گناہوں کی راتیں

حیدرآبادی

محفلین
افسانہ ’ لحاف ‘ کے سلسلے میں عصمت چغتائی پر مقدمہ دائر ہوا تو وہ اپنے شوہر کے ساتھ مقدمہ کی پیروی کے لیے بمبئی سے لاہور پینچیں اور میاں ایم۔اسلم کے ہاں قیام کیا ۔ میاں صاحب نے حسبِ عادت نہایت خندہ پیشانی سے ان کا خیر مقدم کیا ۔ رات کو کھانے کے بعد عصمت سے انتہائی مشفقانہ لہجے میں کہنے لگے :
تمہیں علم ہے عصمت ! تمہارے بھائی عظیم بیگ کے میرے ساتھ برادرانہ مراسم تھے ۔ اس رشتہ سے میں تمہیں اپنی چھوٹی بہن سمجھتا ہوں ۔
اتنا کہہ کر انہوں نے عصمت کو سمجھانا شروع کیا :
شریف گھرانے کی بہو بیٹیوں کو ایسی کہانیاں نہیں لکھنی چاہئیں کہ عدالتوں اور کچہریوں تک کی نوبت آ جائے ۔ اب تم خود ہی سوچو کہ ایک بھائی کے لئے کتنی شرم کی بات ہے کہ اس کی بہن ۔۔۔۔۔
عصمت نے فوراً بات کو کاٹتے ہوئے جواب دیا
بھیا ! شروع میں تو میرا بھی یہی ارادہ تھا کہ چڑے چڑیا کی کہانی سے آگے نہ بڑھوں ، لیکن آپ کی ” گناہوں کی راتیں “ پڑھ کر نیت خراب ہو گئی ۔
 

شمشاد

لائبریرین
حیدرآبادی صاحب یہ اقتباس آپ کہاں سے لیئے؟ اس کا حوالہ بھی اگر لکھ دیں نہایت مناسب ہو گا۔
 

حیدرآبادی

محفلین
شمشاد نے کہا:
حیدرآبادی صاحب یہ اقتباس آپ کہاں سے لیئے؟ اس کا حوالہ بھی اگر لکھ دیں نہایت مناسب ہو گا۔
حضور والا ، یہ اقتباس نہیں ادبی لطیفہ ہے۔
روزنامہ سیاست حیدرآباد میں مجتبیٰ حسین کے ہفتہ وار کالم سے اخذ کیا گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے مجتبیٰ حسین کے کالم آپ بھی پابندی سے پڑھتے ہیں تو ذرا ایک جواب یہاں بھی دیں ، بیچارے مجتبیٰ بھائی کو تو محفل پر یہاں کسی نے بھی مبارکباد نہیں دی سوائے خاکسار کے۔ :roll:
 
Top