الف عین
لائبریرین
ہیچمدانی میری
ویسے تو متداول دیوانِ غالب بھی دراصل غالب ؔ کا انتخاب ہے ، جسے بعض حضرات ان کے چند قریبی دوستوں کا انتخاب کہتے ہیں۔ البتہ اس بات میں کسی کو شک نہیں کہ "گلِ رعنا" غالب ؔ کا ذاتی انتخاب تھا۔ گلِ رعنا کا متن، ترتیبِ غزلیات و اشعار نسخہ شیرانی کے مطابق ہے۔ معمولی سا جزوی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جس سے یہ قیاس کرنا بے جا نہ ہو گا کہ اس انتخاب کے وقت نسخہ شیرانی کی اصل یا اس کی نقل پیشِ نظر رہی ہو گی۔
خاکم بدہن !!! ایک بات مجھے ہمیشہ چبھتی رہی ہے ، اور اکثر ماہرینِ غالبیاتسے بد ظنی کا باعث بنی ہے۔ وہ ہے دیوانِ غالب یا کلامِ غالب میں خوامخواہ کا تصرف اور بلا ضرورت اصلاح اور حاشیہ بازی۔ جس طرح ایک سادہ سے دینِ فطرت کو "اہلِ علم "نے ذاتیات کی بھینٹ چڑھا کر 72 پیچیدہ ترین فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ وہی حشر کلامِ غالب کا غالب دانوں نے کر دیا۔ ایک ہی شعر کا نسخہ شیرانی میں اور ہونا، اور نسخہ نظامی میں اور ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ اور نسخہ حمیدیہ کی بھی ایک الگ حیثیت ہے۔ مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ نسخہ نظامی اور نسخہ حمیدیہ کی موجودگی میں دوسرے نسخوں کا ذکر، اور حاشیہ بازی کیسے جائز ہے ؟
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔ !!
سر پیٹنے کا مقام ہے کہ ایک شعر نسخہ عرشی میں اور، نسخہ عرشی زادہ میں اور، نسخہ حسرت میں اور، نسخہ عابدی میں اور۔۔۔۔ اسی طرح پتا نہیں کتنے ہی مرتبین نے کچھ نیا کرنے کے چکر میں کلام غالب پر اصلاح آرائیاں اور خنجر آزمائیاں کی ہیں۔ اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ کلام غالب کی کوئی بھی کتاب لیں اس میں اتنے صفحات اشعار نے نہ گھیرے ہوں گے جتنے حاشیہ بازوں نے گھیر رکھے ہوں گے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس دخل در معقولات کو تحقیق کا نام دیا جاتا ہے۔
تحقیق کا یہ مطلب کب سے ہو گیا کہ غالب پر ایک مختصر بزعم خود غالب دان طبقے کی اجارہ داری ہو۔ اور جہاں تک ہو سکے کلام غالب کچھ اس انداز سے مرتب کیا جائے کہ عوام کی پہنچ سے کسی مضر شے کی طرح دور رہے۔اور نئے دیوانگانِ غالب کی ہمت ہی نہ پڑے غالب سے راز و نیاز کرنے کی۔
اب کسے رہنما کرے کوئی؟
یہ تو کلام غالب میں "بیشی " کی مثالیں اب ذرا "کمی" کی صرف ایک مثال دیکھ لیجیئے باقی آپ خود بھی دیدہ بینا والے ہیں۔ دیوانِ غالب سے غالب کا لکھا فارسی دیباچہمعلوم نہیں کس کی اجازت سے غائب کر دیا گیا۔ اور کیا بھی گیا تو کس کو یہ حق تھا کہ وہ غالب کے لکھے دیباچہ کو خود انہی کے دیوان سے خارج کرے ؟ کیا وہ کلام غالب نہیں؟ اگر وہ دیباچہ ایسا ہی فضول اور بے معنی تھا تو غالب نے لکھا ہی کیوں ؟ یہ لوگ آخر ہوتے کون ہیں غالبِ خستہ کے کلام میں کمی بیشی اور تصرفات کرنے والے ؟؟کچھ بھی ہو اپنا تو یہ عقیدہ ہے بقولِ غالب
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
اس کتاب کو مرتب کرتے وقت میں کسی کمی بیشی کا گناہگار نہیں ہوا، سوائے چند کتابت کی غلطیوں کی درستگی اور اشعار کی درست قرات کے لئے علامات وقوف کے اضافے کے۔ اشعار کے سلسلے میں، میں نے متنازعہ حاشیہ جات کا جمعہ بازار لگانے کی بجائے مستند ترین اور اصح ترین صورت اس کتاب میں درج کر کے تمام حاشیہ جات کو بیک قلم مسترد اور منسوخ کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ میں نے بعض الفاظ کی متروک املا جو غالب کے زمانے میں معمول تھی اور غالب نے جس املا میں شعر لکھے میں نے اس کو جدید املا میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اور نہ ہی میں ایسی کسی بددیانتی کو جائز سمجھتا ہوں۔ البتہ ان الفاظ کی جدید املا قوسین میں وہیں درج کر دی ہے۔ تاکہ سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ جیسا کہ
پانو۔۔۔ کو پانو ہی لکھا ہے۔ مگر قوسین میں" پاؤں" بھی لکھ دیا ہے
اوس۔۔۔۔ کو اوس ہی لکھا ہے البتہ قوسین میں "اس" بھی لکھ دیا ہے
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
میں کیا، اور میری اوقات ہی کیا۔ جب کہ مقابل کلام غالب ہےاور غالبیات کے جغادریوں کی لمبی قطار ہے۔نہ تو غالبیات کے لیجنڈز کے سامنے میری کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی مجھے ان سے سراہے جانے کی خواہش ہے۔ لیکن ایک جذبہ ایک جنون ایک لگن اور غالب سے ایک روحانی تعلق مجھے اس کام پر آمادہ کرنے اور مجھے بھٹکنے سے بچائے رکھنے کا سبب ہے۔ یہ کتاب بس اپنے جیسے عام لوگوں کے لئے مرتب کی ہے۔ تاکہ ہم جیسے بے چارے بھی غالب اور کلام غالب کا فکری ارتقا اپنی نظر سے بغیر کسی مانگے تانگے کی بیساکھی سے دیکھ سکیں اور لطف اندوز ہو سکیں۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
احقر العباد۔ ہیچمداں :۔ سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب
1
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکرِ تصویر کا
جذبہ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر، ہے دم شمشیر کا
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ!
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
2
تھا، خواب میں، خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا، نہ سود تھا
لیتا ہوں، مکتبِ غمِ دل میں، سبق ہنوز
لیکن یہی کہ "رفت" گیا اور "بود" تھا
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
3
دوست، غمخواری میں میری، سعی فرماویں گے کیا؟َ
زخم کے بھرنے تلک، ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا؟
بے نیازی حد سے گزری، بندہ پرور! کب تلک؟
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرماویں گے "کیا؟"
گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا! یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں؟
ہیں گرفتارِ جنوں، زنداں سے گھبراویں گے کیا؟
4
دل نہیں تجھ کو دکھاؤں ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا
عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا
5
بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
کس قدر خاک ہوا ہے دلِ مجنوں، یا رب!
نقشِ ہر ذرہ، سویدائے بیاباں نکلا
دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا، غالبؔ!
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا، سو طوفاں نکلا
6
دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ، طلب گارِ مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ، زرد تھا
جاتی ہے کوئی؟ کشمکش اندوہِ عشق کی
دل بھی اگر گیا، تو وہی دل کا درد تھا
احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی، خیال، بیاباں نورد تھا
یہ لاشِ بے کفن، اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
7
ستائش گر ہے ، زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نَیَستاں کا
نہیں معلوم، کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے ، سرشک آلود ہونا تیری مژگاں کا
بغل میں غیر کی، آج آپ سوتے ہیں کہیں، ورنہ
سبب کیا، خواب میں آ کر، تبسم ہائے پنہاں کا؟
نظر میں ہے ہماری، جادۂ راہِ فنا، غالبؔ!
کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا
8
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
گوش، منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا
دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفَس، جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا
مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
ناتوانی سے ، حریف دمِ عیسی نہ ہوا
9
برہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
نگیں میں جوں شرارِ سنگ نا پیدا ہے نام اُس کا
مسی آلودہ ہے مہرِ نوازش نامہ، ظاہر ہے
کہ داغِ آرزوئے بوسہ دیتا ہے پیام اُس کا
بہ امیدِ نگاہِ خاص، ہوں محمل کشِ حسرت
مبادا ہو عناں گیرِ تغافل، لطفِ عام اُس کا
10
محبت تھی چمن سے ، لیکن اب یہ بیدماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ، ناک میں آتا ہے ، دم میرا
11
محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے ، پردہ ہے ساز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا
ہیں، بسکہ جوشِ بادہ سے ، شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط، ہے سر شیشہ باز کا
تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
12
شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے دل بیتاب تھا
شوخیِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا
گرمی برقِ تپش سے زہرہ از بس آب تھا
شعلۂ جوالہ، ہر یک حلقۂ گرداب، تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا، موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں، تارِ نگہ نایاب تھا
جلوۂِ گل نے کیا تھا واں چراغاں، آب جو
یاں رواں مژگان چشمِ ترسے خونِ ناب تھا
فرش سے تا عرش، واں طوفان تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک، سوختن کا باب تھا
یاں سرِ پر شور، بے خوابی سے تھا دیوار جُو
واں وہ فرقِ ناز، محوِ بالشِ کمخواب تھا
یاں نفس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بیخودی
جلوۂِ گل واں، بساطِ صحبتِ احباب تھا
واں ہجومِ نغمہ ہائے سازِ عشرت تھا اسدؔ
ناخنِ غم، یاں سر تارِ نفس، مضراب تھا
13
گریہ چاہے ہے خرابی، مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے ، بیاباں ہونا
وائے دیوانگی شوق کہ، ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر، اور آپ ہی حیراں ہونا
کی مرے قتل کے بعد، اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
14
دود کو آج اُس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمعِ ماتم خانہ تھا
شکوہ یاراں، غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
غالبؔ ! ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا
15
جلوہ مایوس نہیں دل، نگرانی، غافل!
چشمِ امید ہے ، روزن تری دیواروں کا
وحشتِ نالہ بواماندگیِ وحشت ہے
جرسِ قافلہ، یاں دل ہے گرفتاروں کا
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے ، خدا خیر کرے !
رنگ اُڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا
16
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا؟
نہ ہو مرنا، تو جینے کا مزا کیا؟
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا؟
کہاں تک اے سراپا ناز، "کیا، کیا؟"
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا؟
فروغِ یک نفَس ہے ، شعلۂ خس
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا؟
دماغِ بوئے پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا، کیا؟
نفس، موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا؟
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ"انا البحر"
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا؟
محابا کیا ہے ؟ مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا؟
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا؟
یہ، قاتل، وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ، کافر، فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے ، غالبؔ ! اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا؟
17
اے وائے ! غفلتِ نگہِ شوق، ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لختِ دلِ کوہِ طور تھا
قاصد کو، اپنے ہاتھ سے ، گردن نہ ماریے
ہاں اس معاملے میں تو میرا قصور تھا
آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو، دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا!
18
وہی اک بات جو ہے یاں نفس، واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ، باعث ہے ، میری رنگیں نوائی کا
19
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پانو کا بوسہ
ایسی باتوں سے ، وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے ، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جا، ورنہ میرے حال پر
ہر گل تر، ایک خون فشاں ہو جائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری جو تو راضی ہوا
مجھ پہ، گویا، اک عالم مہرباں ہو جائے گا
وائے ! گر میرا ترا انصاف، محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ، واں ہو جائے گا
20
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ گل کم دو
مجھے ، دماغ نہیں خندہ ہائے بیجا کا
ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ، ہر بُنِ مُو، کام چشمِ بینا کا
21
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا!
غیر نے کی آہ، لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
22
شرحِ اسبابِ گرفتارئِ خاطر، مت پوچھ!
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
ہم نے وحشت کدہ بزمِ جہاں میں، جوں شمع
شعلہ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا
تھا گریزاں مژہِ یار سے ، دل، تا دمِ مرگ
دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا!
دل دیا، جان کے کیوں، اس کو وفادار، اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
23
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے !
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں، اسدؔ
سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
24
چھوڑا، مہِ نخشب کی طرح، دستِ قضا نے
خورشید، ہنوز، اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ، ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی، سبقِ شوق، مکرّر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی، تُنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی، ابھی تر نہ ہوا تھا
25
مشہدِ عاشق سے ، کوسوں تک جو اگتی ہے حنا
کس قدر، یارب! ہلاکِ حسرتِ پا بوس تھا
پوچھ مت! بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا
26
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے ، وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ، در خورِ محفل نہیں رہا
وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ، اب، کوئی حائل نہیں رہا
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
مرنے کی، اے دل !اور ہی تدبیر کر، کہ میں
شایانِ دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل، سوائے حسرتِ حاصل، نہیں رہا
ہوں قطرہ زن بمرحلہ یاس، روز و شب
جز تارِ اشک، جادۂ منزل نہیں رہا
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا، پر، اسدؔ!
جس دل پہ ناز تھا مجھے ، وہ دل نہیں رہا
27
رحمت اگر قبول کرے ، کیا بعید ہے !
شرمندگی سے ، عذر نہ کرنا گناہ کا
مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں، کہ ہے
پُر گل، خیالِ زخم سے ، دامن نگاہ کا
28
رشک کہتا ہے کہ:" اس کا غیر سے اخلاص حیف!"
عقل کہتی ہے کہ:" وہ بے مہر کس کا آشنا ؟"
ربطِ یک شیرازہ وحشت ہیں، اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا
شوق ہے ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ، دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، کہ ہے
عافیت کا دشمن، اور آوارگی کا آشنا
29
عشرتِ قطرہ، ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا، ہے دوا ہو جانا
تجھ سے ، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا، بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم، اللہ، اللہ!
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا!
ضعف سے ، گریہ، مبدّل بدمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں، پانی کا ہوا ہو جانا
دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
30
پوچھ مت! وجہ سیہ مستیِ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ، ہَوا، موجِ شراب
جو ہوا غرقۂ مئے ، بختِ رسا رکھتا ہے
سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما، موجِ شراب
ہے یہ برسات، وہ موسم، کہ عجب کیا ہے ، اگر
موجِ ہستی کو کرے ، فیضِ ہوا، موجِ شراب
چار موج اٹھے ہے ، طوفانِ طرب سے ، ہر دم
موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب
جس قدر روح نباتی، ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں، بَدَمِ آبِ بقا، موجِ شراب
ایک عالم پہ ہیں طوفانیِ کیفیّتِ وصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے ، تا موجِ شراب
شرحِ کیفیت ہستی ہی نہیں، موسمِ گل
رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے ، خوشا، موجِ شراب
31
جاتا ہوں جدھر، سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت
یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے ، مگر انگشت
کافی ہے نشانی، ترا چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے ، بوقت سفر، انگشت
خوں دل میں جو میر ے نہیں باقی، تو پھر اس کی
جوں ماہی بے آب، تڑپتی ہے ہر انگشت
افسوس! کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی، درخورِ عقدِ گہر، انگشت
لکھتا ہوں، اسد! سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی، مرے حرف پر، انگشت
32
قیس بھاگا، شہر سے شرمندہ ہو کر، سوئے دشت
بن گیا، تقلید سے میری، یہ سودائی عبث
33
آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس، کمندِ شکارِ اثر ہے آج
اے عافیت !کنارہ کر، اے انتظام! چل
سیلابِ گریہ درپے دیوار و در ہے ، آج
معزولیِ تپش ہوئی، افراطِ انتظار
چشمِ کشودہ، حلقۂ بیرونِ در ہے آج
34
حُسن، غمزے کی کشاکش سے چھُٹا میرے بعد
بارے ، آرام سے ہیں اہلِ جفا، میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے ، کوئی، قابل نہ رہا
ہوئی معزولیِ انداز و ادا، میرے بعد
شمع بجھتی ہے ، تو اُس میں سے دھُواں اُٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا، میرے بعد
آئے ہے بیکسیِ عشق پہ رونا، غالبؔ!
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا، میرے بعد؟
35
نہیں بندِ زلیخا بے تکلف ماہِ کنعاں پر
سفیدی دیدۂ یعقوبؑ کی پھیری ہے زنداں پر
مجھے ، اب دیکھ کر، ابرِ شفق آلودہ، یاد آیا
کہ فرقت میں تری، آتش برستی تھی گلستاں پر
اسدؔ! اے بے تحمل، عربدہ بیجا ہے ، ناصح سے
کہ آخر، بیکسوں کا زور چلتا ہے ، گریباں پر
36
فلک سے ہم کو عیشِ رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے !
متاعِ بردہ کو، سمجھے ہوئے ہیں قرض، رہزن پر
ہم، اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن، کہ رکھتا ہے
شعاعِ مہر سے ، تہمت نگہ کی، چشمِ روزن پر
فنا کو سونپ، گر مشتاق ہے ، اپنی حقیقت کا
فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف، گلخن پر
37
فارغ مجھے نہ جان! کہ، جوں صبح و آفتاب
ہے داغِ عشق، زینت جیبِ کفن ہنوز
ہے نازِ مفلساں زرِ از دست رفتہ پر
ہوں گل فروشِ شوخیِ داغِ کہن ہنوز
38
نہ گلِ نغمہ ہوں، نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
لافِ تمکیں، فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
تو، اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
39
مُند گئیں، کھولتے ہی کھولتے ، آنکھیں، یک بار
خُوب وقت آئے تم، اِس عاشقِ بیمار کے پاس
مَیں بھی رُک رُک کے نہ مرتا، جو زباں کے بدلے
دشنہ اِک تیز سا ہوتا، مِرے غمخوار کے پاس
دیکھ کر تجھ کو، چمن بسکہ نُمو کرتا ہے
خُود بخود، پہنچے ہے گُل، گوشۂ دستار کے پاس
دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے ، لیکن، اے دل!
نہ کھڑے ہو جیئے ، خُوبانِ دل آزار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر، غالبؔ وحشی، ہَے ہَے !
بیٹھنا اُس کا وہ، آ کر، تری دیوار کے پاس
40
نہ لیوے گر، خسِ جوہر، طراوت، سبزۂ خط سے
لگاوے خانۂ آئینہ میں، روئے نگار، آتش
فروغِ حسن سے ہوتی ہے حلِ مشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پا سے ، نکالے گر نہ خار، آتش
41
رخِ نگار سے ، ہے سوزِ جاودانیِ شمع
ہوئی ہے ، آتشِ گل، آبِ زندگانیِ شمع
زبانِ اہلِ زباں میں، ہے مرگ، خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی، زبانیِ شمع
غم اُُن کو حسرتِ پروانہ کا ہے ، اے شعلہ!
تیرے لرزنے سے ظاہر ہے ، ناتوانیِ شمع
42
کون آیا جو چمن بیتابِ استقبال ہے ؟
جنبشِ موجِ صبا، ہے شوخیِ رفتارِ باغ
آتشِ رنگِ رخِ ہر گل کو بخشے ہے فروغ
ہے دمِ سردِ صبا سے ، گرمیِ بازارِ باغ
43
بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے ، اے اختیار، حیف!
تھی میرے ہی جلانے کو، اے آہ شعلہ ریز!
گھر پر پڑا نہ، غیر کے ، کوئی شرار، حیف!
ہیں، میری مشتِ خاک سے ، اُس کو کدورتیں
پائی جگہ جو دل میں، تو ہو کر غبار، حیف!
جلتا ہے دل کہ، کیوں نہ ہم اک بار جل گئے
اے ناتمامیِ نفسِ شعلہ بار، حیف!
44
یاد ہیں، اے ہمنشیں ! تجھے وہ دن کہ، ذوقِ وجد میں
زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چنتا تھا، نمک
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ!
یاد کرتا ہے مجھے ، دیکھے ہے وہ جس جا، نمک
چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے !
دل طلب کرتا ہے زخم، اور مانگے ہیں اعضا، نمک
45
دام، ہر موج میں، ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں، کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہوتے تک!
ہم نے مانا کہ، تغافل نہ کرو گے ، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہوتے تک
یک نظر بیش نہیں، فرصتِ ہستی، غالبؔ!
گرمیِ بزم ہے ، اک رقصِ شرر ہوتے تک
46
گر تجھ کو ہے یقینِ اجابت، دعا نہ مانگ
یعنی، بغیرِ یک دلِ بے مدعا نہ مانگ
آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد!
مجھ سے حسابِ بے گنہی، اے خدا ! نہ مانگ
47
ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل؟
بُلبُل کے کاروبار پہ ہیں، خندہ ہائے گُل!
خوش حال! اُس حریفِ سیہ مست کا، کہ جو
رکھتا ہو، مثلِ سایۂ گُل، سر بپائے گُل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے ، بادِ بہار سے
مینائے بے شراب، و دلِ بے ہوائے گُل
48
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن، شمعِ ماتم خانہ ہم
باوجود یک جہاں ہنگامہ، پر موہوم ہیں
جوں چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ ہم
دائم الحبس اس میں ہیں، لاکھوں تمنائیں، اسدؔ!
جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
49
ہو گئے ہیں جمع، اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرّے ، اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت، قلزم آشامی مری
موجِ مے کی، آج، رگ، مینا کی گردن میں نہیں
50
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے ؟
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں؟
دل تو دل، وہ دماغ بھی نہ رہا!
شورِ سودائے خط و خال کہاں؟
تھی وہ خوباں ہی کے تصور سے
اب، وہ رعنائیِ خیال کہاں؟
مضمحل ہو گئے قوا، غالبؔ!
وہ عناصر میں اعتدال، کہاں؟
51
عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آ سکا
گر ایک ادا ہو، تو اسے اپنی قضا کہوں
ظالم میرے گمان سے ، مجھے منفعل نہ چاہ!
ہے ہے ، خدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو اور وہ ایک نشنیدن، کہ کیا کہوں؟
حلقے ہیں، چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تار زلف کو نگہِ سرمہ سا کہوں
52
قرض کی پیتے تھے مے ، لیکن سمجھتے تھے ، کہ ہاں!
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی، ایک دن
نغمہ ہائے غم کو بھی، اے دل! غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا، یہ سازِ ہستی، ایک دن
دھول دھپّہ، اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے ، غالبؔ ! پیش دستی، ایک دن
53
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو، کہ جہاں
جادہ، غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں
رنجِ نو میدیِ جاوید گوارا رہیو!
خوش ہوں، گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں
میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا، غالبؔ!
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں
ریختے کا وہ ظہوری ہے بقول ناسخ
"آپ بے بہرہ ہے ، جو معتقدِ میر نہیں"
54
عشق، تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری، شجرِ بید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
ہے تجلی تری، سامانِ وجود
ذرّہ، بے پرتوِ خورشید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈرئیے
غمِ محرومئ جاوید نہیں!
سلطنت دست بَدَست آئے ہے
جامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیں
کہتے ہیں "جیتی ہے امید پہ خلق"
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں
55
ہے نزاکت، بس کہ فصلِ گل میں، معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلے ہے ، خشتِ دیوارِ چمن
الفتِ گل سے ، غلط ہے ، دعویِ وارستگی
سرو ہے ، با وصفِ آزادی، گرفتارِ چمن
56
ظاہر ہیں مری شکل سے افسوس کے نشاں
جوں شانہ، پشتِ دست بدنداں گزیدہ ہوں
دیتا ہوں کشتگاں کو، سخن سے ، سرِ تپش
مضرابِ تار ہائے گلوئے بریدہ ہوں
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے ، نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
سرپر مرے ، وبالِ ہزار آرزو رہا
یارب! میں کس غریب کا بختِ رمیدہ ہوں
57
وعدۂ سیرِ گلستاں ہے ، خوشا! طالعِ شوق
مژدۂ قتل مقدّر ہے ، جو مذکور نہیں
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں، ہے دریا، لیکن
ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفیِ منصور نہیں
حسرت! اے ذوقِ خرابی! کہ وہ طاقت نہ رہی
عشقِ پُر عربَدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں
ظلم کر، ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو
تُو تغافل میںکسی رنگ سے معذور نہیں
صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے ! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
ہُوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجّت ہے ، کہ مشہور نہیں
58
نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد! نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں
عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!
ہم کو تسلیم، نکو نامیِ فرہاد، نہیں!
کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
اہلِ بینش کو، ہے طوفانِ حوادث، مکتب
لطمۂ موج، کم از سیلئِ استاد، نہیں
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت، غالبؔ!
تم کو دل تنگیِ رندانِ وطن یاد نہیں؟
59
ہوئی یہ بیخودی چشم و زباں کو، تیرے جلوے سے
کہ طوطی قفلِ زنگ آلودہ ہے آئینہ خانے میں
قیامت ہے ! کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجب سے یہ بولا"یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں!"
دلِ نازک پہ اُس کے رحم آتا ہے مجھے ، غالبؔ!
نہ کر سرگرم اس کافر کو، الفت آزمانے میں
60
پانو(پاؤں) میں، جب وہ، حنا باندھتے ہیں
میرے ہاتھوں کو، جدا باندھتے ہیں
آہ کا، کس نے ، اثر دیکھا ہے ؟
ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں
قیدِ ہستی سے رہائی، معلوم!
اشک کو بے سرو پا باندھتے ہیں
نشۂ رنگ سے ہے ، واشدِ گل
مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں
تیری فرصت کے مقابل، اے عمر!
برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں
غلطی ہائے مضامیں، مت پوچھ!
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
کس کا دل زلف سے بھاگا ؟ کہ اسدؔ!
دستِ شانہ بہ قفا باندھتے ہیں
61
دیوانگی سے ، دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جیب میں ایک تار بھی نہیں
دل کو، نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا، تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
گنجائشِ عداوتِ اغیار، یک طرف
یاں دل میں، ضعف سے ، ہوسِ یار بھی نہیں
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے ، خُدا کو مان
آخر، نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
دل میں ہے ، یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حال آنکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے ، اے خُدا؟
لڑتے ہیں، اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے ، سر، وبالِ دوش
صحرا میں، اے خدا! کوئی دیوار بھی نہیں
دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے ، تو ہشیار بھی نہیں
62
ہزاروں دل دیے ، جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا، ہر قطرہ خوں، تن میں
ہوئی ہے ، مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے ، برنگِ پنبہ، روزن میں
نہ جانوں، نیک ہوں یا بد ہوں، پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں، تو ہوں گلخن میں، جو خس ہوں تو، ہوں گلشن میں
اسد زندانیِ تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہوں
خمِ دستِ نوازش، ہو گیا ہے طوق، گردن میں
63
پرسشِ طرزِ دلبری کیجیے کیا ؟کہ بِن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے ، نکلے ہے یہ ادا کہ، یوں
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی؟
آئنہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ، یوں
میں نے کہا کہ "بزمِ ناز، چاہیے غیر سے تہی"
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ" یوں"
64
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے ، رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبت ہی کیوں نہ ہو!
ہے مجھ کو، تجھ سے ، تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند، بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی، بجائے خود، اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے ، فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی
عمرِ عزیز، صرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو
65
واں پہنچ کر، جو غش آتا پے ہم ہے ، ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو
دل کو میں، اور مجھے دل، محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم، ہے ہم کو
ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو
جان کر کیجے تغافل، کہ کچھ امّید بھی ہو
یہ نگاہِ غلط انداز تو سَم ہے ہم کو
رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں
نالۂ مرغِ سحر، تیغِ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے ، جو، وعدے کو مکرّر چاہا
ہنس کے بولے کہ"ترے سر کی قسم ہے ہم کو"
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ ولیکن ناچار
پاسِ بے رونقیِ دیدہ اہم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ" بزمِ طرب آمادہ کرو"
برق ہنستی ہے کہ" فرصت کوئی دم ہے ہم کو"
تم وہ نازک کہ" خموشی" کو" فغاں" کہتے ہو
ہم وہ عاجز، کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث، نہیں کھلتا، یعنی
ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ، ہم کو
طاقتِ رنجِ سفر، بھی نہیں پاتے ، اتنی
ہجرِ یارانِ وطن کا بھی، الم ہے ہم کو
مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے ، یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں، ایک توقّع، غالبؔ!
جادۂ رہ، کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
66
ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلالِ عہد وصلِ بتاں نہ پوچھ
ہر داغِ تازہ، یک دلِ داغ انتظار ہے
عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ
ناچار، بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشواریِ رہ و ستمِ ہمرہاں نہ پوچھ
کہتا تھا کل وہ محرمِ راز اپنے سے کہ" آہ!
دردِ جدائیِ اسداللہ خاں نہ پوچھ"
67
ہے سنگ پر، براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی، ہنوز منتِ طفلاں اُٹھائیے
دیوار، بارِ منتِ مزدور سے ، ہے خم
اے خانماں خراب! نہ احساں اُٹھائیے
یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبسمِ پنہاں اُٹھائیے
68
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی، ایک اور شخص پر
آخر، ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد، اے فلک !دلِ حسرت پرست کی
ہاں، کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے
سیکھے ہیں، مہ رخوں کے لیے ، ہم مصوری
تقریب، کچھ تو، بہرِ ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط، ہے کس روسیاہ کو؟
اک گونہ بیخودی، مجھے دن رات چاہیے
نشو و نما ہے اصل سے ، غالبؔ ! فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے ، جو بات چاہیے
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر، پائے خُم پہ کھینچئے ہنگامِ بیخودی
رو، سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے
یعنی، بحسبِ گردشِ پیمانۂ صفات
عارف، ہمیشہ مستِ مے ذات چاہیے
69
بساطِ عجز میں تھا ایک دل، یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن، سر نگوں، وہ بھی
نہ کرتا کاش ! نالہ، مجھ کو کیا معلوم تھا، ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں، وہ بھی
خیالِ مرگ کب تسکین دلِ آزردہ کو بخشے ؟
مرے دامِ تمنا میں ہے ، اک صیدِ زبوں، وہ بھی
70
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مُور، آسمان ہے
ہے ، بارے ، اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالب ؔ، ہم اس میں خوش ہیں، کہ نا مہربان ہے
بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں
فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے
کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا؟
بس چپ رہو! ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
71
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو، کہیں
عالم تمام، حلقہ دامِ خیال ہے
ہے ہے خدانخواستہ، وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل، یہ تجھے کیا خیال ہے
کس پردہ میں ہے آئنہ پرداز؟ اے خدا!
رحمت، کہ عذر خواہِ لبِ بے سوال ہے
72
کیا کروں ؟غم ہائے پنہاں، لے گئے صبر و قرار
دُزد گر ہو خانگی، تو پاسباں معذور ہے
آگ سے ، پانی میں بجھتے وقت، اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی، درماندگی میں، نالے سے مجبور ہے
73
مجھ سے مت کہہ" تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی"
زندگی سے بھی، مرا جی، ان دنوں بیزار ہے
آنکھ کی تصویر، سر نامے پہ کھینچی ہے ، کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ، یاں تک حسرتِ دیدار ہے
ایک جا حرفِ وفا لکھا تھا، سو بھی مٹ گیا
ظاہرا، کاغذ، ترے خط کا، غلط بردار ہے
74
خزاں کیا؟فصلِ گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں، قفس ہے ، اور ماتم بال و پر کا ہے
وفائے دلبراں ہے اتفاقی، ورنہ، اے ہمدم!
اثر فریادِ دلہائے حزیں کا، کس نے دیکھا ہے
ہجومِ ریزشِ خوں کے سبب، رنگ اُڑ نہیں سکتا
حنائے پنجہ صیاد، مرغِ رشتہ بر پا ہے
75
بیدادِ انتظار کی طاقت نہ لا سکی
اے جانِ بر لب آمدہ، بے تاب ہو گئی
غالبؔ، زِ بس کہ سوکھ گئے چشم میں سرشک
آنسو کی بوند، گوہرِ نایاب ہو گئی
76
عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت، تری شہرت ہی سہی
قطع کیجیئے ! نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے ، تو عداوت ہی سہی
کچھ تو دے ، اے فلکِ ناانصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے
بے نیازی، تری عادت ہی سہی
چھیڑ خوباں سے چلی جائے ، اسدؔ!
گر نہیں وصل، تو حسرت ہی سہی
77
مینائے مے ، ہے سرو، نشاطِ بہار سے
بالِ تدرو، جلوۂ موجِ شراب ہے
زخمی ہوا ہے ، پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے
میں نامراد، دل کی تسلی کو کیا کروں
مانا کہ، تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا، اسدؔ !مسرتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
78
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن، ہے خندۂ دنداں نما مجھے
کرتا ہے ، بس کہ باغ میں تو، بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں، مرے دل کا معاملہ؟
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
79
دیکھنا تقریر کی لذّت، کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ، ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ، اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی، خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے
80
کروں بیدادِ ذوقِ پر فشانی عرض، کیا قدرت
کہ طاقت اڑ گئی، اڑنے سے پہلے ، میرے شہپر کی
کہاں تک روؤں اوس(اس) کے خیمہ کے پیچھے ؟ قیامت ہے !
مری قسمت میں یا رب! کیا نہ تھی دیوار پتھر کی؟
81
پھر کچھ ایک، دل کو، بے قراری ہے
سینہ، جویائے زخمِ کاری ہے
پھر، جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
چشم، دلالِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے
وہی صد رنگ نالہ فرسائی
وہی، صد گونہ، اشک باری ہے
دل، ہوائے خرامِ ناز سے ، پھر
محشرستانِ بے قراری ہے
جلوہ، پھر عرضِ ناز کرتا ہے
روز بازارِ جاں سپاری ہے
پھر، اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر، وہی زندگی ہماری ہے
پھر، کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم، بازارِ فوجداری ہے
پھر ہوا ہے ، جہان میں اندھیر
زلف کی پھر، سرشتہ داری ہے
پھر، دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشکباری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
بیخودی بے سبب نہیں، غالبؔ!
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
82
پنہاں تھا دام، سخت قریب آشیانہ کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
نالے ، عدم میں، چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھنچ سکے ، سو وہ یاں آ کے دم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اللہ رے ! تیری تندیِ خو، جس کے بیم سے
اجزائے نالہ، دل میں مرے ، رزقِ ہم ہوئے
83
رحم کر، ظالم! کہ، کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
نبضِ بیمارِ وفا، دودِ چراغِ کشتہ ہے
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی، سودِ چراغِ کشتہ ہے
ہو جہاں، تیرا دماغِ ناز، مستِ بیخودی
خوابِ نازِ گلرخاں، دودِ چراغِ کشتہ ہے
84
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل!
زنہار، اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے
دیکھو! مجھے ، جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو!جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ساقی بجلوہ، دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ، رہزنِ تمکین و ہوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے ، کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے
لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
وہ جنت نگاہ، وہ فردوس ِ گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھیے ! آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز، نہ جوش و خروش ہے
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے ، سو وہ بھی خموش ہے
85
آ! کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے
دیتے ہیں جنت، حیاتِ دہر کے بدلے
نشّہ، بہ اندازۂ خمار نہیں ہے
گریہ نکالے ہے ، تیری بزم سے مجھ کو
ہائے !کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر
خاک میں عشّاق کی غبار نہیں ہے
دل سے اُٹھا لطفِ جلوہ ہائے معانی
غیر گل، آئینۂ بہار نہیں ہے
قتل کا میرے ، کیا ہے عہد تو، بارے
وائے ! اگر عہد اُستوار نہیں ہے
تو نے قسم میکشی کی، کھائی ہے ، غالبؔ!
تیری قسم کا، کچھ اعتبار نہیں ہے
86
بہا ہے یاں تک اشکوں میں، غبارِ کلفتِ خاطر
کہ چشمِ تر میں ہر اک پارۂ دل، پائے در گل ہے
رفوئے زخم سے مطلب، ہے لذت زخمِ سوزن کی
سمجھیو مت !کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے
وہ گُل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ ؔ ؔ
چٹکنا غنچۂ گُل کا صدائے خندۂ دل ہے
87
پا بدامن ہو رہا ہوں، بسکہ، میں صحرا نورد
خارِ پا، ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے
دیکھنا حالت مرے دل کی، ہم آغوشی کے وقت
ہے نگاہِ آشنا، تیرا سرِ ہر مو، مجھے
ہوں سراپا سازِ آہنگِ شکایت، کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے
88
مے پرستاں! خُمِ مے منہ سے لگا لو، یعنی
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی، نہ سہی
نفسِ قیس، کہ ہے چشم و چراغِ صحرا
گر نہیں، شمعِ سیہ خانۂ لیلی، نہ سہی
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے ، گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی! نغمۂ شادی، نہ سہی
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہے مرے اشعار میں معنی، نہ سہی
عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی، غالبؔ، اگر عمرِ طبیعی، نہ سہی
89
غمِ زمانہ نے جھاڑی، نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے ، لذّتِ الم آگے
دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے ، اس کو دم، آگے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دیجیئے
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں، نامہ بر سے ، ہم، آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں، غالبؔ!
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
90
کب وہ سنتا ہے ، کہانی میری
اور پھر، وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ! خوننابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار؟
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا، ہے نشانی میری
متقابل، ہے مقابل میرا
رک گیا، دیکھ روانی میری
گرد بادِ رہِ بیتابی ہوں
صرصرِ شوق، ہے بانی میری
قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے ، گرانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچمدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز، غالبؔ
ننگِ پیری ہے ، جوانی میری
91
تو وہ بد خو، کہ تحیر کو تماشا جانے
دل وہ افسانہ، کہ آشفتہ بیانی مانگے
نقشِ نازِ بتِ طناز بہ آغوشِ رقیب
پائے طاؤس، پئے خامۂ مانی مانگے
92
اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
دل میں نظر آتی نہیں ایک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے ؟
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کِسو کی
صد حیف ! وہ نا کام کہ اک عمر سے ، غالبؔ
حسرت میں رہے ، ایک بتِ عربدہ جو کی
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
93
اُس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو، ہاں
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے
ہے ، وصل، ہجر، عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہیے
جادو ہے یار کی روشِ گفتگو، اسدؔ!
یاں جز فسوں نہیں، اگر افسانہ چاہیے
94
صحبتِ رنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
دوستی کا پردہ ہے ، بیگانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
چاک مت کر جیب بے ایّامِ گل
کچھ اُدھر کا بھی اشارا چاہیے
اپنی رسوائی میں، کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر، مرنے پہ ہو، جس کی اُمید
نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے
95
ہر قدم، دوریِ منزل، ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے ، بھاگے ہے بیاباں، مجھ سے
وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
دُود کی طرح، رہا سایہ گریزاں مجھ سے
اثرِ آبلہ، کرتا ہے بیاباں روشن
جادہ، جوں رشتۂ گوہر، ہے چراغاں مجھ سے
نگہِ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے ، اسدؔ!
ہے چراغاں، خس و خاشاکِ گلستاں، مجھ سے
96
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو، پھر ہم کو کیا؟
آسمان سے بادہ گلفام گر برسا کرے
97
کرے ہے قتل، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
پلا دے اوک سے ، ساقی! جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا، نہ دے ! شراب تو دے
98
تپش سے میری، وقفِ کشمکش، ہر تارِ بستر ہے
مرا سر رنجِ بالیں ہے ، مرا تن بارِ بستر ہے
99
نہ پوچھ! نسخہ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزو اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ ایک نگہ، کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے
100
کیوں نہ ہو، چشمِ بتاں، محوِ تغافل، کیوں نہ ہو؟
یعنی، اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی ! کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
101
گل، سر بسر، اشارۂ جیبِ دریدہ ہے
نازِ بہار، جز بہ تقاضا، نہ کھینچیے
102
بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں
مرحبا، مَیں! کیا مبارک ہے ، گراں جانی مجھے
وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے ؟
وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دَم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں، ذوقِ تن آسانی مجھے
میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لِکھ دیا منجملۂ اسبابِ ویرانی مجھے
کیوں نہ ہو بے التفاتی ؟ اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے صیدِ پُرسش ہائے پنہانی مجھے
ہاں! نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری، واہ، واہ
پھر ہُوا ہے تازہ، سودائے غزل خوانی مجھے
103
خدایا ! جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے ؟
کہ جتنا کھینچتا ہوں، اور کھِنچتا جائے ہے مُجھ سے
اُدھر وہ بدگمانی ہے ، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پُوچھا جائے ہے اُس سے ، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مُدعی کا ہمسفر، غالبؔ
وہ کافر، جو خُدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مُجھ سے
104
رونے سے ، اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم، ایسے کہ، بس پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے ، آوارگی سے ، تم
بارے ، طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون، نالۂ بلبل کو، بے اثر؟
پردے میں، گُل کے ، لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا، وجود و عدم اہلِ شوق کا؟
آپ اپنے شعلہ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے ، اس سے تغافُل کا، ہم گِلہ
کی یک نگاہ ایسی، کہ بس خاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے ، آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی، کل اس نے ، اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے ، غمناک ہو گئے
105
نشہ ہا، شادابِ رنگ، و ساز ہا مستِ طرب
شیشۂ مے ، سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے
ہم نشیں، مت کہہ کہ "برہم کر نہ بزمِ عیشِ یار"
واں تو، میرے نالے کو بھی، اعتبارِ نغمہ ہے
106
عرضِ نازِ شوخیِ دندان، برائے خندہ ہے
دعوئ جمعیّتِ احباب، جائے خندہ ہے
ہم عدم میں، غنچہ، محوِ عبرتِ انجامِ گل
یک جہاں زانو تامّل، ٭ درفقائے ٭ خندہ ہے
شورشِ باطن کے ، ہیں ارباب منکر، ورنہ یاں
دل، محیطِ گریہ و لب، آشنائے خندہ ہے
(دیوانِ غالب کے اکثر نسخوں میں بشمول نسخہ کالیداس یہ لفظ "در قفائے " ہے۔ جبکہ یہاں "در فقائے " لکھا ہے۔ واللہ اعلم یہ کاتب کی غلطی ہے یا کچھ اور۔۔۔۔۔ چھوٹا غالب)
107
رونے سے ، اے ندیم! ملامت نہ کر مجھے
آخر، کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی
چاکِ جگر سے ، جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ ؟کہ جیب کو رسوا کرے کوئی
ناکامیِ نگاہ، ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ، تجھ کو تماشا کرے کوئی
بیکاریِ جنوں کو، ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائے تو پھر کیا کرے کوئی؟
108
کمالِ حسن اگر موقوفِ اندازِ تغافل ہو
تکلف برطرف، تجھ سے تری تصویر بہتر ہے
109
باغ، پا کر خفقانی، یہ ڈراتا ہے مجھے
سایہ شاخِ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے
110
لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
قیامت، کشتۂ لعلِ بتاں کے خوابِ سنگین ہے
111
پچ آ پڑی ہے ، وعدہ دلدار کی، مجھے
وہ آوے یا نہ آوے ، پہ یاں انتظار ہے
اے عندلیب ! یک کفِ خس، بہرِ آشیاں
طوفانِ آمد آمدِ فصلِ بہار ہے
حیراں ہوں، شوخیِ رگِ یاقوت دیکھ کر
یاں ہے کہ صحبتِ خس و آتش برار ہے
دل مدعی، و دیدہ بنا مدعی علیہ
نظارہ کا مقدمہ پھر روبکار ہے
112
ہوں میں بھی، تماشائیِ نیرنگِ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے
113
غالبؔ برا نہ مان، جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ، سب اچھا کہیں جسے ؟
114
غم، آغوشِ بلا میں پرورش دیتا ہے ، عاشق کو
چراغِ روشن اپنا، قلزم صرصر کا مرجاں ہے
دل و دیں نقد لا !ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر، متاعِ دستگرداں ہے
115
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی، کس قدر افسردگیِ دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری، ہے وہ شوخی، کہ بصد ذوق
آئینہ، بہ اندازِ گُل، آغوش کشا ہے
قمری، کفِ خاکستر، و بلبل، قفسِ رنگ
جز نالہ ! نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے
خو نے تری افسردہ کیا، وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی، طرفہ بلا ہے
نا کردہ گناہوں کی بھی، حسرت کی، ملے داد
یارب! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
116
مدت ہوئی ہے ، یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم، چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع، پھر، جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے ، دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
پھر، گرم نالہ ہائے شرر بار، ہے نفس
مدت ہوئی ہے ، سیرِ چراغاں کیے ہوئے
پھر، وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے ، دم
برسوں ہوئے ہیں، چاک، گریباں کیے ہوئے
پھر، پرسشِ جراحتِ دل کو، چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کیے ہوئے
پھر، بھر رہا ہوں، خامۂ مژگاں، بخونِ دل
سازِ چمن طرازیِ داماں کیے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں، دل و دیدہ، پھر، رقیب
نظارہ و خیال کا سامان کیے ہوئے
دل، پھر، طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ، ویراں کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے
دوڑے ہے ، پھر، ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
پھر، چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کیے ہوئے
مانگے ہے پھر، کسو کو لبِ بام پر، ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے
ڈھونڈھے ہے ، پھر، کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے
اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے ، پھر نگاہ
چہرہ، فروغِ مے سے ، گلستاں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے ، پھر وہی فرصت، کہ، رات دن
بیٹھے رہیں، تصورِ جاناں کیے ہوئے
پھر، دل میں ہے کہ، در پہ کسو کے پڑے رہیں
سر، زیرِ بارِ منتِ درباں کیے ہوئے
غالب ؔ ! ہمیں نہ چھیڑ! کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم، تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
نخستیں در بہ اتمام رسید
وا نمود
سلسلہ جنبانیِ درِ دوم این رنگین چمن، موسوم بہ "گلِ رعنا"در عرضِ مذاقِ زبانِ پارسی کہ صہبائے حریف افگن است، و بادہِ مرد آزما۔ ازانجا کہ ہنوز ایں گہر ہائے شاہوار را برشتہ نمطِ حروفِ تہجی نکشیدہ ام، و ایں اوراقِ پریشاں را شیرازہ جمعیتِ تدوین نہ بستہ۔ فروہیدہ فرہنگان بخردی پیشہ و سنجیدہ آہنگانِ موزونی اندیشہ، خردہ بر بیربطیِ تحریرنگیرند۔ و عذرِ تنک سرمایگانِ فطرت و بیدماغانِ عالمِ فرصت بپذیرند۔
الحمد اللہ
آغاز کمپوزنگ:۔ 11 مئی 2013۔ 08:00
اختتام کمپوزنگ:۔ 12 مئی 2013۔ 02:20
اختتام پروف ریڈنگ:۔ 16 مئی 2013۔ 13:35
یکے از دیوانگانِ غالب، احقر العباد، ہیچمداں :۔ سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب
ٹائپنگ: سید اویس قرنی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ویسے تو متداول دیوانِ غالب بھی دراصل غالب ؔ کا انتخاب ہے ، جسے بعض حضرات ان کے چند قریبی دوستوں کا انتخاب کہتے ہیں۔ البتہ اس بات میں کسی کو شک نہیں کہ "گلِ رعنا" غالب ؔ کا ذاتی انتخاب تھا۔ گلِ رعنا کا متن، ترتیبِ غزلیات و اشعار نسخہ شیرانی کے مطابق ہے۔ معمولی سا جزوی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جس سے یہ قیاس کرنا بے جا نہ ہو گا کہ اس انتخاب کے وقت نسخہ شیرانی کی اصل یا اس کی نقل پیشِ نظر رہی ہو گی۔
خاکم بدہن !!! ایک بات مجھے ہمیشہ چبھتی رہی ہے ، اور اکثر ماہرینِ غالبیاتسے بد ظنی کا باعث بنی ہے۔ وہ ہے دیوانِ غالب یا کلامِ غالب میں خوامخواہ کا تصرف اور بلا ضرورت اصلاح اور حاشیہ بازی۔ جس طرح ایک سادہ سے دینِ فطرت کو "اہلِ علم "نے ذاتیات کی بھینٹ چڑھا کر 72 پیچیدہ ترین فرقوں میں تقسیم کر دیا۔ وہی حشر کلامِ غالب کا غالب دانوں نے کر دیا۔ ایک ہی شعر کا نسخہ شیرانی میں اور ہونا، اور نسخہ نظامی میں اور ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ اور نسخہ حمیدیہ کی بھی ایک الگ حیثیت ہے۔ مگر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ نسخہ نظامی اور نسخہ حمیدیہ کی موجودگی میں دوسرے نسخوں کا ذکر، اور حاشیہ بازی کیسے جائز ہے ؟
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی۔۔ !!
سر پیٹنے کا مقام ہے کہ ایک شعر نسخہ عرشی میں اور، نسخہ عرشی زادہ میں اور، نسخہ حسرت میں اور، نسخہ عابدی میں اور۔۔۔۔ اسی طرح پتا نہیں کتنے ہی مرتبین نے کچھ نیا کرنے کے چکر میں کلام غالب پر اصلاح آرائیاں اور خنجر آزمائیاں کی ہیں۔ اب صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ کلام غالب کی کوئی بھی کتاب لیں اس میں اتنے صفحات اشعار نے نہ گھیرے ہوں گے جتنے حاشیہ بازوں نے گھیر رکھے ہوں گے۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس دخل در معقولات کو تحقیق کا نام دیا جاتا ہے۔
تحقیق کا یہ مطلب کب سے ہو گیا کہ غالب پر ایک مختصر بزعم خود غالب دان طبقے کی اجارہ داری ہو۔ اور جہاں تک ہو سکے کلام غالب کچھ اس انداز سے مرتب کیا جائے کہ عوام کی پہنچ سے کسی مضر شے کی طرح دور رہے۔اور نئے دیوانگانِ غالب کی ہمت ہی نہ پڑے غالب سے راز و نیاز کرنے کی۔
اب کسے رہنما کرے کوئی؟
یہ تو کلام غالب میں "بیشی " کی مثالیں اب ذرا "کمی" کی صرف ایک مثال دیکھ لیجیئے باقی آپ خود بھی دیدہ بینا والے ہیں۔ دیوانِ غالب سے غالب کا لکھا فارسی دیباچہمعلوم نہیں کس کی اجازت سے غائب کر دیا گیا۔ اور کیا بھی گیا تو کس کو یہ حق تھا کہ وہ غالب کے لکھے دیباچہ کو خود انہی کے دیوان سے خارج کرے ؟ کیا وہ کلام غالب نہیں؟ اگر وہ دیباچہ ایسا ہی فضول اور بے معنی تھا تو غالب نے لکھا ہی کیوں ؟ یہ لوگ آخر ہوتے کون ہیں غالبِ خستہ کے کلام میں کمی بیشی اور تصرفات کرنے والے ؟؟کچھ بھی ہو اپنا تو یہ عقیدہ ہے بقولِ غالب
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
اس کتاب کو مرتب کرتے وقت میں کسی کمی بیشی کا گناہگار نہیں ہوا، سوائے چند کتابت کی غلطیوں کی درستگی اور اشعار کی درست قرات کے لئے علامات وقوف کے اضافے کے۔ اشعار کے سلسلے میں، میں نے متنازعہ حاشیہ جات کا جمعہ بازار لگانے کی بجائے مستند ترین اور اصح ترین صورت اس کتاب میں درج کر کے تمام حاشیہ جات کو بیک قلم مسترد اور منسوخ کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ میں نے بعض الفاظ کی متروک املا جو غالب کے زمانے میں معمول تھی اور غالب نے جس املا میں شعر لکھے میں نے اس کو جدید املا میں بدلنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اور نہ ہی میں ایسی کسی بددیانتی کو جائز سمجھتا ہوں۔ البتہ ان الفاظ کی جدید املا قوسین میں وہیں درج کر دی ہے۔ تاکہ سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ جیسا کہ
پانو۔۔۔ کو پانو ہی لکھا ہے۔ مگر قوسین میں" پاؤں" بھی لکھ دیا ہے
اوس۔۔۔۔ کو اوس ہی لکھا ہے البتہ قوسین میں "اس" بھی لکھ دیا ہے
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
میں کیا، اور میری اوقات ہی کیا۔ جب کہ مقابل کلام غالب ہےاور غالبیات کے جغادریوں کی لمبی قطار ہے۔نہ تو غالبیات کے لیجنڈز کے سامنے میری کوئی حیثیت ہے اور نہ ہی مجھے ان سے سراہے جانے کی خواہش ہے۔ لیکن ایک جذبہ ایک جنون ایک لگن اور غالب سے ایک روحانی تعلق مجھے اس کام پر آمادہ کرنے اور مجھے بھٹکنے سے بچائے رکھنے کا سبب ہے۔ یہ کتاب بس اپنے جیسے عام لوگوں کے لئے مرتب کی ہے۔ تاکہ ہم جیسے بے چارے بھی غالب اور کلام غالب کا فکری ارتقا اپنی نظر سے بغیر کسی مانگے تانگے کی بیساکھی سے دیکھ سکیں اور لطف اندوز ہو سکیں۔
کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
احقر العباد۔ ہیچمداں :۔ سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب
1
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
کاغذی ہے پیرہن، ہر پیکرِ تصویر کا
جذبہ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینہ شمشیر سے باہر، ہے دم شمشیر کا
کاو کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ!
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا
2
تھا، خواب میں، خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی، نہ زیاں تھا، نہ سود تھا
لیتا ہوں، مکتبِ غمِ دل میں، سبق ہنوز
لیکن یہی کہ "رفت" گیا اور "بود" تھا
ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا
3
دوست، غمخواری میں میری، سعی فرماویں گے کیا؟َ
زخم کے بھرنے تلک، ناخن نہ بڑھ جاویں گے کیا؟
بے نیازی حد سے گزری، بندہ پرور! کب تلک؟
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرماویں گے "کیا؟"
گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا! یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جاویں گے کیا؟
خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں؟
ہیں گرفتارِ جنوں، زنداں سے گھبراویں گے کیا؟
4
دل نہیں تجھ کو دکھاؤں ورنہ داغوں کی بہار
اس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا
عرض کیجے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا
5
بوئے گل، نالہ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
کس قدر خاک ہوا ہے دلِ مجنوں، یا رب!
نقشِ ہر ذرہ، سویدائے بیاباں نکلا
دل میں پھر گریہ نے اک شور اُٹھایا، غالبؔ!
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا، سو طوفاں نکلا
6
دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ، طلب گارِ مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ، زرد تھا
جاتی ہے کوئی؟ کشمکش اندوہِ عشق کی
دل بھی اگر گیا، تو وہی دل کا درد تھا
احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی، خیال، بیاباں نورد تھا
یہ لاشِ بے کفن، اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
7
ستائش گر ہے ، زاہد اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا
نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نَیَستاں کا
نہیں معلوم، کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے ، سرشک آلود ہونا تیری مژگاں کا
بغل میں غیر کی، آج آپ سوتے ہیں کہیں، ورنہ
سبب کیا، خواب میں آ کر، تبسم ہائے پنہاں کا؟
نظر میں ہے ہماری، جادۂ راہِ فنا، غالبؔ!
کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا
8
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پر بھی راضی کہ کبھی
گوش، منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا
دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفَس، جادۂ سر منزلِ تقوی نہ ہوا
مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
ناتوانی سے ، حریف دمِ عیسی نہ ہوا
9
برہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
نگیں میں جوں شرارِ سنگ نا پیدا ہے نام اُس کا
مسی آلودہ ہے مہرِ نوازش نامہ، ظاہر ہے
کہ داغِ آرزوئے بوسہ دیتا ہے پیام اُس کا
بہ امیدِ نگاہِ خاص، ہوں محمل کشِ حسرت
مبادا ہو عناں گیرِ تغافل، لطفِ عام اُس کا
10
محبت تھی چمن سے ، لیکن اب یہ بیدماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ، ناک میں آتا ہے ، دم میرا
11
محرم نہیں ہے تو ہی، نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے ، پردہ ہے ساز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا
ہیں، بسکہ جوشِ بادہ سے ، شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط، ہے سر شیشہ باز کا
تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
12
شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے دل بیتاب تھا
شوخیِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا
گرمی برقِ تپش سے زہرہ از بس آب تھا
شعلۂ جوالہ، ہر یک حلقۂ گرداب، تھا
واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا
واں خود آرائی کو تھا، موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں، تارِ نگہ نایاب تھا
جلوۂِ گل نے کیا تھا واں چراغاں، آب جو
یاں رواں مژگان چشمِ ترسے خونِ ناب تھا
فرش سے تا عرش، واں طوفان تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک، سوختن کا باب تھا
یاں سرِ پر شور، بے خوابی سے تھا دیوار جُو
واں وہ فرقِ ناز، محوِ بالشِ کمخواب تھا
یاں نفس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بیخودی
جلوۂِ گل واں، بساطِ صحبتِ احباب تھا
واں ہجومِ نغمہ ہائے سازِ عشرت تھا اسدؔ
ناخنِ غم، یاں سر تارِ نفس، مضراب تھا
13
گریہ چاہے ہے خرابی، مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے ، بیاباں ہونا
وائے دیوانگی شوق کہ، ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر، اور آپ ہی حیراں ہونا
کی مرے قتل کے بعد، اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
14
دود کو آج اُس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمعِ ماتم خانہ تھا
شکوہ یاراں، غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
غالبؔ ! ایسے گنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا
15
جلوہ مایوس نہیں دل، نگرانی، غافل!
چشمِ امید ہے ، روزن تری دیواروں کا
وحشتِ نالہ بواماندگیِ وحشت ہے
جرسِ قافلہ، یاں دل ہے گرفتاروں کا
پھر وہ سوئے چمن آتا ہے ، خدا خیر کرے !
رنگ اُڑتا ہے گلستاں کے ہوا داروں کا
16
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا؟
نہ ہو مرنا، تو جینے کا مزا کیا؟
تجاہل پیشگی سے مدعا کیا؟
کہاں تک اے سراپا ناز، "کیا، کیا؟"
نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا؟
فروغِ یک نفَس ہے ، شعلۂ خس
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا؟
دماغِ بوئے پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا، کیا؟
نفس، موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا؟
دلِ ہر قطرہ ہے سازِ"انا البحر"
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا؟
محابا کیا ہے ؟ مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا؟
کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا؟
یہ، قاتل، وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ، کافر، فتنۂ طاقت ربا کیا؟
بلائے جاں ہے ، غالبؔ ! اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا؟
17
اے وائے ! غفلتِ نگہِ شوق، ورنہ یاں
ہر پارہ سنگ لختِ دلِ کوہِ طور تھا
قاصد کو، اپنے ہاتھ سے ، گردن نہ ماریے
ہاں اس معاملے میں تو میرا قصور تھا
آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو، دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا!
18
وہی اک بات جو ہے یاں نفس، واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ، باعث ہے ، میری رنگیں نوائی کا
19
لے تو لوں سوتے میں اُس کے پانو کا بوسہ
ایسی باتوں سے ، وہ کافر بدگماں ہو جائے گا
دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے ، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا
باغ میں مجھ کو نہ لے جا، ورنہ میرے حال پر
ہر گل تر، ایک خون فشاں ہو جائے گا
سب کے دل میں ہے جگہ تیری جو تو راضی ہوا
مجھ پہ، گویا، اک عالم مہرباں ہو جائے گا
وائے ! گر میرا ترا انصاف، محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ، واں ہو جائے گا
20
غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ گل کم دو
مجھے ، دماغ نہیں خندہ ہائے بیجا کا
ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ، ہر بُنِ مُو، کام چشمِ بینا کا
21
اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا!
غیر نے کی آہ، لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا
22
شرحِ اسبابِ گرفتارئِ خاطر، مت پوچھ!
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
ہم نے وحشت کدہ بزمِ جہاں میں، جوں شمع
شعلہ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا
تھا گریزاں مژہِ یار سے ، دل، تا دمِ مرگ
دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا!
دل دیا، جان کے کیوں، اس کو وفادار، اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا
23
پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا
پھر ترے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے !
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
ہم نے مجنوں پہ لڑکپن میں، اسدؔ
سنگ اُٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
24
چھوڑا، مہِ نخشب کی طرح، دستِ قضا نے
خورشید، ہنوز، اس کے برابر نہ ہوا تھا
توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ، ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا
میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی، سبقِ شوق، مکرّر نہ ہوا تھا
جب تک کہ نہ دیکھا تھا، قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا
دریائے معاصی، تُنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی، ابھی تر نہ ہوا تھا
25
مشہدِ عاشق سے ، کوسوں تک جو اگتی ہے حنا
کس قدر، یارب! ہلاکِ حسرتِ پا بوس تھا
پوچھ مت! بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا
26
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے ، وہ دل نہیں رہا
جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ، در خورِ محفل نہیں رہا
وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ، اب، کوئی حائل نہیں رہا
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
مرنے کی، اے دل !اور ہی تدبیر کر، کہ میں
شایانِ دست و بازوئے قاتل نہیں رہا
دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل، سوائے حسرتِ حاصل، نہیں رہا
ہوں قطرہ زن بمرحلہ یاس، روز و شب
جز تارِ اشک، جادۂ منزل نہیں رہا
بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا، پر، اسدؔ!
جس دل پہ ناز تھا مجھے ، وہ دل نہیں رہا
27
رحمت اگر قبول کرے ، کیا بعید ہے !
شرمندگی سے ، عذر نہ کرنا گناہ کا
مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں، کہ ہے
پُر گل، خیالِ زخم سے ، دامن نگاہ کا
28
رشک کہتا ہے کہ:" اس کا غیر سے اخلاص حیف!"
عقل کہتی ہے کہ:" وہ بے مہر کس کا آشنا ؟"
ربطِ یک شیرازہ وحشت ہیں، اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا
شوق ہے ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ، دریا آشنا
میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، کہ ہے
عافیت کا دشمن، اور آوارگی کا آشنا
29
عشرتِ قطرہ، ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا، ہے دوا ہو جانا
تجھ سے ، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا، بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا
اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم، اللہ، اللہ!
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا!
ضعف سے ، گریہ، مبدّل بدمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں، پانی کا ہوا ہو جانا
دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا
30
پوچھ مت! وجہ سیہ مستیِ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ، ہَوا، موجِ شراب
جو ہوا غرقۂ مئے ، بختِ رسا رکھتا ہے
سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما، موجِ شراب
ہے یہ برسات، وہ موسم، کہ عجب کیا ہے ، اگر
موجِ ہستی کو کرے ، فیضِ ہوا، موجِ شراب
چار موج اٹھے ہے ، طوفانِ طرب سے ، ہر دم
موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب
جس قدر روح نباتی، ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں، بَدَمِ آبِ بقا، موجِ شراب
ایک عالم پہ ہیں طوفانیِ کیفیّتِ وصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے ، تا موجِ شراب
شرحِ کیفیت ہستی ہی نہیں، موسمِ گل
رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے ، خوشا، موجِ شراب
31
جاتا ہوں جدھر، سب کی اُٹھے ہے اُدھر انگشت
یک دست جہاں مجھ سے پھرا ہے ، مگر انگشت
کافی ہے نشانی، ترا چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے ، بوقت سفر، انگشت
خوں دل میں جو میر ے نہیں باقی، تو پھر اس کی
جوں ماہی بے آب، تڑپتی ہے ہر انگشت
افسوس! کہ دنداں کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی، درخورِ عقدِ گہر، انگشت
لکھتا ہوں، اسد! سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی، مرے حرف پر، انگشت
32
قیس بھاگا، شہر سے شرمندہ ہو کر، سوئے دشت
بن گیا، تقلید سے میری، یہ سودائی عبث
33
آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس، کمندِ شکارِ اثر ہے آج
اے عافیت !کنارہ کر، اے انتظام! چل
سیلابِ گریہ درپے دیوار و در ہے ، آج
معزولیِ تپش ہوئی، افراطِ انتظار
چشمِ کشودہ، حلقۂ بیرونِ در ہے آج
34
حُسن، غمزے کی کشاکش سے چھُٹا میرے بعد
بارے ، آرام سے ہیں اہلِ جفا، میرے بعد
منصبِ شیفتگی کے ، کوئی، قابل نہ رہا
ہوئی معزولیِ انداز و ادا، میرے بعد
شمع بجھتی ہے ، تو اُس میں سے دھُواں اُٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا، میرے بعد
آئے ہے بیکسیِ عشق پہ رونا، غالبؔ!
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا، میرے بعد؟
35
نہیں بندِ زلیخا بے تکلف ماہِ کنعاں پر
سفیدی دیدۂ یعقوبؑ کی پھیری ہے زنداں پر
مجھے ، اب دیکھ کر، ابرِ شفق آلودہ، یاد آیا
کہ فرقت میں تری، آتش برستی تھی گلستاں پر
اسدؔ! اے بے تحمل، عربدہ بیجا ہے ، ناصح سے
کہ آخر، بیکسوں کا زور چلتا ہے ، گریباں پر
36
فلک سے ہم کو عیشِ رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے !
متاعِ بردہ کو، سمجھے ہوئے ہیں قرض، رہزن پر
ہم، اور وہ بے سبب رنج آشنا دشمن، کہ رکھتا ہے
شعاعِ مہر سے ، تہمت نگہ کی، چشمِ روزن پر
فنا کو سونپ، گر مشتاق ہے ، اپنی حقیقت کا
فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف، گلخن پر
37
فارغ مجھے نہ جان! کہ، جوں صبح و آفتاب
ہے داغِ عشق، زینت جیبِ کفن ہنوز
ہے نازِ مفلساں زرِ از دست رفتہ پر
ہوں گل فروشِ شوخیِ داغِ کہن ہنوز
38
نہ گلِ نغمہ ہوں، نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
لافِ تمکیں، فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں اور راز ہائے سینہ گداز
تو، اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز
39
مُند گئیں، کھولتے ہی کھولتے ، آنکھیں، یک بار
خُوب وقت آئے تم، اِس عاشقِ بیمار کے پاس
مَیں بھی رُک رُک کے نہ مرتا، جو زباں کے بدلے
دشنہ اِک تیز سا ہوتا، مِرے غمخوار کے پاس
دیکھ کر تجھ کو، چمن بسکہ نُمو کرتا ہے
خُود بخود، پہنچے ہے گُل، گوشۂ دستار کے پاس
دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے ، لیکن، اے دل!
نہ کھڑے ہو جیئے ، خُوبانِ دل آزار کے پاس
مر گیا پھوڑ کے سر، غالبؔ وحشی، ہَے ہَے !
بیٹھنا اُس کا وہ، آ کر، تری دیوار کے پاس
40
نہ لیوے گر، خسِ جوہر، طراوت، سبزۂ خط سے
لگاوے خانۂ آئینہ میں، روئے نگار، آتش
فروغِ حسن سے ہوتی ہے حلِ مشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پا سے ، نکالے گر نہ خار، آتش
41
رخِ نگار سے ، ہے سوزِ جاودانیِ شمع
ہوئی ہے ، آتشِ گل، آبِ زندگانیِ شمع
زبانِ اہلِ زباں میں، ہے مرگ، خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی، زبانیِ شمع
غم اُُن کو حسرتِ پروانہ کا ہے ، اے شعلہ!
تیرے لرزنے سے ظاہر ہے ، ناتوانیِ شمع
42
کون آیا جو چمن بیتابِ استقبال ہے ؟
جنبشِ موجِ صبا، ہے شوخیِ رفتارِ باغ
آتشِ رنگِ رخِ ہر گل کو بخشے ہے فروغ
ہے دمِ سردِ صبا سے ، گرمیِ بازارِ باغ
43
بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے ، اے اختیار، حیف!
تھی میرے ہی جلانے کو، اے آہ شعلہ ریز!
گھر پر پڑا نہ، غیر کے ، کوئی شرار، حیف!
ہیں، میری مشتِ خاک سے ، اُس کو کدورتیں
پائی جگہ جو دل میں، تو ہو کر غبار، حیف!
جلتا ہے دل کہ، کیوں نہ ہم اک بار جل گئے
اے ناتمامیِ نفسِ شعلہ بار، حیف!
44
یاد ہیں، اے ہمنشیں ! تجھے وہ دن کہ، ذوقِ وجد میں
زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چنتا تھا، نمک
داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ!
یاد کرتا ہے مجھے ، دیکھے ہے وہ جس جا، نمک
چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے !
دل طلب کرتا ہے زخم، اور مانگے ہیں اعضا، نمک
45
دام، ہر موج میں، ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں، کیا گزرے ہے قطرہ پہ گہر ہوتے تک!
ہم نے مانا کہ، تغافل نہ کرو گے ، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہوتے تک
یک نظر بیش نہیں، فرصتِ ہستی، غالبؔ!
گرمیِ بزم ہے ، اک رقصِ شرر ہوتے تک
46
گر تجھ کو ہے یقینِ اجابت، دعا نہ مانگ
یعنی، بغیرِ یک دلِ بے مدعا نہ مانگ
آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد!
مجھ سے حسابِ بے گنہی، اے خدا ! نہ مانگ
47
ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل؟
بُلبُل کے کاروبار پہ ہیں، خندہ ہائے گُل!
خوش حال! اُس حریفِ سیہ مست کا، کہ جو
رکھتا ہو، مثلِ سایۂ گُل، سر بپائے گُل
شرمندہ رکھتے ہیں مجھے ، بادِ بہار سے
مینائے بے شراب، و دلِ بے ہوائے گُل
48
غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن، شمعِ ماتم خانہ ہم
باوجود یک جہاں ہنگامہ، پر موہوم ہیں
جوں چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ ہم
دائم الحبس اس میں ہیں، لاکھوں تمنائیں، اسدؔ!
جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
49
ہو گئے ہیں جمع، اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرّے ، اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں
ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں
لے گئی ساقی کی نخوت، قلزم آشامی مری
موجِ مے کی، آج، رگ، مینا کی گردن میں نہیں
50
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے ؟
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں؟
دل تو دل، وہ دماغ بھی نہ رہا!
شورِ سودائے خط و خال کہاں؟
تھی وہ خوباں ہی کے تصور سے
اب، وہ رعنائیِ خیال کہاں؟
مضمحل ہو گئے قوا، غالبؔ!
وہ عناصر میں اعتدال، کہاں؟
51
عہدے سے مدحِ ناز کے باہر نہ آ سکا
گر ایک ادا ہو، تو اسے اپنی قضا کہوں
ظالم میرے گمان سے ، مجھے منفعل نہ چاہ!
ہے ہے ، خدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں
میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو اور وہ ایک نشنیدن، کہ کیا کہوں؟
حلقے ہیں، چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تار زلف کو نگہِ سرمہ سا کہوں
52
قرض کی پیتے تھے مے ، لیکن سمجھتے تھے ، کہ ہاں!
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی، ایک دن
نغمہ ہائے غم کو بھی، اے دل! غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا، یہ سازِ ہستی، ایک دن
دھول دھپّہ، اس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے ، غالبؔ ! پیش دستی، ایک دن
53
شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو، کہ جہاں
جادہ، غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں
رنجِ نو میدیِ جاوید گوارا رہیو!
خوش ہوں، گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں
میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا، غالبؔ!
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں
ریختے کا وہ ظہوری ہے بقول ناسخ
"آپ بے بہرہ ہے ، جو معتقدِ میر نہیں"
54
عشق، تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری، شجرِ بید نہیں
رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں
ہے تجلی تری، سامانِ وجود
ذرّہ، بے پرتوِ خورشید نہیں
گردشِ رنگِ طرب سے ڈرئیے
غمِ محرومئ جاوید نہیں!
سلطنت دست بَدَست آئے ہے
جامِ مے ، خاتمِ جمشید نہیں
کہتے ہیں "جیتی ہے امید پہ خلق"
ہم کو جینے کی بھی امید نہیں
مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ، غالبؔ! عرقِ بید نہیں
55
ہے نزاکت، بس کہ فصلِ گل میں، معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلے ہے ، خشتِ دیوارِ چمن
الفتِ گل سے ، غلط ہے ، دعویِ وارستگی
سرو ہے ، با وصفِ آزادی، گرفتارِ چمن
56
ظاہر ہیں مری شکل سے افسوس کے نشاں
جوں شانہ، پشتِ دست بدنداں گزیدہ ہوں
دیتا ہوں کشتگاں کو، سخن سے ، سرِ تپش
مضرابِ تار ہائے گلوئے بریدہ ہوں
ہوں گرمیِ نشاطِ تصور سے ، نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں
سرپر مرے ، وبالِ ہزار آرزو رہا
یارب! میں کس غریب کا بختِ رمیدہ ہوں
57
وعدۂ سیرِ گلستاں ہے ، خوشا! طالعِ شوق
مژدۂ قتل مقدّر ہے ، جو مذکور نہیں
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں، ہے دریا، لیکن
ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفیِ منصور نہیں
حسرت! اے ذوقِ خرابی! کہ وہ طاقت نہ رہی
عشقِ پُر عربَدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں
ظلم کر، ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو
تُو تغافل میںکسی رنگ سے معذور نہیں
صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے ! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
ہُوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجّت ہے ، کہ مشہور نہیں
58
نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد! نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں
عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!
ہم کو تسلیم، نکو نامیِ فرہاد، نہیں!
کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں
اہلِ بینش کو، ہے طوفانِ حوادث، مکتب
لطمۂ موج، کم از سیلئِ استاد، نہیں
کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت، غالبؔ!
تم کو دل تنگیِ رندانِ وطن یاد نہیں؟
59
ہوئی یہ بیخودی چشم و زباں کو، تیرے جلوے سے
کہ طوطی قفلِ زنگ آلودہ ہے آئینہ خانے میں
قیامت ہے ! کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجب سے یہ بولا"یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں!"
دلِ نازک پہ اُس کے رحم آتا ہے مجھے ، غالبؔ!
نہ کر سرگرم اس کافر کو، الفت آزمانے میں
60
پانو(پاؤں) میں، جب وہ، حنا باندھتے ہیں
میرے ہاتھوں کو، جدا باندھتے ہیں
آہ کا، کس نے ، اثر دیکھا ہے ؟
ہم بھی ایک اپنی ہوا باندھتے ہیں
قیدِ ہستی سے رہائی، معلوم!
اشک کو بے سرو پا باندھتے ہیں
نشۂ رنگ سے ہے ، واشدِ گل
مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں
تیری فرصت کے مقابل، اے عمر!
برق کو پا بہ حنا باندھتے ہیں
غلطی ہائے مضامیں، مت پوچھ!
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
کس کا دل زلف سے بھاگا ؟ کہ اسدؔ!
دستِ شانہ بہ قفا باندھتے ہیں
61
دیوانگی سے ، دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جیب میں ایک تار بھی نہیں
دل کو، نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا، تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
گنجائشِ عداوتِ اغیار، یک طرف
یاں دل میں، ضعف سے ، ہوسِ یار بھی نہیں
ڈر نالہ ہائے زار سے میرے ، خُدا کو مان
آخر، نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں
دل میں ہے ، یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حال آنکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے ، اے خُدا؟
لڑتے ہیں، اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
شوریدگی کے ہاتھ سے ہے ، سر، وبالِ دوش
صحرا میں، اے خدا! کوئی دیوار بھی نہیں
دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے ، تو ہشیار بھی نہیں
62
ہزاروں دل دیے ، جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا، ہر قطرہ خوں، تن میں
ہوئی ہے ، مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے ، برنگِ پنبہ، روزن میں
نہ جانوں، نیک ہوں یا بد ہوں، پر صحبت مخالف ہے
جو گل ہوں، تو ہوں گلخن میں، جو خس ہوں تو، ہوں گلشن میں
اسد زندانیِ تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہوں
خمِ دستِ نوازش، ہو گیا ہے طوق، گردن میں
63
پرسشِ طرزِ دلبری کیجیے کیا ؟کہ بِن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے ، نکلے ہے یہ ادا کہ، یوں
کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی؟
آئنہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ، یوں
میں نے کہا کہ "بزمِ ناز، چاہیے غیر سے تہی"
سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ" یوں"
64
چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے ، رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبت ہی کیوں نہ ہو!
ہے مجھ کو، تجھ سے ، تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند، بر سبیل شکایت ہی کیوں نہ ہو
ہے آدمی، بجائے خود، اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو
مٹتا ہے ، فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی
عمرِ عزیز، صرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو
65
واں پہنچ کر، جو غش آتا پے ہم ہے ، ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو
دل کو میں، اور مجھے دل، محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم، ہے ہم کو
ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو
جان کر کیجے تغافل، کہ کچھ امّید بھی ہو
یہ نگاہِ غلط انداز تو سَم ہے ہم کو
رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں
نالۂ مرغِ سحر، تیغِ دو دم ہے ہم کو
سر اڑانے کے ، جو، وعدے کو مکرّر چاہا
ہنس کے بولے کہ"ترے سر کی قسم ہے ہم کو"
دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ ولیکن ناچار
پاسِ بے رونقیِ دیدہ اہم ہے ہم کو
ابر روتا ہے کہ" بزمِ طرب آمادہ کرو"
برق ہنستی ہے کہ" فرصت کوئی دم ہے ہم کو"
تم وہ نازک کہ" خموشی" کو" فغاں" کہتے ہو
ہم وہ عاجز، کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو
لکھنؤ آنے کا باعث، نہیں کھلتا، یعنی
ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ، ہم کو
طاقتِ رنجِ سفر، بھی نہیں پاتے ، اتنی
ہجرِ یارانِ وطن کا بھی، الم ہے ہم کو
مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے ، یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو
لیے جاتی ہے کہیں، ایک توقّع، غالبؔ!
جادۂ رہ، کششِ کافِ کرم ہے ہم کو
66
ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلالِ عہد وصلِ بتاں نہ پوچھ
ہر داغِ تازہ، یک دلِ داغ انتظار ہے
عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ
ناچار، بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشواریِ رہ و ستمِ ہمرہاں نہ پوچھ
کہتا تھا کل وہ محرمِ راز اپنے سے کہ" آہ!
دردِ جدائیِ اسداللہ خاں نہ پوچھ"
67
ہے سنگ پر، براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی، ہنوز منتِ طفلاں اُٹھائیے
دیوار، بارِ منتِ مزدور سے ، ہے خم
اے خانماں خراب! نہ احساں اُٹھائیے
یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبسمِ پنہاں اُٹھائیے
68
عاشق ہوئے ہیں آپ بھی، ایک اور شخص پر
آخر، ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے
دے داد، اے فلک !دلِ حسرت پرست کی
ہاں، کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے
سیکھے ہیں، مہ رخوں کے لیے ، ہم مصوری
تقریب، کچھ تو، بہرِ ملاقات چاہیے
مے سے غرض نشاط، ہے کس روسیاہ کو؟
اک گونہ بیخودی، مجھے دن رات چاہیے
نشو و نما ہے اصل سے ، غالبؔ ! فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے ، جو بات چاہیے
ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے
سر، پائے خُم پہ کھینچئے ہنگامِ بیخودی
رو، سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے
یعنی، بحسبِ گردشِ پیمانۂ صفات
عارف، ہمیشہ مستِ مے ذات چاہیے
69
بساطِ عجز میں تھا ایک دل، یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن، سر نگوں، وہ بھی
نہ کرتا کاش ! نالہ، مجھ کو کیا معلوم تھا، ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں، وہ بھی
خیالِ مرگ کب تسکین دلِ آزردہ کو بخشے ؟
مرے دامِ تمنا میں ہے ، اک صیدِ زبوں، وہ بھی
70
کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مُور، آسمان ہے
ہے ، بارے ، اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالب ؔ، ہم اس میں خوش ہیں، کہ نا مہربان ہے
بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں
فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے
کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا؟
بس چپ رہو! ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
71
ہستی کے مت فریب میں آ جائیو، کہیں
عالم تمام، حلقہ دامِ خیال ہے
ہے ہے خدانخواستہ، وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل، یہ تجھے کیا خیال ہے
کس پردہ میں ہے آئنہ پرداز؟ اے خدا!
رحمت، کہ عذر خواہِ لبِ بے سوال ہے
72
کیا کروں ؟غم ہائے پنہاں، لے گئے صبر و قرار
دُزد گر ہو خانگی، تو پاسباں معذور ہے
آگ سے ، پانی میں بجھتے وقت، اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی، درماندگی میں، نالے سے مجبور ہے
73
مجھ سے مت کہہ" تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی"
زندگی سے بھی، مرا جی، ان دنوں بیزار ہے
آنکھ کی تصویر، سر نامے پہ کھینچی ہے ، کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ، یاں تک حسرتِ دیدار ہے
ایک جا حرفِ وفا لکھا تھا، سو بھی مٹ گیا
ظاہرا، کاغذ، ترے خط کا، غلط بردار ہے
74
خزاں کیا؟فصلِ گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں، قفس ہے ، اور ماتم بال و پر کا ہے
وفائے دلبراں ہے اتفاقی، ورنہ، اے ہمدم!
اثر فریادِ دلہائے حزیں کا، کس نے دیکھا ہے
ہجومِ ریزشِ خوں کے سبب، رنگ اُڑ نہیں سکتا
حنائے پنجہ صیاد، مرغِ رشتہ بر پا ہے
75
بیدادِ انتظار کی طاقت نہ لا سکی
اے جانِ بر لب آمدہ، بے تاب ہو گئی
غالبؔ، زِ بس کہ سوکھ گئے چشم میں سرشک
آنسو کی بوند، گوہرِ نایاب ہو گئی
76
عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت، تری شہرت ہی سہی
قطع کیجیئے ! نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے ، تو عداوت ہی سہی
کچھ تو دے ، اے فلکِ ناانصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی
ہم بھی تسلیم کی خُو ڈالیں گے
بے نیازی، تری عادت ہی سہی
چھیڑ خوباں سے چلی جائے ، اسدؔ!
گر نہیں وصل، تو حسرت ہی سہی
77
مینائے مے ، ہے سرو، نشاطِ بہار سے
بالِ تدرو، جلوۂ موجِ شراب ہے
زخمی ہوا ہے ، پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے
میں نامراد، دل کی تسلی کو کیا کروں
مانا کہ، تیرے رخ سے نگہ کامیاب ہے
گزرا، اسدؔ !مسرتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے
78
ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن، ہے خندۂ دنداں نما مجھے
کرتا ہے ، بس کہ باغ میں تو، بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے
کھلتا کسی پہ کیوں، مرے دل کا معاملہ؟
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
79
دیکھنا تقریر کی لذّت، کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
گرچہ ہے کس کس برائی سے ، ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ، اس محفل میں ہے
بس ہجومِ نا امیدی، خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے
80
کروں بیدادِ ذوقِ پر فشانی عرض، کیا قدرت
کہ طاقت اڑ گئی، اڑنے سے پہلے ، میرے شہپر کی
کہاں تک روؤں اوس(اس) کے خیمہ کے پیچھے ؟ قیامت ہے !
مری قسمت میں یا رب! کیا نہ تھی دیوار پتھر کی؟
81
پھر کچھ ایک، دل کو، بے قراری ہے
سینہ، جویائے زخمِ کاری ہے
پھر، جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے
قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے
چشم، دلالِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے
وہی صد رنگ نالہ فرسائی
وہی، صد گونہ، اشک باری ہے
دل، ہوائے خرامِ ناز سے ، پھر
محشرستانِ بے قراری ہے
جلوہ، پھر عرضِ ناز کرتا ہے
روز بازارِ جاں سپاری ہے
پھر، اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر، وہی زندگی ہماری ہے
پھر، کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم، بازارِ فوجداری ہے
پھر ہوا ہے ، جہان میں اندھیر
زلف کی پھر، سرشتہ داری ہے
پھر، دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے
پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشکباری کا حکم جاری ہے
دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے
بیخودی بے سبب نہیں، غالبؔ!
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
82
پنہاں تھا دام، سخت قریب آشیانہ کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے
نالے ، عدم میں، چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھنچ سکے ، سو وہ یاں آ کے دم ہوئے
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے
اللہ رے ! تیری تندیِ خو، جس کے بیم سے
اجزائے نالہ، دل میں مرے ، رزقِ ہم ہوئے
83
رحم کر، ظالم! کہ، کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
نبضِ بیمارِ وفا، دودِ چراغِ کشتہ ہے
دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی، سودِ چراغِ کشتہ ہے
ہو جہاں، تیرا دماغِ ناز، مستِ بیخودی
خوابِ نازِ گلرخاں، دودِ چراغِ کشتہ ہے
84
اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل!
زنہار، اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے
دیکھو! مجھے ، جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو!جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
ساقی بجلوہ، دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ، رہزنِ تمکین و ہوش ہے
یا شب کو دیکھتے تھے ، کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے
لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
وہ جنت نگاہ، وہ فردوس ِ گوش ہے
یا صبح دم جو دیکھیے ! آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز، نہ جوش و خروش ہے
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے ، سو وہ بھی خموش ہے
85
آ! کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے
دیتے ہیں جنت، حیاتِ دہر کے بدلے
نشّہ، بہ اندازۂ خمار نہیں ہے
گریہ نکالے ہے ، تیری بزم سے مجھ کو
ہائے !کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے
ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر
خاک میں عشّاق کی غبار نہیں ہے
دل سے اُٹھا لطفِ جلوہ ہائے معانی
غیر گل، آئینۂ بہار نہیں ہے
قتل کا میرے ، کیا ہے عہد تو، بارے
وائے ! اگر عہد اُستوار نہیں ہے
تو نے قسم میکشی کی، کھائی ہے ، غالبؔ!
تیری قسم کا، کچھ اعتبار نہیں ہے
86
بہا ہے یاں تک اشکوں میں، غبارِ کلفتِ خاطر
کہ چشمِ تر میں ہر اک پارۂ دل، پائے در گل ہے
رفوئے زخم سے مطلب، ہے لذت زخمِ سوزن کی
سمجھیو مت !کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے
وہ گُل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ ؔ ؔ
چٹکنا غنچۂ گُل کا صدائے خندۂ دل ہے
87
پا بدامن ہو رہا ہوں، بسکہ، میں صحرا نورد
خارِ پا، ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے
دیکھنا حالت مرے دل کی، ہم آغوشی کے وقت
ہے نگاہِ آشنا، تیرا سرِ ہر مو، مجھے
ہوں سراپا سازِ آہنگِ شکایت، کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے
88
مے پرستاں! خُمِ مے منہ سے لگا لو، یعنی
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی، نہ سہی
نفسِ قیس، کہ ہے چشم و چراغِ صحرا
گر نہیں، شمعِ سیہ خانۂ لیلی، نہ سہی
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے ، گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی! نغمۂ شادی، نہ سہی
نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہے مرے اشعار میں معنی، نہ سہی
عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی، غالبؔ، اگر عمرِ طبیعی، نہ سہی
89
غمِ زمانہ نے جھاڑی، نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے ، لذّتِ الم آگے
دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے ، اس کو دم، آگے
خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دیجیئے
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں، نامہ بر سے ، ہم، آگے
قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں، غالبؔ!
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے
90
کب وہ سنتا ہے ، کہانی میری
اور پھر، وہ بھی زبانی میری
خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ! خوننابہ فشانی میری
کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار؟
مگر آشفتہ بیانی میری
ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا، ہے نشانی میری
متقابل، ہے مقابل میرا
رک گیا، دیکھ روانی میری
گرد بادِ رہِ بیتابی ہوں
صرصرِ شوق، ہے بانی میری
قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے ، گرانی میری
دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچمدانی میری
کر دیا ضعف نے عاجز، غالبؔ
ننگِ پیری ہے ، جوانی میری
91
تو وہ بد خو، کہ تحیر کو تماشا جانے
دل وہ افسانہ، کہ آشفتہ بیانی مانگے
نقشِ نازِ بتِ طناز بہ آغوشِ رقیب
پائے طاؤس، پئے خامۂ مانی مانگے
92
اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
دل میں نظر آتی نہیں ایک بوند لہو کی
کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے ؟
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کِسو کی
صد حیف ! وہ نا کام کہ اک عمر سے ، غالبؔ
حسرت میں رہے ، ایک بتِ عربدہ جو کی
دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی
93
اُس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو، ہاں
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے
ہے ، وصل، ہجر، عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہیے
جادو ہے یار کی روشِ گفتگو، اسدؔ!
یاں جز فسوں نہیں، اگر افسانہ چاہیے
94
صحبتِ رنداں سے واجب ہے حذر
جائے مے اپنے کو کھینچا چاہیے
دوستی کا پردہ ہے ، بیگانگی
منہ چھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے
چاک مت کر جیب بے ایّامِ گل
کچھ اُدھر کا بھی اشارا چاہیے
اپنی رسوائی میں، کیا چلتی ہے سعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے
منحصر، مرنے پہ ہو، جس کی اُمید
نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے
95
ہر قدم، دوریِ منزل، ہے نمایاں مجھ سے
میری رفتار سے ، بھاگے ہے بیاباں، مجھ سے
وحشتِ آتشِ دل سے ، شبِ تنہائی میں
دُود کی طرح، رہا سایہ گریزاں مجھ سے
اثرِ آبلہ، کرتا ہے بیاباں روشن
جادہ، جوں رشتۂ گوہر، ہے چراغاں مجھ سے
نگہِ گرم سے اک آگ ٹپکتی ہے ، اسدؔ!
ہے چراغاں، خس و خاشاکِ گلستاں، مجھ سے
96
توڑ بیٹھے جب کہ ہم جام و سبو، پھر ہم کو کیا؟
آسمان سے بادہ گلفام گر برسا کرے
97
کرے ہے قتل، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے
پلا دے اوک سے ، ساقی! جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا، نہ دے ! شراب تو دے
98
تپش سے میری، وقفِ کشمکش، ہر تارِ بستر ہے
مرا سر رنجِ بالیں ہے ، مرا تن بارِ بستر ہے
99
نہ پوچھ! نسخہ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اس میں ریزہ الماس جزو اعظم ہے
بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ ایک نگہ، کہ بظاہر نگاہ سے کم ہے
100
کیوں نہ ہو، چشمِ بتاں، محوِ تغافل، کیوں نہ ہو؟
یعنی، اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
وائے ناکامی ! کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
101
گل، سر بسر، اشارۂ جیبِ دریدہ ہے
نازِ بہار، جز بہ تقاضا، نہ کھینچیے
102
بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں
مرحبا، مَیں! کیا مبارک ہے ، گراں جانی مجھے
وعدہ آنے کا وفا کیجے ، یہ کیا انداز ہے ؟
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے ؟
وائے ! واں بھی شورِ محشر نے نہ دَم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں، ذوقِ تن آسانی مجھے
میرے غم خانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لِکھ دیا منجملۂ اسبابِ ویرانی مجھے
کیوں نہ ہو بے التفاتی ؟ اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے صیدِ پُرسش ہائے پنہانی مجھے
ہاں! نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری، واہ، واہ
پھر ہُوا ہے تازہ، سودائے غزل خوانی مجھے
103
خدایا ! جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے ؟
کہ جتنا کھینچتا ہوں، اور کھِنچتا جائے ہے مُجھ سے
اُدھر وہ بدگمانی ہے ، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پُوچھا جائے ہے اُس سے ، نہ بولا جائے ہے مجھ سے
قیامت ہے کہ ہووے مُدعی کا ہمسفر، غالبؔ
وہ کافر، جو خُدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مُجھ سے
104
رونے سے ، اور عشق میں بے باک ہو گئے
دھوئے گئے ہم، ایسے کہ، بس پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے ، آوارگی سے ، تم
بارے ، طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون، نالۂ بلبل کو، بے اثر؟
پردے میں، گُل کے ، لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا، وجود و عدم اہلِ شوق کا؟
آپ اپنے شعلہ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے ، اس سے تغافُل کا، ہم گِلہ
کی یک نگاہ ایسی، کہ بس خاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے ، آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی، کل اس نے ، اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے ، غمناک ہو گئے
105
نشہ ہا، شادابِ رنگ، و ساز ہا مستِ طرب
شیشۂ مے ، سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے
ہم نشیں، مت کہہ کہ "برہم کر نہ بزمِ عیشِ یار"
واں تو، میرے نالے کو بھی، اعتبارِ نغمہ ہے
106
عرضِ نازِ شوخیِ دندان، برائے خندہ ہے
دعوئ جمعیّتِ احباب، جائے خندہ ہے
ہم عدم میں، غنچہ، محوِ عبرتِ انجامِ گل
یک جہاں زانو تامّل، ٭ درفقائے ٭ خندہ ہے
شورشِ باطن کے ، ہیں ارباب منکر، ورنہ یاں
دل، محیطِ گریہ و لب، آشنائے خندہ ہے
(دیوانِ غالب کے اکثر نسخوں میں بشمول نسخہ کالیداس یہ لفظ "در قفائے " ہے۔ جبکہ یہاں "در فقائے " لکھا ہے۔ واللہ اعلم یہ کاتب کی غلطی ہے یا کچھ اور۔۔۔۔۔ چھوٹا غالب)
107
رونے سے ، اے ندیم! ملامت نہ کر مجھے
آخر، کبھی تو عقدۂ دل وا کرے کوئی
چاکِ جگر سے ، جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ ؟کہ جیب کو رسوا کرے کوئی
ناکامیِ نگاہ، ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ، تجھ کو تماشا کرے کوئی
بیکاریِ جنوں کو، ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائے تو پھر کیا کرے کوئی؟
108
کمالِ حسن اگر موقوفِ اندازِ تغافل ہو
تکلف برطرف، تجھ سے تری تصویر بہتر ہے
109
باغ، پا کر خفقانی، یہ ڈراتا ہے مجھے
سایہ شاخِ گل، افعی نظر آتا ہے مجھے
110
لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
قیامت، کشتۂ لعلِ بتاں کے خوابِ سنگین ہے
111
پچ آ پڑی ہے ، وعدہ دلدار کی، مجھے
وہ آوے یا نہ آوے ، پہ یاں انتظار ہے
اے عندلیب ! یک کفِ خس، بہرِ آشیاں
طوفانِ آمد آمدِ فصلِ بہار ہے
حیراں ہوں، شوخیِ رگِ یاقوت دیکھ کر
یاں ہے کہ صحبتِ خس و آتش برار ہے
دل مدعی، و دیدہ بنا مدعی علیہ
نظارہ کا مقدمہ پھر روبکار ہے
112
ہوں میں بھی، تماشائیِ نیرنگِ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے
113
غالبؔ برا نہ مان، جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ، سب اچھا کہیں جسے ؟
114
غم، آغوشِ بلا میں پرورش دیتا ہے ، عاشق کو
چراغِ روشن اپنا، قلزم صرصر کا مرجاں ہے
دل و دیں نقد لا !ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر، متاعِ دستگرداں ہے
115
شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی، کس قدر افسردگیِ دل پہ جلا ہے
تمثال میں تیری، ہے وہ شوخی، کہ بصد ذوق
آئینہ، بہ اندازِ گُل، آغوش کشا ہے
قمری، کفِ خاکستر، و بلبل، قفسِ رنگ
جز نالہ ! نشانِ جگرِ سوختہ کیا ہے
خو نے تری افسردہ کیا، وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی، طرفہ بلا ہے
نا کردہ گناہوں کی بھی، حسرت کی، ملے داد
یارب! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے
116
مدت ہوئی ہے ، یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم، چراغاں کیے ہوئے
کرتا ہوں جمع، پھر، جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے ، دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
پھر، گرم نالہ ہائے شرر بار، ہے نفس
مدت ہوئی ہے ، سیرِ چراغاں کیے ہوئے
پھر، وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے ، دم
برسوں ہوئے ہیں، چاک، گریباں کیے ہوئے
پھر، پرسشِ جراحتِ دل کو، چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمکداں کیے ہوئے
پھر، بھر رہا ہوں، خامۂ مژگاں، بخونِ دل
سازِ چمن طرازیِ داماں کیے ہوئے
باہم دگر ہوئے ہیں، دل و دیدہ، پھر، رقیب
نظارہ و خیال کا سامان کیے ہوئے
دل، پھر، طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ، ویراں کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے
دوڑے ہے ، پھر، ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے
پھر، چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کیے ہوئے
مانگے ہے پھر، کسو کو لبِ بام پر، ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے
ڈھونڈھے ہے ، پھر، کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے
اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے ، پھر نگاہ
چہرہ، فروغِ مے سے ، گلستاں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے ، پھر وہی فرصت، کہ، رات دن
بیٹھے رہیں، تصورِ جاناں کیے ہوئے
پھر، دل میں ہے کہ، در پہ کسو کے پڑے رہیں
سر، زیرِ بارِ منتِ درباں کیے ہوئے
غالب ؔ ! ہمیں نہ چھیڑ! کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم، تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
نخستیں در بہ اتمام رسید
وا نمود
سلسلہ جنبانیِ درِ دوم این رنگین چمن، موسوم بہ "گلِ رعنا"در عرضِ مذاقِ زبانِ پارسی کہ صہبائے حریف افگن است، و بادہِ مرد آزما۔ ازانجا کہ ہنوز ایں گہر ہائے شاہوار را برشتہ نمطِ حروفِ تہجی نکشیدہ ام، و ایں اوراقِ پریشاں را شیرازہ جمعیتِ تدوین نہ بستہ۔ فروہیدہ فرہنگان بخردی پیشہ و سنجیدہ آہنگانِ موزونی اندیشہ، خردہ بر بیربطیِ تحریرنگیرند۔ و عذرِ تنک سرمایگانِ فطرت و بیدماغانِ عالمِ فرصت بپذیرند۔
الحمد اللہ
آغاز کمپوزنگ:۔ 11 مئی 2013۔ 08:00
اختتام کمپوزنگ:۔ 12 مئی 2013۔ 02:20
اختتام پروف ریڈنگ:۔ 16 مئی 2013۔ 13:35
یکے از دیوانگانِ غالب، احقر العباد، ہیچمداں :۔ سید اویس قرنی المعروف بہ چھوٹا غالب
ٹائپنگ: سید اویس قرنی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید