ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
گوشوارہ
کیا حال سنائیں دنیا کا ، کیا بات بتائیں لوگوں کی
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں، لاکھوں ہی ادائیں لوگوں کی
کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں ، دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں ، بس دل میں چھپانے کے قابل
کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں ، اک بار گئے تو آتے نہیں
ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں ، پرچھائیں بھی اُن کی پاتے نہیں
کچھ لوگ خیالوں کے اندر جذبوں کی روانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں ، کچھ لوگ کنارہ ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو تنکے کا سہارا ہوتے ہیں
کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ ، کچھ ریت گھروندا چھوٹا سا
کچھ لوگ مثالِ ابر ِرواں ، کچھ اونچے درختوں کا سایا
کچھ لوگ چراغوں کی صورت راہوں میں اجالا کرتے ہیں
کچھ لوگ اندھیرے کی کالک چہروں پہ اُچھالا کرتے ہیں
کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں ، دوگام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا ، ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ
کیا حال سنائیں اپنا تمہیں ، کیا بات بتائیں جیون کی؟
اک آنکھ ہماری ہنستی ہے ، اک آنکھ میں رُت ہے ساون کی
ہم کس کی کہانی کا حصہ ، ہم کس کی دعا میں شامل ہیں؟
ہے کون جو رستہ تکتا ہے ۔ ہم کس کی وفا کا حاصل ہیں؟
کس کس کا پکڑ کر دامن ہم اپنی ہی نشانی کو پوچھیں؟
ہم کھوئے گئے کن راہوں میں، اس بات کو صاحب جانے دیں
کچھ درد سنبھالے سینے میں ، کچھ خواب لٹائے ہیں ہم نے
اک عمر گنوائی ہے اپنی ، کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے
دل خرچ کیا ہے لوگوں پر ، جاں کھوئی ہے ، غم پا یا ہے
اپنا تو یہی ہے سود و زیاں ، اپنا تو یہی سرمایا ہے
اپنا تو یہی سرمایا ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳
کیا حال سنائیں دنیا کا ، کیا بات بتائیں لوگوں کی
دنیا کے ہزاروں موسم ہیں، لاکھوں ہی ادائیں لوگوں کی
کچھ لوگ کہانی ہوتے ہیں ، دنیا کو سنانے کے قابل
کچھ لوگ نشانی ہوتے ہیں ، بس دل میں چھپانے کے قابل
کچھ لوگ گزرتے لمحے ہیں ، اک بار گئے تو آتے نہیں
ہم لاکھ بلانا بھی چاہیں ، پرچھائیں بھی اُن کی پاتے نہیں
کچھ لوگ خیالوں کے اندر جذبوں کی روانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ کٹھن لمحوں کی طرح پلکوں پہ گرانی ہوتے ہیں
کچھ لوگ سمندر گہرے ہیں ، کچھ لوگ کنارہ ہوتے ہیں
کچھ ڈوبنے والی جانوں کو تنکے کا سہارا ہوتے ہیں
کچھ لوگ چٹانوں کا سینہ ، کچھ ریت گھروندا چھوٹا سا
کچھ لوگ مثالِ ابر ِرواں ، کچھ اونچے درختوں کا سایا
کچھ لوگ چراغوں کی صورت راہوں میں اجالا کرتے ہیں
کچھ لوگ اندھیرے کی کالک چہروں پہ اُچھالا کرتے ہیں
کچھ لوگ سفر میں ملتے ہیں ، دوگام چلے اور رستے الگ
کچھ لوگ نبھاتے ہیں ایسا ، ہوتے ہی نہیں دھڑکن سے الگ
کیا حال سنائیں اپنا تمہیں ، کیا بات بتائیں جیون کی؟
اک آنکھ ہماری ہنستی ہے ، اک آنکھ میں رُت ہے ساون کی
ہم کس کی کہانی کا حصہ ، ہم کس کی دعا میں شامل ہیں؟
ہے کون جو رستہ تکتا ہے ۔ ہم کس کی وفا کا حاصل ہیں؟
کس کس کا پکڑ کر دامن ہم اپنی ہی نشانی کو پوچھیں؟
ہم کھوئے گئے کن راہوں میں، اس بات کو صاحب جانے دیں
کچھ درد سنبھالے سینے میں ، کچھ خواب لٹائے ہیں ہم نے
اک عمر گنوائی ہے اپنی ، کچھ لوگ کمائے ہیں ہم نے
دل خرچ کیا ہے لوگوں پر ، جاں کھوئی ہے ، غم پا یا ہے
اپنا تو یہی ہے سود و زیاں ، اپنا تو یہی سرمایا ہے
اپنا تو یہی سرمایا ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳