گنجِ گراں مایہ

الف عین

لائبریرین
علیگڑھ یونیورسٹی میں آل انڈیا مشاعرہ تھا پورے ہندوستان سے شعراء مدعو تھے ،شعرا کا ایک جمِّ غفیر یونیورسٹی پہنچا ہوا تھا،ان شعراہ میں دو سگے بھأی " کاندھلے " سے بھی آۓ ہوے تھے اور یہ دونوں بھایٔ اتّفاق سے گنجے تھے اور بہت ہی شریر قسم کے تھے ان دونوں نے اپنے قہقہوں اور پھبتیوں سے پورا پنڈال سر پر اٹھا یا ہوا تھا مولانا ظفر علی خاں صاحب یہ سارا ماجرا بے بسی سے دیکھ رہے تہےلیکن کچھ کہتے نہ بنتی تھی ادھر مشاعرہ شروع ہونے میں کچھ دیر تھی کچھ اساتذہ کا انتظار ہورہا تھا اس مشاعرہ کا مصرع طرح : قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا تھا۔ جب یہ دونوں گنجے شاعر بھایٔ کسی طرح صحیح نہ ہوۓ تو مولانا صاحب سے نہ رہا گیا۔ مولانا صاحب اٹھے اور مایٔک پر تشریف لاۓ اور یوں گویا ہوۓ ۔
حاضرین مشاعرہ شروع ہونے میں ابھی شاید کچھ اور دیر لگے اس لیے جب تک میں نے جو اس مصرع طرح میں گرہ لگایٔ ہے وہ سماعت فرمایٔے۔ جب خاموشی طاری ہو گیٔ تو مولانا نے گرہ کا شعر پڑھا، فرمایا
آتا ہے کاندھلے سے جو لاتا ہے ساتھ گنج
قاروں نے راستے میں لٹایا خزانہ کیا
بس جناب پھر کیا تھا پورا پنڈال قہقہوں سے گونج اٹھا اور وہ دونوں گنجے شاعر بھأی ایسے بھیگی بلّی بن کر بیٹھے کہ جیسے مشاعرے میں شریک نہ تھے۔
 

الف عین

لائبریرین
تو معامل گنج ھائے گراں مایہ کا ہے۔۔۔
تو نے یہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کئے۔
اب عنوان تبدیل کر دوں کیا کہ یہاں مزید لطیفے واقع ہو رہے ہیں۔
 
Top