سیما علی
لائبریرین
گلے لگ کر مرے وہ جانے ہنستا تھا کہ روتا تھا
نہ کھل کر دھوپ پھیلی تھی نہ بادل کھل کے برسا تھا
کبھی دل بھی نہیں اک زخم آنکھوں کی جگہ آنسو
کبھی میں بھی نہ تھا بس ڈائری میں شعر لکھا تھا
وہ ہر پل ساتھ ہے میرے کہاں تک اس کو میں دیکھوں
گئے وہ دن کہ اس کے نام پر بھی دل دھڑکتا تھا
یہاں ہر کشتیٔ جاں پر کئی مانجھی مقرر تھے
ادھر سازش تھی پانی کی ادھر قضیہ ہوا کا تھا
چھپا کر لے گیا اپنے دکھوں کو ساری دنیا سے
لگا تھا یوں تو ہم تم سا وہ جادوگر بلا کا تھا
استادِ محترم
نہ کھل کر دھوپ پھیلی تھی نہ بادل کھل کے برسا تھا
کبھی دل بھی نہیں اک زخم آنکھوں کی جگہ آنسو
کبھی میں بھی نہ تھا بس ڈائری میں شعر لکھا تھا
وہ ہر پل ساتھ ہے میرے کہاں تک اس کو میں دیکھوں
گئے وہ دن کہ اس کے نام پر بھی دل دھڑکتا تھا
یہاں ہر کشتیٔ جاں پر کئی مانجھی مقرر تھے
ادھر سازش تھی پانی کی ادھر قضیہ ہوا کا تھا
چھپا کر لے گیا اپنے دکھوں کو ساری دنیا سے
لگا تھا یوں تو ہم تم سا وہ جادوگر بلا کا تھا
استادِ محترم
آخری تدوین: