محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
گنتر گراس کو خراجعقیدت پیش کرنے کے لیے ہم نے ان کی نظم کا اردو ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ محفلین سے درخواست ہے کہ توجہ سے پڑھیں اور اپنی قیمتی رائے سے ضرور مطلع فرمائیں۔
کیا کہا جائے
شاعر گنتر گراس۔ ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن
کیا کہا جائے
شاعر گنتر گراس۔ ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن
آج میں لب کھول کر یہ برملا کیوں نہ کہوں
یہ جو اب ہے،
جو ابھی تک ہوچکاہے
ہورہا ہے آج بھیاور گزشتہ جنگ کے اس بے سر و پا کھیل میں
ہولناکی جس وقوعے کا مقدر ہوگئی
خاتمے پر جس کے ہم ہی تھے
خانماں برباد حاشیے کےخط کشیدہ چند لفظوں کی طرح
یہ ہے حقِ خود ارادی یعنی اِک خود ساختہ
اپنے دشمن پر، بنا چھیڑے ہی
شب خوں مارنے کا حق
جو کہ فارس کے مکینوں کو مٹادے
ایک دیوانے کی باتوں کے اسیر
سوچی سمجھی ایک سازش کے تحت، جشنِ طرب کے واسطے
اس لیے شاید کہ اُن کی اپنی جنت کے قریب
(اب یہ ان کاحسنِ ظن ہے یاکہ دیوانے کا خواب)
ایک مہلک بم بنایا جارہا ہے!
پھر میں کیوں قد غن لگاؤں اپنی سوچوں پر
اور ہونٹوں تک نہ لاؤں دوسرے خطے کا نام
جس زمیں پر چپ چپاتے ، ان گِنت سالوں سے
تاب کاری کے ہی پھیلانے کو، اک خفیہ عمل
ایک عفریتِ بھیانک پل رہا ہے
جو کسی بھی ضابطے کے دائرے سے ، آج ہے آزاد
مجلسِ اقوام نے اب تک جسے دیکھا نہیں
جس پہ میری خامشی ایک مہر کرتی ثبت تھی
میری حس یہ مجھ سے کہتی ہے
مجرمانہ خامشی
اور اک ادائے دلبرانہ
یعنی
اِک احساسِ جرم
جیسے ہی اس کو بھلا یا جاتا ہے؛
سامیت کا اور یہودیت کااِک نعرہ
بھلا لگتا ہے کانوں کو
اور بہت مقبول ہے
آج ، جبکہ میرے اس گھر میں
جو ہے وطن میرا
گاہے گاہےخود کو ہی میں یوں سزا دیتا رہا
تھا ایک ایسا جرم جس کا کوئی بھی ثانی نہیں
جو حقیقت میں کسی بنیے کی چالوں کی طرح
ہم کو کہیں گھیرے رہا
نرم ہونٹوں سے کبھی
نرم سی آواز میں رسمی کہیں اِک احتجاج
آج بھی ان جھوٹی رسموں کو بھلا کر
ہم بنی یعقوب کی جانب اگر دیکھیں
جو کہ ماہر ہیں کہ
اپنے زہر میں ڈوبے ہوئے تیروں کو ہی
اُس طرف کردیں جہاں شایدکسی نے بم لگایا ہو
یا شاید کچھ نہیں
( خوف کے عالم میں جب کوئی لرزتا ہے)
میرے لب پر آگیا اب وہ جو کہنا ہے مجھےجو آج تک لب پر مرے آیا نہیں
میں نے یہ جانا کہ شاید میرا اپنا ہی وجود
اور مری اپنی ہی نسل
اپنے پرکھوں کے لگائے بد نما اس داغ کودھو ڈالنے کے واسطے
جو کہ شاید اب کبھی دھل نہ سکے
ہاں اسی احساسِ جرم و شرم نےبخشابنی یعقوب کو ،
ایک شرمندہ وجود،
اور اس کو یوں ہماری سرپرستی میں رکھا قائم
اور پھر میری یہی خواہش رہی
میں کہ اس احساس کو زندہ رکھوں
آنے والی ساری نسلوں کے لیے
ایک کڑوا گھونٹ جو پینا ہی تھا
آج، اب میں کیوں یہ لکھتا ہوں
اپنی بوڑھی اور لرزتی انگلیوں سے
اپنے بوسیدہ قلم سے
جس کی سیاہی خشک ہوتی جارہی ہے
اے بنی یعقوب سن لو!
اب تمہاری تابکاری کے تجربوں کی حقیقت
امنِ عالم کے لیے
کتنا بڑا ناسورہے
اس لیے شاید کہ کل اس سچ کو منہ سے بولنا
کل بہت ہی دیر ہوجائے اور شاید اس لیے بھی کہ جرمن قومیت ،
جرم کے احساس کا یہ بوجھ اُٹھائے
ان گنت سالوں سے جیتے ہیں
کل اِک ایسے جرم کے ہم مرتکب ٹھہریں
(عیاں ہے روز روشن کی طرح )
شاید اس کی بھی تلافی ہم کبھی نہ کرسکیں