کاشفی

محفلین
غزل
(میر انیس)

گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے

کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو ہم بچا کے چلے

مقام یوں ہوا اس کارگاہء دنیا میں
کہ جیسے دن کو مسافر سرا میں آکے چلے

طلب سے عار ہے اللہ کے فقیروں کو
کبھی جو ہوگیا پھیرا صدا سُنا کے چلے

انیس! دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
 

فاتح

لائبریرین
انیس کا عمدہ انتخاب ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔
ذیل کا مصرع دوبارہ دیکھیے گا کیا یوں ہی ہے؟
کبھی جو ہوگا پھیرا صدا سُنا کے چلے
 

رانا

محفلین
گنہ کا بوجھ جو گردن پہ ہم اُٹھا کے چلے
خدا کے آگے خجالت سے سر جھکا کے چلے

بہت پیاری غزل ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔
 

کاشفی

محفلین
انیس کا عمدہ انتخاب ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔
ذیل کا مصرع دوبارہ دیکھیے گا کیا یوں ہی ہے؟
کبھی جو ہوگا پھیرا صدا سُنا کے چلے

شکریہ فاتح صاحب!
نہیں یوں نہیں ہے۔یوں ہے۔
کبھی جو ہوگیا پھیرا صدا سُنا کے چلے
نشاندہی کے لیئے بیحد شکریہ۔خوش رہیں۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
اشارے کیا نگہِ نازِ دلربا کے چلے
جب اُن کے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
پکار کہتی تھی حسرت سے لاش عاشق کی
صنم کہاں ہمیں تو خاک میں ملا کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
چلے جو راہ تو چیونٹی کو بھی بچا کے چلے
مِلا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
مثالِ ماہیِ بے آب موج تڑپا کی
حباب پھوٹ کے روئے جو وہ نہا کے چلے
تمام عمر کی جو سب نے بے رخی ہم سے
کفن میں ہم بھی عزیزوں سے منہ چھپا کے چلے
انیس دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

(میر انیس)
 
Top