گلوبل وارمنگ ایک افسانہ؟

arifkarim

معطل
یونیورسٹی آف ایسٹ اینگلیا کا Hadley Climatic Research Centre روسی ماہرین نے ہیک کرکے اسمیں سے خفیہ ڈاکومنٹس چرا کر نیٹ پر چڑھا دیں! :)
ہیک شدہ فائلز میں ۱۰۰۰ سے زیادہ ای میلز اور ۷۲ سے زائد مختلف ڈاکومنٹس ہیں، جنکے مطالعہ کے بعد گلوبل وارمنگ کا ڈرامہ سب کے سامنے آگیا ہے۔ اگر آپ ہیکڈ ڈاکومنٹس (جنتک صرف ریسرچز کی رسائی ہوتی ہے) اور ریسرچ سینٹر کی سائٹ پر پڑے مواد کا موازہ کریں تو حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گلوبل وارمنگ محض سائنسی دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے تاکہ عام عوام کوبیوقوف بنا کر انپر بیجا کاربن ٹیکس لگایا جا سکے۔ سورس:
http://www.examiner.com/x-28973-Ess...d-with-release-of-hundreds-of-docs-and-emails
http://noconsensus.wordpress.com/2009/11/19/leaked-foia-files-62-mb-of-gold/
ریسرچ سینٹر نے اس واقعہ کی تصدیق کر دی ہے! :battingeyelashes:
اگر کسی کو وہ ہیکڈ ڈاکومنٹس مطالعہ کیلئے درکار ہوں تو گوگل پر:
FOI2009.zip لکھ کر سرچ کریں۔۔;)
 

arifkarim

معطل
ہر کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں زیک بھائی- جیسے ٹوین ٹاورز جہاز کے ٹکرانے سے بھی گر سکتے ہیں، ویسے ہی انکو دھماکے سے بھی اڑایا جا سکتا ہے۔ شکریہ آپنے کہانی کا دوسرا رخ پیش کر دیا۔ بہر حال جتک دو تصاویر موجود ہیں۔ گلوبل وارمنگ کو حتمی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً اس ویڈیو میں الگور(گلوبل وارمنگ کے رہنما) کیخلاف ۳۰،۰۰۰ سائنسدانوں نے مقدمہ کیا ہے:
 

عسکری

معطل
یار گلوبل وارمنگ گلوبل کولڈنگ کو مار گولی یہاں روٹی چینی بجلی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اوپر سے طالبان کے بلاناغہ خود کش حملے مرے ہوئے عوام پر ہنٹر برسا رہے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
یار گلوبل وارمنگ گلوبل کولڈنگ کو مار گولی یہاں روٹی چینی بجلی ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے اوپر سے طالبان کے بلاناغہ خود کش حملے مرے ہوئے عوام پر ہنٹر برسا رہے ہیں۔

صحیح فرمایا۔ گلوبل وارمنگ کا خطرہ مشرق کو نہیں مغرب کوزیادہ ہے۔ یہاں بات بات پر ٹیکس لگ جاتا ہے۔ سوچ رہا ہوں سانس لینے پر کاربن ٹیکس کب لگائیں گی یہ حکومتیں۔
 

زیک

مسافر
ہر کہانی کے دو رخ ہوتے ہیں زیک بھائی- جیسے ٹوین ٹاورز جہاز کے ٹکرانے سے بھی گر سکتے ہیں، ویسے ہی انکو دھماکے سے بھی اڑایا جا سکتا ہے۔ شکریہ آپنے کہانی کا دوسرا رخ پیش کر دیا۔ بہر حال جتک دو تصاویر موجود ہیں۔ گلوبل وارمنگ کو حتمی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔مثلاً اس ویڈیو میں الگور(گلوبل وارمنگ کے رہنما) کیخلاف ۳۰،۰۰۰ سائنسدانوں نے مقدمہ کیا ہے:

جھوٹ یہ پڑھیں http://www.rbguy.dailykos.com/storyonly/2009/11/20/806300/-30,000-Scientists-Sue-Al-Gore-for-Fraud
 

محمد سعد

محفلین
عارف، اگر علمی دلائل کے بجائے چرائے ہوئے خطوط میں سے کچھ چنے ہوئے جملے سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے توڑ مروڑ کر پیش کرنا ہی عالمی تپش کے خلاف سب سے بڑا ثبوت ہے تو پھر تو عالمی تپش کو سچ ماننے میں کوئی رکاوٹ ہی نہیں رہ جاتی۔ قبل اس کے کہ اس جملے پر تبصرہ کرنے کی تکلیف کریں، مجھے معلوم ہے کہ آپ نے اصل خطوط کے مجموعے کے ذرا سے حصے کا بھی سیاق و سباق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔ ویسے بھی ادارے نے پہلے ہی کافی واضح اور مدلل جواب دے رکھا ہے چنانچہ مجھے اس حصے پر عالمانہ گفتگو فرمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میں صرف ان موضوعات پر بات کروں گا جن پر میں اچھی طرح تحقیق کر چکا ہوں۔

عالمی تپش بالکل ایک حقیقت ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور کچھ مزید گیسوں میں واقعی دیگر گیسوں کی نسبت زیادہ حرارت جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اور کم از کم کاربن ڈائی آکسائیڈ کے معاملے میں خود بھی کچھ چھوٹے درجے کے تجربات کے دوران اس خاصیت کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔ باقی گیسوں پر چونکہ پیسے لگتے ہیں اس لیے خود تجربات نہیں کر پایا۔ یہ گیسیں فضا میں جتنی زیادہ ہوں گی، زمین کا اوسط درجۂ حرارت اسی تناسب سے بڑھے گا۔

عالمی تپش کا انکار کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان کی ہے جن کو اپنی عادات و اطوار میں ماحول دوست تبدیلیاں لانا عذاب سے کم نہیں لگتا۔ اس میں سست لوگ اور سست صنعت کار دونوں شامل ہیں۔ یہ لوگ چونکہ سستی کی وجہ سے اپنی بری عادات بھی نہیں چھوڑتے، اور ساتھ ہی آلودگی پھیلانے کے جرمانے یعنی کاربن ٹیکس وغیرہ سے بھی بچنا چاہتے ہیں، چنانچہ ان کو سب سے آسان حل یہی نظر آتا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے زمین کے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا انکار کرنا شروع کر دیں۔ ان میں سے چونکہ صنعت کاروں کے پاس وسائل زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے بعض صنعت کار ان وسائل کا استعمال کرتے ہوئے میڈیا میں بڑے پیمانے پر غلط معلومات پھیلانا شروع کر دیتے ہیں جن کو ان کے ہم خیال لوگ دور دور تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔ جیسا کہ ExxonMobil کی مثال میں ہوا جس نے باقاعدہ سائنس دانوں کو بھاری رقوم دے کر ان سے عالمی تپش کے متعلق غیر یقینی کیفیت پھیلانے کا کام لیا۔
اس سلسلے میں کچھ رپورٹس:
Global Warming Deniers Well Funded
(پانچ صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کافی تفصیل کے ساتھ ExxonMobil کے علاوہ بھی اس موضوع کی تاریخ پر کافی روشنی ڈالی گئی ہے۔)
اس مضمون سے آخری پیراگراف یہاں نقل کر رہا ہوں:
Look for the next round of debate to center on what Americans are willing to pay and do to stave off the worst of global warming. So far the answer seems to be, not much. The NEWSWEEK Poll finds less than half in favor of requiring high-mileage cars or energy-efficient appliances and buildings. No amount of white papers, reports and studies is likely to change that. If anything can, it will be the climate itself. This summer, Texas was hit by exactly the kind of downpours and flooding expected in a greenhouse world, and Las Vegas and other cities broiled in record triple-digit temperatures. Just last week the most accurate study to date concluded that the length of heat waves in Europe has doubled, and their frequency nearly tripled, in the past century. The frequency of Atlantic hurricanes has already doubled in the last century. Snowpack whose water is crucial to both cities and farms is diminishing. It's enough to make you wish that climate change were a hoax, rather than the reality it is.
ساتھ ہی اس مضمون پر ایک تبصرہ جو کہ قابلِ غور و فکر ہے:
Posted By: Topeka57 @ 09/28/2009 2:45:31 AM

I do not understand the continual push-back on the issue of global warming, and I am fascinated and disturbed by how the question of our survival has become a partisan issue. I work in the medical research area and one characteristic of science is that there is often very little certainty, yet we move forward with the best knowledge we have available -- usually that which is accepted by the majority of scientists. There continue to be disputes about biomarkers and treatment of heart disease, for example, but we don't withhold treatment while we continue the research. To continue with the comparison, there may be questions about the causes -- the condition might be caused by "human activity" (or bad habits, in the case of the heart patient). The cause might also be genetic, or a combination of factors. Yet in each case we expect the patient to participate in their recovery, if they want to survive.

Our planet seems to be suffering from "inflammation", and its inhabitants will need to participate in its recovery, regardless of the cause. We can continue to argue about and research the causes, but as with heart disease, the longer we put off treatment, the less likely we are to recover.

There is more than enough evidence that our collective habits are at least part of the problem. It is almost certainly the cause of the increased acidity and growing dead-zones in the oceans, and the alarming number of species extinctions. That alone should be a wake-up call.

There has also been the argument that it would be unfair to our national interests if we take action, while developing countries balk. Yes indeed, China and India must be a part of the solution. But we can no longer afford to wait for others. We certainly weren't willing to wait for others when we went to war with Iraq. And (regardless of one's position on the war) I think it is fair to say we went to war with less certainty than we have about the threat of global climate change.

اس کے علاوہ دیگر کچھ رپورٹس:

Royal Society tells Exxon: stop funding climate change denial

Exxon cuts ties to global warming skeptics

Report: Big Money Confusing Public on Global Warming
ExxonMobil Tactics Similar to Tobacco Industry, Group Found



ان سب کو بھی اگر آپ نہیں مانتے تو میں اپنا مشاہدہ بھی یہاں لکھ دیتا ہوں۔ یہاں ہمارے شہر میں تقریباً دس سال پہلے جب گاڑیاں آج کی نسبت کم اور درخت زیادہ ہوا کرتے تھے تو موسم بہت بہتر ہوا کرتا تھا۔ جوں جوں گاڑیوں کی تعداد میں زیادتی اور درختوں میں کمی آتی گئی، گرمی بھی بڑھتی گئی (گاڑیوں کے علاوہ اور بھی کئی عوامل ہیں لیکن اختصار کے لیے صرف گاڑیوں کا ذکر کیا)۔ کئی سال پہلے اکتوبر کے دوران ہی سردی کے موسم کا باقاعدہ آغاز ہو جایا کرتا تھا (وہ سردی جس میں سویٹر وغیرہ کے بغیر گزارا نہیں ہوتا) جبکہ اس سال بمشکل نومبر کے دوسرے ہفتے کے دوران ہوا۔ گرمی کی شدت کتنی بڑھی، اس کا اندازہ گرمی کے موسم میں گرمی کی شدت سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد سے ہوتا ہے۔ گرم موسم کا دورانیہ پھیل گیا، شدت بڑھ گئی، بارشیں کم ہو گئیں۔ کیا اس سب کے باوجود عالمی تپش ڈرامہ ہے؟

اگر اب بھی آپ نہیں مانتے تو خود حقیقت معلوم کرنے کا آپ کے لیے ایک ہی طریقہ بچتا ہے کہ آپ آج سے خود ہی روز کے درجۂ حرارت کا حساب رکھنا شروع کر دیں۔ دس بیس سالوں میں آپ کو خود ہی فرق نظر آ جائے گا۔ اگر کوئی فرق نہ آیا تو پھر بے شک نہ مانیں۔
 

arifkarim

معطل
عالمی تپش بالکل ایک حقیقت ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور کچھ مزید گیسوں میں واقعی دیگر گیسوں کی نسبت زیادہ حرارت جذب کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اور کم از کم کاربن ڈائی آکسائیڈ کے معاملے میں خود بھی کچھ چھوٹے درجے کے تجربات کے دوران اس خاصیت کا مشاہدہ کر چکا ہوں۔ باقی گیسوں پر چونکہ پیسے لگتے ہیں اس لیے خود تجربات نہیں کر پایا۔ یہ گیسیں فضا میں جتنی زیادہ ہوں گی، زمین کا اوسط درجۂ حرارت اسی تناسب سے بڑھے گا۔
عالمی تپش کا انکار کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان کی ہے جن کو اپنی عادات و اطوار میں ماحول دوست تبدیلیاں لانا عذاب سے کم نہیں لگتا۔ اس میں سست لوگ اور سست صنعت کار دونوں شامل ہیں۔ یہ لوگ چونکہ سستی کی وجہ سے اپنی بری عادات بھی نہیں چھوڑتے، اور ساتھ ہی آلودگی پھیلانے کے جرمانے یعنی کاربن ٹیکس وغیرہ سے بھی بچنا چاہتے ہیں، چنانچہ ان کو سب سے آسان حل یہی نظر آتا ہے کہ آلودگی کی وجہ سے زمین کے ماحول کو پہنچنے والے نقصان کا انکار کرنا شروع کر دیں۔ ان میں سے چونکہ صنعت کاروں کے پاس وسائل زیادہ ہوتے ہیں، اس لیے بعض صنعت کار ان وسائل کا استعمال کرتے ہوئے میڈیا میں بڑے پیمانے پر غلط معلومات پھیلانا شروع کر دیتے ہیں جن کو ان کے ہم خیال لوگ دور دور تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔ جیسا کہ ExxonMobil کی مثال میں ہوا جس نے باقاعدہ سائنس دانوں کو بھاری رقوم دے کر ان سے عالمی تپش کے متعلق غیر یقینی کیفیت پھیلانے کا کام لیا۔
انسان پتھر کے زمانہ سے فاسل فیولز یعنی کاربن خارج کرنے والے مادوں کو توانائی یا ایندھن کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔ اگر پچھلے 2 سو سالوں میں کاربن گیسز کا تناسب حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے تو اسکا قصور وار لوگوں کو کیوں ٹھہرایا جائے۔ میں پہلے بھی مکی کے بلاگ پر 1900 کے اوائل میں ہونے والے برقی کاروں پر تجربات لکھ چکا ہوں۔ اس زمانہ سے تیل پروڈیوس کرنے والی کمپنیاں اپنی اجارا داری قائم کرنا چاہتی تھیں۔ اور آجکل کا حال آپ سب کے سامنے ہے۔ یوں وقت گزرنے کیساتھ تمام متبادل ذرائع توانائی ختم ہو گئے اور صرف کاربن خارج کرنے والا تیل باقی رہ گیا۔ اب چونکہ تمام دنیا اسی پر انحصار کرنے لگی ہے تو الگور چاچو اپنا نام نہاد "ٹیکس" لیکر آگئے ہیں۔ بندہ پوچھے: پہلے کم از کم تیل کا متبادل تو پیش کرتے، پھر بیشک جتنا مرضی ٹیکس لگاتے۔ اس ٹیکس کے نتیجہ میں "عام" متوسط طبقہ کو کتنا نقصان ہوگا، اسکے اندازہ ہے آپکو؟ :)
http://www.globalwarminghoax.com/news.php

ان سب کو بھی اگر آپ نہیں مانتے تو میں اپنا مشاہدہ بھی یہاں لکھ دیتا ہوں۔ یہاں ہمارے شہر میں تقریباً دس سال پہلے جب گاڑیاں آج کی نسبت کم اور درخت زیادہ ہوا کرتے تھے تو موسم بہت بہتر ہوا کرتا تھا۔ جوں جوں گاڑیوں کی تعداد میں زیادتی اور درختوں میں کمی آتی گئی، گرمی بھی بڑھتی گئی (گاڑیوں کے علاوہ اور بھی کئی عوامل ہیں لیکن اختصار کے لیے صرف گاڑیوں کا ذکر کیا)۔ کئی سال پہلے اکتوبر کے دوران ہی سردی کے موسم کا باقاعدہ آغاز ہو جایا کرتا تھا (وہ سردی جس میں سویٹر وغیرہ کے بغیر گزارا نہیں ہوتا) جبکہ اس سال بمشکل نومبر کے دوسرے ہفتے کے دوران ہوا۔ گرمی کی شدت کتنی بڑھی، اس کا اندازہ گرمی کے موسم میں گرمی کی شدت سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد سے ہوتا ہے۔ گرم موسم کا دورانیہ پھیل گیا، شدت بڑھ گئی، بارشیں کم ہو گئیں۔ کیا اس سب کے باوجود عالمی تپش ڈرامہ ہے؟

اگر اب بھی آپ نہیں مانتے تو خود حقیقت معلوم کرنے کا آپ کے لیے ایک ہی طریقہ بچتا ہے کہ آپ آج سے خود ہی روز کے درجۂ حرارت کا حساب رکھنا شروع کر دیں۔ دس بیس سالوں میں آپ کو خود ہی فرق نظر آ جائے گا۔ اگر کوئی فرق نہ آیا تو پھر بے شک نہ مانیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق محض زمین سے نہیں ہوتا۔ بلکہ شمسی شعاؤں کا اخراج یا کمی نظام شمسی کے تمام سیاروں کے موسموں پر اثر انداز ہوتی ہے:
http://www.sciencemag.org/cgi/content/short/294/5549/2049b
جہاں تک آپکی مثال کا معاملہ ہے تو اسکا تعلق ماحول و فضا کی آلودگی سے ہے۔ شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ "درخت" آکسیجن سے نہیں بلکہ کارب ڈائکسائیڈ سے جیتے ہیں:grin:
یوں ماحول کی آلودگی سے سورج کی روشنی زمین تک کم پہنچتی ہے اور درخت مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کیلئے اپنے شہروں کے ارد گرد درخت زیادہ لگائیں۔ کم از کم وہ کاربن زیادہ ہو جانے کی وجہ سے نہیں‌مریں گے!
 

arifkarim

معطل
لیجئے۔ اب تو وال اسٹریٹ جرنل نے بھی ان ہیکڈ ڈاکومنٹس سے متعلق خبر شائع کر دی:
http://online.wsj.com/article/SB125883405294859215.html?mod=googlenews_wsj
یاد رہے کہ ان ڈاکومنٹس کو پبلش کرنے کا مقصد اس تاثر کو اجاگر کرنا نہیں تھا کہ گلوبل وارمنگ سو فیصد سچ ہے یا جھوٹ ہے۔ بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ خود مختار ریسرچز کے نتائج کو ایک طرفہ رزلٹ کے طور پر پیش کرنا غلط ہے۔ کیونکہ بعض کی ریسرچ گلوبل ورمنگ کے حق میں اور بعض کی اسکے خلاف میں رزلٹس دیتی ہے۔ یوں گلوبل وارمنگ اکیلے کو زمین کے بڑھتے یا گھٹتے درجہ حرارت کا ذمہ دار ٹھہرانا ایک افسانہ ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
انسان پتھر کے زمانہ سے فاسل فیولز یعنی کاربن خارج کرنے والے مادوں کو توانائی یا ایندھن کیلئے استعمال کرتا آیا ہے۔
لیکن اتنی بڑی مقدار میں نہیں جیسی صورتِ حال اب ہے۔ پہلے صرف کھانا پکانے اور سردیوں میں خود کو گرم رکھنے کے لیے اس کا استعمال ہوتا تھا۔ جبکہ اب بجلی پیدا کرنے، صنعتوں کو چلانے، سفر کرنے، اور دیگر کئی کاموں کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے چنانچہ اس کا استعمال انتہائی نقصان دہ حد تک بڑھ گیا ہے۔
ویسے رکازی ایندھن یا فاسل فیول ہر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والا مادہ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ ایندھن جو کہ رکازات (fossils) کے کیمیائی تبدیلیوں سے گزرنے کے نتیجے میں حاصل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر لکڑی رکازی ایندھن نہیں۔

اگر پچھلے 2 سو سالوں میں کاربن گیسز کا تناسب حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے تو اسکا قصور وار لوگوں کو کیوں ٹھہرایا جائے۔
کیونکہ لوگوں کو صرف ایک دو سو گز کا فاصلہ بھی گاڑی کے بغیر طے کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔ اور گرمی کے موسم میں درجۂ حرارت صرف 39 درجے سیلسیس تک بھی بڑھ جائے تو ائیر کنڈشنر کے بغیر ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ جو فاصلہ سائیکل سے بہ آسانی طے ہو سکتا ہے، اس کے لیے بھی ہزار کلو کی گاڑی استعمال کی جاتی ہے جسے سواری سمیت کھینچنے میں کافی سارا ایندھن ضائع ہو جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔

میں پہلے بھی مکی کے بلاگ پر 1900 کے اوائل میں ہونے والے برقی کاروں پر تجربات لکھ چکا ہوں۔
وہ گاڑی جس کی کہانی سنانے والا شخص کبھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا؟ اور جس میں استعمال ہونے والے پرزے دراصل اس گاڑی کے بننے کے آٹھ سال بعد بننا شروع ہوئے تھے؟ اور وہ گاڑی جس کے طریقۂ کار کو اگر لاگو کرنے کی کوشش کی جائے تو نہ صرف اس نظام کو چلانے والی بیشتر توانائی ضائع ہو جائے گی (یعنی ماحول کے لیے تیل کے استعمال سے بھی ہزاروں گنا بدتر) بلکہ تمام برقی آلات کا بھی بیڑا غرق ہو جائے گا؟
(جن لوگوں کو دلچسپی ہو وہ یہ گفتگو اس رابطے پر دیکھ سکتے ہیں۔)

یوں وقت گزرنے کیساتھ تمام متبادل ذرائع توانائی ختم ہو گئے اور صرف کاربن خارج کرنے والا تیل باقی رہ گیا۔
یعنی سائنسی علوم کا مطالعہ تو چھوڑیے، آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ دنیا میں کیا کیا ہو رہا ہے؟ ختم کاربن خارج کرنے والے ذرائع ہوتے ہیں۔ شمسی یا ہوائی توانائی جیسی چیزیں نہیں۔ اسی لیے ان کو renewable energy کہا جاتا ہے۔

اب چونکہ تمام دنیا اسی پر انحصار کرنے لگی ہے تو الگور چاچو اپنا نام نہاد "ٹیکس" لیکر آگئے ہیں۔
یہ ٹیکس لوگوں کو مجبور کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ اپنی عادات میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔ کیونکہ "الگور چاچو" آج کے مادہ پرست انسان کی دکھتی رگ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ دیکھنا یہ ٹیکس یا کوئی اور ایسا طریقہ نافذ ہو گیا تو کیسے تیزی سے لوگ اپنی عادات بدلتے ہیں۔ جن لوگوں کو ابھی سو گز گاڑی کے بغیر طے کرنا دشوار ہے، وہ دس کلومیٹر تک پیدل یا سائیکل چلا کر جایا کریں گے۔

بندہ پوچھے: پہلے کم از کم تیل کا متبادل تو پیش کرتے، پھر بیشک جتنا مرضی ٹیکس لگاتے۔
یہ ٹیکس صرف ایک خاص حد سے زیادہ آلودگی پھیلانے والوں پر اثر انداز ہوگا۔ اور کچھ رکازی ایندھن بھی ایسے موجود ہیں جو بہ آسانی اس حد کے اندر رہ سکتے ہیں۔ دیگر ذرائع کی تو بات ہی چھوڑو۔

یوں تو آپ کو ہر چیز تیل کمپنیوں کی سازش نظر آتی ہے۔ لیکن جہاں پر اصل دھوکہ موجود ہے وہاں آپ کو سب اچھا نظر آ رہا ہے۔ آپ ذرا دیکھ لیں کہ عالمی تپش کی مخالفت کرنے والے "سائنس دانوں" کی کتنی تعداد کسی نہ کسی ذریعے سے تیل کی کمپنیوں سے وابستہ ہے۔

اس ٹیکس کے نتیجہ میں "عام" متوسط طبقہ کو کتنا نقصان ہوگا، اسکے اندازہ ہے آپکو؟ :)
مجموعی طور پر فائدہ ہی ہونا ہے۔ یہ ٹیکس صرف لوگوں پر ہی نہیں بلکہ صنعتوں پر بھی اثر انداز ہوگا۔ جس کے نتیجے میں توانائی کی بچت کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ اور یوں آہستہ آہستہ آپ تیل سے شمسی پینل جیسی چیزوں پر منتقل ہو جائیں گے جو ماحول دوست بھی ہوں گی اور ان کو چلاتے رہنے کا خرچہ بھی کم ہوگا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا تعلق محض زمین سے نہیں ہوتا۔ بلکہ شمسی شعاؤں کا اخراج یا کمی نظام شمسی کے تمام سیاروں کے موسموں پر اثر انداز ہوتی ہے
یہ کمی یا زیادتی اتنی نہیں ہوتی کہ محسوس کی جا سکے۔ یہ تبدیلیاں صرف ان لوگوں کے لیے زیادہ معنی رکھتی ہیں جو سورج کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے ان کو سورج کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ زمین کو تو چھوڑیں، زہرہ پر بھی اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا جتنا عالمی تپش کے مخالفین اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

شاید آپ یہ بھول گئے ہیں کہ "درخت" آکسیجن سے نہیں بلکہ کارب ڈائکسائیڈ سے جیتے ہیں:grin:
امید ہے کہ اتنا خوش ہونے سے پہلے آپ کو پتا ہوگا کہ میں نے درختوں کی اندھا دھند کٹائی کی بات کی ہے۔ قدرتی اموات کی نہیں۔
ویسے یہ تصور غلط ہے کہ درخت "آکسیجن سے نہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے جیتے ہیں"۔ جب درخت دن کی روشنی کو کیمیائی توانائی میں بدل کر محفوظ کرتے ہیں تو اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہوتی ہے۔ یہ توانائی ساتھ ساتھ استعمال بھی ہوتی رہتی ہے جس کے لیے آکسیجن جذب اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ اور دونوں افعال درخت کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہاں مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کی نسبت جذب زیادہ کرتے ہیں۔

اور ہاں، درختوں کی بات سے یاد آیا، پچھلے دو سو سالوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے غیر معمولی طور پر بڑھنے کے لیے لوگ اس طرح بھی ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے والے درختوں کا بے دریغ "قتلِ عام" کیا۔

یوں ماحول کی آلودگی سے سورج کی روشنی زمین تک کم پہنچتی ہے اور درخت مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
سورج کی روشنی میں آنے والی کمی درختوں کو نقصان پہنچنے کی ایک وجہ ہے تو سہی لیکن یہ کمی اتنی زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو رکازی ایندھن جلانے سے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ دیگر زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں، وہ درختوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔

اس مسئلہ کے حل کیلئے اپنے شہروں کے ارد گرد درخت زیادہ لگائیں۔
چلو کوئی تو مفید بات بھی کر دی۔ :tongue: :monkey:
 

محمد سعد

محفلین
بلکہ اصل مقصد یہ تھا کہ خود مختار ریسرچز کے نتائج کو ایک طرفہ رزلٹ کے طور پر پیش کرنا غلط ہے۔ کیونکہ بعض کی ریسرچ گلوبل ورمنگ کے حق میں اور بعض کی اسکے خلاف میں رزلٹس دیتی ہے۔
آزادانہ کام کرنے والوں میں لگ بھگ نوے فیصد سائنس دان عالمی تپش کو حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور یہ بغیر کسی وجہ کے بھی نہیں بلکہ یہ نتیجہ ان کی سالوں کی محنت اور تحقیق کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اختلاف اس کی باریک جزئیات پر ہوتا ہے۔ اس بات پر نہیں کہ عالمی تپش موجود ہے یا نہیں یا یہ انسان کی حرکتوں کا نتیجہ ہے یا نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ آپ نے ابھی تک نہ ادارے کا اپنا جواب پڑھا ہے، اور نہ ہی میرے فراہم کردہ روابط میں سے کوئی ایک۔ جبکہ میں نے کل آپ کی وجہ سے پورا دن مطالعے میں لگا دیا۔ دن کے گیارہ بجے آپ کی یہ پوسٹ پڑھی اور رات کے سوا گیارہ بجے تک دونوں اطراف کے دلائل کا مطالعہ کرتے رہنے کے بعد اس کا مفصل جواب لکھنے بیٹھا۔ اور اس تمام دن کے مطالعے کا جواب آپ نے یوں بغیر پڑھے لکھ ڈالا۔ یہ تو کوئی اچھی بات نہ ہوئی۔ گندا بچہ! :mad3:
 

arifkarim

معطل
کیونکہ لوگوں کو صرف ایک دو سو گز کا فاصلہ بھی گاڑی کے بغیر طے کرتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔ اور گرمی کے موسم میں درجۂ حرارت صرف 39 درجے سیلسیس تک بھی بڑھ جائے تو ائیر کنڈشنر کے بغیر ان کا گزارا نہیں ہوتا۔ جو فاصلہ سائیکل سے بہ آسانی طے ہو سکتا ہے، اس کے لیے بھی ہزار کلو کی گاڑی استعمال کی جاتی ہے جسے سواری سمیت کھینچنے میں کافی سارا ایندھن ضائع ہو جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
سائنس نے ہر اک کیلئے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ آپ پھر ماحول کو بچانے کیلئے ایسا کریں کہ بجائے اپنے کمپیوٹر کا "ایندھن" ضائع کرنے کہ بذریعہ ڈاک پیغامات بھیجا کریں۔ ڈاک آفس کے چکر لگانے سے صحت بھی بہتر ہوگی اور موٹاپا نہیں آئے گا۔

وہ گاڑی جس کی کہانی سنانے والا شخص کبھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا؟ اور جس میں استعمال ہونے والے پرزے دراصل اس گاڑی کے بننے کے آٹھ سال بعد بننا شروع ہوئے تھے؟ اور وہ گاڑی جس کے طریقۂ کار کو اگر لاگو کرنے کی کوشش کی جائے تو نہ صرف اس نظام کو چلانے والی بیشتر توانائی ضائع ہو جائے گی (یعنی ماحول کے لیے تیل کے استعمال سے بھی ہزاروں گنا بدتر) بلکہ تمام برقی آلات کا بھی بیڑا غرق ہو جائے گا؟
ثبوت؟ سورسز؟ افسانے؟

یعنی سائنسی علوم کا مطالعہ تو چھوڑیے، آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ دنیا میں کیا کیا ہو رہا ہے؟ ختم کاربن خارج کرنے والے ذرائع ہوتے ہیں۔ شمسی یا ہوائی توانائی جیسی چیزیں نہیں۔ اسی لیے ان کو renewable energy کہا جاتا ہے۔
شمسی توانائی کے علاوہ، ہوائی چکیوں، پانی کی لہروں اور بہت سے ذرائع سے رینیو ایبل توانائی پر کام ہو رہا ہے۔ اور یہ معلومات یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ بات یہ ہے کہ اسکا استعمال بڑے پیمانے پر بہت کم ہے۔ کیونکہ اس ٹیکنالوجی کی کاسٹ آف پروڈکشن زیادہ ہونے کی وجہ سے عام صارفین تک پہنچ ابھی کافی دور ہے۔

یہ ٹیکس لوگوں کو مجبور کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ اپنی عادات میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔ کیونکہ "الگور چاچو" آج کے مادہ پرست انسان کی دکھتی رگ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ دیکھنا یہ ٹیکس یا کوئی اور ایسا طریقہ نافذ ہو گیا تو کیسے تیزی سے لوگ اپنی عادات بدلتے ہیں۔ جن لوگوں کو ابھی سو گز گاڑی کے بغیر طے کرنا دشوار ہے، وہ دس کلومیٹر تک پیدل یا سائیکل چلا کر جایا کریں گے۔
اگر ٹیکس کا سب سے زیادہ فائدہ خود الگور چاچو کو ہو رہا ہے تو یہ ٹیکس خود انکی دکھتی رگ کی دوا بن گیا ہے! :)
الگور صاحب ایک سیاست دان ہیں اور انکا کام ہی قوم پر طرح طرح‌کے ٹیکس لگا کر پیسا ہڑپ کرنا ہے۔ اگر یہ سائنسدان ہوتے تو پہلے رینیوایبل توانائی پیدا کرنے والے ذرائع کو عام کرنے کیلئے قوانین پاس کرتے۔ اس ٹیکنالوجی کو حکومتی سبسڈی دیتے۔ تاکہ مارکیٹ میں اس نئی سورس کی بھرمار ہو جاتی۔ لوگوں کو تیل کا سستا متبادل ملتا اور وہ اپنے آپ دوسری اور بہتر قسم کے ایندھن کی طرف بڑھتے۔ مگر نہیں۔ الگور صاحب نے یہاں وہی ٹیکنیک اپنائی ہے جو مغربی حکومتیں افیون یا سیگریٹ کی روک تھام کیلئے کرتی ہیں۔ قیمتیں بڑھا دو، ٹیکس لگا دو۔ اور لوگ مجبور ہو کر ٹیکس بھی دیتے ہیں اور اپنی پرانی "عادتیں" بھی ترک نہیں‌کرتے! :rollingonthefloor: حکومت پیسا ہڑپ اور حالات وہیں کے وہیں! بلکہ مزید خراب!


یہ ٹیکس صرف ایک خاص حد سے زیادہ آلودگی پھیلانے والوں پر اثر انداز ہوگا۔ اور کچھ رکازی ایندھن بھی ایسے موجود ہیں جو بہ آسانی اس حد کے اندر رہ سکتے ہیں۔ دیگر ذرائع کی تو بات ہی چھوڑو۔
یہ صرف شروعات ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ ایک بار یہ ٹیکس لگ گیا تو بہانے بہانے سے ہمارے سانس کے اخراج پر بھی ٹیکس لگا دیں گے۔

یوں تو آپ کو ہر چیز تیل کمپنیوں کی سازش نظر آتی ہے۔ لیکن جہاں پر اصل دھوکہ موجود ہے وہاں آپ کو سب اچھا نظر آ رہا ہے۔ آپ ذرا دیکھ لیں کہ عالمی تپش کی مخالفت کرنے والے "سائنس دانوں" کی کتنی تعداد کسی نہ کسی ذریعے سے تیل کی کمپنیوں سے وابستہ ہے۔
کوئی نئی بات نہیں۔ خود ماحول دوست سائنسدان و سیاست دان (الگور اسمیت) ان کمپنیوں سے وابستہ ہیں جنکو گلوبل وارنگ ٹیکس سے سب سے زیادہ "منافع" ہوگا! :devil:

مجموعی طور پر فائدہ ہی ہونا ہے۔ یہ ٹیکس صرف لوگوں پر ہی نہیں بلکہ صنعتوں پر بھی اثر انداز ہوگا۔ جس کے نتیجے میں توانائی کی بچت کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ اور یوں آہستہ آہستہ آپ تیل سے شمسی پینل جیسی چیزوں پر منتقل ہو جائیں گے جو ماحول دوست بھی ہوں گی اور ان کو چلاتے رہنے کا خرچہ بھی کم ہوگا۔
افسانہ۔ الگور کے cap and trade ٹیکس کے نتیجہ میں امریکی بےروز گاری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی، جو کہ آجکل ویسے ہی ٹاپ پر ہے:


ایسے میں شمسی توانائی تو کیا سیدھا خچروں پر منتقل ہونا پڑے گا!

یہ کمی یا زیادتی اتنی نہیں ہوتی کہ محسوس کی جا سکے۔ یہ تبدیلیاں صرف ان لوگوں کے لیے زیادہ معنی رکھتی ہیں جو سورج کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے ان کو سورج کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ زمین کو تو چھوڑیں، زہرہ پر بھی اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا جتنا عالمی تپش کے مخالفین اسے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
جی ہاں۔ اسی لئے پوری دنیا کے ریسرچز خود مختار ریسرچ کرکے رزلٹس ڈسکس کرتے ہیں۔ اور حتمی رائے یہی ہے کہ گلوبل وارمنگ سو فیصد سچ نہیں ہے۔ اسکا اثبوت میں وہ ہیکڈ ڈاکومنٹس میں پیش کر چکا ہوں۔

امید ہے کہ اتنا خوش ہونے سے پہلے آپ کو پتا ہوگا کہ میں نے درختوں کی اندھا دھند کٹائی کی بات کی ہے۔ قدرتی اموات کی نہیں۔
ویسے یہ تصور غلط ہے کہ درخت "آکسیجن سے نہیں بلکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے جیتے ہیں"۔ جب درخت دن کی روشنی کو کیمیائی توانائی میں بدل کر محفوظ کرتے ہیں تو اس عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب ہوتی ہے۔ یہ توانائی ساتھ ساتھ استعمال بھی ہوتی رہتی ہے جس کے لیے آکسیجن جذب اور کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ اور دونوں افعال درخت کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہیں۔ ہاں مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کی نسبت جذب زیادہ کرتے ہیں۔
بے شک۔ مگر جس طرح درخت کاٹے جاتے ہیں۔ ویسے ہی انسانی کوشش سے واپس لگائے بھی جا سکتے ہیں۔ برازیل بائو فیول کے چکر میں کاٹے گئے جنگلات کا پیشتر حصہ واپس اگانے میں کامیاب ہو چکا ہے! نیز کارب گیسز کو سورج کی روشنی سے واپس ایندھن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سمت میں بھی ریسرچ ضروری ہے:
http://www.sciencedaily.com/releases/2007/04/070418091932.htm


اور ہاں، درختوں کی بات سے یاد آیا، پچھلے دو سو سالوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کے غیر معمولی طور پر بڑھنے کے لیے لوگ اس طرح بھی ذمہ دار ہیں کہ انہوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے والے درختوں کا بے دریغ "قتلِ عام" کیا۔
ہی ہی ہی۔ آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ زمین پر موجود ۹۰ فیصد آکسیجن phytoplankton آلجی سمندر کی تہہ میں بناتے ہیں۔ یوں اگر تمام درخت بھی کاٹ دیں تب بھی ہم زندہ رہیں گے!
http://en.wikipedia.org/wiki/phytoplankton
ہاں البتہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے خارج ہونے والا زہریلا مادہ جب سمندر میں ڈمپ کیا جاتا ہے تو یہ زندگی کی گیس پیدے کرنے والے آلجی اپنےآپ مر جاتے ہیں۔

سورج کی روشنی میں آنے والی کمی درختوں کو نقصان پہنچنے کی ایک وجہ ہے تو سہی لیکن یہ کمی اتنی زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو رکازی ایندھن جلانے سے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ دیگر زہریلی گیسیں خارج ہوتی ہیں، وہ درختوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔
درختوں سے زیادہ phytoplankton کی فکر کریں۔ یہ پہلے آئے تھے اور درخت بعد میں ;)


چلو کوئی تو مفید بات بھی کر دی۔

شکریہ آپکا کہ آپنے اپنی رائے سے بہت سے سچ جھوٹ ثابت کر دئے۔
 

arifkarim

معطل
آزادانہ کام کرنے والوں میں لگ بھگ نوے فیصد سائنس دان عالمی تپش کو حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور یہ بغیر کسی وجہ کے بھی نہیں بلکہ یہ نتیجہ ان کی سالوں کی محنت اور تحقیق کا نچوڑ ہوتا ہے۔ اختلاف اس کی باریک جزئیات پر ہوتا ہے۔ اس بات پر نہیں کہ عالمی تپش موجود ہے یا نہیں یا یہ انسان کی حرکتوں کا نتیجہ ہے یا نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ آپ نے ابھی تک نہ ادارے کا اپنا جواب پڑھا ہے، اور نہ ہی میرے فراہم کردہ روابط میں سے کوئی ایک۔ جبکہ میں نے کل آپ کی وجہ سے پورا دن مطالعے میں لگا دیا۔ دن کے گیارہ بجے آپ کی یہ پوسٹ پڑھی اور رات کے سوا گیارہ بجے تک دونوں اطراف کے دلائل کا مطالعہ کرتے رہنے کے بعد اس کا مفصل جواب لکھنے بیٹھا۔ اور اس تمام دن کے مطالعے کا جواب آپ نے یوں بغیر پڑھے لکھ ڈالا۔ یہ تو کوئی اچھی بات نہ ہوئی۔ گندا بچہ! :mad3:
اوہ سوری جناب۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ اتنا مطالعہ خشوع خضوع کیساتھ کرتے ہیں۔:)
خیر اس دھاگے سے ہم دونوں نے بہت کچھ سیکھا۔ اگر مزید وقت لگانا چاہتے ہیں تو مزید بحث کر لیتے ہیں۔ باقی آپکی مرضی۔
میں نے آپکے دئے گئے لنکس کا مطالعہ کیا تھا اور ادارے کی پوسٹ کا بھی۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ اسی وقت ہو گیا تھا۔ ;)
 

arifkarim

معطل
عارف، آپ کے لیے چاچا اجمل نے ایک نصیحت لکھی ہے۔ ضرور پڑھنا۔

شکریہ۔ اسکا جواب وہیں پوسٹ کر دیا ہے۔ انہوں نے چین و جاپان کی ترقی کی ایک طرفہ تعریف کی ہے۔ جاپانی قوم پر چڑھے 836 trillion کے قرضے اور چینی قوم میں علاقائی جبر و ظلم و ستم کے حالات و واقعات کو گول کر گئے ہیں۔ ایک طرفہ رخ‌صرف وہ دکھاتا ہے جسکا ایک ایجنڈا ہو۔ سچ کو پرکھنے والا دونوں طرف کے معاملات دکھا کر معاملہ کلئیر کر دیتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں‌کہ چین کی معاشی ترقی کی وجہ سے وہاں کے ماحول کا کیا حشر ہوا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل ایک رپورٹ کے مطابق گندی فضا کی وجہ سے ہانگ کانگ کے اکثر باسی یہ علاقہ چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ :battingeyelashes:
 

محمد سعد

محفلین
سائنس نے ہر اک کیلئے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ آپ پھر ماحول کو بچانے کیلئے ایسا کریں کہ بجائے اپنے کمپیوٹر کا "ایندھن" ضائع کرنے کہ بذریعہ ڈاک پیغامات بھیجا کریں۔ ڈاک آفس کے چکر لگانے سے صحت بھی بہتر ہوگی اور موٹاپا نہیں آئے گا۔
کمپیوٹر سے ڈاک روانہ کرنا ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہے بنسبت روایتی ڈاک کے۔ کاغذ بنانے کے لیے درخت کٹتے ہیں، ڈاک پہنچانے کے لیے ایندھن خرچ ہوتا ہے۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ ایسے ذرائع کا استعمال تب ہی کیا جائے جب کوئی اور راستہ نہ ہو، مثلاً پارسل روانہ کرنے کے لیے، یا کسی ایسے شخص کو پیغام پہنچانے کے لیے جس کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہو۔

آپ نے ٹیسلا کی برقی گاڑی کی کہانی کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے ثبوتوں اور حوالوں کا مطالبہ کیا۔ یوں تو میں وہاں محمد علی مکی صاحب کے بلاگ پر بھی ذکر کر چکا تھا لیکن پھر بھی دہرا دیتا ہوں۔
کیوں میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا:
ٹیسلا کا پیٹر ساوو نام کا کوئی بھانجا یا بھتیجا تھا ہی نہیں۔ ایسے کسی شخص کا کوئی بھی ریکارڈ اس افواہ کے متن کے علاوہ اور کہیں بھی نہیں ملتا۔
70L7 ٹائپ ویکیوم ٹیوب 1939ء میں بننا شروع ہوئی تھی جبکہ واقعے کا سال 1931ء بتایا جاتا ہے۔
http://www.radiomuseum.org/tubes/tube_70l7.html
کیوں میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ نظام ناقابلِ عمل ہے:
برقی مقناطیسی امالہ (Electromagnetic Induction) کا اصول آپ ایف ایس سی میں بھی پڑھ چکے ہوں گے۔ بدلتے ہوئے مقناطیسی میدان کے ذریعے برقی چارج کو حرکت دی جا سکتی ہے یعنی برقی رو پیدا کی جا سکتی ہے۔ لیکن مقناطیسی میدان کے ماخذ سے جتنا دور آئیں گے، اس کی شدت اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ یعنی پیدا ہونے والی برقی رو کی مقدار بھی کم ہوتی جائے گی۔ توانائی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا کیونکہ وہ کسی گاڑی کو چلانے میں استعمال ہی نہیں ہوگا۔ یہ ضیاع اتنا زیادہ ہوگا کہ زمین کو تیل پر چلنے والی گاڑیوں سے بھی بہت زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ اور پھر یہ بات بھی مدِ نظر رکھیں کہ آپ اگر چاہتے ہیں کہ گاڑی کی جگہ تک مقناطیسی میدان کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ اس سے گاڑی کو چلایا جا سکے تو وہ شدت اتنی زیادہ ہوگی کہ اس کے متعلق آپ سوچیں بھی تو آپ کا دماغ فیوز ہو جائے۔ :-P اور اس شدید مقناطیسی میدان میں صرف گاڑی میں ہی برقی رو نہیں دوڑے گی بلکہ دیگر برقی آلات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ نتیجہ یہ کہ آپ کمپیوٹر اور موبائل فون کے دور سے واپس ایک صدی پیچھے پہنچ جائیں گے۔ بلکہ آلات سے بھی زیادہ فکر آپ کو اس بات کی کرنی چاہیے کہ آپ کی صحت پر اس شدید مقناطیسی میدان کا کیا اثر پڑے گا۔ یہاں تو لوگ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے ڈراتے ہیں، وہ تو کنگ سائز بلا ہوگی۔

شمسی توانائی کے علاوہ، ہوائی چکیوں، پانی کی لہروں اور بہت سے ذرائع سے رینیو ایبل توانائی پر کام ہو رہا ہے۔ اور یہ معلومات یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ بات یہ ہے کہ اسکا استعمال بڑے پیمانے پر بہت کم ہے۔ کیونکہ اس ٹیکنالوجی کی کاسٹ آف پروڈکشن زیادہ ہونے کی وجہ سے عام صارفین تک پہنچ ابھی کافی دور ہے۔
کچھ ذرائع اب بھی عام لوگوں کی حد میں ہیں۔ یورپ، امریکہ وغیرہ میں بہت سے فارم ہاؤسز پر ہوائی چکیوں کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ بایو فیول بھی عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ باقی ذرائع مثلاً شمسی توانائی پر بھی جوں جوں تحقیق ہوتی جائے گی، صورتِ حال بہتر ہوتی جائے گی۔
لیکن فرض کریں کہ ہمیں کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ تو کیا ہم اپنے واحد گھر زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے کچھ آرام طلبی بھی نہیں چھوڑ سکتے؟ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ تھوڑے فاصلے کے سفر کے لیے ایندھن جلانے سے اجتناب کریں، یا ضرورت کے بغیر بجلی سے چلنے والے آلات چلائے نہ رکھیں۔ میں خود بڑے بڑے فاصلوں تک سائیکل چلانے کا عادی ہوں۔ اور سخت سے سخت گرمی میں بھی ائیر کنڈیشنر کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ یہ اس لیے بتایا کہ اگر آپ مجھے "دوسروں کو نصیحت، خود میاں فصیحت" والا معاملہ سمجھ رہے ہوں تو اس غلط فہمی کو دور کر لیں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اسے نصیحت کرنے والا خود اپنی نصیحت پر عمل نہ کرے۔

اگر ٹیکس کا سب سے زیادہ فائدہ خود الگور چاچو کو ہو رہا ہے تو یہ ٹیکس خود انکی دکھتی رگ کی دوا بن گیا ہے! :)
الگور صاحب ایک سیاست دان ہیں اور انکا کام ہی قوم پر طرح طرح‌کے ٹیکس لگا کر پیسا ہڑپ کرنا ہے۔ اگر یہ سائنسدان ہوتے تو پہلے رینیوایبل توانائی پیدا کرنے والے ذرائع کو عام کرنے کیلئے قوانین پاس کرتے۔ اس ٹیکنالوجی کو حکومتی سبسڈی دیتے۔ تاکہ مارکیٹ میں اس نئی سورس کی بھرمار ہو جاتی۔ لوگوں کو تیل کا سستا متبادل ملتا اور وہ اپنے آپ دوسری اور بہتر قسم کے ایندھن کی طرف بڑھتے۔
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ جن لوگوں کی بات پر اندھا دھند اعتبار کرتے ہیں، وہ آپ کو ان قوانین کے کاربن ٹیکس کے علاوہ کسی اور پہلو کے بارے میں بتاتے ہی نہیں۔ ورنہ آپ یہ شکایت نہ کرتے۔
بہرحال، میرا مشاہدہ ہے کہ شخصیات کے کردار پر ہونے والے بیشتر مباحثے کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ چنانچہ الگور کو افریقہ میں پھینک دیں۔ بہتر ہوگا کہ علمی دلائل ہی پر بات کی جائے تاکہ گفتگو کی افادیت بڑھے۔ کیونکہ نہ تو الگور کو اچھا ثابت کرنے سے عالمی تپش کی موجودگی ثابت ہوگی اور نہ اسے برا ثابت کرنے سے اس کی غیر موجودگی۔
اس موضوع پر ناسا کے ایک سائنس دان کے الفاظ دہراتا ہوں۔
“Science doesn’t work because we’re all nice. Newton may have been an ass, but the theory of gravity still works.”

افسانہ۔ الگور کے cap and trade ٹیکس کے نتیجہ میں امریکی بےروز گاری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی، جو کہ آجکل ویسے ہی ٹاپ پر ہے
امریکہ کے حالات کے مطابق اس مسئلے کا حل تلاش کرنا امریکیوں کا مسئلہ ہے۔ ان کے پیش کردہ حل کا اچھا یا برا ہونا نہ تو عالمی تپش کے حق میں کوئی ثبوت ہوگا اور نہ ہی اس کی تردید میں۔

جی ہاں۔ اسی لئے پوری دنیا کے ریسرچز خود مختار ریسرچ کرکے رزلٹس ڈسکس کرتے ہیں۔ اور حتمی رائے یہی ہے کہ گلوبل وارمنگ سو فیصد سچ نہیں ہے۔ اسکا اثبوت میں وہ ہیکڈ ڈاکومنٹس میں پیش کر چکا ہوں۔
حتمی رائے یہی ہے کہ عالمی تپش موجود ہے اور اس کے لیے اگر جلد از جلد کچھ نہ کیا گیا تو سب تباہ ہو جانا ہے۔ آپ جس چیز کو ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اس پر آپ نے خود ہی کوئی تحقیق نہیں کی۔ اگر زیادہ نہیں تو بھی کم از کم 90 فیصد سائنس دان عالمی تپش کو حقیقت مانتے ہیں اور اسے زمین کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اور اس کے لیے ان کے پاس انتہائی ٹھوس دلائل اور ثبوت بھی ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی طرح بودے اور کمزور دلائل پر گزارا نہیں کرتے جو کہ صرف انہی لوگوں کو درست نظر آ سکتے ہیں جنہیں اس موضوع پر بنیادی باتوں کا بھی پتا نہ ہو جبکہ زیرِ بحث موضوع پر معلومات رکھنے والے شخص کو قائل کرنے کے لیے ناکافی ہوں۔
اختلافات کی جو آپ بات کر رہے ہیں، وہ اس کی باریک جزئیات کے متعلق ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ادارے کی ویب سائٹ پر مثال دی گئی کہ ایک مخصوص وقت کے دوران خود ریکارڈ کیے گئے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہوا تھا جبکہ اس دورانیے کا جو درجۂ حرارت درختوں کے مطالعے سے حاصل کیا گیا، وہ مختلف آ رہا تھا۔ چنانچہ درختوں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے درجۂ حرارت کو رد کر دیا گیا کیونکہ زیادہ قابلِ اعتبار وہی درجۂ حرارت تھا جو کہ خود باقاعدہ آلات کے ذریعے ناپا گیا۔
اسی طرح ایک بار کسی نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ فلاں سیٹلائٹ سے زمین کا درجۂ حرارت وہ نہیں حاصل ہو رہا جو کہ عالمی تپش کے ماڈلوں کے مطابق آنا چاہیے۔ اس بات کو عالمی تپش کے مخالفین نے خوب اچھالا۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ دراصل سیٹلائٹ پر درجۂ حرارت کی پیمائش کرنے والے آلات درست طریقے سے چالو نہیں ہوئے تھے۔ بعد میں جب دوبارہ پیمائشیں کی گئیں تو سیٹلائٹ کا ڈیٹا بھی عالمی تپش کے ماڈلوں کے عین مطابق ملا۔ لیکن اس بات کا عالمی تپش کے مخالفین نے کہیں ذکر ہی نہ کیا کہ ان کی بیستی خراب ہوتی۔
جن اختلافات کی آپ بات کر رہے ہیں، وہ انتہائی باریک تفصیلات پر ہوتے ہیں جیسا اوپر کی دو مثالوں میں ہوا کہ "آخر درختوں کے مطالعے سے درست درجۂ حرارت کیوں حاصل نہیں ہو رہا؟"، اور (سیٹلائٹ کی خرابی کا پتا لگنے سے پہلے:) "سیٹلائٹ کا ڈیٹا ہمارے ماڈلوں کے ساتھ میل کیوں نہیں کھا رہا؟"۔ مجموعی طور پر اس بات پر نوے فیصد سے زائد سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ عالمی تپش واقعی موجود ہے اور یہ ہمارے واحد گھر زمین کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ آپ کو یہ چھوٹے چھوٹے اختلافات اس لیے اتنے بڑے نظر آتے ہیں کیونکہ آپ جن ذرائع پر بھروسہ کرتے ہیں، وہاں پر مختصر اقتباسات اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے انتہائی حد تک توڑ مروڑ کر پیش کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ تمام لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں جن کی اپنی معلومات اس موضوع پر بہت کم ہوں۔

بے شک۔ مگر جس طرح درخت کاٹے جاتے ہیں۔ ویسے ہی انسانی کوشش سے واپس لگائے بھی جا سکتے ہیں۔ برازیل بائو فیول کے چکر میں کاٹے گئے جنگلات کا پیشتر حصہ واپس اگانے میں کامیاب ہو چکا ہے! نیز کارب گیسز کو سورج کی روشنی سے واپس ایندھن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سمت میں بھی ریسرچ ضروری ہے:
http://www.sciencedaily.com/releases/2007/04/070418091932.htm
بات تو اچھی کی لیکن آپ بھول گئے کہ بات کس چیز کی ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے شہر میں درختوں کے ختم ہونے کی بات کی تھی جس پر آپ کو لگا کہ میں نے درختوں کی قدرتی اموات کی بات کی ہے۔ اس پر میں نے وضاحت کی کہ میں نے انسانوں کے ہاتھوں ہونے والی کٹائی کی بات کی ہے۔ بہرحال، یہ بات آپ کی بالکل درست ہے کہ درخت انسانی کوششوں سے واپس بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ میرے ذہن میں بھی اس سلسلے میں کچھ منصوبے ہیں لیکن فی الحال وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ ساتھ جو آپ نے مضمون کا رابطہ فراہم کیا ہے، اسے میں نے ابھی تک پڑھا تو نہیں کہ کس بارے میں ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ جیسے پودے سورج کی روشنی کو کیمیائی توانائی میں بدل سکتے ہیں، اسی طرح ایسا کوئی مصنوعی نظام بھی بنایا جا سکتا ہے جو سورج سے توانائی حاصل کر کے کسی کیمیائی عمل کے ذریعے زمین پر بڑھتے ہوئے نقصان دہ مرکبات کو بے ضرر اشیاء میں بدلے۔

ہی ہی ہی۔ آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ زمین پر موجود ۹۰ فیصد آکسیجن phytoplankton آلجی سمندر کی تہہ میں بناتے ہیں۔ یوں اگر تمام درخت بھی کاٹ دیں تب بھی ہم زندہ رہیں گے!
http://en.wikipedia.org/wiki/phytoplankton
نوے (۹۰) فیصد نہیں پچاس (۵۰) فیصد۔ لیکن اگر ان کی مقدار کو مصنوعی طور پر بڑھا بھی دیا جائے تو بھی یہ ہمارے زندہ رہنے کی ضمانت نہیں ہے۔ زمین پر رہنے والی ہر جاندار نوع ایک دوسرے کے ساتھ ایک متوازن نظام کے ذریعے جڑی ہے۔ اگر اس توازن کو نقصان پہینچے گا تو اس کا اثر تمام جانداروں پر پڑے گا۔ جیسا کہ اس مثال میں اگر درخت ختم ہو گئے تو ان پر منحصر رہنے والے جان دار بھی متاثر ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں ان جان داروں پر منحصر رہنے والے جان دار متاثر ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ یوں درختوں کے ختم ہونے کا نقصان تمام انواع کو ہوگا جن میں انسان بھی شامل ہے۔
ہاں البتہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے خارج ہونے والا زہریلا مادہ جب سمندر میں ڈمپ کیا جاتا ہے تو یہ زندگی کی گیس پیدے کرنے والے آلجی اپنےآپ مر جاتے ہیں۔
اسے بھی روکنا ہوگا کیونکہ یہ بھی مذکور بالا توازن کو بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ جدید تحقیق کے نتیجے میں کئی نئی تکنیکیں وضع کی گئی ہیں جن سے اس نقصان کو کافی کم کیا جا سکتا ہے۔

میں نے آپکے دئے گئے لنکس کا مطالعہ کیا تھا اور ادارے کی پوسٹ کا بھی۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ اسی وقت ہو گیا تھا۔ ;)
میں نے پہلے بھی قریباً نصف درجن بار کہا ہے کہ بغیر دلیل یا ثبوت کے دعوے میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ سائنس میں ثبوت یہ نہیں ہوتا کہ آپ محض دعووں پر مشتمل کسی ویڈیو یا ویب صفحے کا رابطہ دے دیں۔ ثبوت یہ ہوتا ہے کہ اپنے خیال کو ثابت کرنے کے لیے تمام تفصیلات بتائیں کہ آپ کیوں ایسا سمجھتے ہیں، پھر اپنے خیال کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک تجربے کا طریقہ وضع کر کے دیں جس کے ذریعے آپ کے خیال کو پرکھا جا سکے۔
یہاں پر اگر آپ یہ بتائیں گے کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کیسے ہوا تو آپ کی بات میں وزن پیدا ہوگا۔
 
Top