سید شہزاد ناصر
محفلین
سرزمین گوجرانوالہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جسے گردشِ لیل ونہار نے بارہا برباد بھی کیا ہے اور آباد بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجاڑا ہی نہیں سنوارا بھی ہے بگاڑا ہی نہیں نکھارا بھی ہے۔ جس نے کبھی تو کشور کشاؤں کی یلغار کے طلسم کو بکھیر کر رکھ دیا۔ اور کبھی فاتحین وقت کی سفاکی وبہیمیت کا نشانہ بن گئی۔ جسے کبھی تو پہلوانوںکا شہر کہا جاتا رہا ہے۔ اور کبھی اہل علم و دانش کی تمدن آفرینی کی بدولت اسے ’’شیرازِ پاکستان ‘‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ سر زمین صدیوں سے اس تاریخی گزرگاہ کی خاموش تماشائی ہے جہاں سے غزنوی جلال کے نمائندہ لشکر بھی گزرے ہیں اور چنگیزو تیمور کے وارث مغل حکمرانوں کے میلوں تک پھیلے ہوئے فوجی دستے بھی ۔ اس نے افغان سورماؤں کے لہراتے ہوئے فتح ونصرت کے پھریرے بھی دیکھے ہیں اور مغل سلطنت کے زوال کے بعد سکھ شاہی کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر قتل و غارت گری کے نظارے بھی۔
گوجراں والا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کہ ماضی کے دھند لکوں سے اُبھرنے والی روشن تصویر ہی نہیں بلکہ لوحِ وقت پر زمانہ حال کے مقدر کی جگمگاتی ہوئی تحریر بھی ہے ۔ اس کے دامانِ علم و ہنر میں شعر وادب کے جواہر پاروں سے لے کر دنیائے صحافت میں اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے مردانِ باکمال تک اور شہ زوری و پہلوانی کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے بہرہ ور پہلوانوں سے لے کر صنعت و حرفت کے میدان میں اپنی فنی مہارتوں کے جادو جگانے والے صنعتکاروں تک ایک ایسی صدق آفرین داستانِ حیرت پھیلی ہوئی ہے کہ جس کا ایک ایک لفظ اس کوچہ اہل نظر کے ہر ایک باسی کے لئے سرمایۂ اعزاز اور نشانِ عظمت ہے۔
اس سر زمین سے ایسے بے شمار ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں‘ صحافیوں‘ سیاستدانوں‘ علمائے کرام اور مشائخ عظام نے جنم لیا ہے ۔ جن میں سے بعض اپنی خدا دا د صلاحیتوں اور انمٹ علمی و ادبی شہکاروں کی بدولت روائت ہی نہیں بلکہ کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اور جن کی ادبی سر بلندی اور علمی سرفرازیوں کے چرچے ان کی جنم نگری کی محدود فضاؤں سے اُبھر کر لامحدود دُنیائے علم و اَدب کا حصہ ہی نہیں بلکہادب عالیہ کا افتخار اور تاریخ تہذیب کا نگار بن چکے ہیں۔ آج ہماری نگاہیں انہیں دیکھ تو نہیں سکتیں مگر تصورات کے آئینہ خانے میں اِن کے جھلملاتے ہوئے عکس نگاہِ باطن کو خیرہ کئے جا رہے ہیں۔ بلا شبہ یہاں بیسیوںہی نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے مردانِ یکتا مدفون ہیں۔ جن کی رفعت فکر و فن‘ عظمتِ علم و عمل اور سطوتِ روحانی کے تذکرے آج بھی ارادت مندوں کے دلوں کو ولولہ ایمانی سے گرماتے ہیں اور متلاشیانِ جادۂ حق کو سعی پیہم پر اکساتے ہیں۔ عالم محسوسات میں پہنچ کر زبان واردات قلبی کی غماز بن جاتی ہے کہ
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے قرۃ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
انہیں ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ اور علم و حکمت کے جواہر بے بہا کو اپنی وسعتِ تاریخ و تہذیب پر بصد آب و تاب سجا کر اپنا تابندہ و درخشندہ وجودمنوانے والا’’گوجراں والا‘‘جو کبھی ایک معمولی سا گاؤں تھا‘ آلام زمانہ سے فرصت پاتے ہی پُر رونق قصبہ بن گیا۔ گردشِ ایّام سے نجات ملی تو شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی گوجراں والا جو کبھی ضلع کی تحصیل تھا ایک مقام پر ضلع کا صدر مقام بن گیا اب یہی گوجراں والا میونسپل کمیٹی سے میونسپل کارپوریشن کی منزل تک ہی نہیں پہنچا بلکہ ڈویژن کے صدر مقام ہونے کا درجہ بھی حاصل کر چکا ہے۔
یہی گوجراں والا جسے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان سے نسبت کا اعزاز ہے جسے سوامی رام تیرتھ‘ منشی محبوب عالم‘ مولوی غلام رسول‘ جسٹس دین محمد‘ رستم زماں رحیم پہلوان‘ حضرت خواجہ محمد عمر قادری‘ حضرت شاہ رحمن‘ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ خلیفہ امام الدین بقا ‘ غلام محمد چٹھہ اور سابق صدرجناب محمد رفیق تارڑکے ساتھ جنم نگری کا شرف حاصل ہے آج حیرت انگیز تیزی کے ساتھ ترقی و عروج کی شاہراہ پر یوں گامزن ہے کہ اس کی آبادی شاہراہ اعظم کے دونوں طرف شمال میں کینٹ اور جنوب میں پُل اپر چناب تک پھیل چکی ہے۔
اب ہم تاریخ کے نہاں خانوں میں جھانکتے ہوئے اس شہر کی تعمیر و ترقی‘شکست و ریخت ‘ عروج و زوال اور بربادی و آبادی کے مختلف مراحل قارئین کی نذر کرتے ہیں۔
ضلع گوجرانوالہ اپنی سرحدوں اور اہم قصبوں کے لحاظ سے لازماً جدید تخلیق ہے لیکن اس کے باوجود یہاں پر ماضی کے نشانات بھی موجود ہیں ۔ ممتاز برطانوی مؤرخ مسٹرڈبلیو ہنٹراپنی کتاب تاریخ ہند میں گوجرانوالہ کے ماضی کے حوالے سے گرہ کشائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’گوجرانوالہ شہر زمانہ قدیم کے ایک خوشحال دور میں تعمیر ہوا۔ اس ضلع کے ابتدائی خوشحالی کے زمانے اور اس زمانے سے طویل مدت بعد نمودار ہونے والے تاریخی خدوخال میں کوئی میل نہیں۔کیونکہ اوّل الذکر اور مؤخر الذکرکے ادارے کے طویل عرصے کے متعلق ہمارے پاس کوئی تاریخی مواد بھی موجود نہیں۔ بظاہر یہ بات دور ازحقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانے میں جب کہ لاہور ابھی آباد بھی نہیں ہوا تھا ضلع گوجرانوالہ ہی کو پنجاب کا دارا لحکومت ہونے کا شرف حاصل رہا۔ ہمیں بدھ مت کے پیرو کارچینی سیاح کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ۶۳۰ ق م میں اس نے اسی علاقے میں ایک شہر کو دیکھا تھا جو سیکیا بادینی کے نام سے مشہور تھا اور جو پانچ دریاؤں کے سارے ملک کا ایک دارالحکومت تھا۔‘‘
اس شہر کی شناخت جنرل بکنگھم نے بھی کی ہے جو آرسرو نامی جدید طرز کے ایک گاؤں کے قریب ہے اور جہاں آج بھی بدھ مت کے ابتدائی دور میں تعمیر شدہ عمارتوں کے کھنڈرات موجود ہیں ۔ اس عہد کی تاریخ کا پتہ ان سکوں اور بڑے بڑے حجم کے پتھروں کی دریافت سے چلتا ہے جن پر اس عہد کی تاریخ کندہ ہے۔
بدھ حکومت اپنے دور کی سب سے بڑی حکومت تھی۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ بدھ حکومت کے دور میں گوجرانوالہ پنجاب کا دارالحکومت تھا تو اس سے بجا طور پر گوجرانوالہ کی تاریخی قدامت ‘عظمتِپارینہ اور بے پناہ شان و شوکت کا اندازہ ہوتا ہے۔تاریخ سے قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ گوجرانوالہ کتنا عرصہ پنجاب کا دارالحکومت رہا۔ جب تک بدھ حکومت مضبوط رہی شمال مغربی دروں سے حملہ آوروں کی یلغار بند رہی اس کے بعد منگولیا‘ ترکستان‘ افغانستان اور ایران وغیرہ سے جنگجو قبائل پنجاب پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ و برباد کرتے رہے بعض اوقات سفاک حملہ آور ملک کی آبادی کو بالکل تہہ تیغ کر دیتے تھے۔ اور میلوں تک کہیں انسانی آبادی کا نام و نشان تک نہ ملتا تھا۔ صدیوں تک صورت حال یہ رہی کہ کبھی پنجاب آباد ہے اور کبھی برباد۔
ایک روایت کے مطابق بدھ کے زمانے میں ریلوے لائن(کنہیا باغ )کے قریب ایک ٹیلے کا وجود ہے یہ ٹیلہ پُرانی آبادی کانشان ہے ۔ اسی روایت کے مطابق اسے لیکھم پور کہتے تھے۔ لیکھم پور کا اصل ٹبہ یہی ہے موجود ہ جگہ جہاں گوجرانوالہ آباد ہے اس زمانہ میں بالکل اجاڑ تھی۔ لیکھم پور میں کوئی قوم رہتی تھی جسے کھوکھروں نے لوٹا تھا۔ اس لئے اسے لیکھم کھوکھراں بھی کہتے تھے۔ کھوکھر یہاں ڈھائی ہزار سال کے قریب آباد رہے ۔انہی کھوکھروں کی یادگار آج کا علاقہ کھوکھرکی ہے۔
گوجرانوالہ سرائے کچی کے پس منظر میں:
تمام مغل شہزادے آگرہ سے کشمیر جاتے ہوئے شاہراہ اعظم پر سے گزرتے تھے ۔ چونکہ ان دنوں یہ سڑک سرائے کچی سے ہو کر گزرتی تھی اس لئے وہ بھی سرائے کچی سے ہو کر گزرتے تھے۔ لیکن مقام تعجب ہے کہ مغل حکمرانوں نے بعض دوسرے مقامات کا تو ذکر کیا ہے مگر سرائے کچی کے بار ے میں خاموش رہے ہیں ۔ تزک جہانگیری سے پتہ چلتا ہے کہ نورالدین جہانگیر جب کشمیر سے واپس اپنے دارالخلافہ کو جاتا تھا تو اس علاقہ میں شکار کھیلا کرتا تھا۔اس کی خود نوشت سے اس علاقہ میں دوبار شکار کھیلنے کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ مغل بادشاہ ضلع گوجرانوالہ کے جن قصبات میں شکار کھیلا کرتا تھا وہ گرجاکھ‘ موکھل اور جہانگیر آباد (شیخوپورہ) تھے۔
بیشترتذکرہ نگاروں نے شاہراہ اعظم پر سفر کرتے ہوئے سرائے کچی کا تذکرہ نہیں کیا تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغل دورِ حکومت میں سرائے کچی کو خاص اہمیت حاصل نہیں تھی اور اس کی حیثیت محض ایک معمولی گاؤں کی تھی۔ اورنگ زیب کی وفات سے لے کر نادر شاہ کے حملہ آور ہونے تک اس گاؤں(سرائے کچی) سے متعلق کوئی معمولی سا حوالہ بھی نہیں ملتا۔ اس دور میں گوجرانوالہ مکمل طور پر تاریخ کے ظلمت کدوں میں گم دکھائی دیتا ہے۔ نادرشاہ جب ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ دریائے چناب عبور کرتے ہوئے پل شاہدولہ جا پہنچا۔ اس کے تذکرہ نگاروں نے گوجرانوالہ کے قریبی دوسرے دیہات کا ذکر نہیں کیا۔ پل شاہدولہ کا ذکر ملتا ہے۔ نادر شاہ کے اس حملہ کے بعد سرائے کچی کا پھر ذکر نہیں ملتا۔ حتی کہ ہندوستان پر احمد شاہ ابدالی کے حملے(۱۷۷۴ء) سے اس شہر کا ذکر پھر تذکروں کی زینت بننے لگتا ہے۔ رنجیت سنگھ کے دادا چڑہت سنگھ کے دور سے اس شہر کا ذکر ملتا ہے تو پھر ہر آنے والا دور اس شہر کی عظمت میں اضافہ کا باعث بننے لگتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی کے دور میںیہ شہر وسیع و عریض رقبے پر مشتمل نہیں تھا بلکہ چار چھوٹے چھوٹے دیہات میں منقسم تھا۔ ان دیہات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
۱)سرائے کچی:
جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ گاؤں شاہراہ اعظم کے کنارے واقع تھا ۔ بیشتر مکان کچے تھے۔ یہ سرائے مسافروں کے سستانے اور قیام کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک باؤلی بھی تھی۔ ایک قدیم قبرستان بھی تھا۔ غالباً یہی قبرستان وسیع ہو کر آج چمن شاہ کے قبرستان سے موسوم ہے ۔ اس راستے سے مغل شہنشاہ گزرتے رہے ہیں۔
۲) سرائے گوجراں:
یہ حصہ موجودہ اندرون کھیالی میں اُونچی جگہ پر واقع تھا۔ موجودہ کھیالی دروازہ کے اندر ایک ٹبہ تھا۔ یہاں کسی دور میں ایک سرائے ہوا کرتی تھی۔ اس سرائے کے ساتھ ایک کنواں بھی تھا اور اس کنویں کے چاروں طرف ایک وسیع سبزہ زار ہوا کرتا تھا۔ اس سرائے کا نام سرائے گوجراں تھا۔
۳) سرائے کمبوہان:
چڑت سنگھ نے ۱۷۵۸ء میں اس سرائے کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کیا۔
۴) ٹھٹھہ:
یہ گاؤں ریلوے لائن اور جی ٹی روڈ کے درمیان واقع تھا۔ جہاں آج کل مندر ہے۔سرائے کچی‘ سرائے کمبوہان‘ ٹھٹھہ اور سرائے گوجراں کا فاصلہ درمیانی دو دو میل کے قریب تھا۔ چڑت سنگھ کے بیٹے مہاں سنگھ نے شہر کو سنوارنے اور نکھارنے میں کافی دلچسپی لی۔ اس نے شہر میں ایک وسیع و عریض حویلی بنوائی۔شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کرائی اور اس میں دروازے لگائے ۔ یہ فصیل اہل شہر کی حفاظت کے لئے تھی۔ رات کے وقت یہ دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔
اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گوجرانوالہ اور سرائے کچی کا تذکرہ مغل دور کے آخری ایام میں لاہوراور کابل کے مختلف مراحل سفر کے سلسلہ میں مؤرخین نے کہا ہے ۔چیٹرمین کی تصنیف چہار گلشن جو ۱۷۸۹ء میں مرتب ہوئی میں مختلف مقامات کا تذکرہ ملتا ہے۔ لیکن اس نے بھی گوجرانوالہ یا سرائے کچی کا تذکرہ نہیں کیا ۔ اس کااندازہ ایک مؤرخ کے اس اقتباس سے ہوتا ہے جس میں اس نے راستے میں آنے والے قصبات کا ذکر کیا ہے۔ شاہدرہ ‘ پل شاہدولہ‘ ایمن آباد‘ گکھڑ‘ وزیر آباد اور گجرات۔
ایک اور مورخ ٹی پنتھلر نے ان قصبات کا تذکرہ یوں کیا ہے۔لاہور‘ فیروز آباد‘ پل شاہدولہ‘ ایمن آباد‘ کچی سرائے ‘ گکھڑ چیمہ ‘ وزیر آباد۔
گوجرانوالہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منشی گوپال داس اور عطا محمد تاریخ گوجرانوالہ میں اور عزت اللہ تاریخ ہمارا پنجاب میں اپنی تحقیقات کے ثمرات یوں سامنے لاتے ہیں۔
’’کسی مستند تاریخ سے آبادی اس کی صحیح معلوم نہیں ہوئی۔ روائت ہے کہ پانچ سو برس گزرے جب اس کو مسمی خان جاٹ عرف ساہنسی نے بصورت گاؤں آباد کر کے اس کا نام خان پور ساہنسی رکھا۔‘‘
صدیوں پیشتر اس شہر کی بنیاد خان جان ساہنسی نے رکھی تو اس وقت یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ خان ساہنسی کے نام پر ہی یہ قصبہ مدت تک خان پور ساہنسی کہلاتا رہا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ نواحی دیہات کے گوجروں (جو کہ جاٹوں کا ایک قبیلہ تھا)اور خان جان ساہنسی کے تعلقات میں کشیدگی پید ا ہوگئی۔ خان ساہنسی نے اپنی ریاست کو وسعت دینے کے لئے اردگرد کے گوجرا جاٹوں کے دیہات کو برباد کر دیا۔ گوجر سرداروں نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے جتھہ بندی کی اور مختلف گروہوں اور جتھوں میں تقسیم ہو کر خان جان کا مقابلہ شروع کر دیا۔ خان جان ساہنسی کی فوج اور گوجر گروہوں میں جگہ جگہ تصادم ہونے لگے ۔ گوجروں نے آئے دن خان پور پر شب خون مارنے شروع کر دیے۔ گوجروں اور ساہنسیوں کے درمیان قریباً پانچ سال تک یہ خونریز تصادم جاری رہے۔ جن کی وجہ سے ساہنسی سردار کی شہر پر گرفت کمزور پڑ گئی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر گوجر جاٹوں نے خان پور ساہنسی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ایک روایت کے مطابق چھچھرانوالی(چھچھریالی موجودہ فریدٹاؤن) کے نواح میں ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں خان ساہنسی کو شکست ہوئی اور وہ خان پور کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
گوجر جاٹوں نے خان پور پر قابض ہونے کے بعد اس کا نام تبدیل کر دیا۔ خان پور سے یہ شہرگوجرانوالہ بن گیا ۔ گوجروں نے ساہنسیوں کی زمینداریوں کو بھی قائم رہنے دیا۔ گوجر راج میںا گرچہ ساہنسی کافی تعداد میں آباد تھے مگر پھر کبھی ان کے گوجروں سے تصادم کی نوبت نہ آئی۔
مغل دورِ حکومت میں گوجرانوالہ ایک گوجر ریاست کی حیثیت سے مغل سلطنت میں شامل رہا اور گوجر سردار باقاعدہ طور پر مغل صوبیدار کو خراج ادا کرتا رہا۔مغل سلطنت کمزور ہوئی اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی تو گوجر سردار خواہش کے باوجود بھی اپنی ناچاقیوں کی بنا پر گوجرانوالہ میں کوئی مضبوط ریاست قائم نہ کر سکے۔
گوجروں میں باہمی اختلافات دیکھ کر کوٹ باز خان کے سردارباز خان نے ایک زبردست لشکر تیار کیا اور گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں اور دیہات کو تاخت و تاراج کرنا شروع کر دیا۔ سردار باز خاں نے درجنوں دیہات کو تباہ و برباد کر دیا او رلوٹ لیا۔ بعد میں سردار باز خان نے اپنی تباہ کاری کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے گوجرانوالہ پر قبضہ کرنے کے لئے موضع کھیالی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن کھیالی کے سکھوں اور ارائیوں نے مل کر اس کو موضع کھیالی سے دوڑا دیا۔ گوجرانوالہ اور اس کے گردونواح میں طوائف الملوکی اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ کوئی بھی سردار طاقتور نہ رہا اور ہر محلہ میں الگ الگ حکومت قائم ہو گئی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے داد چڑت سنگھ کے آباؤ اجداد کی موضع کھیالی میں کچھ جائیداد تھی لیکن چڑت سنگھ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اپنے طاقتور رشتہ داروں سے تنگ آکر اپنے ننہال موضع راجہ سانسی ضلع امرتسر میںچلا گیا۔ اس نے وہیں پرورش پائی۔ ہوش سنبھالا تو اسے جائیداد واپس لینے کا خیال آیا۔ چڑت سنگھ ان پڑھ مگر ذہین تھا۔ اس نے پنجاب میں طوائف الملوکی دیکھی تو اسے ایک سکھ ریاست قائم کرنے کا خیال آیا۔ اس نے راجہ سانسی میں ڈاکوؤں ‘ قزاقوں اور لوٹ مار کرنے والوں کا ایک منظم جتھا بنا لیا۔ وہ ضلع امرتسر اور گجرات کے دیہات میں دور دور تک اس جتھہ کے ذریعے لوٹ مار کر تا رہا اور اپنی طاقت بڑھاتا رہا۔ جب وہ کافی طاقتور ہو گیا تو اس نے اپنی جائیداد واپس لینے کے لئے راجہ سانسی سے موضع کھیالی کا رخ کیا۔ موضع کھیالی پہنچ کر اس نے اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ وہ اس کی جائیداد واپس کر دیں ورنہ وہ اسے طاقت کے ذریعہ حاصل کر لے گا۔ بات بڑھ گئی اور نوبت خون خرابہ تک پہنچ گئی۔
ایک روایت کے مطابق چڑت سنگھ کے رشتہ دار موضع کھیالی کے ایک درویش حضرت شاہ جمال نوریؒ کے معتقد تھے انہوں نے حضرت شاہ جمالؒ سے تمام صورتِ حال بیان کی اور امداد کے طالب ہوئے ۔ حضرت نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ چڑت سنگھ کی جائیداد اسے واپس کر دیں کیونکہ چڑت سنگھ کی نسل سے ایک لڑکا ہو جو اس ملک کا بادشاہ ہو گا اور سکھوں کی ایک مضبوط حکومت قائم کرے گا ۔ چنانچہ اس مسلمان بزرگ کی مداخلت سے خون خرابہ رک گیااور چڑت سنگھ کو اس کی جائیداد واپس مل گئی۔
چڑت سنگھ نے موضع کھیالی میں اڈہ قائم کرنے کے بعد اردگرد کے علاقوں میں تاخت و تاراج شروع کر دی اس کی قیادت میں سکھوں کی ایک مضبوط جمعیت قائم ہو گئی۔ چڑت سنگھ نے گوجرانوالہ کے شمال میں ایک قلعہ نما حویلی تیار کی اور اس میں اپنے ساتھیوں کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ اس نے موضع کھیالی میں باقاعدہ طور پر کچہری بنا لی۔ بعدمیں منڈی میں ایک پختہ کچہری بنوائی اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔
چڑت سنگھ نے ضلع گوجرانوالہ میں دور دور تک حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ گوجرانوالہ میں گوجروں کی اکثریت سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ اسے ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ گوجر جاٹ گوجرانوالہ میں بغاوت کر کے داخلی طور پر اس کے لئے شدید مشکلات نہ پیدا کر دیں۔ اس دوران میں زمینداران گوت بازی خان نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر کے ارد گرد کے دیہات کو لوٹنا شروع کر دیا تو موضع کھیالی اور کئی دوسرے دیہات کے سکھ سرداروں نے چڑت سنگھ سے فیصلہ کن اقدام کی اپیل کی۔سکھ قبائل اور جتھوں کی حمایت حاصل ہوتے ہی اس نے گوجر جاٹوں کے محلوں اور گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ معاملہ صرف لوٹ مار تک ہی محدود نہ رہا۔ بلکہ اس کے سپاہی گوجروں کے گھروں میں داخل ہو جاتے تھے اور لڑکیوں اور عورتوں کو زبردستی اغوا کر کے لے جاتے تھے۔ گوجر چڑت سنگھ کی ان کارروائیوں سے سخت پریشان اور سراسیمہ ہو گئے اور انہوں نے گوجرانوالہ سے ہجرت کرنا شروع کر دیا۔ گوجروں کے سینکڑوں خاندان گجرات میں جا آباد ہوئے ۔ گوجروں کی ہجرت کے بعد چڑت سنگھ کو یہ موقع مل گیا کہ وہ کھل کھیلے۔ اس نے پورے ضلع گوجرانوالہ پر حملہ کرنے کے لئے چٹھہ بھٹی اور تارڑریاستوں کے خلاف معرکہ آرائی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں سب سے مضبوط چٹھوں کی ریاست تھی۔ چڑت سنگھ نے چٹھوں پر کئی حملے کئے لیکن وہ چٹھوں کو کمزور اور ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
چڑت سنگھ نے سکھ ریاست قائم کرنے کے لئے جو زبردست منصوبہ تیار کیا تھا۔وہ اس کی زندگی میں پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا لیکن اس نے اپنی اولا دکے لئے ایک زبردست منصوبہ چھوڑا جسے تکمیل تک پہنچانے کے لئے اس کے بیٹے مہاں سنگھ نے زبردست کردار ادا کیا۔سردار مہاں سنگھ کے زمانے میں گوجرانوالہ میں مقیم گوجر جاٹوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اور وہ ایک ایک کر کے ہمیشہ کے لئے اس قصبہ کو چھوڑ گئے جس کو بنانے اور بسانے کے سلسلہ میں ان کے آباؤ اجداد نے بہت محنت کی تھی۔ سکھوں نے جہاں بہت سے قصبات اور دیہات کے نام تبدیل کر دیے تھے۔ ممکن ہے انہیں اس قصبہ کے نام کی تبدیلی کا خیال بھی آیا ہو مگر گوجرنوالہ کا نام تاریخی حقیقت بن کر جگمگاتا رہا۔
سید نگر اس دور میں گوجرانوالہ کا امیر ترین قصبہ تھا۔ اس قصبہ میں اسلحہ سازی کی صنعت زوروں پر تھی۔ سید نگر شمشیر سازی اور بندوقیں تیار کرنے کا اہم مرکز تھا۔ اس کے باشندے بہت امیر تھے۔ سید نگر میں مسلمانوں کی پختہ حویلیاں اور مساجد تھیں۔ سکھوں نے سید نگر پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا۔ سید نگر کے باشندے مہاں سنگھ کے حکم سے اپنا آبائی قصبہ چھوڑ کے گوجرانوالہ میں آباد ہو گئے۔ گوجرانوالہ میں انہوں نے ایک الگ محلہ آباد کیا جس کا نام انہوں نے سید نگری رکھا۔ سیدنگر کی لوٹ مار کے دوران میں سکھوں کے ہاتھ بہت سا اسلحہ اور جنگی سازوسامان لگا جس سے ان کی قوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
چڑت سنگھ کی موت پر اس کی رانی ویساں نے اپنے نوعمر بیٹے مہاں سنگھ کی طرف سے ریاست پر خود قابض ہو کر حکومت خود سنبھال لی۔ مہاں سنگھ کی عمر اس وقت سات یا دس برس کی تھی۔ جب مہاں سنگھ جوان ہوا اور اپنا نیک و بد پہچاننے لگا تو اس نے کچھ بُری اور مشکوک باتوں کی بنا پر اپنی ماں کو قتل کر کے ایک طرف کیا۔اور حکومت کی باگ ڈوراپنے ہاتھ میں لے لی۔ اب وہ اپنے ہمراہی سکھ سرداروں کی طرف متوجہ ہوا ۔اس نے اپنی دانائی اور حسن انتظام سے اس حد تک اپنا اثرورسوخ بڑھایا کہ تمام سکھ سرداروں نے اسے اپنا سربراہ تسلیم کر لیا۔ گردو پیش میں اس کی قوت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اب وہ جس طرف بھی رُخ کرتا ۔ کامیابی اس کا ساتھ دیتی۔
مہاں سنگھ نے اپنے باپ چڑت سنگھ کے خواب کوشرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے بہت کام کیا۔ اس کا باپ چڑت سنگھ گوجرانوالہ تحصیل کے شمالی حصہ کا نصف علاقہ فتح کر چکا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سکرچکیہ سردار کبھی بھی ساہنسی اور گوجر جاٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکے۔ بارے خان کے فوت ہو جانے کے بعد وڑائچ قبیلے نے جو ساہنسی جاٹوں کا جانی دشمن تھا۔ گوجرانوالہ کے قریب آخری مقابلہ کیا۔ اس مقابلہ میں وڑائچ قبیلہ کو شکست ہوئی مگر سانسی جاٹوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ قبیلہ اس گھوڑے کی مانند ہے جس پر سوار کا ہونا شرط اول و آخر ہے۔ کیونکہ وڑائچ قبیلہ نے اس وقت تک اپنے حریف کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ ایک تیسری طاقت یعنی سکھ ضلع میں حکمرانی کرنے لگے۔
راجہ مہاں سنگھ نے ایک زبردست فوج تیار کی۔ اس فوج کی کئی رجمنٹیں تھیں۔ اس نے باقاعدہ فوج کے علاوہ قزاقوں اور ڈاکوؤں کے جتھے بھی منظم کیے اور انہیں کھلی چھٹی دی کہ وہ جس گاؤں کو چاہے لوٹ لیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ مہاںسنگھ نے سکھ فوج کی تربیت کیلئے بعض فرانسیسی فوجی افسروں کو بھی اپنے ہاں ملازم رکھا۔ اس نے باقاعدہ طور پر سکھ سلطنت کی داغ بیل ڈال دی اور اسے چٹھوں ‘ بھٹیوں‘ تارڑوں کے علاوہ اپنے بعض سکھ حریفوں سے بھی لڑنا پڑا۔ مہاں سنگھ کو بعض ایسے سکھ اور ہندو سرداروں کی تائیدو حمایت بھی حاصل ہو گئی جو فوجی اعتبار سے بڑے مضبوط اور اچھی قوت کے حامل تھے۔ ان میں سندھو کھتری۔ ویسا سنگھ اور ہری سنگھ نلوہ جیسے جابر و ظالم سکھ سردار بھی شامل تھے۔جنہوں نے اپنی فتوحات سے سکھ سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ مہاں سنگھ کے حملوں نے بھٹیوں اور چٹھوں کو کمزور بنا دیا۔
چڑت سنگھ سے لے کر رنجیت سنگھ تک تمام سکھ سردار جن مسلم قبائل سے برسرپیکار رہے ان میں چٹھے خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ چٹھوں کی استقامت و عزیمت کا ناقابل فراموش داستان علیحدہ باب کی صور ت میں شامل تاریخ ہے۔
مہاں سنگھ کی موت کے بعد اس کا بیٹا رنجیت سنگھ اس کا جانشین مقرر ہوا۔ اس وقت رنجیت سنگھ کی عمر دس سال کی تھی۔ رنجیت سنگھ جوان ہوا تو اس نے گوجرانوالہ کو دارالحکومت قرار دیتے ہوئے سکھ سلطنت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔ شروع کا کچھ عرصہ اس نے مہاراجہ کی حیثیت سے گوجرانوالہ میں ہی گزارا اور پھرلاہور کو اپنا دارالسلطنت قرار دیتے ہوئے وہاں منتقل ہو گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ میں اپنے قیام کے دوران اس شہر کو خوبصورت بنانے کے کئی احکام جاری کئے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے اس جگہ جس کو کچی کہتے ہیں پر ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ اس قلعہ کی ڈیوڑھی اس جگہ تھی جہاں اس وقت ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ کا صدر دروازہ ہے۔ اس قلعہ کی بنیادوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اگر کچی کے علاقہ کی کھدائی کی جائے تو بہت سے تاریخی نوادرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ اور بہت سی تاریخی معلومات منظر عام پر آسکتی ہیں۔ مورخین نے گوجرانوالہ کے محل وقوع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ پرانا گوجرانوالہ کچی کے علاقے میں آباد تھا اور شمالاً جنوباً پھیلا ہوا تھا۔ سکھ دوراقتدار میں کچی کو سول لائن کی حیثیت حاصل تھی۔ کیونکہ بہت سے سکھ افسروں اور سرداروں کی حویلیاں اسی علاقہ میں تعمیر تھیں۔ لیکن اب کچی کے نشیب میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پھیلے ہوئے ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد جب مہاراجہ کھڑک سنگھ نے سکھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت ہری سنگھ نلوہ مر چکا تھا۔ اس کے بیٹوں ارجن سنگھ اور جواہر سنگھ کے مابین قلعہ پر قبضہ کرنے کیلئے زبردست جھڑپیں ہوئی۔ہری سنگھ نلوہ کی بیوہ ویساں اپنے بیٹے ارجن سنگھ کو لے کر اس قلعہ میں قلعہ بند ہو گئی۔ ہری سنگھ نلوہ کے دوسرے بیٹے جواہر سنگھ نے قلعہ پر قبضہ کرنے کے لئے مہاراجہ کھڑک سنگھ سے مدد مانگی۔ مہاراجہ کے حکم سے سکھ فوجوں نے نلوہ کے قلعہ پر دھاوا بول دیا۔ ویساں اور ارجن سنگھ نے شاہی فوجوں کا مقابلہ کیا لیکن ویساں کو شکست ہوئی اور جواہر سنگھ نے شاہی فوجوں کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ مہاراجہ کھڑک سنگھ کے حکم سے ویساں اور ارجن سنگھ کو گرفتار کر کے ضلع سیالکوٹ کے قصبہ ستراہ میں نظر بند کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد مہاراجہ کھڑک سنگھ کے حکم سے یہ قلعہ مسمار کر دیا گیا۔
دیگاں والا بازار میں جواہر سنگھ کی ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ اس حویلی میں عدالت بھی لگتی رہی اب وہ حویلی تو موجود نہیں۔ البتہ گلی جواہرسنگھ موجودہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت با تدبیر حکمران تھا۔ اس کی حدود سلطنت کشمیر سے پشاور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ افغانستان کی سیاست و حکومت پر بھی اثر اندازہوتا رہا اور اس نے برطانوی حکومت سے بھی برابر کی سطح پر تعلقات خوشگوار رکھے۔ اس نے چٹھوں کے علاوہ حافظ آباد کے بھٹی قبائل کی قوت کا بھی خاتمہ کیا۔ اس نے اپنے حریف سکھ سرداروں کا زور بھی ختم کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ تمام قوتوں نے اس کی سلطنت اور اقتدار کو تسلیم کر لیا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ گوجرانوالہ میں پیدا ہو ا لیکن اس کی تعمیر و ترقی کے لئے وہ کچھ نہ کر سکا جو اسے کرنا چاہیے تھے۔ وہ نہ صرف یہاں پیدا ہوا بلکہ ڈپٹی کمشنر مسٹر ہنسن کے بقول اس نے اپنیج وانی کا بیشتر وقت بھی یہیں گزارا تھا۔ رنجیت سنگھ لاہور میں قبضہ کرنے تک گوجرانوالہ میں ہی رہا اور یہیں سے اپنی حکومت کا انتظام چلاتا رہا۔ لاہور کی فتح اور وہاں منتقلی تک گوجرانوالہ سکھ حکومت کے دارالحکومت کے طور پر معروف رہا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک خوبصورت باغ میں اپنے والد راجہ مہاں سنگھ کی سمادھی بنوائی۔ اس باغ کے اردگرد چار دیواری تھی۔ سمادھی کا ارتفاع ۹۰ فٹ تھا۔ اس کے علاوہ اس باغ میں رنجیت سنگھ نے ایک خوبصورت بارہ دری بھی بنوائی۔جو اب تک موجود ہے۔ ۱۸۷۴ء میں انگریزوں نے اس بارہ دری میں شفاخانہ قائم کر دیا جو کافی عرصہ تک اس عمارت میں موجود رہا۔ پھر انقلابات زمانہ اور ضروریات کے مطابق اس بارہ دری میں مختلف محکموں کے دفاتر بھی قائم رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس عمارت میںمیونسپل لائبریری تھی ۔لیکن اب میونسپل کارپوریشن نے اس لائبریری کے لئے علیحدہ عمارت بنا دی ہے اور بارہ دری اور سمادھی محکمہ اوقاف کی تحویل میں چلی گئی ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد اس کے وارث اس کے استحکام اور عظمت کو برقرار نہ رکھ سکے اور انگریزی اقتدار نے سکھ حکومت کو ہڑپ کر لیا۔ حکومت برطانیہ نے بعد میں پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ انگریز دورِ حکومت میں جن شخصیات نے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے سلسلہ میں خاص کردار ادا کیا ان میں کرنل کلارک اور مسٹر آرتھر برانڈتھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
کرنل کلارک گوجرانوالہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بعض نئی عمارات اور دروازے تعمیر کرائے۔ کرنل کلارک نے حویلی مہاں سنگھ کو منہدم کروا دیا۔ اور اس جگہ ایک مربعی بازار تیار کرایا اور اس کا نام رنجیت گنج رکھا۔ یہ بازار بڑا خوبصورت تھا۔ مہاں سنگھ کی حویلی ایک قلعہ نما عمارت تھی۔ اس میں سکھوں کا شاہی خاندان آباد تھا اور اس حویلی کے قریب ہی سبزی منڈی کی طرف ایک قلعہ نما باغ تھا جسے حضوری باغ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ اس باغ میں سکھ رانیاں اور شہزادیاں آکر ٹھہرا کرتی تھیں۔ کرنل کلارک نے اس حویلی کو مسمار کرا دیا اور اس جگہ مربع بازار بنوا دیا۔
گوجرانوالہ کے ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر آرتھر برانڈرتھ نے شہر کو خوبصورت بنانے کے لئے پرانی عمارات کے کھنڈروں پر کئی عمارات تعمیر کیں۔ انہوں نے گوجرانوالہ میں کھیالی دروازہ ‘ لاہوری دروازہ اور سیالکوٹی دروازہ تعمیر کرائے۔ ان دروازوں میں سے سیالکوٹی دروازہ لاہوری دروازہ اور برانڈرتھ مارکیٹ اب بھی قائم ہیں لیکن کھیالی دروازہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس کے محض آثار ہی تلاش کئے جا سکتے ہیں۔
گوجرانوالہ میں افغان دورِ اقتدار کی یادگار ایک مسجد بھی ہے۔ اسے شیر شاہ سوری کی مسجد کہتے ہیں۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے رہتاس کی طرف جاتے ہوئے جب گوجرانوالہ میں قیام کیا تو اپنی قیام گاہ کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائی۔ یہ مسجد افغان طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے اور کراؤں فونڈری کے عقب میں واقع ہے۔ گو زمانہ کی دست برد سے اس مسجد کی خوبصورتی تو قائم نہیں رہی لیکن مسجد اب بھی موجود ہے۔ اگرچہ اس مسجد کی تعمیر خاص کر کشادہ اور وسیع گنبد مینار وغیرہ اس گمان کو تقویت دیتے ہیں کہ یہ مسجد شیر شاہ سوری کے احکام کی مرہونِ منت ہے لیکن شیر شاہ کے عہد کے مورخ اس معاملہ میں بالکل خاموش ہیں ۔علاوہ ازیں اس مسجد کے واضح نقوش مرمت کی وجہ سے مٹتے جار ہے ہیں اور اس کے عقب میں جو کنواں تھا وہ بھی بھرا جا چکا ہے ورنہ اس میں سے تختی کا مطالعہ کرنے کے بعد آسانی سے نتیجہ برآمد کیا جا سکتا تھا کہ یہ کس عہد میں تعمیر ہوئی۔
جغرافیہ ضلع گوجرانوالہ مرتبہ ڈائریکٹر تعلیمات پنجاب (۱۹۰۴ء) گوجرانوالہ سے متعلق یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں ۔ گوجرانوالہ ضلع کا صدر مقام ہے۔ اس میں ۲۶۷۸۵ آدمی رہتے ہیں۔ شہر کسی قدر بلندی پر بنا ہوا ہے۔ اس کے گرد ایک دیوار ہے جس میں گیارہ دروازے ہیں ۔کئی باغ ہیں ۔ اور قرب و جوار کا علاقہ دور دور تک درختوں سے پُر ہے۔ بازار پختہ ‘ صاف ستھرے اور رونق دار ہیں۔ صفائی کا انتظام میونسپل کمیٹی کے ماتحت ہے۔ میونسپل بوڑد سکول کے پاس مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دادا سردار چرٹ سنگھ کی سمادھی ہے۔ دیوار کے اندرسردار مہاں سنگھ کا باغ ہے اس میں ایک بارہ دری ہے جہاں اب کتب خانہ ہے اور جلسے بھی یہیں ہوتے ہیں ۔ کتب خانے کے متعلق ایک اور پاس کے مکان میں چھوٹا سا عجائب گھر ہے ۔ گوجرانوالہ کے قریب ہی ایک بڑا خوبصورت اونچا مینار تھا۔ یہ عمارت سب عمارتوں سے مشہور اور دلکش ہے۔ مہاں سنگھ کی سمادھی اس میں ہے۔ برانڈرتھ صاحب نے جو اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے اس پر سونے کا کلس چڑھایا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور میں فوت ہوئے اور وہیں ان کی سمادھی بنائی گئی مگر گوجرانوالہ ان کا وطن ہونے کے باعث اس راکھ کا کچھ تھوڑا سا حصہ یہاں بھیجا گیا جو مہاں سنگھ کی سمادھی کے پاس دبایا گیا۔ کہتے ہیں کہ جس عمارت میں اب بورڈ سکول کی ایک شاخ ہے وہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ پیدا ہوئے تھے۔
(مضمون بشکریہ مجلہ مہک گوجرانوالہ نمبرگورنمنٹ کالج گوجرانوالہ)
گوجراں والا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو کہ ماضی کے دھند لکوں سے اُبھرنے والی روشن تصویر ہی نہیں بلکہ لوحِ وقت پر زمانہ حال کے مقدر کی جگمگاتی ہوئی تحریر بھی ہے ۔ اس کے دامانِ علم و ہنر میں شعر وادب کے جواہر پاروں سے لے کر دنیائے صحافت میں اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے مردانِ باکمال تک اور شہ زوری و پہلوانی کی غیرمعمولی صلاحیتوں سے بہرہ ور پہلوانوں سے لے کر صنعت و حرفت کے میدان میں اپنی فنی مہارتوں کے جادو جگانے والے صنعتکاروں تک ایک ایسی صدق آفرین داستانِ حیرت پھیلی ہوئی ہے کہ جس کا ایک ایک لفظ اس کوچہ اہل نظر کے ہر ایک باسی کے لئے سرمایۂ اعزاز اور نشانِ عظمت ہے۔
اس سر زمین سے ایسے بے شمار ادیبوں‘ شاعروں‘ دانشوروں‘ صحافیوں‘ سیاستدانوں‘ علمائے کرام اور مشائخ عظام نے جنم لیا ہے ۔ جن میں سے بعض اپنی خدا دا د صلاحیتوں اور انمٹ علمی و ادبی شہکاروں کی بدولت روائت ہی نہیں بلکہ کلاسیک کا درجہ حاصل کر چکے ہیں اور جن کی ادبی سر بلندی اور علمی سرفرازیوں کے چرچے ان کی جنم نگری کی محدود فضاؤں سے اُبھر کر لامحدود دُنیائے علم و اَدب کا حصہ ہی نہیں بلکہادب عالیہ کا افتخار اور تاریخ تہذیب کا نگار بن چکے ہیں۔ آج ہماری نگاہیں انہیں دیکھ تو نہیں سکتیں مگر تصورات کے آئینہ خانے میں اِن کے جھلملاتے ہوئے عکس نگاہِ باطن کو خیرہ کئے جا رہے ہیں۔ بلا شبہ یہاں بیسیوںہی نہیں بلکہ سینکڑوں ایسے مردانِ یکتا مدفون ہیں۔ جن کی رفعت فکر و فن‘ عظمتِ علم و عمل اور سطوتِ روحانی کے تذکرے آج بھی ارادت مندوں کے دلوں کو ولولہ ایمانی سے گرماتے ہیں اور متلاشیانِ جادۂ حق کو سعی پیہم پر اکساتے ہیں۔ عالم محسوسات میں پہنچ کر زبان واردات قلبی کی غماز بن جاتی ہے کہ
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم!
تو نے قرۃ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
انہیں ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ اور علم و حکمت کے جواہر بے بہا کو اپنی وسعتِ تاریخ و تہذیب پر بصد آب و تاب سجا کر اپنا تابندہ و درخشندہ وجودمنوانے والا’’گوجراں والا‘‘جو کبھی ایک معمولی سا گاؤں تھا‘ آلام زمانہ سے فرصت پاتے ہی پُر رونق قصبہ بن گیا۔ گردشِ ایّام سے نجات ملی تو شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی گوجراں والا جو کبھی ضلع کی تحصیل تھا ایک مقام پر ضلع کا صدر مقام بن گیا اب یہی گوجراں والا میونسپل کمیٹی سے میونسپل کارپوریشن کی منزل تک ہی نہیں پہنچا بلکہ ڈویژن کے صدر مقام ہونے کا درجہ بھی حاصل کر چکا ہے۔
یہی گوجراں والا جسے بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان سے نسبت کا اعزاز ہے جسے سوامی رام تیرتھ‘ منشی محبوب عالم‘ مولوی غلام رسول‘ جسٹس دین محمد‘ رستم زماں رحیم پہلوان‘ حضرت خواجہ محمد عمر قادری‘ حضرت شاہ رحمن‘ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر‘ خلیفہ امام الدین بقا ‘ غلام محمد چٹھہ اور سابق صدرجناب محمد رفیق تارڑکے ساتھ جنم نگری کا شرف حاصل ہے آج حیرت انگیز تیزی کے ساتھ ترقی و عروج کی شاہراہ پر یوں گامزن ہے کہ اس کی آبادی شاہراہ اعظم کے دونوں طرف شمال میں کینٹ اور جنوب میں پُل اپر چناب تک پھیل چکی ہے۔
اب ہم تاریخ کے نہاں خانوں میں جھانکتے ہوئے اس شہر کی تعمیر و ترقی‘شکست و ریخت ‘ عروج و زوال اور بربادی و آبادی کے مختلف مراحل قارئین کی نذر کرتے ہیں۔
ضلع گوجرانوالہ اپنی سرحدوں اور اہم قصبوں کے لحاظ سے لازماً جدید تخلیق ہے لیکن اس کے باوجود یہاں پر ماضی کے نشانات بھی موجود ہیں ۔ ممتاز برطانوی مؤرخ مسٹرڈبلیو ہنٹراپنی کتاب تاریخ ہند میں گوجرانوالہ کے ماضی کے حوالے سے گرہ کشائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’گوجرانوالہ شہر زمانہ قدیم کے ایک خوشحال دور میں تعمیر ہوا۔ اس ضلع کے ابتدائی خوشحالی کے زمانے اور اس زمانے سے طویل مدت بعد نمودار ہونے والے تاریخی خدوخال میں کوئی میل نہیں۔کیونکہ اوّل الذکر اور مؤخر الذکرکے ادارے کے طویل عرصے کے متعلق ہمارے پاس کوئی تاریخی مواد بھی موجود نہیں۔ بظاہر یہ بات دور ازحقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس زمانے میں جب کہ لاہور ابھی آباد بھی نہیں ہوا تھا ضلع گوجرانوالہ ہی کو پنجاب کا دارا لحکومت ہونے کا شرف حاصل رہا۔ ہمیں بدھ مت کے پیرو کارچینی سیاح کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ ۶۳۰ ق م میں اس نے اسی علاقے میں ایک شہر کو دیکھا تھا جو سیکیا بادینی کے نام سے مشہور تھا اور جو پانچ دریاؤں کے سارے ملک کا ایک دارالحکومت تھا۔‘‘
اس شہر کی شناخت جنرل بکنگھم نے بھی کی ہے جو آرسرو نامی جدید طرز کے ایک گاؤں کے قریب ہے اور جہاں آج بھی بدھ مت کے ابتدائی دور میں تعمیر شدہ عمارتوں کے کھنڈرات موجود ہیں ۔ اس عہد کی تاریخ کا پتہ ان سکوں اور بڑے بڑے حجم کے پتھروں کی دریافت سے چلتا ہے جن پر اس عہد کی تاریخ کندہ ہے۔
بدھ حکومت اپنے دور کی سب سے بڑی حکومت تھی۔ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ بدھ حکومت کے دور میں گوجرانوالہ پنجاب کا دارالحکومت تھا تو اس سے بجا طور پر گوجرانوالہ کی تاریخی قدامت ‘عظمتِپارینہ اور بے پناہ شان و شوکت کا اندازہ ہوتا ہے۔تاریخ سے قطعی اندازہ نہیں ہوتا کہ گوجرانوالہ کتنا عرصہ پنجاب کا دارالحکومت رہا۔ جب تک بدھ حکومت مضبوط رہی شمال مغربی دروں سے حملہ آوروں کی یلغار بند رہی اس کے بعد منگولیا‘ ترکستان‘ افغانستان اور ایران وغیرہ سے جنگجو قبائل پنجاب پر حملہ آور ہو کر اسے تباہ و برباد کرتے رہے بعض اوقات سفاک حملہ آور ملک کی آبادی کو بالکل تہہ تیغ کر دیتے تھے۔ اور میلوں تک کہیں انسانی آبادی کا نام و نشان تک نہ ملتا تھا۔ صدیوں تک صورت حال یہ رہی کہ کبھی پنجاب آباد ہے اور کبھی برباد۔
ایک روایت کے مطابق بدھ کے زمانے میں ریلوے لائن(کنہیا باغ )کے قریب ایک ٹیلے کا وجود ہے یہ ٹیلہ پُرانی آبادی کانشان ہے ۔ اسی روایت کے مطابق اسے لیکھم پور کہتے تھے۔ لیکھم پور کا اصل ٹبہ یہی ہے موجود ہ جگہ جہاں گوجرانوالہ آباد ہے اس زمانہ میں بالکل اجاڑ تھی۔ لیکھم پور میں کوئی قوم رہتی تھی جسے کھوکھروں نے لوٹا تھا۔ اس لئے اسے لیکھم کھوکھراں بھی کہتے تھے۔ کھوکھر یہاں ڈھائی ہزار سال کے قریب آباد رہے ۔انہی کھوکھروں کی یادگار آج کا علاقہ کھوکھرکی ہے۔
گوجرانوالہ سرائے کچی کے پس منظر میں:
تمام مغل شہزادے آگرہ سے کشمیر جاتے ہوئے شاہراہ اعظم پر سے گزرتے تھے ۔ چونکہ ان دنوں یہ سڑک سرائے کچی سے ہو کر گزرتی تھی اس لئے وہ بھی سرائے کچی سے ہو کر گزرتے تھے۔ لیکن مقام تعجب ہے کہ مغل حکمرانوں نے بعض دوسرے مقامات کا تو ذکر کیا ہے مگر سرائے کچی کے بار ے میں خاموش رہے ہیں ۔ تزک جہانگیری سے پتہ چلتا ہے کہ نورالدین جہانگیر جب کشمیر سے واپس اپنے دارالخلافہ کو جاتا تھا تو اس علاقہ میں شکار کھیلا کرتا تھا۔اس کی خود نوشت سے اس علاقہ میں دوبار شکار کھیلنے کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ مغل بادشاہ ضلع گوجرانوالہ کے جن قصبات میں شکار کھیلا کرتا تھا وہ گرجاکھ‘ موکھل اور جہانگیر آباد (شیخوپورہ) تھے۔
بیشترتذکرہ نگاروں نے شاہراہ اعظم پر سفر کرتے ہوئے سرائے کچی کا تذکرہ نہیں کیا تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مغل دورِ حکومت میں سرائے کچی کو خاص اہمیت حاصل نہیں تھی اور اس کی حیثیت محض ایک معمولی گاؤں کی تھی۔ اورنگ زیب کی وفات سے لے کر نادر شاہ کے حملہ آور ہونے تک اس گاؤں(سرائے کچی) سے متعلق کوئی معمولی سا حوالہ بھی نہیں ملتا۔ اس دور میں گوجرانوالہ مکمل طور پر تاریخ کے ظلمت کدوں میں گم دکھائی دیتا ہے۔ نادرشاہ جب ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ دریائے چناب عبور کرتے ہوئے پل شاہدولہ جا پہنچا۔ اس کے تذکرہ نگاروں نے گوجرانوالہ کے قریبی دوسرے دیہات کا ذکر نہیں کیا۔ پل شاہدولہ کا ذکر ملتا ہے۔ نادر شاہ کے اس حملہ کے بعد سرائے کچی کا پھر ذکر نہیں ملتا۔ حتی کہ ہندوستان پر احمد شاہ ابدالی کے حملے(۱۷۷۴ء) سے اس شہر کا ذکر پھر تذکروں کی زینت بننے لگتا ہے۔ رنجیت سنگھ کے دادا چڑہت سنگھ کے دور سے اس شہر کا ذکر ملتا ہے تو پھر ہر آنے والا دور اس شہر کی عظمت میں اضافہ کا باعث بننے لگتا ہے۔
احمد شاہ ابدالی کے دور میںیہ شہر وسیع و عریض رقبے پر مشتمل نہیں تھا بلکہ چار چھوٹے چھوٹے دیہات میں منقسم تھا۔ ان دیہات کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے۔
۱)سرائے کچی:
جس کا اوپر ذکر آچکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ گاؤں شاہراہ اعظم کے کنارے واقع تھا ۔ بیشتر مکان کچے تھے۔ یہ سرائے مسافروں کے سستانے اور قیام کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک باؤلی بھی تھی۔ ایک قدیم قبرستان بھی تھا۔ غالباً یہی قبرستان وسیع ہو کر آج چمن شاہ کے قبرستان سے موسوم ہے ۔ اس راستے سے مغل شہنشاہ گزرتے رہے ہیں۔
۲) سرائے گوجراں:
یہ حصہ موجودہ اندرون کھیالی میں اُونچی جگہ پر واقع تھا۔ موجودہ کھیالی دروازہ کے اندر ایک ٹبہ تھا۔ یہاں کسی دور میں ایک سرائے ہوا کرتی تھی۔ اس سرائے کے ساتھ ایک کنواں بھی تھا اور اس کنویں کے چاروں طرف ایک وسیع سبزہ زار ہوا کرتا تھا۔ اس سرائے کا نام سرائے گوجراں تھا۔
۳) سرائے کمبوہان:
چڑت سنگھ نے ۱۷۵۸ء میں اس سرائے کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کیا۔
۴) ٹھٹھہ:
یہ گاؤں ریلوے لائن اور جی ٹی روڈ کے درمیان واقع تھا۔ جہاں آج کل مندر ہے۔سرائے کچی‘ سرائے کمبوہان‘ ٹھٹھہ اور سرائے گوجراں کا فاصلہ درمیانی دو دو میل کے قریب تھا۔ چڑت سنگھ کے بیٹے مہاں سنگھ نے شہر کو سنوارنے اور نکھارنے میں کافی دلچسپی لی۔ اس نے شہر میں ایک وسیع و عریض حویلی بنوائی۔شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کرائی اور اس میں دروازے لگائے ۔ یہ فصیل اہل شہر کی حفاظت کے لئے تھی۔ رات کے وقت یہ دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔
اس سلسلہ میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گوجرانوالہ اور سرائے کچی کا تذکرہ مغل دور کے آخری ایام میں لاہوراور کابل کے مختلف مراحل سفر کے سلسلہ میں مؤرخین نے کہا ہے ۔چیٹرمین کی تصنیف چہار گلشن جو ۱۷۸۹ء میں مرتب ہوئی میں مختلف مقامات کا تذکرہ ملتا ہے۔ لیکن اس نے بھی گوجرانوالہ یا سرائے کچی کا تذکرہ نہیں کیا ۔ اس کااندازہ ایک مؤرخ کے اس اقتباس سے ہوتا ہے جس میں اس نے راستے میں آنے والے قصبات کا ذکر کیا ہے۔ شاہدرہ ‘ پل شاہدولہ‘ ایمن آباد‘ گکھڑ‘ وزیر آباد اور گجرات۔
ایک اور مورخ ٹی پنتھلر نے ان قصبات کا تذکرہ یوں کیا ہے۔لاہور‘ فیروز آباد‘ پل شاہدولہ‘ ایمن آباد‘ کچی سرائے ‘ گکھڑ چیمہ ‘ وزیر آباد۔
گوجرانوالہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
منشی گوپال داس اور عطا محمد تاریخ گوجرانوالہ میں اور عزت اللہ تاریخ ہمارا پنجاب میں اپنی تحقیقات کے ثمرات یوں سامنے لاتے ہیں۔
’’کسی مستند تاریخ سے آبادی اس کی صحیح معلوم نہیں ہوئی۔ روائت ہے کہ پانچ سو برس گزرے جب اس کو مسمی خان جاٹ عرف ساہنسی نے بصورت گاؤں آباد کر کے اس کا نام خان پور ساہنسی رکھا۔‘‘
صدیوں پیشتر اس شہر کی بنیاد خان جان ساہنسی نے رکھی تو اس وقت یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ خان ساہنسی کے نام پر ہی یہ قصبہ مدت تک خان پور ساہنسی کہلاتا رہا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ نواحی دیہات کے گوجروں (جو کہ جاٹوں کا ایک قبیلہ تھا)اور خان جان ساہنسی کے تعلقات میں کشیدگی پید ا ہوگئی۔ خان ساہنسی نے اپنی ریاست کو وسعت دینے کے لئے اردگرد کے گوجرا جاٹوں کے دیہات کو برباد کر دیا۔ گوجر سرداروں نے اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے جتھہ بندی کی اور مختلف گروہوں اور جتھوں میں تقسیم ہو کر خان جان کا مقابلہ شروع کر دیا۔ خان جان ساہنسی کی فوج اور گوجر گروہوں میں جگہ جگہ تصادم ہونے لگے ۔ گوجروں نے آئے دن خان پور پر شب خون مارنے شروع کر دیے۔ گوجروں اور ساہنسیوں کے درمیان قریباً پانچ سال تک یہ خونریز تصادم جاری رہے۔ جن کی وجہ سے ساہنسی سردار کی شہر پر گرفت کمزور پڑ گئی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر گوجر جاٹوں نے خان پور ساہنسی کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ ایک روایت کے مطابق چھچھرانوالی(چھچھریالی موجودہ فریدٹاؤن) کے نواح میں ایک خونریز جنگ ہوئی جس میں خان ساہنسی کو شکست ہوئی اور وہ خان پور کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
گوجر جاٹوں نے خان پور پر قابض ہونے کے بعد اس کا نام تبدیل کر دیا۔ خان پور سے یہ شہرگوجرانوالہ بن گیا ۔ گوجروں نے ساہنسیوں کی زمینداریوں کو بھی قائم رہنے دیا۔ گوجر راج میںا گرچہ ساہنسی کافی تعداد میں آباد تھے مگر پھر کبھی ان کے گوجروں سے تصادم کی نوبت نہ آئی۔
مغل دورِ حکومت میں گوجرانوالہ ایک گوجر ریاست کی حیثیت سے مغل سلطنت میں شامل رہا اور گوجر سردار باقاعدہ طور پر مغل صوبیدار کو خراج ادا کرتا رہا۔مغل سلطنت کمزور ہوئی اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی تو گوجر سردار خواہش کے باوجود بھی اپنی ناچاقیوں کی بنا پر گوجرانوالہ میں کوئی مضبوط ریاست قائم نہ کر سکے۔
گوجروں میں باہمی اختلافات دیکھ کر کوٹ باز خان کے سردارباز خان نے ایک زبردست لشکر تیار کیا اور گوجرانوالہ کے نواحی علاقوں اور دیہات کو تاخت و تاراج کرنا شروع کر دیا۔ سردار باز خاں نے درجنوں دیہات کو تباہ و برباد کر دیا او رلوٹ لیا۔ بعد میں سردار باز خان نے اپنی تباہ کاری کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے گوجرانوالہ پر قبضہ کرنے کے لئے موضع کھیالی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔لیکن کھیالی کے سکھوں اور ارائیوں نے مل کر اس کو موضع کھیالی سے دوڑا دیا۔ گوجرانوالہ اور اس کے گردونواح میں طوائف الملوکی اپنی انتہا کو چھونے لگی۔ کوئی بھی سردار طاقتور نہ رہا اور ہر محلہ میں الگ الگ حکومت قائم ہو گئی۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے داد چڑت سنگھ کے آباؤ اجداد کی موضع کھیالی میں کچھ جائیداد تھی لیکن چڑت سنگھ اپنے باپ کے مرنے کے بعد اپنے طاقتور رشتہ داروں سے تنگ آکر اپنے ننہال موضع راجہ سانسی ضلع امرتسر میںچلا گیا۔ اس نے وہیں پرورش پائی۔ ہوش سنبھالا تو اسے جائیداد واپس لینے کا خیال آیا۔ چڑت سنگھ ان پڑھ مگر ذہین تھا۔ اس نے پنجاب میں طوائف الملوکی دیکھی تو اسے ایک سکھ ریاست قائم کرنے کا خیال آیا۔ اس نے راجہ سانسی میں ڈاکوؤں ‘ قزاقوں اور لوٹ مار کرنے والوں کا ایک منظم جتھا بنا لیا۔ وہ ضلع امرتسر اور گجرات کے دیہات میں دور دور تک اس جتھہ کے ذریعے لوٹ مار کر تا رہا اور اپنی طاقت بڑھاتا رہا۔ جب وہ کافی طاقتور ہو گیا تو اس نے اپنی جائیداد واپس لینے کے لئے راجہ سانسی سے موضع کھیالی کا رخ کیا۔ موضع کھیالی پہنچ کر اس نے اپنے رشتہ داروں سے کہا کہ وہ اس کی جائیداد واپس کر دیں ورنہ وہ اسے طاقت کے ذریعہ حاصل کر لے گا۔ بات بڑھ گئی اور نوبت خون خرابہ تک پہنچ گئی۔
ایک روایت کے مطابق چڑت سنگھ کے رشتہ دار موضع کھیالی کے ایک درویش حضرت شاہ جمال نوریؒ کے معتقد تھے انہوں نے حضرت شاہ جمالؒ سے تمام صورتِ حال بیان کی اور امداد کے طالب ہوئے ۔ حضرت نے ان لوگوں سے کہا کہ وہ چڑت سنگھ کی جائیداد اسے واپس کر دیں کیونکہ چڑت سنگھ کی نسل سے ایک لڑکا ہو جو اس ملک کا بادشاہ ہو گا اور سکھوں کی ایک مضبوط حکومت قائم کرے گا ۔ چنانچہ اس مسلمان بزرگ کی مداخلت سے خون خرابہ رک گیااور چڑت سنگھ کو اس کی جائیداد واپس مل گئی۔
چڑت سنگھ نے موضع کھیالی میں اڈہ قائم کرنے کے بعد اردگرد کے علاقوں میں تاخت و تاراج شروع کر دی اس کی قیادت میں سکھوں کی ایک مضبوط جمعیت قائم ہو گئی۔ چڑت سنگھ نے گوجرانوالہ کے شمال میں ایک قلعہ نما حویلی تیار کی اور اس میں اپنے ساتھیوں کو آباد کرنا شروع کر دیا۔ اس نے موضع کھیالی میں باقاعدہ طور پر کچہری بنا لی۔ بعدمیں منڈی میں ایک پختہ کچہری بنوائی اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے باقاعدہ طور پر اپنی ریاست کی داغ بیل ڈالی۔
چڑت سنگھ نے ضلع گوجرانوالہ میں دور دور تک حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وہ گوجرانوالہ میں گوجروں کی اکثریت سے بہت زیادہ پریشان تھا۔ اسے ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ گوجر جاٹ گوجرانوالہ میں بغاوت کر کے داخلی طور پر اس کے لئے شدید مشکلات نہ پیدا کر دیں۔ اس دوران میں زمینداران گوت بازی خان نے لوٹ مار کا سلسلہ شروع کر کے ارد گرد کے دیہات کو لوٹنا شروع کر دیا تو موضع کھیالی اور کئی دوسرے دیہات کے سکھ سرداروں نے چڑت سنگھ سے فیصلہ کن اقدام کی اپیل کی۔سکھ قبائل اور جتھوں کی حمایت حاصل ہوتے ہی اس نے گوجر جاٹوں کے محلوں اور گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا۔ معاملہ صرف لوٹ مار تک ہی محدود نہ رہا۔ بلکہ اس کے سپاہی گوجروں کے گھروں میں داخل ہو جاتے تھے اور لڑکیوں اور عورتوں کو زبردستی اغوا کر کے لے جاتے تھے۔ گوجر چڑت سنگھ کی ان کارروائیوں سے سخت پریشان اور سراسیمہ ہو گئے اور انہوں نے گوجرانوالہ سے ہجرت کرنا شروع کر دیا۔ گوجروں کے سینکڑوں خاندان گجرات میں جا آباد ہوئے ۔ گوجروں کی ہجرت کے بعد چڑت سنگھ کو یہ موقع مل گیا کہ وہ کھل کھیلے۔ اس نے پورے ضلع گوجرانوالہ پر حملہ کرنے کے لئے چٹھہ بھٹی اور تارڑریاستوں کے خلاف معرکہ آرائی شروع کر دی۔ مسلمانوں کی ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں سب سے مضبوط چٹھوں کی ریاست تھی۔ چڑت سنگھ نے چٹھوں پر کئی حملے کئے لیکن وہ چٹھوں کو کمزور اور ختم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
چڑت سنگھ نے سکھ ریاست قائم کرنے کے لئے جو زبردست منصوبہ تیار کیا تھا۔وہ اس کی زندگی میں پایۂ تکمیل تک نہ پہنچ سکا لیکن اس نے اپنی اولا دکے لئے ایک زبردست منصوبہ چھوڑا جسے تکمیل تک پہنچانے کے لئے اس کے بیٹے مہاں سنگھ نے زبردست کردار ادا کیا۔سردار مہاں سنگھ کے زمانے میں گوجرانوالہ میں مقیم گوجر جاٹوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اور وہ ایک ایک کر کے ہمیشہ کے لئے اس قصبہ کو چھوڑ گئے جس کو بنانے اور بسانے کے سلسلہ میں ان کے آباؤ اجداد نے بہت محنت کی تھی۔ سکھوں نے جہاں بہت سے قصبات اور دیہات کے نام تبدیل کر دیے تھے۔ ممکن ہے انہیں اس قصبہ کے نام کی تبدیلی کا خیال بھی آیا ہو مگر گوجرنوالہ کا نام تاریخی حقیقت بن کر جگمگاتا رہا۔
سید نگر اس دور میں گوجرانوالہ کا امیر ترین قصبہ تھا۔ اس قصبہ میں اسلحہ سازی کی صنعت زوروں پر تھی۔ سید نگر شمشیر سازی اور بندوقیں تیار کرنے کا اہم مرکز تھا۔ اس کے باشندے بہت امیر تھے۔ سید نگر میں مسلمانوں کی پختہ حویلیاں اور مساجد تھیں۔ سکھوں نے سید نگر پر حملہ کر کے اسے لوٹ لیا۔ سید نگر کے باشندے مہاں سنگھ کے حکم سے اپنا آبائی قصبہ چھوڑ کے گوجرانوالہ میں آباد ہو گئے۔ گوجرانوالہ میں انہوں نے ایک الگ محلہ آباد کیا جس کا نام انہوں نے سید نگری رکھا۔ سیدنگر کی لوٹ مار کے دوران میں سکھوں کے ہاتھ بہت سا اسلحہ اور جنگی سازوسامان لگا جس سے ان کی قوت میں مزید اضافہ ہو گیا۔
چڑت سنگھ کی موت پر اس کی رانی ویساں نے اپنے نوعمر بیٹے مہاں سنگھ کی طرف سے ریاست پر خود قابض ہو کر حکومت خود سنبھال لی۔ مہاں سنگھ کی عمر اس وقت سات یا دس برس کی تھی۔ جب مہاں سنگھ جوان ہوا اور اپنا نیک و بد پہچاننے لگا تو اس نے کچھ بُری اور مشکوک باتوں کی بنا پر اپنی ماں کو قتل کر کے ایک طرف کیا۔اور حکومت کی باگ ڈوراپنے ہاتھ میں لے لی۔ اب وہ اپنے ہمراہی سکھ سرداروں کی طرف متوجہ ہوا ۔اس نے اپنی دانائی اور حسن انتظام سے اس حد تک اپنا اثرورسوخ بڑھایا کہ تمام سکھ سرداروں نے اسے اپنا سربراہ تسلیم کر لیا۔ گردو پیش میں اس کی قوت کی دھاک بیٹھ گئی۔ اب وہ جس طرف بھی رُخ کرتا ۔ کامیابی اس کا ساتھ دیتی۔
مہاں سنگھ نے اپنے باپ چڑت سنگھ کے خواب کوشرمندۂ تعبیر کرنے کے لئے بہت کام کیا۔ اس کا باپ چڑت سنگھ گوجرانوالہ تحصیل کے شمالی حصہ کا نصف علاقہ فتح کر چکا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ سکرچکیہ سردار کبھی بھی ساہنسی اور گوجر جاٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ نہ کر سکے۔ بارے خان کے فوت ہو جانے کے بعد وڑائچ قبیلے نے جو ساہنسی جاٹوں کا جانی دشمن تھا۔ گوجرانوالہ کے قریب آخری مقابلہ کیا۔ اس مقابلہ میں وڑائچ قبیلہ کو شکست ہوئی مگر سانسی جاٹوں کو بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ قبیلہ اس گھوڑے کی مانند ہے جس پر سوار کا ہونا شرط اول و آخر ہے۔ کیونکہ وڑائچ قبیلہ نے اس وقت تک اپنے حریف کا پیچھا نہ چھوڑا جب تک کہ ایک تیسری طاقت یعنی سکھ ضلع میں حکمرانی کرنے لگے۔
راجہ مہاں سنگھ نے ایک زبردست فوج تیار کی۔ اس فوج کی کئی رجمنٹیں تھیں۔ اس نے باقاعدہ فوج کے علاوہ قزاقوں اور ڈاکوؤں کے جتھے بھی منظم کیے اور انہیں کھلی چھٹی دی کہ وہ جس گاؤں کو چاہے لوٹ لیں۔ تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ مہاںسنگھ نے سکھ فوج کی تربیت کیلئے بعض فرانسیسی فوجی افسروں کو بھی اپنے ہاں ملازم رکھا۔ اس نے باقاعدہ طور پر سکھ سلطنت کی داغ بیل ڈال دی اور اسے چٹھوں ‘ بھٹیوں‘ تارڑوں کے علاوہ اپنے بعض سکھ حریفوں سے بھی لڑنا پڑا۔ مہاں سنگھ کو بعض ایسے سکھ اور ہندو سرداروں کی تائیدو حمایت بھی حاصل ہو گئی جو فوجی اعتبار سے بڑے مضبوط اور اچھی قوت کے حامل تھے۔ ان میں سندھو کھتری۔ ویسا سنگھ اور ہری سنگھ نلوہ جیسے جابر و ظالم سکھ سردار بھی شامل تھے۔جنہوں نے اپنی فتوحات سے سکھ سلطنت کو بڑی وسعت دی۔ مہاں سنگھ کے حملوں نے بھٹیوں اور چٹھوں کو کمزور بنا دیا۔
چڑت سنگھ سے لے کر رنجیت سنگھ تک تمام سکھ سردار جن مسلم قبائل سے برسرپیکار رہے ان میں چٹھے خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔ چٹھوں کی استقامت و عزیمت کا ناقابل فراموش داستان علیحدہ باب کی صور ت میں شامل تاریخ ہے۔
مہاں سنگھ کی موت کے بعد اس کا بیٹا رنجیت سنگھ اس کا جانشین مقرر ہوا۔ اس وقت رنجیت سنگھ کی عمر دس سال کی تھی۔ رنجیت سنگھ جوان ہوا تو اس نے گوجرانوالہ کو دارالحکومت قرار دیتے ہوئے سکھ سلطنت کے قیام کا باقاعدہ اعلان کیا۔ شروع کا کچھ عرصہ اس نے مہاراجہ کی حیثیت سے گوجرانوالہ میں ہی گزارا اور پھرلاہور کو اپنا دارالسلطنت قرار دیتے ہوئے وہاں منتقل ہو گیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے گوجرانوالہ میں اپنے قیام کے دوران اس شہر کو خوبصورت بنانے کے کئی احکام جاری کئے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے اس جگہ جس کو کچی کہتے ہیں پر ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ اس قلعہ کی ڈیوڑھی اس جگہ تھی جہاں اس وقت ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ کا صدر دروازہ ہے۔ اس قلعہ کی بنیادوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ اگر کچی کے علاقہ کی کھدائی کی جائے تو بہت سے تاریخی نوادرات برآمد ہو سکتے ہیں۔ اور بہت سی تاریخی معلومات منظر عام پر آسکتی ہیں۔ مورخین نے گوجرانوالہ کے محل وقوع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ پرانا گوجرانوالہ کچی کے علاقے میں آباد تھا اور شمالاً جنوباً پھیلا ہوا تھا۔ سکھ دوراقتدار میں کچی کو سول لائن کی حیثیت حاصل تھی۔ کیونکہ بہت سے سکھ افسروں اور سرداروں کی حویلیاں اسی علاقہ میں تعمیر تھیں۔ لیکن اب کچی کے نشیب میں گندگی اور غلاظت کے ڈھیر پھیلے ہوئے ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد جب مہاراجہ کھڑک سنگھ نے سکھ حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت ہری سنگھ نلوہ مر چکا تھا۔ اس کے بیٹوں ارجن سنگھ اور جواہر سنگھ کے مابین قلعہ پر قبضہ کرنے کیلئے زبردست جھڑپیں ہوئی۔ہری سنگھ نلوہ کی بیوہ ویساں اپنے بیٹے ارجن سنگھ کو لے کر اس قلعہ میں قلعہ بند ہو گئی۔ ہری سنگھ نلوہ کے دوسرے بیٹے جواہر سنگھ نے قلعہ پر قبضہ کرنے کے لئے مہاراجہ کھڑک سنگھ سے مدد مانگی۔ مہاراجہ کے حکم سے سکھ فوجوں نے نلوہ کے قلعہ پر دھاوا بول دیا۔ ویساں اور ارجن سنگھ نے شاہی فوجوں کا مقابلہ کیا لیکن ویساں کو شکست ہوئی اور جواہر سنگھ نے شاہی فوجوں کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ مہاراجہ کھڑک سنگھ کے حکم سے ویساں اور ارجن سنگھ کو گرفتار کر کے ضلع سیالکوٹ کے قصبہ ستراہ میں نظر بند کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد مہاراجہ کھڑک سنگھ کے حکم سے یہ قلعہ مسمار کر دیا گیا۔
دیگاں والا بازار میں جواہر سنگھ کی ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ اس حویلی میں عدالت بھی لگتی رہی اب وہ حویلی تو موجود نہیں۔ البتہ گلی جواہرسنگھ موجودہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ بہت با تدبیر حکمران تھا۔ اس کی حدود سلطنت کشمیر سے پشاور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ افغانستان کی سیاست و حکومت پر بھی اثر اندازہوتا رہا اور اس نے برطانوی حکومت سے بھی برابر کی سطح پر تعلقات خوشگوار رکھے۔ اس نے چٹھوں کے علاوہ حافظ آباد کے بھٹی قبائل کی قوت کا بھی خاتمہ کیا۔ اس نے اپنے حریف سکھ سرداروں کا زور بھی ختم کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ تمام قوتوں نے اس کی سلطنت اور اقتدار کو تسلیم کر لیا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ گوجرانوالہ میں پیدا ہو ا لیکن اس کی تعمیر و ترقی کے لئے وہ کچھ نہ کر سکا جو اسے کرنا چاہیے تھے۔ وہ نہ صرف یہاں پیدا ہوا بلکہ ڈپٹی کمشنر مسٹر ہنسن کے بقول اس نے اپنیج وانی کا بیشتر وقت بھی یہیں گزارا تھا۔ رنجیت سنگھ لاہور میں قبضہ کرنے تک گوجرانوالہ میں ہی رہا اور یہیں سے اپنی حکومت کا انتظام چلاتا رہا۔ لاہور کی فتح اور وہاں منتقلی تک گوجرانوالہ سکھ حکومت کے دارالحکومت کے طور پر معروف رہا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک خوبصورت باغ میں اپنے والد راجہ مہاں سنگھ کی سمادھی بنوائی۔ اس باغ کے اردگرد چار دیواری تھی۔ سمادھی کا ارتفاع ۹۰ فٹ تھا۔ اس کے علاوہ اس باغ میں رنجیت سنگھ نے ایک خوبصورت بارہ دری بھی بنوائی۔جو اب تک موجود ہے۔ ۱۸۷۴ء میں انگریزوں نے اس بارہ دری میں شفاخانہ قائم کر دیا جو کافی عرصہ تک اس عمارت میں موجود رہا۔ پھر انقلابات زمانہ اور ضروریات کے مطابق اس بارہ دری میں مختلف محکموں کے دفاتر بھی قائم رہے۔ پاکستان بننے کے بعد اس عمارت میںمیونسپل لائبریری تھی ۔لیکن اب میونسپل کارپوریشن نے اس لائبریری کے لئے علیحدہ عمارت بنا دی ہے اور بارہ دری اور سمادھی محکمہ اوقاف کی تحویل میں چلی گئی ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد اس کے وارث اس کے استحکام اور عظمت کو برقرار نہ رکھ سکے اور انگریزی اقتدار نے سکھ حکومت کو ہڑپ کر لیا۔ حکومت برطانیہ نے بعد میں پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا۔ انگریز دورِ حکومت میں جن شخصیات نے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے سلسلہ میں خاص کردار ادا کیا ان میں کرنل کلارک اور مسٹر آرتھر برانڈتھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
کرنل کلارک گوجرانوالہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر تھے۔ انہوں نے بعض نئی عمارات اور دروازے تعمیر کرائے۔ کرنل کلارک نے حویلی مہاں سنگھ کو منہدم کروا دیا۔ اور اس جگہ ایک مربعی بازار تیار کرایا اور اس کا نام رنجیت گنج رکھا۔ یہ بازار بڑا خوبصورت تھا۔ مہاں سنگھ کی حویلی ایک قلعہ نما عمارت تھی۔ اس میں سکھوں کا شاہی خاندان آباد تھا اور اس حویلی کے قریب ہی سبزی منڈی کی طرف ایک قلعہ نما باغ تھا جسے حضوری باغ کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔ اس باغ میں سکھ رانیاں اور شہزادیاں آکر ٹھہرا کرتی تھیں۔ کرنل کلارک نے اس حویلی کو مسمار کرا دیا اور اس جگہ مربع بازار بنوا دیا۔
گوجرانوالہ کے ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر آرتھر برانڈرتھ نے شہر کو خوبصورت بنانے کے لئے پرانی عمارات کے کھنڈروں پر کئی عمارات تعمیر کیں۔ انہوں نے گوجرانوالہ میں کھیالی دروازہ ‘ لاہوری دروازہ اور سیالکوٹی دروازہ تعمیر کرائے۔ ان دروازوں میں سے سیالکوٹی دروازہ لاہوری دروازہ اور برانڈرتھ مارکیٹ اب بھی قائم ہیں لیکن کھیالی دروازہ منہدم ہو چکا ہے۔ اس کے محض آثار ہی تلاش کئے جا سکتے ہیں۔
گوجرانوالہ میں افغان دورِ اقتدار کی یادگار ایک مسجد بھی ہے۔ اسے شیر شاہ سوری کی مسجد کہتے ہیں۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ شیر شاہ سوری نے رہتاس کی طرف جاتے ہوئے جب گوجرانوالہ میں قیام کیا تو اپنی قیام گاہ کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائی۔ یہ مسجد افغان طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے اور کراؤں فونڈری کے عقب میں واقع ہے۔ گو زمانہ کی دست برد سے اس مسجد کی خوبصورتی تو قائم نہیں رہی لیکن مسجد اب بھی موجود ہے۔ اگرچہ اس مسجد کی تعمیر خاص کر کشادہ اور وسیع گنبد مینار وغیرہ اس گمان کو تقویت دیتے ہیں کہ یہ مسجد شیر شاہ سوری کے احکام کی مرہونِ منت ہے لیکن شیر شاہ کے عہد کے مورخ اس معاملہ میں بالکل خاموش ہیں ۔علاوہ ازیں اس مسجد کے واضح نقوش مرمت کی وجہ سے مٹتے جار ہے ہیں اور اس کے عقب میں جو کنواں تھا وہ بھی بھرا جا چکا ہے ورنہ اس میں سے تختی کا مطالعہ کرنے کے بعد آسانی سے نتیجہ برآمد کیا جا سکتا تھا کہ یہ کس عہد میں تعمیر ہوئی۔
جغرافیہ ضلع گوجرانوالہ مرتبہ ڈائریکٹر تعلیمات پنجاب (۱۹۰۴ء) گوجرانوالہ سے متعلق یہ معلومات حاصل ہوئی ہیں ۔ گوجرانوالہ ضلع کا صدر مقام ہے۔ اس میں ۲۶۷۸۵ آدمی رہتے ہیں۔ شہر کسی قدر بلندی پر بنا ہوا ہے۔ اس کے گرد ایک دیوار ہے جس میں گیارہ دروازے ہیں ۔کئی باغ ہیں ۔ اور قرب و جوار کا علاقہ دور دور تک درختوں سے پُر ہے۔ بازار پختہ ‘ صاف ستھرے اور رونق دار ہیں۔ صفائی کا انتظام میونسپل کمیٹی کے ماتحت ہے۔ میونسپل بوڑد سکول کے پاس مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دادا سردار چرٹ سنگھ کی سمادھی ہے۔ دیوار کے اندرسردار مہاں سنگھ کا باغ ہے اس میں ایک بارہ دری ہے جہاں اب کتب خانہ ہے اور جلسے بھی یہیں ہوتے ہیں ۔ کتب خانے کے متعلق ایک اور پاس کے مکان میں چھوٹا سا عجائب گھر ہے ۔ گوجرانوالہ کے قریب ہی ایک بڑا خوبصورت اونچا مینار تھا۔ یہ عمارت سب عمارتوں سے مشہور اور دلکش ہے۔ مہاں سنگھ کی سمادھی اس میں ہے۔ برانڈرتھ صاحب نے جو اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے اس پر سونے کا کلس چڑھایا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ لاہور میں فوت ہوئے اور وہیں ان کی سمادھی بنائی گئی مگر گوجرانوالہ ان کا وطن ہونے کے باعث اس راکھ کا کچھ تھوڑا سا حصہ یہاں بھیجا گیا جو مہاں سنگھ کی سمادھی کے پاس دبایا گیا۔ کہتے ہیں کہ جس عمارت میں اب بورڈ سکول کی ایک شاخ ہے وہاں مہاراجہ رنجیت سنگھ پیدا ہوئے تھے۔
(مضمون بشکریہ مجلہ مہک گوجرانوالہ نمبرگورنمنٹ کالج گوجرانوالہ)