فارسی شاعری گفتار اندر ستایش پیغمبر و یارانش - شاهنامهٔ فردوسی

حسان خان

لائبریرین
ترا دانش و دین رهاند درست
در رستگاری ببایدت جست
دانش و دین تجھے درست رہائی بخشتے ہیں​
اور رہائی/نجات کی لَیے تجھے جستجو کرنی ہے​
وگر دل نخواهی که باشد نژند
نخواهی که دایم بوی مستمند
اور اگر نہیں چاہتے کہ دل اندوہگین رہے​
اور نہیں چاہتے کہ ہمیشہ غمگین رہو​
به گفتار پیغمبرت راه جوی
دل از تیرگی‌ها بدین آب شوی
(تو) اپنے پیغمبر کی باتوں سے راہ تلاش کرو​
اور اپنے دل کی تیرگیوں کو اس آب سے پاک کرو​
چه گفت آن خداوند تنزیل و وحی
خداوند امر و خداوند نهی
کیا کہا اس تنزیل و وحی کے خداوند نے​
اس امر کے خداوند نے، اس نہی کے خداوند نے​
که خورشید بعد از رسولان مه
نتابید بر کس ز بوبکر به
کہ خورشید، چاند جیسے رسولوں کے بعد​
ابوبکر سے بہتر کسی پر نہیں چمکا​
عمر کرد اسلام را آشکار
بیاراست گیتی چو باغ بهار
عمر نے کیا اسلام کو آشکار​
اور سجایا گیتی کو جیسے باغِ بہار​
پس از هر دوان بود عثمان گزین
خداوند شرم و خداوند دین
ان دونوں کے بعد تھے عثمانِ گزیں​
خداوندِ شرم و خداوندِ دیں​
چهارم علی بود جفت بتول
که او را به خوبی ستاید رسول
چہارم علی تھے، جفتِ بتول​
کہ جن کی رسول بخوبی ستایش کرتے ہیں​
که من شهر علمم علیم در ست
درست این سخن قول پیغمبرست
کہ میں شہرِ علم ہوں اور میرا علی در ہے​
یقینا یہ سخن قولِ پیغمبر ہے​
گواهی دهم کاین سخنها ز اوست
تو گویی دو گوشم پرآواز اوست
میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ باتیں انکی ہیں​
گویا تو کہے کہ میرے دو کان انکی آواز سے پر ہیں​
علی را چنین گفت و دیگر همین
کزیشان قوی شد به هر گونه دین
علی کے لیے ایسا کہا اور دوسروں کے لیے بھی​
کہ ان سے ہر طرح سے دین قوی ہوا​
نبی آفتاب و صحابان چو ماه
به هم بستهٔ یکدگر راست راه
نبی آفتاب ہیں اور صحابہ جیسے چاند​
ان کی ایک دوسرے سے پیوستگی سیدھی راہ ہے​
منم بندهٔ اهل بیت نبی
ستایندهٔ خاک و پای وصی
میں اہلِ بیتِ نبی کا بندہ ہوں​
اور علی کی خاک و پا کا ستایندہ ہوں​
حکیم این جهان را چو دریا نهاد
برانگیخته موج ازو تندباد
دانا شخص نے اس جھان کو سمندر کی طرح تصور کیا​
جس سمندر میں تند موجیں برانگیختہ تھی​
چو هفتاد کشتی برو ساخته
همه بادبانها برافراخته
اس سمندر پر ستر کشتیاں تیار تھیں​
جن کے تمام بادبان بلند تھے​
یکی پهن کشتی بسان عروس
بیاراسته همچو چشم خروس
اور ایک کشادہ کشتی عروس کی طرح​
سجی ہوئی دوشیزہ کی چشم کی طرح​
محمد بدو اندرون با علی
همان اهل بیت نبی و ولی
اس کشتی کے اندر محمد علی کے ساتھ تھے​
وہی جنہیں اہلِ بیتِ نبی اور ولی کہتے ہیں​
خردمند کز دور دریا بدید
کرانه نه پیدا و بن ناپدید
خردمند نے جب دور سے سمندر دیکھا​
تو نہ اس کا کنارہ دکھا اور نہ گہرائی ہی​
بدانست کو موج خواهد زدن
کس از غرق بیرون نخواهد شدن
اس نے جان لیا کہ سمندر ابهی موج مارے گا​
اور کوئی غرق سے باہر نہیں آئے گا​
به دل گفت اگر با نبی و وصی
شوم غرقه دارم دو یار وفی
اس نے دل میں کہا کہ اگر نبی و وصی کے ساتھ​
پانی میں جاؤں تو اپنے ساتھ دو باوفا یار رکھتا ہوں​
همانا که باشد مرا دستگیر
خداوند تاج و لوا و سریر
اور بے شک وہ میرا دستگیر ہوگا​
جو تاج و پرچم و تخت کا خداوند ہے​
خداوند جوی می و انگبین
همان چشمهٔ شیر و ماء معین
شراب اور شہد کی ندی کا خداوند​
دودھ کی نہر اور آبِ رواں کا خداوند​
اگر چشم داری به دیگر سرای
به نزد نبی و علی گیر جای
اگر عالمِ آخرت پر نظر ہے​
تو نبی اور علی کے نزدیک رہو​
گرت زین بد آید گناه منست
چنین است و این دین و راه منست
اگر تجھے یہ بات بری لگتی ہے تو یہ میرا قصور ہے​
(کیونکہ) ایسا ہی ہے، اور یہی میرا دین اور میری راہ ہے​
برین زادم و هم برین بگذرم
چنان دان که خاک پی حیدرم
اسی ایمان پرپیدا ہوا ہوں اور اسی پر اس جہاں سے گزروں گا​
بس یہ جان لے کہ میں حیدر کے پاؤں کی خاک ہوں​
دلت گر به راه خطا مایلست
ترا دشمن اندر جهان خود دلست
اگر تیرا دل خطا کی راہ پر مایل ہے​
تو تیرا اس جہان میں دشمن خود تیرا دل ہے​
نباشد جز از بی‌پدر دشمنش
که یزدان به آتش بسوزد تنش
بے پدر کے سوا کوئی علی کا دشمن نہیں ہوتا​
کہ خدا اس کے تن کو آگ میں جلاتا ہے​
هر آنکس که در جانش بغض علیست
ازو زارتر در جهان زار کیست
ہر وہ شخص کہ جس کی فطرت میں بغضِ علی ہے​
اسے سے زار تر اس جہانِ زار میں کون ہے؟​
نگر تا نداری به بازی جهان
نه برگردی از نیک پی همرهان
غور سے دیکھو تاکہ تم اس دنیا کو محض بازی مت سمجھ بیٹھو​
اور تاکہ تم نیک قدم ہمراہان سے برگشتہ نہ ہو جاؤ​
همه نیکی ات باید آغاز کرد
چو با نیکنامان بوی همنورد
اپنی تمام نیکیوں کا تم نے آٖغاز کرنا ہے​
جب تم نیک ناموں کے ہمنورد ہو جاؤ تو​
از این در سخن چند رانم همی
همانا کرانش ندانم همی
میں اس طرح کی باتیں اتنی زیادہ کرتا ہوں​
کہ مجھے بے شک ان باتوں کی حد نہیں معلوم​
(فردوسی)
یہ میری فردوسی کے کلام سے پیش کرنے کی ایک کوشش ہے۔ یہ وہی فردوسی ہیں جن کے بارے میں مرزا غالب نے کہا تھا کہ شاعر کی معراج ہے کہ وہ فردوسی ہو جائے۔ البتہ میں نہ ہی اردو اور فارسی پر عبور رکھتا ہوں، اور نہ ترجمے کے فن سے کچھ شناسائی ہے۔ بس جیسا تیسا سمجھ آیا وہی اپنی محدود اردو میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ترجمے میں ہو سکتا ہے کئی اغلاط ہوں۔ جو فارسی داں حضرات یہاں ہیں ان سے درخواست ہے کہ اس کو ایک نظر دیکھ لیں، اور جہاں غلطی دیکھیں اسے ٹھیک کر دیں۔​
 

حسان خان

لائبریرین
میری منتظمینِ کرام سے گزارش ہے کہ لطفا اس پوسٹ کو نعت و منقبت والے دھاگے میں منتقل کر دیں۔
 
Top