پاکستانی
محفلین
(چالیس برس بعد جہنم سے میرے نام ساقی فاروقی کا خط)
کھانے پینے کا بھی عجیب حساب ہے: صبح ناشتے میں ایک چائے کا کپ اور ایک نان ملتا ہے۔ دونوں یخ ٹھنڈے۔ نان کے بارے میں کیا بتاؤں، غالب کا مصرہ یاد آ جاتا ہے: ’جتنا کھینچتا ہوں، اور کھینچتا جائے ہے مجھ سے’۔
ویسے بھی یہاں فریاد کی کوئی لے نہیں ہے، سارے دوزخی ایک ہی طرح فریاد کرتے ہیں۔ نان چھوڑ دیتے ہیں صرف ٹھنڈی چائے پی کر اپنے اپنے کیے ہوئے کاموں کی معافی مانگتے رہتے ہیں۔ گیارہ بجے آئسکریم ملتی ہے مگر ابلتی ہوئی۔ ایک بجے تربوز، اوپر سے ثابت اور اندر سے خالی۔ ڈھائی بجے کھانا جس میں ریت کے کباب اور لوہے کے پراٹھے۔ پراٹھے کو توڑنے کے لئے انسان کو کراٹے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دو فٹ اچھل کر لات مارو تو پراٹھے کا ایک ورک نمودار ہوتا ہے۔
آم کے درخت ہیں مگر پانچ سو فٹ اونچے۔ ہم لوگ صرف دیکھ سکتے ہیں توڑ نہیں سکتے۔ اور توڑنے سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہے کیونکہ صرف گٹھلیاں لگی ہوئی ہیں۔ غالب نے ایک مرتبہ یوسفی صاحب سے کہا کہ تم نے اپنی نثر میں میری شاعری کا بہت خیال رکھا ہے، اب تم یوں کرو اس پانچ سو فٹ والے آم کے درخت پر چڑھو اور مجھے آم کی گٹھلیاں توڑ کر دو۔ یوسفی صاحب کچھ دیر سوچنے کے بعد افتخار عارف کے پاس گئے اور کہا میں نے اپنی گفتگو میں تمہاری تعریف کا بہت خیال رکھا ہے اور ویسے بھی تم کو اوپر جانے کا بہت شوق ہے، پانچ سو فٹ اوپر جاؤ اور مرزا غالب کے لئے آم کی گٹھلیاں توڑ کر لاؤ۔ عارف شبنم شکیل کے پاس گئے اور کہا کہ میں نے تمہیں تمغہ جشنِ کارکردگی دلوایا تھا یہ کام تم کرو۔
شبنم شکیل جب آم کے درخت پر پندرہ فٹ تک پہنچیں تو درخت کے نیچے سارے شاعر جمع ہو گئے۔ پھر جہنم کا داروغہ آ گیا۔ وہ بھی پاکستان کے ایک سابق آئی جی ہیں۔ شاعروں کو ہٹایا کیونکہ وہ آم کی گٹھلیوں کو نہیں دیکھ رہے تھے۔
انور مقصود، کراچی
بشکریہ ۔ بی بی سی اردو
کھانے پینے کا بھی عجیب حساب ہے: صبح ناشتے میں ایک چائے کا کپ اور ایک نان ملتا ہے۔ دونوں یخ ٹھنڈے۔ نان کے بارے میں کیا بتاؤں، غالب کا مصرہ یاد آ جاتا ہے: ’جتنا کھینچتا ہوں، اور کھینچتا جائے ہے مجھ سے’۔
ویسے بھی یہاں فریاد کی کوئی لے نہیں ہے، سارے دوزخی ایک ہی طرح فریاد کرتے ہیں۔ نان چھوڑ دیتے ہیں صرف ٹھنڈی چائے پی کر اپنے اپنے کیے ہوئے کاموں کی معافی مانگتے رہتے ہیں۔ گیارہ بجے آئسکریم ملتی ہے مگر ابلتی ہوئی۔ ایک بجے تربوز، اوپر سے ثابت اور اندر سے خالی۔ ڈھائی بجے کھانا جس میں ریت کے کباب اور لوہے کے پراٹھے۔ پراٹھے کو توڑنے کے لئے انسان کو کراٹے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دو فٹ اچھل کر لات مارو تو پراٹھے کا ایک ورک نمودار ہوتا ہے۔
آم کے درخت ہیں مگر پانچ سو فٹ اونچے۔ ہم لوگ صرف دیکھ سکتے ہیں توڑ نہیں سکتے۔ اور توڑنے سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہے کیونکہ صرف گٹھلیاں لگی ہوئی ہیں۔ غالب نے ایک مرتبہ یوسفی صاحب سے کہا کہ تم نے اپنی نثر میں میری شاعری کا بہت خیال رکھا ہے، اب تم یوں کرو اس پانچ سو فٹ والے آم کے درخت پر چڑھو اور مجھے آم کی گٹھلیاں توڑ کر دو۔ یوسفی صاحب کچھ دیر سوچنے کے بعد افتخار عارف کے پاس گئے اور کہا میں نے اپنی گفتگو میں تمہاری تعریف کا بہت خیال رکھا ہے اور ویسے بھی تم کو اوپر جانے کا بہت شوق ہے، پانچ سو فٹ اوپر جاؤ اور مرزا غالب کے لئے آم کی گٹھلیاں توڑ کر لاؤ۔ عارف شبنم شکیل کے پاس گئے اور کہا کہ میں نے تمہیں تمغہ جشنِ کارکردگی دلوایا تھا یہ کام تم کرو۔
شبنم شکیل جب آم کے درخت پر پندرہ فٹ تک پہنچیں تو درخت کے نیچے سارے شاعر جمع ہو گئے۔ پھر جہنم کا داروغہ آ گیا۔ وہ بھی پاکستان کے ایک سابق آئی جی ہیں۔ شاعروں کو ہٹایا کیونکہ وہ آم کی گٹھلیوں کو نہیں دیکھ رہے تھے۔
انور مقصود، کراچی
بشکریہ ۔ بی بی سی اردو