سائنس نے ہر اک کیلئے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ آپ پھر ماحول کو بچانے کیلئے ایسا کریں کہ بجائے اپنے کمپیوٹر کا "ایندھن" ضائع کرنے کہ بذریعہ ڈاک پیغامات بھیجا کریں۔ ڈاک آفس کے چکر لگانے سے صحت بھی بہتر ہوگی اور موٹاپا نہیں آئے گا۔
کمپیوٹر سے ڈاک روانہ کرنا ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہے بنسبت روایتی ڈاک کے۔ کاغذ بنانے کے لیے درخت کٹتے ہیں، ڈاک پہنچانے کے لیے ایندھن خرچ ہوتا ہے۔ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ ایسے ذرائع کا استعمال تب ہی کیا جائے جب کوئی اور راستہ نہ ہو، مثلاً پارسل روانہ کرنے کے لیے، یا کسی ایسے شخص کو پیغام پہنچانے کے لیے جس کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہو۔
آپ نے ٹیسلا کی برقی گاڑی کی کہانی کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے ثبوتوں اور حوالوں کا مطالبہ کیا۔
یوں تو میں وہاں محمد علی مکی صاحب کے بلاگ پر بھی ذکر کر چکا تھا لیکن پھر بھی دہرا دیتا ہوں۔
کیوں میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی واقعہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا:
ٹیسلا کا پیٹر ساوو نام کا کوئی بھانجا یا بھتیجا تھا ہی نہیں۔ ایسے کسی شخص کا کوئی بھی ریکارڈ اس افواہ کے متن کے علاوہ اور کہیں بھی نہیں ملتا۔
70L7 ٹائپ ویکیوم ٹیوب 1939ء میں بننا شروع ہوئی تھی جبکہ واقعے کا سال 1931ء بتایا جاتا ہے۔
http://www.radiomuseum.org/tubes/tube_70l7.html
کیوں میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ نظام ناقابلِ عمل ہے:
برقی مقناطیسی امالہ (Electromagnetic Induction) کا اصول آپ ایف ایس سی میں بھی پڑھ چکے ہوں گے۔ بدلتے ہوئے مقناطیسی میدان کے ذریعے برقی چارج کو حرکت دی جا سکتی ہے یعنی برقی رو پیدا کی جا سکتی ہے۔ لیکن مقناطیسی میدان کے ماخذ سے جتنا دور آئیں گے، اس کی شدت اتنی ہی کم ہوتی جائے گی۔ یعنی پیدا ہونے والی برقی رو کی مقدار بھی کم ہوتی جائے گی۔ توانائی کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا کیونکہ وہ کسی گاڑی کو چلانے میں استعمال ہی نہیں ہوگا۔ یہ ضیاع اتنا زیادہ ہوگا کہ زمین کو تیل پر چلنے والی گاڑیوں سے بھی بہت زیادہ نقصان پہنچائے گا۔ اور پھر یہ بات بھی مدِ نظر رکھیں کہ آپ اگر چاہتے ہیں کہ گاڑی کی جگہ تک مقناطیسی میدان کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ اس سے گاڑی کو چلایا جا سکے تو وہ شدت اتنی زیادہ ہوگی کہ اس کے متعلق آپ سوچیں بھی تو آپ کا دماغ فیوز ہو جائے۔
اور اس شدید مقناطیسی میدان میں صرف گاڑی میں ہی برقی رو نہیں دوڑے گی بلکہ دیگر برقی آلات بھی اس سے متاثر ہوں گے۔ نتیجہ یہ کہ آپ کمپیوٹر اور موبائل فون کے دور سے واپس ایک صدی پیچھے پہنچ جائیں گے۔ بلکہ آلات سے بھی زیادہ فکر آپ کو اس بات کی کرنی چاہیے کہ آپ کی صحت پر اس شدید مقناطیسی میدان کا کیا اثر پڑے گا۔ یہاں تو لوگ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے ڈراتے ہیں، وہ تو کنگ سائز بلا ہوگی۔
شمسی توانائی کے علاوہ، ہوائی چکیوں، پانی کی لہروں اور بہت سے ذرائع سے رینیو ایبل توانائی پر کام ہو رہا ہے۔ اور یہ معلومات یہاں کا بچہ بچہ جانتا ہے۔ بات یہ نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ بات یہ ہے کہ اسکا استعمال بڑے پیمانے پر بہت کم ہے۔ کیونکہ اس ٹیکنالوجی کی کاسٹ آف پروڈکشن زیادہ ہونے کی وجہ سے عام صارفین تک پہنچ ابھی کافی دور ہے۔
کچھ ذرائع اب بھی عام لوگوں کی حد میں ہیں۔ یورپ، امریکہ وغیرہ میں بہت سے فارم ہاؤسز پر ہوائی چکیوں کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ بایو فیول بھی عام آدمی کی پہنچ میں ہے۔ باقی ذرائع مثلاً شمسی توانائی پر بھی جوں جوں تحقیق ہوتی جائے گی، صورتِ حال بہتر ہوتی جائے گی۔
لیکن فرض کریں کہ ہمیں کوئی بھی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ تو کیا ہم اپنے واحد گھر زمین کو تباہی سے بچانے کے لیے کچھ آرام طلبی بھی نہیں چھوڑ سکتے؟ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ تھوڑے فاصلے کے سفر کے لیے ایندھن جلانے سے اجتناب کریں، یا ضرورت کے بغیر بجلی سے چلنے والے آلات چلائے نہ رکھیں۔ میں خود بڑے بڑے فاصلوں تک سائیکل چلانے کا عادی ہوں۔ اور سخت سے سخت گرمی میں بھی ائیر کنڈیشنر کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ یہ اس لیے بتایا کہ اگر آپ مجھے "دوسروں کو نصیحت، خود میاں فصیحت" والا معاملہ سمجھ رہے ہوں تو اس غلط فہمی کو دور کر لیں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ کوئی بھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اسے نصیحت کرنے والا خود اپنی نصیحت پر عمل نہ کرے۔
اگر ٹیکس کا سب سے زیادہ فائدہ خود الگور چاچو کو ہو رہا ہے تو یہ ٹیکس خود انکی دکھتی رگ کی دوا بن گیا ہے!
الگور صاحب ایک سیاست دان ہیں اور انکا کام ہی قوم پر طرح طرحکے ٹیکس لگا کر پیسا ہڑپ کرنا ہے۔ اگر یہ سائنسدان ہوتے تو پہلے رینیوایبل توانائی پیدا کرنے والے ذرائع کو عام کرنے کیلئے قوانین پاس کرتے۔ اس ٹیکنالوجی کو حکومتی سبسڈی دیتے۔ تاکہ مارکیٹ میں اس نئی سورس کی بھرمار ہو جاتی۔ لوگوں کو تیل کا سستا متبادل ملتا اور وہ اپنے آپ دوسری اور بہتر قسم کے ایندھن کی طرف بڑھتے۔
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ جن لوگوں کی بات پر اندھا دھند اعتبار کرتے ہیں، وہ آپ کو ان قوانین کے کاربن ٹیکس کے علاوہ کسی اور پہلو کے بارے میں بتاتے ہی نہیں۔ ورنہ آپ یہ شکایت نہ کرتے۔
بہرحال، میرا مشاہدہ ہے کہ شخصیات کے کردار پر ہونے والے بیشتر مباحثے کبھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔ چنانچہ الگور کو افریقہ میں پھینک دیں۔ بہتر ہوگا کہ علمی دلائل ہی پر بات کی جائے تاکہ گفتگو کی افادیت بڑھے۔ کیونکہ نہ تو الگور کو اچھا ثابت کرنے سے عالمی تپش کی موجودگی ثابت ہوگی اور نہ اسے برا ثابت کرنے سے اس کی غیر موجودگی۔
اس موضوع پر ناسا کے ایک سائنس دان کے الفاظ دہراتا ہوں۔
“Science doesn’t work because we’re all nice. Newton may have been an ass, but the theory of gravity still works.”
افسانہ۔ الگور کے cap and trade ٹیکس کے نتیجہ میں امریکی بےروز گاری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی، جو کہ آجکل ویسے ہی ٹاپ پر ہے
امریکہ کے حالات کے مطابق اس مسئلے کا حل تلاش کرنا امریکیوں کا مسئلہ ہے۔ ان کے پیش کردہ حل کا اچھا یا برا ہونا نہ تو عالمی تپش کے حق میں کوئی ثبوت ہوگا اور نہ ہی اس کی تردید میں۔
جی ہاں۔ اسی لئے پوری دنیا کے ریسرچز خود مختار ریسرچ کرکے رزلٹس ڈسکس کرتے ہیں۔ اور حتمی رائے یہی ہے کہ گلوبل وارمنگ سو فیصد سچ نہیں ہے۔ اسکا اثبوت میں وہ ہیکڈ ڈاکومنٹس میں پیش کر چکا ہوں۔
حتمی رائے یہی ہے کہ عالمی تپش موجود ہے اور اس کے لیے اگر جلد از جلد کچھ نہ کیا گیا تو سب تباہ ہو جانا ہے۔ آپ جس چیز کو ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں، اس پر آپ نے خود ہی کوئی تحقیق نہیں کی۔ اگر زیادہ نہیں تو بھی کم از کم 90 فیصد سائنس دان عالمی تپش کو حقیقت مانتے ہیں اور اسے زمین کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اور اس کے لیے ان کے پاس انتہائی ٹھوس دلائل اور ثبوت بھی ہوتے ہیں۔ وہ آپ کی طرح بودے اور کمزور دلائل پر گزارا نہیں کرتے جو کہ صرف انہی لوگوں کو درست نظر آ سکتے ہیں جنہیں اس موضوع پر بنیادی باتوں کا بھی پتا نہ ہو جبکہ زیرِ بحث موضوع پر معلومات رکھنے والے شخص کو قائل کرنے کے لیے ناکافی ہوں۔
اختلافات کی جو آپ بات کر رہے ہیں، وہ اس کی باریک جزئیات کے متعلق ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ادارے کی ویب سائٹ پر مثال دی گئی کہ ایک مخصوص وقت کے دوران خود ریکارڈ کیے گئے درجۂ حرارت میں مسلسل اضافہ ہوا تھا جبکہ اس دورانیے کا جو درجۂ حرارت درختوں کے مطالعے سے حاصل کیا گیا، وہ مختلف آ رہا تھا۔ چنانچہ درختوں کے مطالعے سے حاصل ہونے والے درجۂ حرارت کو رد کر دیا گیا کیونکہ زیادہ قابلِ اعتبار وہی درجۂ حرارت تھا جو کہ خود باقاعدہ آلات کے ذریعے ناپا گیا۔
اسی طرح ایک بار کسی نے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ فلاں سیٹلائٹ سے زمین کا درجۂ حرارت وہ نہیں حاصل ہو رہا جو کہ عالمی تپش کے ماڈلوں کے مطابق آنا چاہیے۔ اس بات کو عالمی تپش کے مخالفین نے خوب اچھالا۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ دراصل سیٹلائٹ پر درجۂ حرارت کی پیمائش کرنے والے آلات درست طریقے سے چالو نہیں ہوئے تھے۔ بعد میں جب دوبارہ پیمائشیں کی گئیں تو سیٹلائٹ کا ڈیٹا بھی عالمی تپش کے ماڈلوں کے عین مطابق ملا۔ لیکن اس بات کا عالمی تپش کے مخالفین نے کہیں ذکر ہی نہ کیا کہ ان کی بیستی خراب ہوتی۔
جن اختلافات کی آپ بات کر رہے ہیں، وہ انتہائی باریک تفصیلات پر ہوتے ہیں جیسا اوپر کی دو مثالوں میں ہوا کہ "آخر درختوں کے مطالعے سے درست درجۂ حرارت کیوں حاصل نہیں ہو رہا؟"، اور (سیٹلائٹ کی خرابی کا پتا لگنے سے پہلے
"سیٹلائٹ کا ڈیٹا ہمارے ماڈلوں کے ساتھ میل کیوں نہیں کھا رہا؟"۔ مجموعی طور پر اس بات پر نوے فیصد سے زائد سائنس دانوں کا اتفاق ہے کہ عالمی تپش واقعی موجود ہے اور یہ ہمارے واحد گھر زمین کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ آپ کو یہ چھوٹے چھوٹے اختلافات اس لیے اتنے بڑے نظر آتے ہیں کیونکہ آپ جن ذرائع پر بھروسہ کرتے ہیں، وہاں پر مختصر اقتباسات اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے انتہائی حد تک توڑ مروڑ کر پیش کیے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ تمام لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں جن کی اپنی معلومات اس موضوع پر بہت کم ہوں۔
بے شک۔ مگر جس طرح درخت کاٹے جاتے ہیں۔ ویسے ہی انسانی کوشش سے واپس لگائے بھی جا سکتے ہیں۔ برازیل بائو فیول کے چکر میں کاٹے گئے جنگلات کا پیشتر حصہ واپس اگانے میں کامیاب ہو چکا ہے! نیز کارب گیسز کو سورج کی روشنی سے واپس ایندھن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اس سمت میں بھی ریسرچ ضروری ہے:
http://www.sciencedaily.com/releases/2007/04/070418091932.htm
بات تو اچھی کی لیکن آپ بھول گئے کہ بات کس چیز کی ہو رہی تھی۔ میں نے اپنے شہر میں درختوں کے ختم ہونے کی بات کی تھی جس پر آپ کو لگا کہ میں نے درختوں کی قدرتی اموات کی بات کی ہے۔ اس پر میں نے وضاحت کی کہ میں نے انسانوں کے ہاتھوں ہونے والی کٹائی کی بات کی ہے۔ بہرحال، یہ بات آپ کی بالکل درست ہے کہ درخت انسانی کوششوں سے واپس بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ میرے ذہن میں بھی اس سلسلے میں کچھ منصوبے ہیں لیکن فی الحال وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ ساتھ جو آپ نے مضمون کا رابطہ فراہم کیا ہے، اسے میں نے ابھی تک پڑھا تو نہیں کہ کس بارے میں ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ جیسے پودے سورج کی روشنی کو کیمیائی توانائی میں بدل سکتے ہیں، اسی طرح ایسا کوئی مصنوعی نظام بھی بنایا جا سکتا ہے جو سورج سے توانائی حاصل کر کے کسی کیمیائی عمل کے ذریعے زمین پر بڑھتے ہوئے نقصان دہ مرکبات کو بے ضرر اشیاء میں بدلے۔
ہی ہی ہی۔ آپکی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ زمین پر موجود ۹۰ فیصد آکسیجن phytoplankton آلجی سمندر کی تہہ میں بناتے ہیں۔ یوں اگر تمام درخت بھی کاٹ دیں تب بھی ہم زندہ رہیں گے!
http://en.wikipedia.org/wiki/phytoplankton
نوے (۹۰) فیصد نہیں پچاس (۵۰) فیصد۔ لیکن اگر ان کی مقدار کو مصنوعی طور پر بڑھا بھی دیا جائے تو بھی یہ ہمارے زندہ رہنے کی ضمانت نہیں ہے۔ زمین پر رہنے والی ہر جاندار نوع ایک دوسرے کے ساتھ ایک متوازن نظام کے ذریعے جڑی ہے۔ اگر اس توازن کو نقصان پہینچے گا تو اس کا اثر تمام جانداروں پر پڑے گا۔ جیسا کہ اس مثال میں اگر درخت ختم ہو گئے تو ان پر منحصر رہنے والے جان دار بھی متاثر ہوں گے۔ جس کے نتیجے میں ان جان داروں پر منحصر رہنے والے جان دار متاثر ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ یوں درختوں کے ختم ہونے کا نقصان تمام انواع کو ہوگا جن میں انسان بھی شامل ہے۔
ہاں البتہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے خارج ہونے والا زہریلا مادہ جب سمندر میں ڈمپ کیا جاتا ہے تو یہ زندگی کی گیس پیدے کرنے والے آلجی اپنےآپ مر جاتے ہیں۔
اسے بھی روکنا ہوگا کیونکہ یہ بھی مذکور بالا توازن کو بگاڑنے کا سبب بنتا ہے۔ جدید تحقیق کے نتیجے میں کئی نئی تکنیکیں وضع کی گئی ہیں جن سے اس نقصان کو کافی کم کیا جا سکتا ہے۔
میں نے آپکے دئے گئے لنکس کا مطالعہ کیا تھا اور ادارے کی پوسٹ کا بھی۔ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ اسی وقت ہو گیا تھا۔
میں نے پہلے بھی قریباً نصف درجن بار کہا ہے کہ بغیر دلیل یا ثبوت کے دعوے میں کوئی وزن نہیں ہوتا۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ سائنس میں ثبوت یہ نہیں ہوتا کہ آپ محض دعووں پر مشتمل کسی ویڈیو یا ویب صفحے کا رابطہ دے دیں۔ ثبوت یہ ہوتا ہے کہ اپنے خیال کو ثابت کرنے کے لیے تمام تفصیلات بتائیں کہ آپ کیوں ایسا سمجھتے ہیں، پھر اپنے خیال کو درست ثابت کرنے کے لیے ایک تجربے کا طریقہ وضع کر کے دیں جس کے ذریعے آپ کے خیال کو پرکھا جا سکے۔
یہاں پر اگر آپ یہ بتائیں گے کہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کیسے ہوا تو آپ کی بات میں وزن پیدا ہوگا۔