کاشفی
محفلین
غزل
(عدم)
گو تری محفل سے او بیدادگر جاتا ہوں میں
دیکھ کیا تفتہ جگر، آشفتہ سر جاتا ہوں میں
جستجوؤں پر ثباتِ زیست کا ہے انحصار
جستجوئیں ختم ہوتی ہیں تو مر جاتا ہوں میں
شوقِ بے پایاں کی کوشش کا کوئی حاصل بھی ہے؟
اے فریبِ آرزو آخر کدھر جاتا ہوں میں؟
کیوں اُٹھاتا ہے مجھے محفل سے او بیدادگر؟
آگیا ہوں، رنگِ محفل دیکھ کر جاتا ہوں میں
تیری خواہش سوز نظروں کے تصّور پر نثار
منزلِ احساسِ ہستی سے گزر جاتا ہوں میں
زندگی کی راہ پُر آفات ہے لیکن عدم!!
ہر کٹھن منزل سے وحشت میں گزر جاتا ہوں میں