کاشفی
محفلین
غزل
گُل کے ہونے کی توقع پہ جئے بیٹھی ہے
ہرکلی جان کو مُٹھی میں لئے بیٹھی ہے
کبھی صیاد کا کھٹکا ہے کبھی خوفِ خزاں
بلبل اب جان ہتھیلی پہ لئے بیٹھی ہے
تیروتلوار سے بڑھ کر ہے تیری ترچھی نگہ
سیکڑوں عاشقوں کا خون کئے بیٹھی ہے
تیرے رخسار سے تشبیہ اسے دوں کیوں کر
شمع تو چربی کو آنکھوں میں دئے بیٹھی ہے
تشنہ لب کیوں رہے اے ساقیء کوثر! چندا
یہ ترے جامِ محبت کو پئے بیٹھی ہے