجد میں محفل نعت منعقد ہوئی جس میں گاؤں سے کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے اس موقع پر حاضرین مجلس سے خطاب کرتے ہوئے خطیب قاری بشیر نے حاضرین محفل سے سوال کیا کہ جو نبی کریمﷺ کو نہیں مانتا ہاتھ کھڑا کرے جس پر محفل نعت میں شریک ایک پندرہ سالہ طالب علم انور علی کا ہاتھ غلطی سے اٹھ گیا جس پر محفل نعت میں خطیب نے اسے گستاخ کہا۔ انور علی کو مولوی کی بات پر غصہ آیا اور وہ محفل نعت سے اٹھ کر چلا گیا اور گھر جاکر ٹوکہ سے وار کر کے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اور پلیٹ میں ڈال کر مولوی کو پیش کر دیا۔ انور علی کے ہاتھ کٹتے ہی وہ درد اور تکلیف سے بے ہوش ہوگیا بچے نے بتایا کہ مولوی کے سوال کرنے کے اانداز سے یہ لگا کہ کون کون ہے جو نبی کریم ﷺ کو مانتا ہے لیکن سوال کا اچانک رخ تبدیل ہو نے پر یہ کہا گیا کہ کون کون ہے جو نبی ﷺ کو نہیں مانت اہاتھ غلطی سے اٹھ گیا لیکن نبی ﷺ آخرالزمان کی شان مین کسی غلطی کی کوئی جنگائش نہیں وہ ہاتھ ہی جسم سے الگ کردیا جس نے غلطی کی۔
ماخذ
Pakistani boy cuts off own hand after blasphemy mistake: police
A 15-year-old Pakistani boy cut off his own hand believing he had committed blasphemy, only to be celebrated by his parents and neighbours for the act, police told AFP Friday.
اردو والی خبر میں تصویر بھی دی گئی ہے جس کو یہاں پوسٹ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لاہور سے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ واقعہ تقریباً چار روز قبل لاہور سے جنوب کی جانب کوئی 125 کلومیٹر دور حجرہ شاہ مقیم کے نواح میں پیش آیا۔
مقامی پولیس چیف نوشیر احمد نے اے ایف پی کو اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک قریبی گاؤں کی ایک مسجد میں ایک اجتماع کے دوران امام نے کہا کہ جو لوگ پیغمبر اسلام سے محبت کرتے ہیں، وہ اپنی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ پھر امام نے حاضرین سے مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا کہ وہاں موجود لوگوں میں سے کس کس نے نماز ادا کرنا چھوڑ دی ہے۔
اس سوال کے جواب میں پندرہ سال محمد انور نے، جو اس سوال کو اچھی طرح سے سن ہی نہیں سکا تھا، غلطی سے اپنا ہاتھ بلند کر دیا۔ اس پر وہاں موجود ہجوم نے اُسے توہینِ رسالت کا مرتکب قرار دے دیا۔
بتایا گیا ہے کہ اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کے فوراً بعد محمد انور اپنے گھر گیا اور اُس نے اپنا وہ ہاتھ کاٹ کر جسم سے الگ کر دیا، جو اُس نے امام کے سوال کے بعد فضا میں بلند کیا تھا۔ پولیس چیف کے مطابق بعد ازاں محمد انور نے اس ہاتھ کو پلیٹ میں سجایا اور لے جا کر امام کو پیش کر دیا۔
پولیس سربراہ نوشیر احمد نے بتایا کہ اُس نے ایک ویڈیو دیکھی ہے، جس میں گاؤں کے لوگ اس نوجوان کو خراجِ تحسین پیش کر رہے تھے اور اُس کے والدین اپنے بیٹے کے اقدام پر فخر کا اظہار کر رہے تھے۔
پولیس چیف نے کہا کہ اس واقعے کے حوالے سے کوئی شکایت وغیرہ سامنے نہیں آئی ہے، اس لیے کوئی پولیس رپورٹ بھی درج نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی اس کیس کے سلسلے میں کسی طرح کی کوئی تحقیقات کی جائیں گی۔
بیس کروڑ کی آبادی کے حامل پاکستان میں توہینِ رسالت ایک حساس موضوع ہے، جہاں غیر مصدقہ الزامات کے بعد بھی پُر تشدد واقعات سامنے آتے رہتے ہیں اور لوگ قانون کو ہاتھ میں لے کر ملزمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔
ناقدین کا، جن میں یورپی حکومتیں بھی شامل ہیں، کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر ذاتی رنجشوں کا بدلہ لینے کے لیے توہینِ مذہب کے قوانین کو غلط اور ناجائز طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
ماخذ
حجرہ شاہ مقیم(اردو ویوز تازہ ترین اخبار) سچے عاشق رسول ﷺ پندرہ سالہ انور علی نے محفل نعت میں غلطی سے اٹھنے والا ہاتھ ٹوکے سے کاٹ دیا اور پلیٹ میں ڈال کر گستاخ کہنے والے مولوی کو پیش کردیا۔ محفل نعت میں خطیب نے سوال کیا کہ جو نبی ﷺ کو نہیں مانتا ہاتھ کھڑا کرے۔ غلطی سے پندرہ سالہ انور علی کا ہاتھ اٹھ گیا جس پر خطیب نے اسے کہا کہ تم نبی ﷺ کو نہیں مانتے جس پر انور علی نے ہاتھ کاٹ لیا۔
تفصیلات کے مطابق راجو وال کے نواحی گاؤں خانکا 3/D میں گزشتہ رات مدینہ مسجد میں محفل نعت منعقد ہوئی جس میں گاؤں سے کثیر تعداد میں لوگ شریک تھے اس موقع پر حاضرین مجلس سے خطاب کرتے ہوئے خطیب قاری بشیر نے حاضرین محفل سے سوال کیا کہ جو نبی کریمﷺ کو نہیں مانتا ہاتھ کھڑا کرے جس پر محفل نعت میں شریک ایک پندرہ سالہ طالب علم انور علی کا ہاتھ غلطی سے اٹھ گیا جس پر محفل نعت میں خطیب نے اسے گستاخ کہا۔ انور علی کو مولوی کی بات پر غصہ آیا اور وہ محفل نعت سے اٹھ کر چلا گیا اور گھر جاکر ٹوکہ سے وار کر کے اپنا ہاتھ کاٹ لیا اور پلیٹ میں ڈال کر مولوی کو پیش کر دیا۔ انور علی کے ہاتھ کٹتے ہی وہ درد اور تکلیف سے بے ہوش ہوگیا بچے نے بتایا کہ مولوی کے سوال کرنے کے اانداز سے یہ لگا کہ کون کون ہے جو نبی کریم ﷺ کو مانتا ہے لیکن سوال کا اچانک رخ تبدیل ہو نے پر یہ کہا گیا کہ کون کون ہے جو نبی ﷺ کو نہیں مانت اہاتھ غلطی سے اٹھ گیا لیکن نبی ﷺ آخرالزمان کی شان مین کسی غلطی کی کوئی جنگائش نہیں وہ ہاتھ ہی جسم سے الگ کردیا جس نے غلطی کی۔
ماخذ
Pakistani boy cuts off own hand after blasphemy mistake: police
Local police chief Nausher Ahmed described how an imam told a gathering at a village mosque that those who love the Prophet Mohammad always say their prayers, then asked who among the crowd had stopped praying.
Mohammad Anwar, 15, raised his hand by mistake after apparently mishearing the question.
The crowd swiftly accused him of blasphemy so he went to his house and cut off the hand he had raised, put it on a plate, and presented it to the cleric, the police chief said.
The incident took place at a village in Hujra Shah Muqeem district, some 125 kilometres (77 miles) south of Lahore, the capital of Punjab province, about four days ago, according to the policeman.
Ahmed said that he has seen a video in which the boy is greeted by villagers in the street as his parents proclaim their pride.
No complaint has been made, he said, so no police report has been filed and there will be no investigation.
Blasphemy is a hugely sensitive issue in Pakistan, an Islamic republic of some 200 million, where even unproven allegations frequently stir mob violence and lynchings.
Critics including European governments say the country's blasphemy laws are often misused to settle personal scores.
sourceMohammad Anwar, 15, raised his hand by mistake after apparently mishearing the question.
The crowd swiftly accused him of blasphemy so he went to his house and cut off the hand he had raised, put it on a plate, and presented it to the cleric, the police chief said.
The incident took place at a village in Hujra Shah Muqeem district, some 125 kilometres (77 miles) south of Lahore, the capital of Punjab province, about four days ago, according to the policeman.
Ahmed said that he has seen a video in which the boy is greeted by villagers in the street as his parents proclaim their pride.
No complaint has been made, he said, so no police report has been filed and there will be no investigation.
Blasphemy is a hugely sensitive issue in Pakistan, an Islamic republic of some 200 million, where even unproven allegations frequently stir mob violence and lynchings.
Critics including European governments say the country's blasphemy laws are often misused to settle personal scores.
بچے کا انٹرویو
اردو والی خبر میں تصویر بھی دی گئی ہے جس کو یہاں پوسٹ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
آخری تدوین: