طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شہزاد احمد
گِلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں
ہم اِس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، مِلیں گے نہیں
جو بات دِل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سُنیں گے نہیں
جہاں میں کوئی بھی شے بے سَبب نہیں ہوتی
سَبب کوئی بھی ہو، اِنکار ہم سُنیں گے نہیں
عجب نہیں کہ ، اِسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہُوا ہے، کہ اب لڑیں گے نہیں
کِسی بھی خوف سے کیوں چھوڑدیں تِری قُربت
کہیں بھی جائیں، اِس الزام سے بچیں گے نہیں
جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دِل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں
ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تِیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اِس رات میں جلیں گے نہیں
شہزاد احمد
شہزاد احمد
گِلے ہزار سہی، حد سے ہم بڑھیں گے نہیں
ہے کوئی بات مگر آپ سے کہیں گے نہیں
ہم اِس لڑائی کو شرطِ ادب سمجھتے ہیں
وہ سامنے بھی اگر آ گیا، مِلیں گے نہیں
جو بات دِل میں ہے، خود اپنے کان میں کہہ لے
یہ گفتگو در و دیوار تو سُنیں گے نہیں
جہاں میں کوئی بھی شے بے سَبب نہیں ہوتی
سَبب کوئی بھی ہو، اِنکار ہم سُنیں گے نہیں
عجب نہیں کہ ، اِسی بات پر لڑائی ہو
معاہدہ یہ ہُوا ہے، کہ اب لڑیں گے نہیں
کِسی بھی خوف سے کیوں چھوڑدیں تِری قُربت
کہیں بھی جائیں، اِس الزام سے بچیں گے نہیں
جو ہم نے دیکھا ہے لفظوں میں کیسے آئے گا
جو نقش دِل میں ہیں، وہ ریت پر بنیں گے نہیں
ہوا کے ساتھ لپکتی ہے تِیرگی شہزاد
چراغ ہوں بھی تو اِس رات میں جلیں گے نہیں
شہزاد احمد
آخری تدوین: