گلوبل وارمنگ ایک افسانہ؟

arifkarim

معطل
شکریہ محمد سعد۔ ابتک کی اس "بحث" سے میں‌نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم دونوں کے "سورسز" الگ ہیں یوں ہم ایک چیز پر اعتماد کیساتھ قائم نہیں ہو پائیں گے۔ آپنے گلوبل وارمنگ کے حق میں متعدد یونیورسٹیز، ریسرچ لیبز، اور دوسری "مستند" سورسز (مستند سے مرا د اکثریت کے نزدیک) کے حوالے پیش کیے ہیں۔ نیز چونکہ 90 فیصد سائنسدان بالفرض گلوبل وارمنگ تسلیم کر لیتے ہیں تو یہ بھی آپکی دنیا میں‌از خود "مستند" ہوگا۔
چونکہ میں‌اس "اکثریتی رائے ہمیشہ درست ہوتی ہے" والی تھیوری کا قائل نہیں ہوں، یوں ہمیشہ ان سورسز کو اختلاف کی نگاہ سے دیکھوں گا۔ پرانے وقتوں سے حقیقی و سچی انفارمیشن سوسائیٹی کے اعلیٰ ترین و طاقت ور لوگوں کی میراج رہی ہے۔ اگر تمام انسانوں تک اسکا حصول ممکن ہوتا تو آج دنیا کا یہ حال نہ ہوتا۔ خیر لکھنے کو بہت کچھ ہے لیکن چونکہ ہم نے اتفاق نہیں کرنا اسلئے فی الحال اس موضوع کو حالات کیلئے کھلا چھوڑتا ہوں۔ ابھی بہت وقت ہے، گلوبل وارمنگ کی حقیقت بھی کچھ سالوں تک سب کو نظر آجائے گی۔
 

محمد سعد

محفلین
شکریہ محمد سعد۔ ابتک کی اس "بحث" سے میں‌نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم دونوں کے "سورسز" الگ ہیں یوں ہم ایک چیز پر اعتماد کیساتھ قائم نہیں ہو پائیں گے۔ آپنے گلوبل وارمنگ کے حق میں متعدد یونیورسٹیز، ریسرچ لیبز، اور دوسری "مستند" سورسز (مستند سے مرا د اکثریت کے نزدیک) کے حوالے پیش کیے ہیں۔ نیز چونکہ 90 فیصد سائنسدان بالفرض گلوبل وارمنگ تسلیم کر لیتے ہیں تو یہ بھی آپکی دنیا میں‌از خود "مستند" ہوگا۔
اس کا حل تو بہت ہی آسان ہے۔آپ بھی آج سے دونوں اطراف کے نظریات کو تجربے کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دیں۔ بھلا خود کسی عمل کو ہوتے ہوئے دیکھ کر اس کو سمجھنے سے بہتر کیا ہوگا؟ ابتداء آپ ان آسان تجربات سے کر سکتے ہیں جو اکثر سائنسی جرائد میں چھپتے رہتے ہیں (مثال کے طور پر یہ تجربہ جو میں نے بچوں کی ایک سائٹ سے ترجمہ کیا ہے)۔ کچھ عرصہ اس قسم کے تجربات کرتے رہنے سے آپ کو اچھی طرح اندازہ ہو جائےگا کہ کسی اصول کو سمجھنے کے لیے یا کسی خیال کو پرکھنے کے لیے تجربہ کیسے وضع کیا جاتا ہے۔ اور آہستہ آہستہ آپ خود ہی کسی کے نظریے کو پرکھنے کے لیے تجربات وضع کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

چونکہ میں‌اس "اکثریتی رائے ہمیشہ درست ہوتی ہے" والی تھیوری کا قائل نہیں ہوں، یوں ہمیشہ ان سورسز کو اختلاف کی نگاہ سے دیکھوں گا۔
میں خود بھی یہ بات مانتا ہوں کہ اکثریت ہمیشہ درست نہیں ہوتی۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسی محفل پر کافی عرصہ پہلے ایک موضوع پر میرے دلائل کو صرف اس وجہ سے بغیر غور کیے ہی رد کر دیا گیا تھا کہ میرے پاس اکثریت کی رائے کو غلط ثابت کرنے کے لیے صرف طبیعیات کے قوانین ہی تھے، ایم آئی ٹی کی سند نہیں (اس کے موضوع کا یہاں ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہوگا تاکہ یہ بحث غیر متعلقہ سمت میں نہ مڑ جائے)۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اکثریت ہمیشہ غلط ہی ہوتی ہے جیسا کہ آپ کو لگتا ہے۔ صحیح اور غلط کا پتا لگانے کے لیے خود تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ یہ نہیں کہ جسے جی چاہا درست یا غلط قرار دے دیا۔
جب آپ اوروں کو دونوں اطراف کی بات سننے کی نصیحت کرتے ہیں تو آپ کو خود بھی غیر جانبدارانہ طور پر دونوں اطراف کی باتوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ اور درست نتیجے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ دونوں کا پوری تفصیل کے ساتھ مطالعہ کریں۔ صرف سرسری مطالعہ درست نتیجے تک پہنچنے کی ضمانت نہیں ہوتا۔

پرانے وقتوں سے حقیقی و سچی انفارمیشن سوسائیٹی کے اعلیٰ ترین و طاقت ور لوگوں کی میراج رہی ہے۔
(غالباً آپ "میراث" لکھنا چاہتے تھے)
دنیا میں سازشیں ہوتی ہیں لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں ہوتیں جتنا آپ کہتے ہیں۔ اب تو بس اسی کی کمی رہ گئی ہے کہ کسی دن آپ یہ کہیں کہ پانی حقیقت میں بے رنگ نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی تیل کمپنیوں کی سازش ہے۔ :frustrated:
اور علم کا راستہ ہمیشہ ہر اس شخص کے لیے کھلا رہتا ہے جو حصولِ علم میں سنجیدہ ہو۔ اور سائنس میں تو آپ خود ہی بڑی آسانی سے سچ اور جھوٹ کا پتا لگا سکتے ہیں۔ شاید آپ کو لگتا ہے کہ یہ جو سائنسی اصولوں پر میں نے بحث کی ہے، یہ باتیں میں نے صرف کتابوں سے ہی سیکھی ہیں۔ کتابوں سے بھی سیکھی ہیں لیکن بہت سے نکات کو میں خود بھی تجربے کے ذریعے آزما چکا ہوں۔ مثلاً برقی مقناطیسی امالہ (Electromagnetic Induction) پر میں تب ہی سے تجربات کرتا آ رہا ہوں جب میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ اگر میں یہ سب کر سکتا ہوں تو آپ کیوں نہیں؟ کون آپ کا راستہ روک کر کھڑا ہے؟ بجلی کا سامان تو یوں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سستا ہوتا جارہا ہے۔ کچھ تار، پیمائش کے آلات، بیٹریاں وغیرہ خرید کر لے آئیں اور خود کتابوں میں موجود قوانین کی تجربے کے ذریعے آزمائش کریں۔ اسی طرح عالمی تپش کے درست یا غلط ہونے کا پتا لگانے کے لیے ایک تھرمامیٹر لے آئیں اور اگر روزانہ نہیں تو ہر مہینے کی ایک مخصوص تاریخ پر درجۂ حرارت کی پیمائش کرتے رہیں۔ اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے؟ کچھ سالوں کے اندر آپ کے پاس اتنا ڈیٹا جمع ہو جائے گا کہ آپ موجودہ حالت کی نسبت زیادہ وثوق سے عالمی تپش کے سچ یا جھوٹ ہونے پر بحث کر سکیں۔ اگر آپ خود اس معاملے میں سنجیدہ ہو جائیں تو کیا کوئی ہے جو آپ کو تجربے کے ذریعے حقیقت کا پتا لگانے سے روک سکے؟
 

ساجد

محفلین
سعد اور عارف ، اللہ آپ دونوں کو سلامت رکھے آپ نے بہت اچھے دلائل کے ساتھ بات کی۔
میرے خیال میں گلوبل وارمنگ ایک افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت بلکہ خوف ناک حقیقت ہے۔ اس کو محسوس کیا جا رہا ہے اور نہ صرف درجہ حرارت بڑھ رہا ہے بلکہ موسموں میں عدم توازن اور ماحولیات کی تباہی ہوتی جا رہی ہے۔
یہ سب کچھ حضرت انسان کا ہی کیا دھرا ہے۔ ایندھن اور گیسوں کا بڑھتا استعمال اور درختوں کی بے تحاشا کٹائی۔ پلاسٹک کا استعمال اور آسائشوں کی بھرمار اس کے بڑے اسباب ہیں۔
گلوبل وارمنگ اصل میں ڈیتھ الارمنگ ہے جو زمینی حیات کے لئیے ایک بڑے خطرے کا روپ دھارتی جا رہی ہے۔
 
Top