گلہائے عقیدت ہیں مرے اشک چُکیدہ - فاروق درویش

گلہائے عقیدت ہیں مرے اشک چُکیدہ
اوقات کہاں میری لکھوں تیرا قصیدہ


بیدار ہوا تجھ سے زمانوں کا مقدر
آزاد ہوئے دشت کے آشوب رسیدہ


چوکھٹ پہ تری ٹوٹا فسوں طرز ِ کہن کا
اک نعرہء یک رنگ بنی فکر ِ پریدہ


قدموں میں ترے آن گرے کوہِ گراں بھی
ہیبت سے تری خاک ہوئے تخت ِ دمیدہ


اے خاصہء خاصاں، ترے افکار کے صدقے
اصنام گزیدہ تھے جو، ہیں امت ِ چیدہِ


خیرات مجھے عشق ِ بلالی سی عطا کر
دے درد کی سوغات ، شب ِ ہجر طپیدہ


دامن رہے بے داغ سدا تجھ سے وفا کا
سرسبز رہے تا بہ ابد میرا عقیدہ


درویش کبیدہ ہوں، تپیدہ ہیں دل و جاں
وابستہ مگر تجھ سے ہے امید ِ چشیدہ


فاروق درویش
 
بہت عمدہ جناب فاروق درویش صاحب شاعر بھی ہیں یہ تو آج پتہ چلا
فاروق درویش صاحب چونکہ رد قادیانیت میں مشغول رہتے ہیں اور قادیانی جو نئے حربے اور چالیں نئی نسل کو گمراہ کرنے میں استعمال کرتے ہیں فاروق درویش صاحب ان کا اچھا خاصہ پوسٹمارٹم کرتے رہتے ہیں۔چونکہ بندہ ذرا دوسری سوچ کا حامل یعنی جیو اور جینے دو تو اس وجہ سے ان کے کام کو زیادہ توجہ نہیں دے پاتا ہے بہرحال وہ ایک عظیم کام کررہے ہیں
 
بہت عمدہ جناب فاروق درویش صاحب شاعر بھی ہیں یہ تو آج پتہ چلا
یہ کلام انکی طبیعت کی بھرپور عکاسی کرتا ہے،

گستاخ ِ نبی فتنہ و فنکار پہ لعنت
بدبخت صلیبی ترے افکار پہ لعنت

ہر شاتم ِ قرآن پہ افلاک کی پھٹکار
توہین ِ رسالت کے سزاوار پہ لعنت

جو ذات ہے عشاق کے ایمان کا محور
اس ذات کے دشمن سگ ِسنسار پہ لعنت

اس دور ِ صدآشوب کی سرکار پہ لعنت
ہر ننگ ِ وطن شاہ کے دربار پہ لعنت

افلاس کی قبروں سے یہ آتی ہیں صدائیں
لاشوں سے سجے بھوک کے بازار پہ لعنت

بک جائے جہاں دختر ِ مشرق سر بازار
اس محشرِ عصمت کے خریدار پہ لعنت

جب نوحہ ء بلبل پہ گلابوں کے ہوں ماتم
پھر کیوں نہ کریں والیء گلزار پہ لعنت

جب خلق ِ خدا راج کرے بن کے گداگر
کر کاسہ و کشکول کے انبار پہ لعنت

اے فتنہ ءامریکہ کی حرفت کے مصاحب
اے دست ِ فرنگی ترے کردار پہ لعنت

سلطانی ءجمہور کہ اغیار کا منشور
دو رنگی ء مے خانہ و میخوار پہ لعنت

مفرور ِ وطن دہشت ِ اغیار کے کرتار
ہر فتنہ ء مغرب کے وفادار پہ لعنت

سن دیس بھگت نعرہء دم مست قلندر
اس دھرتی کے ہر قاتل و غدار پہ لعنت

درویش و فقیروں پہ سدا رحمت ِ افلاک
محلوں میں بسے زر کے خریدار پہ لعنت
 
Top