تیس ستمبریہ کالم کس تاریخ کو شائع ہوا تھا ؟
ہاں جی .......ظفر اقبال بھی فی زمانہ مرزا نوشہ جتنے نہیں .......تو کافی حد تک متنازعہ ضرور ہیں........اور میرا خیال ہے، انہیں اس چھیڑ چھاڑ میں مزا بھی آتا ہے کافیبہت شکریہ جناب فلک شیر صاحب۔
میاں صاحب نے یہ جو مرزا نوشہ کے بارے میں فرمادیا ہے کہ ان کا کہا پلے نہیں پڑتا، یہ تو خود میاں صاحب پر صادق آ رہا ہے۔
خوش رہئے۔
یہ شمس الرحمان بمقابلہ گوپی چند نارنگ والا معاملہ ہے میاں.........مجھے تو شمس الرحمان کی کتاب بھی پلے نہیں پڑتی ابھی کچھ ماہ قبل ’’کئی چاند تھے سر آسماں ‘‘پڑھ رہا تھا اتنا بورنگ لگا کہ آدھا پڑھ کے چھوڑ دیا ۔
مجھے تو شمس الرحمان کی کتاب بھی پلے نہیں پڑتی ابھی کچھ ماہ قبل ’’کئی چاند تھے سر آسماں ‘‘پڑھ رہا تھا اتنا بورنگ لگا کہ آدھا پڑھ کے چھوڑ دیا ۔
یہ شمس الرحمان بمقابلہ گوپی چند نارنگ والا معاملہ ہے میاں.........
سمجھ آنا نہ آنا ثانوی چیز ہے
یہ نقاد لوگ بڑے لوگ ہوتے ہیں......بڑے لوگوں کی بڑی باتیں
کیا ہوا چاچو ۔۔۔ہم پھر پھرا کے وہیں پہنچ گئے ہیں شاید۔ جہاں یہ ایک سوال سب سے اہم ہوتا ہے کہ: ’’ اس قدر ٹیڑھے میڑھے پائپ میں جس کا کوئی سرا بھی کہیں کھلا نہیں شیرہ کیسے بھرا گیا؟‘‘
دورِ حاضر کےکچھ بزرگ بھی اسی پائپ (جلیبی) کی ’’سیدھی‘‘ بات کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
بقول پروفیسر انور مسعود: ۔۔۔کیا ہوا چاچو ۔۔۔
لسانیات اور لفظ سازی سے متعلق ظفر اقبال کا اپنا ایک نظریہ ہے............جس کی وجہ سے وہ اس قسم کی چیزوں کو جائز سمجھتے ہیں ..........نئی غزل کے وہ نقیب تو ہیں ہی شہزاد احمد سمیت.......بہر حال بہت سی چیزیں ان کی ایسی ہیں ، جن سے متعلق اہل علم ان سے خائف رہتے ہیںیہ شعر کس قبیل کا ہے؟۔۔۔
یہ سنگ چائیں نشتے، کوئی سنگ رؤڑا
بہت زیادہ اگر نہیں ہے، تو کم رؤڑا
نجانے کیوں موصوف کا یہ کالم اور اس طرح کی شاعری پڑھ کر ایک پرانی ٹی وی سیریل "خواجہ اینڈ سن" کے پروفیسر اداس ذہن میں آجاتے ہیں۔۔۔
لسانیات اور لفظ سازی سے متعلق ظفر اقبال کا اپنا ایک نظریہ ہے............جس کی وجہ سے وہ اس قسم کی چیزوں کو جائز سمجھتے ہیں ..........نئی غزل کے وہ نقیب تو ہیں ہی شہزاد احمد سمیت.......بہر حال بہت سی چیزیں ان کی ایسی ہیں ، جن سے متعلق اہل علم ان سے خائف رہتے ہیں