بھلکڑ
لائبریرین
عطا ءالحق قاسمی کی کتاب بارہ سینگھے سے ایک کالم
گن مین محمد رمضان!
یو بی ایل کا مینجر ابرار میرا دوسر ہے، مجھے جب بھی وقت ملتا ہے میں اُس سے ملنے چلا جاتا ہوں یا وہ میرے گھر آجاتا ہے۔اس بنک کا گن مین بڑی بارعب شخصیت کا مالک ہے، بڑی بڑی مونچھیں ، گندمی رنگ ہے، صاف ستھرے کپڑے پہنتا ہے، جب وہ کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس کی گن کا رُخ اکثر اُ س کی اپنی جانب ہوتا ہے۔شروع شروع میں یہ شخص اپنے بنک اور ارد گرد کے علاقے میں بڑا مشہور تھا۔لیکن اب معاملہ گڑ بڑ ہے۔
میرے دوست جانتے ہیں کہ میں کس قسم کے لوگوں سے دلچسپی لیتا ہوں،روٹین کے عین مطابق زندگی گزارنے والوں اور رسم و رواج کی مکمل پابندی کرنے والوں میں میری دلچسپی کم ہوتی ہے۔کیونکہ ایسے لوگ ملک میں کروڑوں کی تعدا د میں پائے جاتے ہیں اس کے برعکس جو لوگ ذرا مختلف ہوتے ہیں ، بہت زیادہ ذہین یا بہت ہی
زیادہ احمق ہوتے ہیں۔بہت اچھے یا بہت برے ہوتے ہیں، بہت زیادہ چالاک یا بہت زیادہ سادہ لوح ہوتے ہیں۔وہ میری دلچسپی کا زیادہ مرکز بنتے ہیں یہی وجہ کے میرے ٹیلی ویژن کرداروں میں بھی آپ کونارمل کرداروں کی بجائے کاکا منا، آفٹر آل میں داماد ہوں ،جواد جی ، پروفیسر اللہ دتہ اداس، انکل کیوں ،شیدا ٹلی اور باجوہ جیسے کردار مزیادہ ملیں گے۔
جس گن مین کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ بے حد اچھا انسان تھا جب وہ پہلے دن اپنی ڈیوٹی پہ آیا تو میں اس وقت ابرار کے پاس بیٹھا تھا اس نے آکر ابرار کو فوجی طریقے سے سلیوٹ کیا اور کہا :
" سر میں آپ کا نیا گن مین ہوں ، ڈیوٹی پر حاضر ہوگیا ہوں۔۔۔ میرا نام محمد رمضان ہے"
ابرار بہت منکسرالمزاج انسان ہے ، اس نے اپنی کرسی سے اٹھ کر اپنے نئے گن مین سے ہاتھ ملایا اور کہا"کوئی مسئلہ ہو تو مجھے بتانا، تم مجھے اپنے دوست پاؤ گے بس ایک بات یاد رکھنا ، تمہاری ڈیوٹی صرف بنک کی حفاظت کرنا ہے، کوئی کلرک یا افسر تمہیں چائے یا کوئی اور کام کہے تو صاف انکار کر دینا ، بنک کے اندر تمہارا کوئی کام نہیں ، تم نے صرف دروازے پر چوکس کھڑے رہنا ہے!" گن مین محمد رمضان اس دوران "یس سر!یس سر " کہتا رہا اور ابرار کی بات ختم ہونے پر اس نے ایک دفعہ پھر سلیوٹ کیا اور اپنی گن تھامے باہر گیٹ پر کھڑا ہوگیا، جہا ں حکومت کی طرف سے متعین کردہ ایک پولیس والا پہلے ہی ایک بنچ پر بیٹھا تھا اس نے اپنی بندوق دیوار کے ساتھ کھڑی کی ہوئی تھی ۔ اپنی ٹوپی اتار کر اپنی گود میں رکھی ہوئی تھی اور کھیرے کھا رہا تھا! رمضان نے اسے غصےسے دیکھا اور پھر ڈیوٹی پر چوکس کھڑا ہوگیا۔
یہ نیا گن مین بہت پروفیشنل قسم کا آدمی تھا۔ صرف اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔ اسے بنک میں ہونے والے جھگڑوں اور ایک دوسرے کے خلاف ہونے والی دفتری سازشوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ اپنے کام سے کام رکھتا۔بنک میں داخل ہونے والوں کا گہری نظروں سے جائزہ لیتا ، اسے کوئی ڈبل سواری والا موٹرسائیکل یا گاڑ بنک کی طرف آتی دکھائی دیتی تو الرٹ کھڑا ہوجاتا۔اسے اگر کوئی شخص مشکوک لگتا تو اس سے معذرت کرکے اس کی تلاشی لیتا پھر اسے بنک کے اندر جانے دیتا۔اس کی اس فرض شناسی کی وجہ صرف بنک کا عملہ ہی نہیں بالکہ دائیں بائیں واقع دکانوں کے مالک بھی خود کو پہلے سے زیادہ محفوظ تصور کرنے لگے تھے۔
مگر پھر اس کی عادتوں میں تبدیلی آنے لگی ،پہلی دفعہ میرا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب میں نے اسے سپاہی کے ساتھ بنچ پر بیٹھے کھیرے کھاتے دیکھا ، پھر ایک دن وہ بنک کے باہر پھل کی ریڑھی کے پاس کھڑے پھل فروش سے گفتگو کر رہا تھا۔ایک دفعہ اس نے بل جمع کروانے والوں کی لمبی قطار میں سے ایک شخص سے بل پکڑا ، رقم وصول کی اور اند ر جا کر جمع کروا آیا۔اس کے ہاتھ میں کچھ بقیہ تھا جو وہ بل والے کو کچھ اس طرح سے واپس کر رہا تھا جیسے واپس نہ کرنا چاہتا ہو،بل والے نے اس سے وہ رقم واپس لینے کی بجائے صرف بل کی رسید لی اور لمبی قطار سے نکل
گیا۔
پہلے یہ گن مین مجھے وردی میں نظر آیا کرتا تھا ۔رفتہ رفتہ اس نے دھوتی اور کُرتا پہننا شروع کردیا۔ بندوق اس نے صندوق میں بند کر دی تھی۔ اب وہ دفتری سازشوں کا بھی حصہ تھا اور اند ر باہر کے ہر قسم کے ہیر پھیر میں ملوث تھا۔ اس نے اپنی بارعب شخصیت کا غلط استعمال کرنا شروع کردیا تھا ۔چنانچہ پہلے لوگ اس کا احترام کرتے تھے! اب اس سے ڈرنا شروع ہوگئے تھے۔ ایک دن میں حیران رہ گیا جب میں نے دیکھا کے یہ گن مین ابرار کے دفتر میں داخل ہوا سلیوٹ تو درکنار اس نے ابرار کوسلام تک نہ کیا اور بڑی بے نیازی سے ابرار کو مُخاطب کر کے کہا ''میں ایک ہفتے کی چھٹی پر جا رہا ہوں" میری طرح ابرار کوبھی اس کا انداز عجیب لگا مگر اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے اس سے کہا "محمد رمضان! تم چھٹی پر ضرو ر جاؤ مگر کم از کم میرے نام ایک درخواست تو لکھ جاؤ آخر میں بنک مینجر ہوں"اس پر رمضان نے کہا ''صاحب جی اس سے کیا فرق پڑتا وہ تم خود ہی لکھ لینا"اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ابرار کے چہرے پر شرمندگی کے آثار نمایا ں تھے، بولا "یار! یہ یونین بازوں نے سارا ڈسپلن تباہ کر رکھے ہے۔ان لوگوں کے حوصلے بھی بہت بڑے ہوئے ہیں۔"اور ابرار نے دو چار صلواتیں بھٹو مرحوم کو سنائیں کہ یہ سب اُسی کا کیا دھرا ہے۔
تقریباََ ایک ماہ بعد جب میں بینک کے سامنے سے گذرا تو میں نے دیکھا کے وہاں بہت سے لوگ جمع ہیں اور سب کے چہرے پر سراسمیگی کے آثار تھے۔ان کے درمیان گن مین محمد رمجان بھی دھوتی کرتے میں ملبوس کھڑا تھا۔مگر وہ بہت مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کے "کیا ہوا؟"مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بولا " ہونا کیا تھا جی، ایک کار سے چار ڈاکو اترے ، انہوں نے سب سے پہلے مجھے اور اس پولیس والے کو قابو کیا پھر بینک لوٹ کر چلے گئے۔ہم سے ہتھیار رکھوا کر ہمارا منہ انہوں نے دیوار کی طرف کر دیا تھا مگر اللہ کو جان دینی ہے انہون نے کوئی بدتمیزی نہیں کی، پیسوں کا کیا ہے جی ، وہ تو آتے جاتے رہتے ہیں شکر ہے اللہ نے
عزت بچا لی!۔"
میرا خیا ل تھا کہ اس سانحے کے بعد اسے ہوش آجائے گا وہ اپنا رویہ درست کر لے گا ، مگر اس کے اگلے روز وہ پھر لائن میں لگے لوگوں سے ان کے بل وصول کر رہا تھا۔