نوید رزاق بٹ
محفلین
گود
پارک پہنچتے ہی بچی نے جھولا لینے کی ضد شروع کر دی تھی۔
اُس نے بہت سمجھایا تھا، "چھوٹی ہو۔۔۔۔گِر جاؤ گی"، پر بچی اپنی ضد کی پکّی تھی۔ چار و ناچار وہ اُسے جھولوں کے قریب لے آئی تھی اور ایک پینگ میں بٹھا کر بہت آرام سے جھولا دینے لگی تھی۔ جھولے کے ہمراہ حرکت کرتے کرتے اُس کا ذہن پارک سے نکل کر گزشتہ برسوں کے واقعات میں غوطے کھانے لگا تھا
"بانجھ!"
"منحوس کہیں کی"
"کب تک انتظار کرے گا۔۔۔۔۔ نکال دے گھر سے اِسے۔۔۔۔ دوسری لے آ"
"یہ گود نہ ہوئی ہری۔ بنجر ہے"
"خاندانی مسئلہ نہ ہو۔ پہلے نہیں پُھوٹا کسی نے"
نہ جانے یہ تلخ یادیں کتنی دیر تک اُس کا دل جلاتی رہتیں مگر خوش قسمتی سے چند ہی لمحوں میں بچی کی ہنسی اُسے اپنی طرف کھینچ لائی تھی اور اب وہ اُسے جھولا جُھلانے اور اُس سے اپنے طور پر باتیں کرنے میں مگن تھی۔ اِس سب کے دوران اُسے محسوس ہی نہ ہوا کہ اُس کے ارد گرد کا منظر تیزی سے بدلتا جا رہا تھا۔ ایک بے چین خاموشی جھولوں پر قبضہ کر چُکی تھی۔ غیر ارادی طور پر اُس نے رُک کر ایک لمحے کے لئے اپنے اِرد گرد دیکھا۔ لوگ اپنے بچوں کو لے کر اُس سے دُور ہٹ چُکے تھے۔ چاروں طرف سہمی ہوئی پریشان آنکھیں اُسے تَکے جا رہی تھیں۔ اُسے ابھی اِس پریشانی کی وجہ سمجھ نہ آ سکی تھی کہ اچانک واپس آتا جھولا اُس کے پہلو سے ٹکرایا اور اِس میں پڑی پلاسٹک کی گُڑیا مُنہ کے بَل ریت پر گِر پڑی۔ بے اختیار اُس کے مُنہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور اگلے ہی لمحے وہ اپنی بچی کو اُٹھا کر بے چینی سے ٹٹول ٹٹول کر پوچھ رہی تھی
"لگی تو نہیں؟ لگی تو نہیں؟"
"نہیں ماما!"
تحریر: ابنِ مُنیب
پارک پہنچتے ہی بچی نے جھولا لینے کی ضد شروع کر دی تھی۔
اُس نے بہت سمجھایا تھا، "چھوٹی ہو۔۔۔۔گِر جاؤ گی"، پر بچی اپنی ضد کی پکّی تھی۔ چار و ناچار وہ اُسے جھولوں کے قریب لے آئی تھی اور ایک پینگ میں بٹھا کر بہت آرام سے جھولا دینے لگی تھی۔ جھولے کے ہمراہ حرکت کرتے کرتے اُس کا ذہن پارک سے نکل کر گزشتہ برسوں کے واقعات میں غوطے کھانے لگا تھا
"بانجھ!"
"منحوس کہیں کی"
"کب تک انتظار کرے گا۔۔۔۔۔ نکال دے گھر سے اِسے۔۔۔۔ دوسری لے آ"
"یہ گود نہ ہوئی ہری۔ بنجر ہے"
"خاندانی مسئلہ نہ ہو۔ پہلے نہیں پُھوٹا کسی نے"
نہ جانے یہ تلخ یادیں کتنی دیر تک اُس کا دل جلاتی رہتیں مگر خوش قسمتی سے چند ہی لمحوں میں بچی کی ہنسی اُسے اپنی طرف کھینچ لائی تھی اور اب وہ اُسے جھولا جُھلانے اور اُس سے اپنے طور پر باتیں کرنے میں مگن تھی۔ اِس سب کے دوران اُسے محسوس ہی نہ ہوا کہ اُس کے ارد گرد کا منظر تیزی سے بدلتا جا رہا تھا۔ ایک بے چین خاموشی جھولوں پر قبضہ کر چُکی تھی۔ غیر ارادی طور پر اُس نے رُک کر ایک لمحے کے لئے اپنے اِرد گرد دیکھا۔ لوگ اپنے بچوں کو لے کر اُس سے دُور ہٹ چُکے تھے۔ چاروں طرف سہمی ہوئی پریشان آنکھیں اُسے تَکے جا رہی تھیں۔ اُسے ابھی اِس پریشانی کی وجہ سمجھ نہ آ سکی تھی کہ اچانک واپس آتا جھولا اُس کے پہلو سے ٹکرایا اور اِس میں پڑی پلاسٹک کی گُڑیا مُنہ کے بَل ریت پر گِر پڑی۔ بے اختیار اُس کے مُنہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی اور اگلے ہی لمحے وہ اپنی بچی کو اُٹھا کر بے چینی سے ٹٹول ٹٹول کر پوچھ رہی تھی
"لگی تو نہیں؟ لگی تو نہیں؟"
"نہیں ماما!"
تحریر: ابنِ مُنیب