گلے ملنا

نظام الدین

محفلین
مرزا صاحب ہمارے ہمسائے تھے، یعنی ان کے گھر میں جو درخت تھا، اس کا سایہ ہمارے گھر میں بھی آتا تھا۔ اللہ نے انہیں سب کچھ وافر مقدار میں دے رکھا تھا۔ بچّے اتنے تھے کے بندہ ان کے گھر جاتا تو لگتا سکول میں آگیا ہے۔ان کے ہاں ایک پانی کا تالاب تھا جس میں سب بچّے یوں نہاتے رہتے کہ وہ تالاب میں 500 گیلن پانی بھرتے اور سات دن میں 550 گیلن نکالتے۔وہ مجھے بھی اپنے بچّوں کی طرح سمجھتے یعنی جب انہیں مارتے تو ساتھ مجھے بھی پیٹ ڈالتے، انہیں بچّوں کا آپس میں لڑنا جھگڑنا سخت ناپسند تھا۔ حلانکہ ان کی بیگم سمجھاتیں کے مسلمان بچّے ہیں، آپس میں نہیں لڑیں گے تو کیا غیروں سے لڑیں گے۔ایک روز ہم لڑ رہے تھے، بلکہ یوں سمجھیں رونے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ یوں بھی رونا بچّوں کی لڑائی کا ٹریڈ مارک ہے۔ اتنے میں مرزا صاحب آگئے۔
” کیوں لڑ رہے ہو “

ہم چپ ! کیونکہ لڑتے لڑتے ہمیں بھول گیا تھا کہ کیوں لڑ رہے ہیں۔انہوں نے ہمیں خاموش دیکھا تو دھاڑے، ” چلو گلے لگ کر صلح کرو “۔ وہ اتنی زور سے دھاڑے کہ ہم ڈر کے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے۔ اس بار جب میں نے لوگوں کو عید ملتے دیکھا تو یہی سمجھا کہ یہ سب لوگ بھی ہماری طرح صلح کر رہے ہیں۔
عید کے دن گلے ملنا، عید ملنا کہلاتا ہے۔پہلی بار انسان اس دن گلے ملا، جب خُدا نے اسے ایک سے دو بنایا۔ یوں آج بھی گلے ملنے کا عمل دراصل انسان کے ایک نہ ہونے کا اعلان ہوتا ہے۔ یہ عمل ہمیں دوسرے جانوروں سے مماز کرتا ہے کہ وہ گلے پڑ تو سکتے ہیں، گلے مل نہیں سکتے۔
(ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی کتاب ” افراتفریح ” سے اقتباس)
 
مدیر کی آخری تدوین:
گویا یہ شعر محبت کی علامت نہیں :p:LOL:
عید کا دن ہے گلے آج تو لگ جا ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی دستور بھی ہے​
 
Top