محمدکامران اختر
محفلین
آپ نے غالباً میرا جواب غور سے نہیں پڑھا۔ میں نے لکھا تھا کہ
اگر دو برائیوں (یا دو گناہوں) میں سے لازماًکسی ایک کو اختیار کرنا پڑے تو یہ ایک فقہی مسئلہ ہے (خواہ آپ اسے مانیں یا نہ مانیں) اور فقہا نے ہی یہ بتلایا ہے کہ اگردو گناہوں میں سے لازماً آپ کو ایک گناہ ”اختیار“ کرنا پڑے تو چھوٹے گناہ کو ناپسند کرتے ہوئے اسے محض اس لئے قبول کرلیں تاکہ بڑے گناہ سے بچ سکیں۔ مثلاً آپ اپنی والدہ کے ساتھکار میں کہیں جارہے ہوں اور سامنے کوئی بدمعاش کسی لڑکی کو اغوا کررہاہو اور آپ اُس لڑکی کو اغوا ہونے سے بچانے کی طاقت رکھتے ہوں اور اسی نیت سے بدمعاش کو روکنے کے لئے آگے بڑھتے ہوں اور آپ کی والدہ بدمعاش سے الجھنے کو آپ کے لئے خطرہ جان کر آپ کو حکم دے کہ تم اس معاملہ میں نہ پڑو۔ اب اگر آپ والدہ کی بات مانتے ہیں تو اپنے سامنے ایک لڑکی کو اغوا ہونے سے روکنے کی اہلیت رکھنے کے باوجود ایسا نہ کر کے، ایک ”بڑے گناہ“ کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اگر آپ والدہ کا حکم نہ مان کر لڑکی کو بچا لیتے ہیں اور اسے محفوط طریقہ سے گھر چھوڑ آتے ہیں تو آپ اس ”بڑے گناہ“ سے تو بچ جائیں گے لیکن والدہ کی نافرمانی کے نسبتاً ”چھوٹے گناہ“ سے نہیں بچ سکیں گے۔ اب یہ آپ کی ”عقل اور دانش“ پر منحصر ہے کہ آپ والدہ کا حکم ماننے کو ترجیح دیتے ہیں یا ایک بے گناہ لڑکی عزت و آبرو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
موجودہ الیکشن بقول آپ کے (اور علامہ طاہر القادری کے) ایک برائی ہے، جس کا بائیکاٹ کرنا چاہئے۔ دوسری طرف علماء کی ایک کونسل کہتی ہے کہ ووٹ دینا ایک شرعی فریضہ ہے۔ تیسسری طرف یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ اگر آپ جیسے دیانتدار اور مخلص ووٹرز کی ایک بڑی تعداد ووٹ نہیں ڈالتی (جو کبھی بھی قاتلوں، غیر ملکی ایجنٹوں، اور اربوں میں ملکی دولت لوٹنے والوں کو ووٹ نہیں ڈال سکتی) تو انہی ”بڑے لٹیروں“ کے منتخب ہونے کے چانسز بہت زیادہ ہیں۔ اب آپشن آپ کے ہاتھ میں ہے۔ شوق سے بائیکاٹ کرکے بالواسطہ ایسے ہی لوگوں کو منتخب ہونے میں ”مدد“ کیجئے۔
سر بہت شکریہ
آپ نے بہت خوبصورت انداز میں بات بیان فرما دی
تاہم میرے خیال میں یہاں معاملہ مختلف ہے۔ اچھے لوگوں کے ووٹ سے الیکشن کے نتائج پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ نتائج کا تعین فرشتوں کے ووٹ ہی کرتے ہیں اس لیے یہاں یہ اصول لاگو کرنا زمینی حقائق کے منافی ہے