گناہ گار پہ مجھ ایسے ہے، کرم اُس کا
تو پھر بھی کیوں نہیں لیتے ہیں نام ہم اس کا
پہلے مصرعے میں کچھ تعقید سی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی ایک بہتر صورت یہ ہو سکتی ہے: ہے جب مجھ ایسے گنہ گار (خطا کار) پر کرم اس کا
دوسرے مصرعے میں شتر گربہ کا شائبہ ہے (البتہ اگر خود کو خطا کار کہہ کر باقی سب کو بھی لپیٹ میں لینا مقصود ہو تو پھر نہیں)۔ اس کے علاوہ "بھی" بھرتی کا ہے۔ ایک صورت یہ ہو سکتی ہے: تو بھائی (یار، دوست، وغیرہ) کیوں نہیں لیتے ہیں نام ہم اس کا
جسے وہ اپنی طرف کھینچتا ہے، دنیا میں
اگر رکے، تو ہے ظاہر، رکے گا دَم اس کا
یہاں بھی تعقید معنوی کا خدشہ ہے۔ ضمیریں پلٹانے میں خاصی الجھن ہے۔
جنہیں خوشی کی تمنا ہے، خوش رہیں وہ لوگ
مجھے تو چاہیے، حزن و ملال، غم اس کا
غم کو بھی واو عطف کے ساتھ ترکیب میں لایا جائے تو بہتر ہو جائے گا۔ حزن و ملال و غم۔
ابھی تو مجھ پہ فقط مہربان ہے وہ رحیم
کہ میں نے دیکھا نہیں آج تک ستم اس کا
اس میں عقیدے پر آنچ آ سکتی ہے۔ ابھی کے استعمال سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کبھی ستم بھی ہو سکتا ہے۔
اِس ایسی اور بھی خلقت وجود میں آ جائے
تو ہو نہ پائے گا کچھ بھی خزانہ کم اس کا
مقدار کو ظاہر کرنے کے لیے اس ایسی مناسب معلوم نہیں ہو رہا۔ تنافر الگ ہے۔ ہو پانا بھی خلاف روزمرہ ہے۔