mfdarvesh
محفلین
چینی کی قیمتوں میں اضافے سے پاکستان میں گڑ کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے اور کاشتکار گنا شوگر ملوں کوفروخت کرنے کے بجائے اس سے گڑ بنانے کو ترجیج دیتے ہیں۔ گنے سے گڑ کی تیاری کے مراحل:
صوبہ خیبر پختونخوا کے کاشتکار گنے کی کاشت سے لے کر اس گڑ کی تیاری تک سخت مشقت کے مراحل سے گزرتے ہیں۔
گڑ کی تیاری میں سب سے پہلا مرحلہ گنے کی کھیتوں سے کٹائی اور اسے کھیتوں کے بیچوں بیچ بنائے گئے گڑ سازی کے کارخانے تک لانا ہوتا ہے۔
یہاں گنے کو بیلنے میں سے گزار کر اس سے رس حاصل کیا جاتا ہے اور اس رس کو ایک بہت بڑے کڑاہ میں ڈال کر اس کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے۔
مسلسل کئی گھنٹے تک آگ پر پکنے کے بعد گنے کا رس گاڑھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
پکنے کے اس عمل کے دوران گنے کے رس میں میٹھا سوڈا اور دیگر کیمیائی مواد ڈال اس میں سے مختلف کثافتوں کو الگ کیا جاتا ہے۔
ایک ماہر گڑ ساز مسلسل اس کی سطع پر جمع ہونے والی جھاگ اور دیگر کثافتوں کو ایک چھلنے کی مدد سے باہر نکالتا رہتا ہے۔
گڑ کی تیاری کے اس عمل کے دوران کاشتکار اپنے عمر بھر کے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گنے کا رس مسلسل آگ پر پکنے کے بعد ایک لئی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اس مرحلہ پر اسے ٹھنڈا کرنے کی غرض سے ایک لکڑی کے بنے ہوئے کھلے برتن میں ڈالا جاتا ہے جسے کئی علاقوں میں ’آتھرا‘ کہتے ہیں۔
اسے ٹھنڈا کرنے کے عمل کے دوران مسلسل ہلایا جاتا ہے تاکہ یہ خستہ رہے۔
جب اس کی اوپر کی سطع ٹھنڈا ہو کر سخت ہو جاتی ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ اب گڑ کی بھیلیاں بنانے کے لیے تیار ہے۔
یہ معلومات بی بی سی اردد کے اس لنک پر دستیاب ہیں
اسلام آباد سے پشاور جاتے ہوئے راستے میں جا بجا اس طرح کے کارخانے نظر آتے ہیں، مگر ان کے کام کا انداز ابھی دیکھا ہے۔ ہمارے ہاں تو اس سادہ گڑ کے علاوہ دوسرا گڑ بھی ملتا ہے جس میں میوہ جات استعمال کیے جاتے ہیں،
مجھے شدید حیرت ہوئی ہے اس کو دیکھ کے کہ کوئی حفظان صحت کے اصول نہیں نظر آئے، یہ گڑ تو مضر صحت ہی کہا جاسکتا ہے
صوبہ خیبر پختونخوا کے کاشتکار گنے کی کاشت سے لے کر اس گڑ کی تیاری تک سخت مشقت کے مراحل سے گزرتے ہیں۔
گڑ کی تیاری میں سب سے پہلا مرحلہ گنے کی کھیتوں سے کٹائی اور اسے کھیتوں کے بیچوں بیچ بنائے گئے گڑ سازی کے کارخانے تک لانا ہوتا ہے۔
یہاں گنے کو بیلنے میں سے گزار کر اس سے رس حاصل کیا جاتا ہے اور اس رس کو ایک بہت بڑے کڑاہ میں ڈال کر اس کے نیچے آگ جلائی جاتی ہے۔
مسلسل کئی گھنٹے تک آگ پر پکنے کے بعد گنے کا رس گاڑھا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
پکنے کے اس عمل کے دوران گنے کے رس میں میٹھا سوڈا اور دیگر کیمیائی مواد ڈال اس میں سے مختلف کثافتوں کو الگ کیا جاتا ہے۔
ایک ماہر گڑ ساز مسلسل اس کی سطع پر جمع ہونے والی جھاگ اور دیگر کثافتوں کو ایک چھلنے کی مدد سے باہر نکالتا رہتا ہے۔
گڑ کی تیاری کے اس عمل کے دوران کاشتکار اپنے عمر بھر کے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کو بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
گنے کا رس مسلسل آگ پر پکنے کے بعد ایک لئی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
اس مرحلہ پر اسے ٹھنڈا کرنے کی غرض سے ایک لکڑی کے بنے ہوئے کھلے برتن میں ڈالا جاتا ہے جسے کئی علاقوں میں ’آتھرا‘ کہتے ہیں۔
اسے ٹھنڈا کرنے کے عمل کے دوران مسلسل ہلایا جاتا ہے تاکہ یہ خستہ رہے۔
جب اس کی اوپر کی سطع ٹھنڈا ہو کر سخت ہو جاتی ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ اب گڑ کی بھیلیاں بنانے کے لیے تیار ہے۔
یہ معلومات بی بی سی اردد کے اس لنک پر دستیاب ہیں
اسلام آباد سے پشاور جاتے ہوئے راستے میں جا بجا اس طرح کے کارخانے نظر آتے ہیں، مگر ان کے کام کا انداز ابھی دیکھا ہے۔ ہمارے ہاں تو اس سادہ گڑ کے علاوہ دوسرا گڑ بھی ملتا ہے جس میں میوہ جات استعمال کیے جاتے ہیں،
مجھے شدید حیرت ہوئی ہے اس کو دیکھ کے کہ کوئی حفظان صحت کے اصول نہیں نظر آئے، یہ گڑ تو مضر صحت ہی کہا جاسکتا ہے