سید عمران
محفلین
اشرف صبوحی
آہ دلّی مرحوم جب زندہ تھی اور اس کی جوانی کا عالم تھا۔ سہاگ بنا ہوا تھا، اس پر کیا جوبن ہوگا۔ اب تو نہ وہ رہی نہ اس کے دیکھنے والے رہے۔ کلوّ بخشو کےتکیے پر سوتے ہیں۔ اگلی کہانیاں کہنے والا تو کیا کوئی سننے والا بھی نہیں رہا۔ غدر نے ایسی بساط الٹی کہ سارے مہرے تتر بتر ہوگئے۔ دلّی کا نقشہ بگڑ گیا۔ آن گئی، زبان دیوانی ہنڈیا ہوئی۔ لباس بدلا، معاشرت کے ڈھنگ بدلے، پرانے رسم و رواج اور پرانی لکیروں کو نئی تعلیم نے مٹادیا۔ قدیم ہنر مند دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔ اہل کمال، کس نمی پر سد کہ بھیا کیستی’’ ہوگئے۔ شریفوں نے گوشہ نشینی اختیار کی۔ لوٹ کیا مچی کہ سب کچھ لٹ گیا کہنے کو وہی شہر ہے، وہی بازار، وہی گلی کوچے، لیکن وہ زندگی کہاں؟ نہ وہ آدمی، نہ وہ باتیں، نہ وہ اپنی دلّی، نہ وہ اپنا تمدّن۔
زندگی نام ہے زندہ دلی کا۔ زندہ دلی نہیں تو زندگی کے کیا معنی؟ ہماری نئی تانتی کا دعوا ہے کہ وہ جمود کا زمانہ تھا، یہ حرکت کی دنیا ہے۔ وہ تنزل کی آخری منزل تھی، اب ترقی کا دور ہے۔ جو چاہے سو کہیں لیکن ہم تو یہی کہیں گے اور برابر کہے جائیں گے کہ ہمیں ہنسوں کی چال راس نہیں۔ گرم ملک میں ٹھنڈی ہواؤں سے لقوہ مار جاتا ہے۔ پراے شگون میں ناک بغیر کٹے کیا مجال ہے کہ رہے۔ قلعہ اجڑنے اور بہادر شاہی ٹینٹ اکھڑ جانے کے بعد آج سے پینتیس چالیس برس پہلے تک جیسے خوشحال دلّی والے جیتے تھے آج نہیں جی سکتے۔ شادی بیاہ، مرنے جینے کے سوا اتنی فضول خرچیاں اور فیشن پرستیاں نہ تھیں۔ پھر اپنے ملک کی دولت اپنے بھائیوں کی کمائی اپنے ہی گھروں میں رہتی تھی۔ صرف روپیہ مہنگا تھا اور ہر چیز سستی۔ ایک روپے کے بتیس ٹکے اور ایک ٹکے کی ایک سو ساٹھ کوڑیاں دو کوڑی کا دام اور چار گنڈے کا چھدام۔ دام اور چھدام میں نون مرچ، ساگ پات خریدا جاسکتا تھا۔ کر مکینوں کی عموماً تنخواہیں نہ تںیا۔ شادی بیاہ تیج تہوار کی آس میں خدمتیں کرتے تھے اور مگن رہتے تھے۔ آج روپیہ جتناسستا ہے اتنی ہی زندگی گراں ہے اور بات فقط اتنی ہے کہ غیرملکوں سے لین دین ہوگیا ہے۔ شرح تبادلہ اپنے ہاتھوں میں نہیں۔ بٹّا لگتے لگتے کھک ہوکر رہ گئے۔
شہر اجلا ضرور ہوگیا ہے۔ بازار بجلی کے ہنڈوں سے جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں مگر اصلیت کا اندھیر ہے۔ جھوٹا جھول چڑھا ہوا ہے۔ اجناس ہیں تو اجنبی، بولیاں ہیں تو بیسنی، مخلوق ہے تو پچ رنگی۔ لباس دیکھو تو بھان متی کا تماشا۔ یہ دلّی ہماری دلّی تو رہی نہیں خاصا تھیٹر ہے۔ جب سے اس بوڑھی گھوڑی کو لال لگام کاشوق ہوا ‘ماں ٹینی باپ کلنگ بچے نکلے رنگ برنگ’ والی مثل صادق آگئی۔ ٹھیٹ ہندوستانی مذاق ہی نہ رہا۔ پہننے اوڑھنے کے ساتھ کھانے پینے کی ترکیبوں میں بھی فرق آگیا۔ شہر میں چپے چپے پر یہ ہوٹل کہاں تھے۔ بازاروں میں بیٹھ کر یوں کھلم کھلا کون کھاتا تھا؟ گلیوں میں بھٹیاروں کی دکانیں تھیں یا نان بائی تھے۔ یا شہر کے خاندانی باورچی جو شادی وغمی کی پخت کرتے تھے۔ بھٹیارے غریبوں، مزدوروں اور کم استطاعت مسافروں کا دوتین پیسے میں پیٹ بھر دیتے تھے۔ نان بائیوں کے ہاں شیرمال، باقرخانی، کلچے اور خمیری روٹیاں پکتی تھیں لیکن چونکہ اِن کا کام تیس دن کا نہ تھا اس لیے جاڑے بھر یہ نہاری کی دکان بھی لگاتے تھے۔
نہاری کیا تھی بارہ مسالے کی چاٹ ہوتی تھی۔ امیر سے امیر اور غریب سے غریب اس کا عاشق تھا۔ نہاری اب بھی ہوتی ہے اور آج بھی دلّی کے سوا نہ کہیں اس کا رواج ہے نہ اس کی تیاری کا کسی کو سلیقہ۔ دلّی کا ہر بھٹیارا نہاری پکانے لگا، ہر نان بائی نہاری والا بن بیٹھا۔ مگر نہ وہ ترکیب یاد ہے نہ وہ ہاتھ میں لذّت۔ کھانے والے نہ رہیں تو پکانے والے کہاں سے آئیں۔ سنا ہے کہ جب سعادت خاں نے جمنا کی شاہ جہانی نہر کو جو جابجا سے اَٹ کر خشک ہوچکی تھی دوبارہ شہر میں جاری کیا ہے تو علوی خان حکیم نے ماتمی لباس پہن لیا تھا۔ محمد شاہ نے اِس غم و افسوس کا سبب دریافت کیا تو کہا مجھے دلّی والوں کی تندرستی کا رونا ہے۔ اب یہ بیماریوں کا گھر ہوجائے گا۔ علاج پوچھا تو بتایا کہ اگر لال مرچیں اور کھٹائی کا استعمال زیادہ کیا جائے تو شاید بچ سکیں۔ چنانچہ ہر گھر میں مرچوں کی بھرمار ہوگئی اور آج تک دلّی کے قدیم گھرانوں میں مرچیں زیادہ کھائی جاتی ہیں۔ چونکہ مرچوں کادف گھی سے مرتا ہے اس لیے جب تک گھی خالص اور سستارہا مسالے دار کھانوں سے کوئی نقصان نہ پہنچا۔
نہاری کا نام سن کر باہر والے لوٹ جاتے ہیں۔ ملنے والوں سے نہاری کی فرمایش ہوتی ہے۔ اب اگر میزبان سلیقے مند ہے تو خیر ورنہ کھانے والوں کو منہ پیٹنا پڑتا ہے۔ چار آنے کی نہاری میں آٹھ آنے کاگھی کون ڈالے۔ پھر آج کل والے یہ بھی نہیں جانتے کہ نہاری کے بعد تر تراتے حلوے یا گاجر تری سے مسالوں کی گرمی کو مارا جاتا ہے۔ اس لیے نہاری بدنام ہوگئی ہے۔ اس کے سوا نہاری بیچنے والوں کو بھی تمیز نہیں رہی۔ ایرے غیرے نتھواخیرے نہاری کی دُکانیں لے بیٹھے ہیں۔ پہلے گنتی کے نہاری والے تھے۔ ایک چاندنی چوک میں۔ ایک لال کنویں پر۔ ایک حبش خاں کے پھاٹک میں اور ایک چتلی قبر اور مٹیامحل کے درمیان۔ ان میں سے ہرایک شہر کا ایک ایک کونا دبائے ہوئے تھا۔ سب سے زیادہ مشہور گنجے نہاری والے کی دکان تھی جو گھنٹہ گھر کے پاس قابل عطّار کے کوچے اور سیدانیوں کی گلی کے بیچ میں بیٹھتا تھا۔ جب تک یہ زندہ رہا، نہاری اپنے اصلی معنوں میں نہاری رہی۔ یہ کیا مرا کہ نہاری کا مزہ ہی مرگیا۔ نہاری کیا کھاتے ہیں کلیجا جلاتے ہیں۔
یہ دکان ہم نے دیکھی ہے، بلکہ وہاں جاکر نہاری بھی کھائی ہے۔ شوقین دور دور سے پہنچتے تھے۔ گرم گرم روٹی اور تُرت دیگ سے نکلی ہوئی نہاری۔ جتنی نلیاں چاہیں جھڑوائیں۔ بھیجا ڈلوایا۔ پیاز سے کڑکڑاتا ہوا گھی، بوم کی بے ریشہ بوٹیاں۔ ادرک کا لچھا۔ کتری ہوئی ہری مرچوں کی ہوائی اور کھٹے کی پھٹکار۔ سبحان اللہ نواب رام پور کا پورا دسترخوان صدقے تھا۔ گھروں میں اِس سامان کے لیے پورے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس لیے جو اصل میں نہاری کا لُطف اٹھانا چاہتے تھے، انھیں دکان ہی پر جانا پڑتا تھا۔ شہر کے نہاری بازوں کی آج بھی نہاری والوں کے ہاں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ صبح سے دس بجے تک تانتا نہیں ٹوٹتا، تو اس کا ذکر ہی کیا خصوصاً گنجے کی دکان پر۔ سورج نکلا نہیں کہ لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ دس اندر بیٹھے کھا رہے ہیں تو بیس پیالے، کٹورے بادیے، پتیلیاں لیے کھڑے ہیں۔ ایک پیسے سے لے کر دو روپے کے گاہک ہوتے تھے۔ لیکن مجال ہے کوئی ناراض ہو یا کسی کو اس کی مرضی کے مطابق نہ ملے۔ زیادہ سے زیادہ نو بجے دیگ صاف ہوجاتی تھی۔ اجلے پوشوں کے لیے بالاخانے پر انتظام تھا جہاں سب طرح کی آسانیاں تھیں۔
یہ دکان دار گنجے نہاری والے ہی کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی آن کا کیا کہنا۔ سنا ہے کہ چھنّا مل والے دہلی کے رئیس اعظم اس کی دکان کو خریدنا چاہتے تھے۔ ہزار کوششیں کیں۔ روپے کا لالچ دیا۔ جایداد کی قیمت دُگنی اور چوگنی لگادی، یہاں تک کہ دکان میں اشرفیاں بچھادینے کو کہا۔ دوسرا ہوتا تو آنکھیں بند کرلیتا۔ وہیں کہیں قابل عطّار کے کوچے میں، بلی ماروں میں یا رائے مان کے کوچے میں جابیٹھتا۔ لیکن میاں گنجے مرتے دم تک اپنی اسی آن سے وہیں بیٹھے رہے۔
ہم پانچ چار دوست پیٹ بھر کر نہاری کے شوقین تھے۔ جاڑا آیا اور نہاری کا پروگرام بنا۔ یوں تو اتوار کے اتوار باری باری سے کسی نہ کسی کے گھر پر نہاری اڑا ہی کرتی تھی لیکن ہر پندرہویں دن اور اگر کوئی باہر کا مہمان آگیا تو اس معمول کے علاوہ بھی خاص دکان پر جاکر ضرور کھا لیا کرتے تھے۔ ہمارا دستور تھا۔ ہم پر کیا منحصر ہے نہاری بازوں کے یہ بندھے ہوئے قاعدے ہیں کہ صبح کے لیے رات سے تیاری ہوتی تھی۔ تازہ خالص گھی دو چھٹانک فی کس کے حساب سے مہیا کیا جاتا تھا۔ گاجر کا حلوا حبش خاں کے پھاٹک یا جمال الدین عطّار سے لیتے تھے۔ اور تو کیا کہوں اب ویسا حلوا بھی کھانے میں نہیں آتا۔ گندے نالے کی پھکسی ہوئی نیلی سفید، پھیکی سیٹھی، کچی یا اتری ہوئے گاجروں کی گلتھی ہوتی ہے۔ اب اور کیا تعریف کروں۔ خیر! صبح ہوئی، موذّن نے اذان دی اور نہاری نے پیٹ میں گدگدیاں کیں۔ ہمارے دوستوں میں خدا بخشے ایک سید پونیے تھے۔ بڑے زندہ دل، یاروں کے یار، نہایت خدمتی۔ یہ ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ اندھیرے سے اٹھ کر ایک ایک دوست کے دروازے کی کنڈی پیٹیں، گالیاں کھائیں، کوسنے سنیں اور ایک جگہ سب کو جمع کردیں۔ سامان اسی غریب پر لادا جاتا۔
جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے۔ رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچہ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچہ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دلچسپی ہوگئی تھی۔ تین چار موقعوں پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔ اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔
باتیں بڑے مزے کی کرتے تھے۔ مجھ کو پرانے آدمیوں سے پرانی باتیں سننے کا بچپن سے لپکا ہے۔ جب تک دکان لگتی، گاہک آتے، میں ان کا دماغ چاٹا کرتا۔ ایک دفعہ سترھویں دیکھنے میرے چند دوست باہر سے آگئے اور آتے ہی فرمایش کی ‘‘یار نہاری نہیں کھلواتے’’، میں نے کہا ‘‘نہاری! کل صبح ہی سہی۔ وہیں سے نظام الدین چلے چلیں گے۔’’ شام کو سید پودینےسے کہہ دیا اور سویرے ہی دکان پر جاپہنچے۔ دیگ ابھی کھلی نہ تھی۔ تنور گرم ہو رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی گنجے صاحب کہنے لگے ‘‘حضّت پندہ منٹ انتظار کرنا پڑے گا۔ ذرا تنور کا تاؤ آجائے۔ مگر آج یہ آپ کے ساتھ کون صاحب ہیں، پنجاب کے معلوم ہوتے ہیں۔ سترھویں میں آئے ہوں گے۔’’
‘‘ہاں خاص لاہور کے رہنے والے ہیں۔ میں نے کہا کیایاد کریں گے۔ نہاری تو کھلادو۔
‘‘مگر میاں نہاری میں تو مرچیں زیادہ ہوں گی۔’’
‘‘جو کچھ بھی ہو۔ کوئی صورت ایسی نہیں کہ مرچوں کی جھونجھ کم ہوجائے۔’’
‘‘کھٹے اور گھی کے سوا اور کیا علاج ہے لیکن میاں تمہارے کھانے کا مزہ جاتا رہے گا۔ ہر چیز قاعدے سر کی ہونی چاہیے۔ خیر اللہ مالک ہے کھلاؤ تو سہی۔’’
‘‘بھئی منہ نہ پٹوادینا۔ ایسا نہ ہو کہ نیکی برباد گناہ لازم ہوجائے۔’’
‘‘اپنی طرف سے تو کمی کروں گا نہیں، پھر بھی ناک آنکھ بہنے لگے تو اِن کی تقدیر۔’’
‘‘تم بھی سترھویں میں جاؤگے۔’’
‘‘کئی کئی برس ہوگئے۔ جانے کو جی نہیں چاہتا۔ کہاں جائیں اور کیا دیکھیں؟ آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں۔ ایک سترھویں کیا کوئی میلا اب نگاہ میں نہیں جچتا۔ غدر سے پہلے کی سترھویاں بھی دیکھیں اور غدر کے بعد کی بھی۔ بادشاہی کا بڑھاپا تھا اور میرا بچپن مگر وہ رونق، وہ چہل پہل، وہ بہار کہیں بھولنے والی ہے۔ میاں ان وقتوں کا تو کہنا ہی کیا گھر کا وارث زندہ تھا۔ دلّی رانڈ تھوڑی ہوئی تھی۔ دس برس پہلے تک بھی ان میلوں میں گہما گہمی ہوتی تھی۔ اس کا بھی افسانہ ہی افسانہ سن لو۔’’
‘‘ان دنوں میں کیا انوکھی بات ہوگی۔ ایک بادشاہ نہ رہے اور تو سب کچھ وہی ہے۔ وہی شہروالے، وہی محبوبِ الہٰی کا مزار۔’’
‘‘اب میں آپ سے کیا کیوں۔ بس یہ سمجھ لو کہ دولہا سے برات ہوتی ہے۔ پھر دلّی کے وہ دل والے اور شوقین جیوڑے کہاں رہے۔’’
‘‘تو کیا یہ جتنے سترھویں میں جاتے ہیں دلّی والے نہیں ہوتے؟’’
‘‘ہوتے ہیں لیکن سو میں سے بیس۔ وہ بھی مزدور یا کارخانے دار ہے۔ شرفا وہ سادے دنوں میں زیادہ جاتے ہیں۔ سترھویں میں گئے تو چپکے سے فاتحہ پڑھی، ختم میں شریک ہوئے اور واپس چلے آئے۔’’
‘‘آخر غدر سے پہلے کی سترھویں میں کیا خوبی تھی جو آج نہیں۔’’
‘‘میاں بس خوبی یہی تھی کہ وہ عقیدت کا میلا ہوتا تھا۔ اب ایک تماشا ہے۔ چونّی پھینکی اور کھٹ سے تھیٹر میں جابیٹھے۔ ناچ دیکھا، گانا سُنا، تالیاں بجائیں، کچھ پھبتیاں اڑائیں اور چلے آئے۔ یہ کیا مزے داری ہے کہ بھاگا بھاگ پہنچے۔ ریلتے پیلتے اندر گئے۔ قوالی میں ایک کے کندھے پر دوسرا سوار ہوا۔ اِدھر جھانکا ادھر تاکا، کہنیاں مارتے دھکّے کھاتے باہر آئے۔ مدرسے میں جاکر گنبد میں آوازیں لگائیں، گھاس روندی، تاش کھیلے، پان کھائے، سودے اڑائے اور خاک پھانکتے گھر آگئے۔ واہ بھئی واہ۔’’
‘‘تو کیا پہلے سترھویں میں جانے والے سر کے بل جاتے تھے؟’’
‘‘محبوب الہٰی کی اولیائی کو پہچاننے والے سر کے بل ہی جاتے تھے اور میاں آنکھوں والے آج بھی سر کے بل جاتے ہیں۔’’
‘‘تم میرا مطلب نہیں سمجھے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا پہلے یہ باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ تم نے تو بادشاہی کی سترھویں بیہ دیکھی ہے۔ آخر ہم بھی تو سنیں اس وقت اس میلے کا کیا رنگ تھا۔’’
‘‘پچاس پچپن برس کی باتیں ہیں۔ پوری پوری تو کہاں یاد۔ دوسرے اپنے ہوش میں غدر سے پہلے کی ایک ہی سترھویں میں نے دیکھی بھی تھی، ہاں کچھ آنکھوں دیکھے اور کچھ کانوں سُنے حالات ملاکر سُناتا ہوں۔ سب سے پہلے درگاہ میں مشائخ جمع ہوتے تھے۔ سترھویں کی رات شہر کے عقیدت مند پہنچ گئے۔ اوّل ختم ہوا، رات کا وقت، قندیلیں روشن، اللہ والوں کا مجمع، برکات کی بارش، وہ سماں دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ کالے سے کالے دل نور سے بھر جاتے تھے۔ پھر قوالی شروع ہوئی۔ صاف ستھرے اہلِ دل قوالوں کی ٹولیاں، درد بھری آوازیں، اللہ ہو کے زمزمے، فارسی اردو، بھاشا کا کلام جس سے پتھر موم ہوجائے۔ انسان کا کیا بوتا ہے کہ چُپ بیٹھا رہے۔ جس کو دیکھو لوٹن کبوتر۔ رات پھر یہ ہو حق رہی۔ صبح کو بادشاہ آئے۔ سرجھکائے ہوئے مودّب، دست بستہ، پیچھے پیچھے امیر، وزیر، شاہ زادے نیچی نگاہیں۔ خاموش۔ درگاہ میں فاتحہ پڑھی۔ چار اشرفیاں اور بتیس روپے نذر چڑھائی۔ دو سو روپے عُرس کی نیت کے خادموں کو دیے، ختم میں شرکت کی۔ اتنے میں خادم تبرک کی ہنڈیاں اور پھیٹنے لائے۔ حضور نے سرجھکاکر پھیٹنا بندھوایا، ہنڈیا چوب دار نے سنبھالیں اور ایک اشرفی تبرک کی دے کر سوار ہوگئے۔’’
اب شہر کی خلقت آنے لگی۔ قوالی زوروں پر ہے، خلقت ٹوٹی پڑی ہے۔ درگاہ میں نذریں چڑھ رہیں ہیں۔ خادموں کی گوڑی ہو رہی ہے۔ خادم اپنی اپنی اسامیاں تاک تاک کر لوگوں کو لپک رہے ہیں۔ جس کو دیکھو دو دو تبرک کی ہنڈیاں، کھیلیں، بتاشوں، شکرپاروں سے بھری آٹے سے منہ لپا ہوا، ہاتھوں میں لیے۔ دو ہتہ کے سبز اور سفید پھیٹنے سر پر لپیٹے چلاجاتا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سلطان جی کے دربار سےخلعت اور انعام مل رہا ہے۔ آج کل کی طرح یوں ہی بے کار نہیں سمجھتے تھے۔ خادموں کا بھی یہ حال نہ تھا کہ غریبوں کی بات نہ پوچھیں۔ امیروں کے گرد منڈلاتے پھریں۔
گیارہ بجے تک اچھے شہری اور عرس سے غرص رکھنے والے رخصت ہوئے۔ میلا دیکھنے والے بانکے ترچھے آپہنچے۔ درگاہ شریف میں گانا ہو رہا ہے۔ ادھر باولی پر ہجوم ہوگیا۔ کوئی سیڑھیوں پر بیٹھا نہا رہا ہے۔ کدائی ہو رہی ہے۔ پیراکی کے کمال دکھائے جارہے ہیں۔ دکان دار کھلونے والے، پٹوے بساطی، کاٹ کے کھلونوں، بچوں کو لبھانے والی طرح طرح کی چیزوں سےدکانیں سجاتے۔ کچالو والے بڑے بڑے چھیبے، ہرے ہرے کیلے کے پتے بچھے ہوئے، ابلے ہوئے آلوکچالو ایک طرف، امرود، ناشپاتی، کمرک، نارنگیاں، کوری ہنڈیا میں مسالا۔ ترشے ہوئے کھٹے، لیمو، سُریلی آواز میں ‘‘چاٹ ہے بارہ مسالے کی’’ پکارتے کہیں کبابی گولے پسندے کے کباب۔ تئی والے، گولی، کلیجی، بھیجے کے کباب گرم گرم تلتے، کسی طرف برف والے بڑے بڑے ہنڈے جن میں ربڑی، کھرچن، پستے کی قفلیاں، آپ خورے جمائے ‘‘آنے والی ٹکے کو، ٹکے والی پیسے کو’’ کہہ کہہ کر غل مچارہے ہیں۔ لونگ چڑے والے لمبی لمبی کاٹ کی کشتیوں میں بیسن کی پھلکیاں کچھ پانی میں بھیگی کچھ ویسی ہی۔ انڈے کی ٹکیاں، مچھلی کے کباب لگائے۔ بیسویں چھڑی والے کاغذ کے پھول، پنکھے، توتے، چڑیاں، روئی کے لنگور لیے، سقّے کٹوریاں بجاتے، ساقی حُقّہ پلاتے سیکڑوں فقیر مداریے زنجیریں ہلاتے گرز کھڑکاتے۔ کہیں ہنڈولا گڑا، مدرسے کی سڑک پر خمریوں کے جتھے کے جھتے، یکوں، گاڑیوں، رتھوں، بہیلیوں کے ساتھ ساتھ دوڑتی اور مانگتی جاتی ہیں۔ ‘‘اللہ خیریں ہی خیریں رہیں گی، تیرے من کی مرادیں ملیں گی۔ تجھے حق نے دیا ہے۔ دیا ہے۔ تیرے بٹوے میں پیسا دھرا ہے دھرا ہے۔ تجھے مولا نوازے ،دے جا۔ دے جا۔’’
دوپہر ڈھلی تو میلا ہمایوں کے مقبرے میں جسے دلّی والے مدرسہ کہتے ہیں، آیا۔ یہاں کی کیفیت ہی اور ہوتی۔کہیں گانا بجانا ہے تو کہیں کھانا پینا۔ کبڈی کھیلی جارہی ہے، تاش اڑ رہا ہے۔ کوئی بھول بھلیوں میں ہکا بکا چکراتا ہے، کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں لپٹا ہواہے، پتنگ بازی ہو رہی ہے۔ بگلا، چڑا، کل دُمہ، پری کنکوّے اور کل سری، لَل دُمی، کلیجہ جلی، الفن تکلیں بڑھ رہی ہیں۔ کہیں اِچّم ہے کہیں ڈھیلیں چلنے لگیں۔ کسی نے کاٹا کوئی کٹ گیا۔ کسی کی کنچہی پھٹ گئے، کسی کا کنّا نکلا، کسی کی دال چیوّ ہوگئی۔ اسی اثنا میں کسی شہزادے کی سواری آئی۔ آگےآگے سپاہیوں کے تمن ہیں۔ باجا بجتا آتا ہے، نقیب چوب دار پکارتے آتے ہیں: ‘‘صاحب عالم پناہ سلامت’’ عماری میں آپ بیٹھے ہیں۔ خواصی میں مورچھل ہو رہا ہے۔ مقبرے کے دروازے پر فیل بان نے ہاتھی بٹھایا۔ سب جلوس ٹھیرا، سلامی اتری، کہاروں نے پالکی لگادی۔ سوار ہوکر اندر آئے، دو خواص مورچھل لے کر اِدھر ادھر ہوگئے ‘‘ہٹو بڑھو صاحب!’’ کی آوازوں کے ساتھ چلے۔ مقبرے کے چبوترے پر اتر کر پیدل ہوئے۔ اوپر آئے۔ فرش فروش مسند تکیہ آراستہ تھا۔ سپاہیوں کا پہرہ لگ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھے، میلے کی سیر دیکھی۔ گانا سُنا اور سوا رہوگئے۔ یہ کیا چلے کہ میلا اکھڑا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چمپت ہوئے۔ لیجیے صاحب سترھویں ختم۔
یہ صبح ہوتے کی خوابیدہ کہانی سُن کر میں چھیڑنے کو کہا ‘‘پھر اس میں کون سی نئی بات ہوئی۔ اس وقت بے کار اور گھر پھونک تماشا دیکھنے والوں کی زیادتی تھی۔ ان ہی بےہود گیوں اور فضول خرچیوں کا تو آج خمیازہ بھگت رہے ہیں۔’’ چہرہ تمتما گیا جل کر کہنے لگے۔ آپ پر تو نیا رنگ چڑھ رہا ہے۔ میاں وہ قلعے کادسترخوان ہی اٹھ گیا۔ اب کیا کہوں۔ میاں اس وقت کی دلّی جنت تھی جنت۔ اور دلّی والے جنتی۔ آج کل جیسی دوزخ نہ تھی۔ سچ ہے جیسی گنڈی سیتلا ویسے ہی پوجن ہار۔ یہی خیالات ہیں تو آکے سیر دیکھنا۔ اچھا اب آپ اوپر تشریف لے جائیے۔ آپ کے لائق روٹیاں اتر آئی ہیں۔ گھی کڑکڑا رہا ہوں۔ نہاری بگھری اور میں نے کھانا بھیجا۔ بسم اللہ۔
یہ حقیقت ہے کہ اس زمانے میں اگلی سی فارغ البالیاں نہیں رہیں۔ نہ دلوں میں امنگیں ہیں نہ جذبات میں زندگی۔ میلے ٹھیلے اوّل تو جاتے ہیں رہے۔ نئی تعلیم نے انھیں دیس نکالا دے دیا اور جو دوچار مذہبی رنگ لیے ہوئے باقی ہیں ان پر برابر افسردگی چھاتی جاتی ہے۔ پرانے لوگ پرانی باتوں کو جتنا روئیں بجا ہے کہ انھوں نے اپنی بادشاہت، اپنی حکومت اور اپنا گھر آباد دیکھا تھا۔ عید، بقرعید، شبِ برات، محرم، سترھویں آج بھی ہوتی ہے۔ کہیں کہیں بسنتیں اور کبھی کبھی پھول والوں کی سیر بھی ہوجاتی ہے لیکن عشق و ہوس کا سا تفاوت ہے
کیا پوچھتا ہے ہم دم کل کیا تھاآج کیا ہے
محفل اجڑ گئی ہے افسانہ رہ گیا ہے
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی
صابرہ امین
سیما علی
آہ دلّی مرحوم جب زندہ تھی اور اس کی جوانی کا عالم تھا۔ سہاگ بنا ہوا تھا، اس پر کیا جوبن ہوگا۔ اب تو نہ وہ رہی نہ اس کے دیکھنے والے رہے۔ کلوّ بخشو کےتکیے پر سوتے ہیں۔ اگلی کہانیاں کہنے والا تو کیا کوئی سننے والا بھی نہیں رہا۔ غدر نے ایسی بساط الٹی کہ سارے مہرے تتر بتر ہوگئے۔ دلّی کا نقشہ بگڑ گیا۔ آن گئی، زبان دیوانی ہنڈیا ہوئی۔ لباس بدلا، معاشرت کے ڈھنگ بدلے، پرانے رسم و رواج اور پرانی لکیروں کو نئی تعلیم نے مٹادیا۔ قدیم ہنر مند دربدر کی ٹھوکریں کھانے لگے۔ اہل کمال، کس نمی پر سد کہ بھیا کیستی’’ ہوگئے۔ شریفوں نے گوشہ نشینی اختیار کی۔ لوٹ کیا مچی کہ سب کچھ لٹ گیا کہنے کو وہی شہر ہے، وہی بازار، وہی گلی کوچے، لیکن وہ زندگی کہاں؟ نہ وہ آدمی، نہ وہ باتیں، نہ وہ اپنی دلّی، نہ وہ اپنا تمدّن۔
زندگی نام ہے زندہ دلی کا۔ زندہ دلی نہیں تو زندگی کے کیا معنی؟ ہماری نئی تانتی کا دعوا ہے کہ وہ جمود کا زمانہ تھا، یہ حرکت کی دنیا ہے۔ وہ تنزل کی آخری منزل تھی، اب ترقی کا دور ہے۔ جو چاہے سو کہیں لیکن ہم تو یہی کہیں گے اور برابر کہے جائیں گے کہ ہمیں ہنسوں کی چال راس نہیں۔ گرم ملک میں ٹھنڈی ہواؤں سے لقوہ مار جاتا ہے۔ پراے شگون میں ناک بغیر کٹے کیا مجال ہے کہ رہے۔ قلعہ اجڑنے اور بہادر شاہی ٹینٹ اکھڑ جانے کے بعد آج سے پینتیس چالیس برس پہلے تک جیسے خوشحال دلّی والے جیتے تھے آج نہیں جی سکتے۔ شادی بیاہ، مرنے جینے کے سوا اتنی فضول خرچیاں اور فیشن پرستیاں نہ تھیں۔ پھر اپنے ملک کی دولت اپنے بھائیوں کی کمائی اپنے ہی گھروں میں رہتی تھی۔ صرف روپیہ مہنگا تھا اور ہر چیز سستی۔ ایک روپے کے بتیس ٹکے اور ایک ٹکے کی ایک سو ساٹھ کوڑیاں دو کوڑی کا دام اور چار گنڈے کا چھدام۔ دام اور چھدام میں نون مرچ، ساگ پات خریدا جاسکتا تھا۔ کر مکینوں کی عموماً تنخواہیں نہ تںیا۔ شادی بیاہ تیج تہوار کی آس میں خدمتیں کرتے تھے اور مگن رہتے تھے۔ آج روپیہ جتناسستا ہے اتنی ہی زندگی گراں ہے اور بات فقط اتنی ہے کہ غیرملکوں سے لین دین ہوگیا ہے۔ شرح تبادلہ اپنے ہاتھوں میں نہیں۔ بٹّا لگتے لگتے کھک ہوکر رہ گئے۔
شہر اجلا ضرور ہوگیا ہے۔ بازار بجلی کے ہنڈوں سے جگ مگ کرتے نظر آتے ہیں مگر اصلیت کا اندھیر ہے۔ جھوٹا جھول چڑھا ہوا ہے۔ اجناس ہیں تو اجنبی، بولیاں ہیں تو بیسنی، مخلوق ہے تو پچ رنگی۔ لباس دیکھو تو بھان متی کا تماشا۔ یہ دلّی ہماری دلّی تو رہی نہیں خاصا تھیٹر ہے۔ جب سے اس بوڑھی گھوڑی کو لال لگام کاشوق ہوا ‘ماں ٹینی باپ کلنگ بچے نکلے رنگ برنگ’ والی مثل صادق آگئی۔ ٹھیٹ ہندوستانی مذاق ہی نہ رہا۔ پہننے اوڑھنے کے ساتھ کھانے پینے کی ترکیبوں میں بھی فرق آگیا۔ شہر میں چپے چپے پر یہ ہوٹل کہاں تھے۔ بازاروں میں بیٹھ کر یوں کھلم کھلا کون کھاتا تھا؟ گلیوں میں بھٹیاروں کی دکانیں تھیں یا نان بائی تھے۔ یا شہر کے خاندانی باورچی جو شادی وغمی کی پخت کرتے تھے۔ بھٹیارے غریبوں، مزدوروں اور کم استطاعت مسافروں کا دوتین پیسے میں پیٹ بھر دیتے تھے۔ نان بائیوں کے ہاں شیرمال، باقرخانی، کلچے اور خمیری روٹیاں پکتی تھیں لیکن چونکہ اِن کا کام تیس دن کا نہ تھا اس لیے جاڑے بھر یہ نہاری کی دکان بھی لگاتے تھے۔
نہاری کیا تھی بارہ مسالے کی چاٹ ہوتی تھی۔ امیر سے امیر اور غریب سے غریب اس کا عاشق تھا۔ نہاری اب بھی ہوتی ہے اور آج بھی دلّی کے سوا نہ کہیں اس کا رواج ہے نہ اس کی تیاری کا کسی کو سلیقہ۔ دلّی کا ہر بھٹیارا نہاری پکانے لگا، ہر نان بائی نہاری والا بن بیٹھا۔ مگر نہ وہ ترکیب یاد ہے نہ وہ ہاتھ میں لذّت۔ کھانے والے نہ رہیں تو پکانے والے کہاں سے آئیں۔ سنا ہے کہ جب سعادت خاں نے جمنا کی شاہ جہانی نہر کو جو جابجا سے اَٹ کر خشک ہوچکی تھی دوبارہ شہر میں جاری کیا ہے تو علوی خان حکیم نے ماتمی لباس پہن لیا تھا۔ محمد شاہ نے اِس غم و افسوس کا سبب دریافت کیا تو کہا مجھے دلّی والوں کی تندرستی کا رونا ہے۔ اب یہ بیماریوں کا گھر ہوجائے گا۔ علاج پوچھا تو بتایا کہ اگر لال مرچیں اور کھٹائی کا استعمال زیادہ کیا جائے تو شاید بچ سکیں۔ چنانچہ ہر گھر میں مرچوں کی بھرمار ہوگئی اور آج تک دلّی کے قدیم گھرانوں میں مرچیں زیادہ کھائی جاتی ہیں۔ چونکہ مرچوں کادف گھی سے مرتا ہے اس لیے جب تک گھی خالص اور سستارہا مسالے دار کھانوں سے کوئی نقصان نہ پہنچا۔
نہاری کا نام سن کر باہر والے لوٹ جاتے ہیں۔ ملنے والوں سے نہاری کی فرمایش ہوتی ہے۔ اب اگر میزبان سلیقے مند ہے تو خیر ورنہ کھانے والوں کو منہ پیٹنا پڑتا ہے۔ چار آنے کی نہاری میں آٹھ آنے کاگھی کون ڈالے۔ پھر آج کل والے یہ بھی نہیں جانتے کہ نہاری کے بعد تر تراتے حلوے یا گاجر تری سے مسالوں کی گرمی کو مارا جاتا ہے۔ اس لیے نہاری بدنام ہوگئی ہے۔ اس کے سوا نہاری بیچنے والوں کو بھی تمیز نہیں رہی۔ ایرے غیرے نتھواخیرے نہاری کی دُکانیں لے بیٹھے ہیں۔ پہلے گنتی کے نہاری والے تھے۔ ایک چاندنی چوک میں۔ ایک لال کنویں پر۔ ایک حبش خاں کے پھاٹک میں اور ایک چتلی قبر اور مٹیامحل کے درمیان۔ ان میں سے ہرایک شہر کا ایک ایک کونا دبائے ہوئے تھا۔ سب سے زیادہ مشہور گنجے نہاری والے کی دکان تھی جو گھنٹہ گھر کے پاس قابل عطّار کے کوچے اور سیدانیوں کی گلی کے بیچ میں بیٹھتا تھا۔ جب تک یہ زندہ رہا، نہاری اپنے اصلی معنوں میں نہاری رہی۔ یہ کیا مرا کہ نہاری کا مزہ ہی مرگیا۔ نہاری کیا کھاتے ہیں کلیجا جلاتے ہیں۔
یہ دکان ہم نے دیکھی ہے، بلکہ وہاں جاکر نہاری بھی کھائی ہے۔ شوقین دور دور سے پہنچتے تھے۔ گرم گرم روٹی اور تُرت دیگ سے نکلی ہوئی نہاری۔ جتنی نلیاں چاہیں جھڑوائیں۔ بھیجا ڈلوایا۔ پیاز سے کڑکڑاتا ہوا گھی، بوم کی بے ریشہ بوٹیاں۔ ادرک کا لچھا۔ کتری ہوئی ہری مرچوں کی ہوائی اور کھٹے کی پھٹکار۔ سبحان اللہ نواب رام پور کا پورا دسترخوان صدقے تھا۔ گھروں میں اِس سامان کے لیے پورے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس لیے جو اصل میں نہاری کا لُطف اٹھانا چاہتے تھے، انھیں دکان ہی پر جانا پڑتا تھا۔ شہر کے نہاری بازوں کی آج بھی نہاری والوں کے ہاں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ صبح سے دس بجے تک تانتا نہیں ٹوٹتا، تو اس کا ذکر ہی کیا خصوصاً گنجے کی دکان پر۔ سورج نکلا نہیں کہ لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ دس اندر بیٹھے کھا رہے ہیں تو بیس پیالے، کٹورے بادیے، پتیلیاں لیے کھڑے ہیں۔ ایک پیسے سے لے کر دو روپے کے گاہک ہوتے تھے۔ لیکن مجال ہے کوئی ناراض ہو یا کسی کو اس کی مرضی کے مطابق نہ ملے۔ زیادہ سے زیادہ نو بجے دیگ صاف ہوجاتی تھی۔ اجلے پوشوں کے لیے بالاخانے پر انتظام تھا جہاں سب طرح کی آسانیاں تھیں۔
یہ دکان دار گنجے نہاری والے ہی کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی آن کا کیا کہنا۔ سنا ہے کہ چھنّا مل والے دہلی کے رئیس اعظم اس کی دکان کو خریدنا چاہتے تھے۔ ہزار کوششیں کیں۔ روپے کا لالچ دیا۔ جایداد کی قیمت دُگنی اور چوگنی لگادی، یہاں تک کہ دکان میں اشرفیاں بچھادینے کو کہا۔ دوسرا ہوتا تو آنکھیں بند کرلیتا۔ وہیں کہیں قابل عطّار کے کوچے میں، بلی ماروں میں یا رائے مان کے کوچے میں جابیٹھتا۔ لیکن میاں گنجے مرتے دم تک اپنی اسی آن سے وہیں بیٹھے رہے۔
ہم پانچ چار دوست پیٹ بھر کر نہاری کے شوقین تھے۔ جاڑا آیا اور نہاری کا پروگرام بنا۔ یوں تو اتوار کے اتوار باری باری سے کسی نہ کسی کے گھر پر نہاری اڑا ہی کرتی تھی لیکن ہر پندرہویں دن اور اگر کوئی باہر کا مہمان آگیا تو اس معمول کے علاوہ بھی خاص دکان پر جاکر ضرور کھا لیا کرتے تھے۔ ہمارا دستور تھا۔ ہم پر کیا منحصر ہے نہاری بازوں کے یہ بندھے ہوئے قاعدے ہیں کہ صبح کے لیے رات سے تیاری ہوتی تھی۔ تازہ خالص گھی دو چھٹانک فی کس کے حساب سے مہیا کیا جاتا تھا۔ گاجر کا حلوا حبش خاں کے پھاٹک یا جمال الدین عطّار سے لیتے تھے۔ اور تو کیا کہوں اب ویسا حلوا بھی کھانے میں نہیں آتا۔ گندے نالے کی پھکسی ہوئی نیلی سفید، پھیکی سیٹھی، کچی یا اتری ہوئے گاجروں کی گلتھی ہوتی ہے۔ اب اور کیا تعریف کروں۔ خیر! صبح ہوئی، موذّن نے اذان دی اور نہاری نے پیٹ میں گدگدیاں کیں۔ ہمارے دوستوں میں خدا بخشے ایک سید پونیے تھے۔ بڑے زندہ دل، یاروں کے یار، نہایت خدمتی۔ یہ ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ اندھیرے سے اٹھ کر ایک ایک دوست کے دروازے کی کنڈی پیٹیں، گالیاں کھائیں، کوسنے سنیں اور ایک جگہ سب کو جمع کردیں۔ سامان اسی غریب پر لادا جاتا۔
جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے۔ رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچہ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچہ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دلچسپی ہوگئی تھی۔ تین چار موقعوں پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔ اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔
باتیں بڑے مزے کی کرتے تھے۔ مجھ کو پرانے آدمیوں سے پرانی باتیں سننے کا بچپن سے لپکا ہے۔ جب تک دکان لگتی، گاہک آتے، میں ان کا دماغ چاٹا کرتا۔ ایک دفعہ سترھویں دیکھنے میرے چند دوست باہر سے آگئے اور آتے ہی فرمایش کی ‘‘یار نہاری نہیں کھلواتے’’، میں نے کہا ‘‘نہاری! کل صبح ہی سہی۔ وہیں سے نظام الدین چلے چلیں گے۔’’ شام کو سید پودینےسے کہہ دیا اور سویرے ہی دکان پر جاپہنچے۔ دیگ ابھی کھلی نہ تھی۔ تنور گرم ہو رہا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی گنجے صاحب کہنے لگے ‘‘حضّت پندہ منٹ انتظار کرنا پڑے گا۔ ذرا تنور کا تاؤ آجائے۔ مگر آج یہ آپ کے ساتھ کون صاحب ہیں، پنجاب کے معلوم ہوتے ہیں۔ سترھویں میں آئے ہوں گے۔’’
‘‘ہاں خاص لاہور کے رہنے والے ہیں۔ میں نے کہا کیایاد کریں گے۔ نہاری تو کھلادو۔
‘‘مگر میاں نہاری میں تو مرچیں زیادہ ہوں گی۔’’
‘‘جو کچھ بھی ہو۔ کوئی صورت ایسی نہیں کہ مرچوں کی جھونجھ کم ہوجائے۔’’
‘‘کھٹے اور گھی کے سوا اور کیا علاج ہے لیکن میاں تمہارے کھانے کا مزہ جاتا رہے گا۔ ہر چیز قاعدے سر کی ہونی چاہیے۔ خیر اللہ مالک ہے کھلاؤ تو سہی۔’’
‘‘بھئی منہ نہ پٹوادینا۔ ایسا نہ ہو کہ نیکی برباد گناہ لازم ہوجائے۔’’
‘‘اپنی طرف سے تو کمی کروں گا نہیں، پھر بھی ناک آنکھ بہنے لگے تو اِن کی تقدیر۔’’
‘‘تم بھی سترھویں میں جاؤگے۔’’
‘‘کئی کئی برس ہوگئے۔ جانے کو جی نہیں چاہتا۔ کہاں جائیں اور کیا دیکھیں؟ آنکھیں پھٹی ہوئی ہیں۔ ایک سترھویں کیا کوئی میلا اب نگاہ میں نہیں جچتا۔ غدر سے پہلے کی سترھویاں بھی دیکھیں اور غدر کے بعد کی بھی۔ بادشاہی کا بڑھاپا تھا اور میرا بچپن مگر وہ رونق، وہ چہل پہل، وہ بہار کہیں بھولنے والی ہے۔ میاں ان وقتوں کا تو کہنا ہی کیا گھر کا وارث زندہ تھا۔ دلّی رانڈ تھوڑی ہوئی تھی۔ دس برس پہلے تک بھی ان میلوں میں گہما گہمی ہوتی تھی۔ اس کا بھی افسانہ ہی افسانہ سن لو۔’’
‘‘ان دنوں میں کیا انوکھی بات ہوگی۔ ایک بادشاہ نہ رہے اور تو سب کچھ وہی ہے۔ وہی شہروالے، وہی محبوبِ الہٰی کا مزار۔’’
‘‘اب میں آپ سے کیا کیوں۔ بس یہ سمجھ لو کہ دولہا سے برات ہوتی ہے۔ پھر دلّی کے وہ دل والے اور شوقین جیوڑے کہاں رہے۔’’
‘‘تو کیا یہ جتنے سترھویں میں جاتے ہیں دلّی والے نہیں ہوتے؟’’
‘‘ہوتے ہیں لیکن سو میں سے بیس۔ وہ بھی مزدور یا کارخانے دار ہے۔ شرفا وہ سادے دنوں میں زیادہ جاتے ہیں۔ سترھویں میں گئے تو چپکے سے فاتحہ پڑھی، ختم میں شریک ہوئے اور واپس چلے آئے۔’’
‘‘آخر غدر سے پہلے کی سترھویں میں کیا خوبی تھی جو آج نہیں۔’’
‘‘میاں بس خوبی یہی تھی کہ وہ عقیدت کا میلا ہوتا تھا۔ اب ایک تماشا ہے۔ چونّی پھینکی اور کھٹ سے تھیٹر میں جابیٹھے۔ ناچ دیکھا، گانا سُنا، تالیاں بجائیں، کچھ پھبتیاں اڑائیں اور چلے آئے۔ یہ کیا مزے داری ہے کہ بھاگا بھاگ پہنچے۔ ریلتے پیلتے اندر گئے۔ قوالی میں ایک کے کندھے پر دوسرا سوار ہوا۔ اِدھر جھانکا ادھر تاکا، کہنیاں مارتے دھکّے کھاتے باہر آئے۔ مدرسے میں جاکر گنبد میں آوازیں لگائیں، گھاس روندی، تاش کھیلے، پان کھائے، سودے اڑائے اور خاک پھانکتے گھر آگئے۔ واہ بھئی واہ۔’’
‘‘تو کیا پہلے سترھویں میں جانے والے سر کے بل جاتے تھے؟’’
‘‘محبوب الہٰی کی اولیائی کو پہچاننے والے سر کے بل ہی جاتے تھے اور میاں آنکھوں والے آج بھی سر کے بل جاتے ہیں۔’’
‘‘تم میرا مطلب نہیں سمجھے۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا پہلے یہ باتیں نہیں ہوتی تھیں۔ تم نے تو بادشاہی کی سترھویں بیہ دیکھی ہے۔ آخر ہم بھی تو سنیں اس وقت اس میلے کا کیا رنگ تھا۔’’
‘‘پچاس پچپن برس کی باتیں ہیں۔ پوری پوری تو کہاں یاد۔ دوسرے اپنے ہوش میں غدر سے پہلے کی ایک ہی سترھویں میں نے دیکھی بھی تھی، ہاں کچھ آنکھوں دیکھے اور کچھ کانوں سُنے حالات ملاکر سُناتا ہوں۔ سب سے پہلے درگاہ میں مشائخ جمع ہوتے تھے۔ سترھویں کی رات شہر کے عقیدت مند پہنچ گئے۔ اوّل ختم ہوا، رات کا وقت، قندیلیں روشن، اللہ والوں کا مجمع، برکات کی بارش، وہ سماں دیکھنے کے قابل ہوتا تھا۔ کالے سے کالے دل نور سے بھر جاتے تھے۔ پھر قوالی شروع ہوئی۔ صاف ستھرے اہلِ دل قوالوں کی ٹولیاں، درد بھری آوازیں، اللہ ہو کے زمزمے، فارسی اردو، بھاشا کا کلام جس سے پتھر موم ہوجائے۔ انسان کا کیا بوتا ہے کہ چُپ بیٹھا رہے۔ جس کو دیکھو لوٹن کبوتر۔ رات پھر یہ ہو حق رہی۔ صبح کو بادشاہ آئے۔ سرجھکائے ہوئے مودّب، دست بستہ، پیچھے پیچھے امیر، وزیر، شاہ زادے نیچی نگاہیں۔ خاموش۔ درگاہ میں فاتحہ پڑھی۔ چار اشرفیاں اور بتیس روپے نذر چڑھائی۔ دو سو روپے عُرس کی نیت کے خادموں کو دیے، ختم میں شرکت کی۔ اتنے میں خادم تبرک کی ہنڈیاں اور پھیٹنے لائے۔ حضور نے سرجھکاکر پھیٹنا بندھوایا، ہنڈیا چوب دار نے سنبھالیں اور ایک اشرفی تبرک کی دے کر سوار ہوگئے۔’’
اب شہر کی خلقت آنے لگی۔ قوالی زوروں پر ہے، خلقت ٹوٹی پڑی ہے۔ درگاہ میں نذریں چڑھ رہیں ہیں۔ خادموں کی گوڑی ہو رہی ہے۔ خادم اپنی اپنی اسامیاں تاک تاک کر لوگوں کو لپک رہے ہیں۔ جس کو دیکھو دو دو تبرک کی ہنڈیاں، کھیلیں، بتاشوں، شکرپاروں سے بھری آٹے سے منہ لپا ہوا، ہاتھوں میں لیے۔ دو ہتہ کے سبز اور سفید پھیٹنے سر پر لپیٹے چلاجاتا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سلطان جی کے دربار سےخلعت اور انعام مل رہا ہے۔ آج کل کی طرح یوں ہی بے کار نہیں سمجھتے تھے۔ خادموں کا بھی یہ حال نہ تھا کہ غریبوں کی بات نہ پوچھیں۔ امیروں کے گرد منڈلاتے پھریں۔
گیارہ بجے تک اچھے شہری اور عرس سے غرص رکھنے والے رخصت ہوئے۔ میلا دیکھنے والے بانکے ترچھے آپہنچے۔ درگاہ شریف میں گانا ہو رہا ہے۔ ادھر باولی پر ہجوم ہوگیا۔ کوئی سیڑھیوں پر بیٹھا نہا رہا ہے۔ کدائی ہو رہی ہے۔ پیراکی کے کمال دکھائے جارہے ہیں۔ دکان دار کھلونے والے، پٹوے بساطی، کاٹ کے کھلونوں، بچوں کو لبھانے والی طرح طرح کی چیزوں سےدکانیں سجاتے۔ کچالو والے بڑے بڑے چھیبے، ہرے ہرے کیلے کے پتے بچھے ہوئے، ابلے ہوئے آلوکچالو ایک طرف، امرود، ناشپاتی، کمرک، نارنگیاں، کوری ہنڈیا میں مسالا۔ ترشے ہوئے کھٹے، لیمو، سُریلی آواز میں ‘‘چاٹ ہے بارہ مسالے کی’’ پکارتے کہیں کبابی گولے پسندے کے کباب۔ تئی والے، گولی، کلیجی، بھیجے کے کباب گرم گرم تلتے، کسی طرف برف والے بڑے بڑے ہنڈے جن میں ربڑی، کھرچن، پستے کی قفلیاں، آپ خورے جمائے ‘‘آنے والی ٹکے کو، ٹکے والی پیسے کو’’ کہہ کہہ کر غل مچارہے ہیں۔ لونگ چڑے والے لمبی لمبی کاٹ کی کشتیوں میں بیسن کی پھلکیاں کچھ پانی میں بھیگی کچھ ویسی ہی۔ انڈے کی ٹکیاں، مچھلی کے کباب لگائے۔ بیسویں چھڑی والے کاغذ کے پھول، پنکھے، توتے، چڑیاں، روئی کے لنگور لیے، سقّے کٹوریاں بجاتے، ساقی حُقّہ پلاتے سیکڑوں فقیر مداریے زنجیریں ہلاتے گرز کھڑکاتے۔ کہیں ہنڈولا گڑا، مدرسے کی سڑک پر خمریوں کے جتھے کے جھتے، یکوں، گاڑیوں، رتھوں، بہیلیوں کے ساتھ ساتھ دوڑتی اور مانگتی جاتی ہیں۔ ‘‘اللہ خیریں ہی خیریں رہیں گی، تیرے من کی مرادیں ملیں گی۔ تجھے حق نے دیا ہے۔ دیا ہے۔ تیرے بٹوے میں پیسا دھرا ہے دھرا ہے۔ تجھے مولا نوازے ،دے جا۔ دے جا۔’’
دوپہر ڈھلی تو میلا ہمایوں کے مقبرے میں جسے دلّی والے مدرسہ کہتے ہیں، آیا۔ یہاں کی کیفیت ہی اور ہوتی۔کہیں گانا بجانا ہے تو کہیں کھانا پینا۔ کبڈی کھیلی جارہی ہے، تاش اڑ رہا ہے۔ کوئی بھول بھلیوں میں ہکا بکا چکراتا ہے، کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں لپٹا ہواہے، پتنگ بازی ہو رہی ہے۔ بگلا، چڑا، کل دُمہ، پری کنکوّے اور کل سری، لَل دُمی، کلیجہ جلی، الفن تکلیں بڑھ رہی ہیں۔ کہیں اِچّم ہے کہیں ڈھیلیں چلنے لگیں۔ کسی نے کاٹا کوئی کٹ گیا۔ کسی کی کنچہی پھٹ گئے، کسی کا کنّا نکلا، کسی کی دال چیوّ ہوگئی۔ اسی اثنا میں کسی شہزادے کی سواری آئی۔ آگےآگے سپاہیوں کے تمن ہیں۔ باجا بجتا آتا ہے، نقیب چوب دار پکارتے آتے ہیں: ‘‘صاحب عالم پناہ سلامت’’ عماری میں آپ بیٹھے ہیں۔ خواصی میں مورچھل ہو رہا ہے۔ مقبرے کے دروازے پر فیل بان نے ہاتھی بٹھایا۔ سب جلوس ٹھیرا، سلامی اتری، کہاروں نے پالکی لگادی۔ سوار ہوکر اندر آئے، دو خواص مورچھل لے کر اِدھر ادھر ہوگئے ‘‘ہٹو بڑھو صاحب!’’ کی آوازوں کے ساتھ چلے۔ مقبرے کے چبوترے پر اتر کر پیدل ہوئے۔ اوپر آئے۔ فرش فروش مسند تکیہ آراستہ تھا۔ سپاہیوں کا پہرہ لگ گیا۔ تھوڑی دیر بیٹھے، میلے کی سیر دیکھی۔ گانا سُنا اور سوا رہوگئے۔ یہ کیا چلے کہ میلا اکھڑا۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو چمپت ہوئے۔ لیجیے صاحب سترھویں ختم۔
یہ صبح ہوتے کی خوابیدہ کہانی سُن کر میں چھیڑنے کو کہا ‘‘پھر اس میں کون سی نئی بات ہوئی۔ اس وقت بے کار اور گھر پھونک تماشا دیکھنے والوں کی زیادتی تھی۔ ان ہی بےہود گیوں اور فضول خرچیوں کا تو آج خمیازہ بھگت رہے ہیں۔’’ چہرہ تمتما گیا جل کر کہنے لگے۔ آپ پر تو نیا رنگ چڑھ رہا ہے۔ میاں وہ قلعے کادسترخوان ہی اٹھ گیا۔ اب کیا کہوں۔ میاں اس وقت کی دلّی جنت تھی جنت۔ اور دلّی والے جنتی۔ آج کل جیسی دوزخ نہ تھی۔ سچ ہے جیسی گنڈی سیتلا ویسے ہی پوجن ہار۔ یہی خیالات ہیں تو آکے سیر دیکھنا۔ اچھا اب آپ اوپر تشریف لے جائیے۔ آپ کے لائق روٹیاں اتر آئی ہیں۔ گھی کڑکڑا رہا ہوں۔ نہاری بگھری اور میں نے کھانا بھیجا۔ بسم اللہ۔
یہ حقیقت ہے کہ اس زمانے میں اگلی سی فارغ البالیاں نہیں رہیں۔ نہ دلوں میں امنگیں ہیں نہ جذبات میں زندگی۔ میلے ٹھیلے اوّل تو جاتے ہیں رہے۔ نئی تعلیم نے انھیں دیس نکالا دے دیا اور جو دوچار مذہبی رنگ لیے ہوئے باقی ہیں ان پر برابر افسردگی چھاتی جاتی ہے۔ پرانے لوگ پرانی باتوں کو جتنا روئیں بجا ہے کہ انھوں نے اپنی بادشاہت، اپنی حکومت اور اپنا گھر آباد دیکھا تھا۔ عید، بقرعید، شبِ برات، محرم، سترھویں آج بھی ہوتی ہے۔ کہیں کہیں بسنتیں اور کبھی کبھی پھول والوں کی سیر بھی ہوجاتی ہے لیکن عشق و ہوس کا سا تفاوت ہے
کیا پوچھتا ہے ہم دم کل کیا تھاآج کیا ہے
محفل اجڑ گئی ہے افسانہ رہ گیا ہے
محمد خلیل الرحمٰن
سید عاطف علی
صابرہ امین
سیما علی
آخری تدوین: