گلگت بلتستان: سرکاری سرپرستی میں مباہلہ۔ شیعہ اور سنی عالم آگ میں کودیں گے

گلگت بلتستان: سرکاری سرپرستی میں مباہلہ۔ شیعہ اور سنی عالم آگ میں کودیں گے
NayaDaur-24x24.jpg
نیا دور
1 منٹ ago
GB.jpg


گلگت بلتستان میں جاری حالیہ مسلکی تنازعات پر وہاں موجود شیعہ اور سنی علماء نے ایک دوسرے کو مناظرہ اور مباہلہ کرنے کا چیلنج کیا ہے۔ جس کو دونوں جانب سے قبول کر کے مباہلہ کے دن اور وقت کا تعین بھی کر دیا گیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق 17 مئی کو تنظیم اہل السنت والجماعت گلگت بلتستان کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ تنظیم اہل سنت والجماعت اور دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کے علما اور عمائدین کا اہم اجلاس امیر تنظیم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ایک فریق مسلسل امن و امن کو خراب کرنے پر تلا ہے اور مخلتف انداز سے صحابہ کرام کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ لہذا قیام امن کے لئے جملہ مسلمان آئینی اور جمہوری کردار ادا کریں گے، توہین صحابہ کا مقدمہ بھی درج کروایا جائیگا۔ نیز مناظرہ اور مباہلہ کے چیلنج کو بھی قبول کر کے مقام اور وقت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

دوسری جانب مرکزی امامیہ کونسل گلگت بلتستان نے اسی روز جوابی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مرکزی خطیب اہل سنت جامع مسجد گلگت کو ایک خط لکھا گیا جس میں کہا گیا کہ آپ کی طرف سے مناظرہ کی دعوت موصول ہونے پر آغا راحت حسین الحسینی صاحب نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کھلے دل سے قبول کیا ہے۔ اگرچہ ہماری طرف سے دعوت حق اخلاص پر مبنی تھا کہ تمام مسلمان مذہب کما حقہ قبول کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کریں۔

چونکہ ماضی میں مناظرے بہت ہوئے جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ، لہذا اس بار مباہلہ کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ حقیقت عیاں ہو اور علاقہ سے فساد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو اور حق کا بول بالا ہو۔
0-EDA919-D-32-BA-416-A-9-B58-B22673939251.jpg


اس تناظر میں 21 مئی 2021 بروز جمعہ سہ پہر 3 بجے شاہی پولو گراؤنڈ میں گلگت کی ضلعی انتظامیہ لکڑیوں کا انتظام کرے گی۔ صوبائی حکومت ، فورس کمانڈر ، چیف سیکرٹری اور عدالتوں کے معزز ججز کی موجودگی میں شیعہ مسلک سے آغا راحت حسین الحسینی اور اہل سنت ولجماعت سے مولانا قاضی نثار احمد صاحب اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے آگ میں کود جائیں گے۔ جو بچ جائے گا وہ حق ہوگا ، جو جل جائے گا وہ باطل اور فی النار تصور کیا جائے گا۔

مرکزی امامیہ کونسل کے جنرل سیکرٹری نے خط کی کاپیاں وزیر اعلی گلگت بلتستان ، سیکرٹری داخلہ گلگت بلتستان ، ڈپٹی کمشنر گلگت بلتستان اور ایس ایس پی گلگت کو بھی ارسال کر دی ہیں۔

ویسے یہ سچا ثابت کرنے کی بہت پرانی رسم ہے جو ہندووں جوگیوں، بدھ مت اور دیگر مذاہب میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان کے کئی علاقوں میں چوری و زنا کے مقدمات پنچائت یونہی طے کرتی ہے۔ بندہ یا بندی بھاگ کر کوئلوں کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔

لفظ آگ یہاں مارکیٹنگ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اصل میں صبح سے جلی لکڑیوں پر بعد از مغرب چلا جائے گا تاکہ وہ ایش بن چکی ہوں۔ ایش حرارت کا کمزور کنڈکٹر ہے۔ یہ دیکھیں:


جہاں تک مباہلے کا تعلق ہے اس میں اللہ کی جانب آگ یا سے کوئی اور عذاب آکر باطل کو ختم کرتا ہے۔ آگ جلانی ہی نہیں پڑتی! بس میدان میں بیٹھ جائیں۔

یہاں کیونکے محض جذبات کی وجہ حق چھپایا جا رہا ہے اور اللہ رحیم و غفور ہے سو کسی کی پکڑ نہیں آئی گی۔ مطلب کہ عقل لگا کر حق واضح خود کریں۔ حق چھپا کر ایک دوسرے کا قتل نہ کریں۔ قبائلی دشمنی دین کے نام پر نہ نکالیں۔

شیعہ اسلام درحقیقت سنی اسلام کی وہ تفصیل ہے کہ اگر ظاہر کی جائے تو لوگ گردن کاٹ دیں۔ لیکن شیعہ ذاکرین نے بے حد ناحق اس خوبصورت حق میں ملا دی ہے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
جناب موسیٰ کیسے بچے ۔ ۔ ۔ اگر دریا کو کوئی مطلب نہیں تو۔۔۔؟
بھیا یہ کیسے بھول گئیے آپ کہاں وہ موسیٰ علیہ السلام کلیم۔ اللّہ اور کہاں ہم گناہ گار ؀
تو جو موسیٰ ہو تو اس کا ہر طرف دیدار ہے
سب عیاں ہے کیا تجلی کو یہاں تکرار ہے
 

سیما علی

لائبریرین
جناب ابراہیم پر کیوں اثر نہیں ہوا اگر آگ کا کام جلانا ہی ہے تو ۔۔۔؟
پھر ہم دوبارہ وہی بات کہیں گے بھیا کہآں ہم کہاں وہ سراپا نور اور اللّہ کے نبی ؀
خدا کی دین کا موسیٰ سے پوچھیے احوال
کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے
 
اگر دونوں فریق آگ میں کودنے کے بعد بچ گئے یا جل گئے تو پھر حق و باطل کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ o_O
یہ پاکستانی مولوی ہیں۔ گھنٹہ آگ میں کودنا ہے ان دونوں نے۔
کیوں کہ ان کے آگ میں کودنے سے اسلام کو فائدہ پہنچ جانا ہے۔ اور یہ کبھی اسلام کا بھلا نہیں کرسکتے۔
 

فہد مقصود

محفلین
جناب موسیٰ کیسے بچے ۔ ۔ ۔ اگر دریا کو کوئی مطلب نہیں تو۔۔۔؟

جناب ابراہیم پر کیوں اثر نہیں ہوا اگر آگ کا کام جلانا ہی ہے تو ۔۔۔؟

یہ معجزات ہیں اور اللہ تعالیٰ نے معجزات انبیاء و رسل علیہم السلام کو عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حکم اور قدرتِ کاملہ سے اپنے پیغمبر کے ہاتھوں معجزات وقوع کرواتے تھے تاکہ ان کی قوم یہ سمجھ سکے کہ ان کا خدا سے خاص رابطہ ہے۔ معجزہ غیر معمولی عمل ہوتا ہے جو انسانی وہم و گمان، عقل و فکر اور قدرت و استطاعت سے باہر ہوتا ہے۔

کیا معجزات حاصل کرنا انبیاء علیہم السلام کے اختیار میں ہوتے ہیں؟ نہیں یہ خدائے رب العزت کے حکم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ منصبِ نبوت و رسالت وہبی چیز ہے، کسبی نہیں۔۔اور کسی بھی نبی یا رسول کو ملنے والے معجزات کے فاعلِ حقیقی خود اللہ رب العزت ہوتے ہیں نہ کہ خود نبی اور رسول (یہی بات معجزہ کی تعریف سے بھی ظاہر و ہے)

اور کسی بھی رسول کے لئے یہ (ممکن) نہ تھا کہ وہ کوئی نشانی بھی اﷲ کے اِذن کے بغیر لے آئے

سورۃ غافر، 78

میں تو جہاں تک مجھ سے ہو سکتا ہے (تمہاری) اصلاح ہی چاہتا ہوں، اور میری توفیق اﷲ ہی (کی مدد) سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں

سورۃ ھود، 88

خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآن کریم ہے جو رہتی دنیا تک تمام لوگوں کے لیے چیلنج ہے۔ اس معجزے کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چند دوسرے معجزات سے نوازا تھا لیکن ان معجزات کی حیثیت چیلنج یا0 لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لیے نہیں تھی۔جیسا کہ دیگر انبیاء علیہ السلام کا معاملہ تھا بلکہ یہ معجزات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باعث تکریم وتعظیم اور خدا کی طرف سے باعث نصرت ورحمت تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان معجزات کا ظہور کافرین کی فرمائش پر نہیں ہوا بلکہ کسی مصیبت کی گھڑی میں ۔ کفار ومشرکین نے جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معجزات کی مانگ کی اللہ تعالیٰ نے قطعی طور پر ان کی مانگیں رد کردیں۔اللہ کا ارشاد ہے:

’’انہوں نے کہا کہ ہم آپ پر ہرگز ایمان لانے کے نہیں تاوقتیکہ آپ ہمارے لئے زمین سے کوئی چشمہ جاری نہ کردیں ۔ یا خود آپ کے لئے ہی کوئی باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا اور اس کے درمیان آپ بہت سی نہریں جاری کر دکھائیں ۔یا آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرا دیں جیسا کہ آپ کا گمان ہے یا آپ خود اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لاکھڑا کریں ۔یا آپ کے اپنے لئے کوئی سونے کا گھر ہوجائے یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم تو آپ کے چڑھ جانے کا بھی اس وقت تک ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب نہ اتار لائیں جسے ہم خود پڑھ لیں، آپ جواب دے دیں کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک انسان ہی ہوں جو رسول بنایا گیا ہوں‘‘ سورۃ الاسراء 90-93

ایک دوسری آیت میں اللہ نے ان کی مانگوں کو قبول نہ کرنے کے سبب کی طرف اشارہ کیا ہے:

’’ہمیں نشانات (معجزات) کے نازل کرنے سے روک صرف اسی کی ہے کہ اگلے لوگ انہیں جھٹلا چکے ہیں۔ ہم نےثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظالم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لئے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں‘‘ سورۃ الاسراء 59

ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،معجزات کی فرمائش کے بدلے میں اس نے قرآن نازل کیا جو تمام معجزات کے مقابلہ میں اکیلا ہی کافی ہے:

’’اور کیا ان لوگوں کے لیے نشانی کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے‘‘ سورۃ العنکبوت ۵۱
 
آخری تدوین:

فہد مقصود

محفلین
فہد بھائی بلا شبہ یہی بہتر راستہ ہے مگر اس میں بھی اتنے راستے نکال دیے ہیں کہ سب اپنا راستہ ہی صحیح سمجھتے ہیں۔۔

محترم بھائی صاحب، آپ کے موقف سے سو فیصد متفق ہوں۔ آپ کی بات کے حق میں کچھ ایسے دلائل پیش کر سکتا ہوں جو "ہمارا راستہ، تمھارا راستہ" کی بے معنی بحث کرنے والوں کو ہمیشہ کے لئے چپ کروا سکتے ہیں لیکن اس محفل کے لئے یہ دلائل شاید مناسب نہیں ہوں گے۔
 

زیک

مسافر
جناب موسیٰ کیسے بچے ۔ ۔ ۔ اگر دریا کو کوئی مطلب نہیں تو۔۔۔؟

جناب ابراہیم پر کیوں اثر نہیں ہوا اگر آگ کا کام جلانا ہی ہے تو ۔۔۔؟
اس لڑی کے موضوع کے context میں نہ صرف یہ مراسلے مضحکہ خیز ہیں بلکہ شاید پاکستانی قانون کے تحت ان پر توہین اسلام کی تعزیر بھی پڑتی ہے
 
دوستوں سے درخواست ہے کہ قرآن کی عربی یہاں نہ پیسٹ کریں۔ الفاظ کچھ کے کچھ ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ اوپر کے مراسلے میں ہرے رنگ کی قرآنی عربی ملاحظہ فرمائیں۔
 

حسرت جاوید

محفلین
توہین صحابہ کا مقدمہ بھی درج کروایا جائیگا۔
o_O
صوبائی حکومت ، فورس کمانڈر ، چیف سیکرٹری اور عدالتوں کے معزز ججز کی موجودگی میں شیعہ مسلک سے آغا راحت حسین الحسینی اور اہل سنت ولجماعت سے مولانا قاضی نثار احمد صاحب اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے آگ میں کود جائیں گے۔ جو بچ جائے گا وہ حق ہوگا ، جو جل جائے گا وہ باطل اور فی النار تصور کیا جائے گا۔
حقانیت ثابت کرنے کا یہ طریقہ ہزاروں سالوں پر محیط ہے اور دنیا کے تمام بڑے مذاہب میں رائج رہا ہے جن میں تصورِ خدا یکسر اسلام سے مختلف ہے۔ پھر دونوں اطراف کے صاحب اس حق میں بھی دلائل دیتے نہیں تھکتے کہ 'اسلام' ہی سچا مذہب ہے۔
 

دو مزدوروں کی دوران مزدوری نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے اور علم غیب پر بحث ہوگئی۔

قصہ مختصر بات مباہلے پر چلی گئی۔ دونوں اطراف سے لوگ اکٹھے ہوئے اور دونوں آگ میں ہاتھ پکڑ کر داخل ہوگئے اور کسی پر بھی آگ نے اثر نہیں کیا۔ پھر ٹوٹانی صاحب کے بقول انھیں آواز آئی کہ اس کا ہاتھ چھوڑ دو اور جب انھوں نے مخالف کا ہاتھ چھوڑا تو اسے آگ نے فوراً پکڑ لیا اور وہ جھلس گیا۔ جبکہ ٹوٹانی صاحب 11 منٹ تک آگ میں ہی رہے۔

غالباً 97 یا 98 کا واقعہ ہے, لاڑکانہ سندھ (شاید) اور اس وقت ٹوٹانی صاحب کو کافی پذیرائی بھی ملی۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں تقاریر بھی کرتے رہے۔

واللہ عالم بالصواب
 
Top