محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
گلی قاسِم
گلزار
گلی قاسم میں آکر
تمہاری ڈیوڑھی پر رک گیا ہوں مرزا نوشہ
تمہیں آواز دوں پہلے۔۔۔ ۔۔۔ ۔
چلی جائیں ذرا پردے میں امراؤ
تو پھر اندر قدم رکھوں
چلمچی، لوٹا، سینی اٹھ گئے ہیں
برستا تھا جو دو گھنٹے کو مینہ، چھت چار گھنٹے تک
برستی تھی
اسی چھلنی سی چھت کی اب مرمت ہورہی ہے
صدی سے کچھ زیادہ وقت آنے میں لگا
افسوس ہے مجھ کو
اصل میں گھر کے باہر کوئلوں کے ٹال کی سیاہی لگی تھی
وہ مٹانی تھی
اسی میں بس کئی سرکاریں بدلی ہیں تمہارے گھر پہنچنے میں
جہاں کلن کو لے کر بیٹھتے تھے، یاد ہے ؟
بالائی منزل پر ؟
لفافے جوڑتے تھے تم لیئی سے
خطوں کی کشتیوں میں اردو بہتی تھی
اچھوتے ساحل اردو نثر چھونے لگ گئی تھی
وہیں بیٹھے گا کمپیوٹر
وہاں سے لاکھوں خط بھیجا کرے گا
تمہارے دستخط جیسے، وہ خوشخط تو نہیں ہوں گے
مگر پھر بھی
پرستاروں کی گنتی بھی اسد، اب تو کروڑوں میں ہے
تمہارے ہاتھ کے لکھے ہوئے صفحات رکھے جارہے ہیں
تمہیں تو یاد ہوگا
مسودہ جب رام پور سے، لکھنو سے، آگرہ سے
گھوما کرتا تھا
شکایت تھی تمہیں، یارب نہ سمجھیں ہیں نہ سمجھیں گے وہ میری بات
انہیں دے اور دل یا مجھ کو زباں اور
(یارب وہ نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے میری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور)
زمانہ ہر زباں میں پڑھ رہا ہے اب، تمہارے سب سخن غالب ( نوشہ)
سمجھتے کتنا ہیں ، یہ تو وہی سمجھیں یا تم سمجھو
یہیں شیشوں میں لگوائے گئے ہیں
پیرہن اب کچھ تمہارے
ذرہ سوچو تو قسمت چار گرہ کپڑے کی اب غالب
کہ تھی قسمت یہ اس کپڑے کی ، غالب کا گریباں تھا
تمہاری ٹوپی رکھی ہے
جو اپنے دور سے اونچی پہنتے تھے
تمہارے جوتے رکھے ہیں
جنہیں تم ہاتھ میں لے کر نکلتے تھے
شکایت تھی کہ سارے گھر کو ہی مسجد بنا رکھا ہے بیگم نے
تمہارا بت بھی اب لگوادیا ہے اونچا قد دے کر
جہاں سے دیکھتے ہو اب تو سب بازیچہء اطفال لگتا ہے
سبھی کچھ ہے مگر نوشہ( غالب)
اگرچہ جانتا ہوں ہاتھ میں جنبش نہیں بت کے
تمہارے سامنے اِک ساغر و مینا تو رکھ دیتے
بس اِک آواز ہے جو گونجتی رہتی ہے اب گھر میں
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
بشکریہ جناب راشد اشرف