میر گل برگ سے ہے نازک خوبئ پا تو دیکھو

احمد بلال

محفلین
گل برگ سے ہے نازک خوبئ پا تو دیکھو
کیا ہے جھمک کفک کی رنگِ حنا تو دیکھو

ہر بات پر خشونت طرزِ جفا تو دیکھو
ہر لمحہ بے ادائی، اس کی ادا تو دیکھو

سایہ میں ہر پلک کے خوابیدہ ہے قیامت
اس فتنہء زماں کو کوئی جگا تو دیکھو

بلبل بھی گل گئے پر مر کر چمن سے نکلی
اس مرغِ شوق کش کی ٹک تم وفا تو دیکھو

طنزیں عبث کرو ہو غش رہنے پر ہمارے
دو چار دن کسو سے دل کو لگا تو دیکھو

ہونا پڑے ہے دشمن ہر گام اپنی جاں کا
کوچے میں دوستی کے ہر کوئی آ تو دیکھو

ڈوبے ہے کشتی میری بحرِ عمیق ِ غم میں
بیگانے سے کھڑے ہو تم آشنا تو دیکھو

آئے جو ہم تو ان نے آنکھوں میں ہم کو رکھا
اہلِ ہوس سے کوئی اودھر کو جا تو دیکھو

ہے اس چمن میں وہ گل صد رنگ محوِ جلوہ
دیکھو جہاں وہی ہے ، کچھ اس سوا تو دیکھو

اشعارِ میر پر ہے اب ہائے وائے ہر سو
کچھ سحر تو نہیں ہے لیکن ہوا تو دیکھو
 

طارق شاہ

محفلین
ہر شعرکیا ہی اچھا ہے

بہت ہی خوب، بہت عمدہ، جناب !
شیئر کرنے پر بہت شکریہ، اور انتخاب پر ڈھیر ساری داد قبول کیجئے
بہت خوش رہیں
 

عاطف بٹ

محفلین
ہونا پڑے ہے دشمن ہر گام اپنی جاں کا
کوچے میں دوستی کے ہر کوئی آ تو دیکھو

واہ، بہت خوب۔ میر کا تو کیا ہی کہنا۔
 
Top