فرخ منظور
لائبریرین
گُڑیا
کبھی غُل مچاتی ہے گُڑیا
ہر اِک طرح سے دل لبھاتی ہے گُڑیا
نہ پوچھو مزاج اس کا نازک ہے کتنا
ذرا کچھ کہو ، منہ بناتی ہے گُڑیا
وہ روئے تو میں چُپ کراتی ہوں اس کو
میں روؤں تو مجھ کو ہنساتی ہے گُڑیا
جو گھر میں کوئی غیر آئے تو فوراً
دوپٹے سے منہ کو چھُپاتی ہے گُڑیا
وہ بلبل ہے میری ، وہ مینا ہے میری
مجھے میٹھے گانے سناتی ہے گُڑیا
مجھے رات کو نیند آتی ہے جس دم
مری چارپائی بچھاتی ہے گُڑیا
کسی اور کے ساتھ جاتی نہیں ہے
مِرے ساتھ بازار جاتی ہے گُڑیا
کبھی میں جو اس کو بلاتی نہیں ہوں
تو خود آ کے مجھ کو بلاتی ہے گُڑیا
اکیلا مجھے چھوڑتی ہی نہیں ہے
مجھے ساتھ اپنے سلاتی ہے گُڑیا
کوئی اور دیکھے تو لگتی ہے رونے
مجھے دیکھ کر مسکراتی ہے گڑیا
کسی کے بھی وہ ساتھ رہتی نہیں ہے
عجب شان اپنی دکھاتی ہے گُڑیا
کوئی بیٹھ جائے تو اٹھ بیٹھتی ہے
جو آتا ہے کوئی تو جاتی ہے گُڑیا
سبق میرا مجھ سے وہ سنتی ہے آ کر
سبق اپنا مجھ کو سناتی ہے گُڑیا
جو اٹھ بیٹھتی ہے کبھی منہ اندھیرے
تو رو رو کے سب کو جگاتی ہے گُڑیا
بس اب اور تُم اُس کی باتیں نہ پوچھو
بس اب چُپ رہو تُم کہ آتی ہے گُڑیا
(صوفی تبسّم)
کبھی غُل مچاتی ہے گُڑیا
ہر اِک طرح سے دل لبھاتی ہے گُڑیا
نہ پوچھو مزاج اس کا نازک ہے کتنا
ذرا کچھ کہو ، منہ بناتی ہے گُڑیا
وہ روئے تو میں چُپ کراتی ہوں اس کو
میں روؤں تو مجھ کو ہنساتی ہے گُڑیا
جو گھر میں کوئی غیر آئے تو فوراً
دوپٹے سے منہ کو چھُپاتی ہے گُڑیا
وہ بلبل ہے میری ، وہ مینا ہے میری
مجھے میٹھے گانے سناتی ہے گُڑیا
مجھے رات کو نیند آتی ہے جس دم
مری چارپائی بچھاتی ہے گُڑیا
کسی اور کے ساتھ جاتی نہیں ہے
مِرے ساتھ بازار جاتی ہے گُڑیا
کبھی میں جو اس کو بلاتی نہیں ہوں
تو خود آ کے مجھ کو بلاتی ہے گُڑیا
اکیلا مجھے چھوڑتی ہی نہیں ہے
مجھے ساتھ اپنے سلاتی ہے گُڑیا
کوئی اور دیکھے تو لگتی ہے رونے
مجھے دیکھ کر مسکراتی ہے گڑیا
کسی کے بھی وہ ساتھ رہتی نہیں ہے
عجب شان اپنی دکھاتی ہے گُڑیا
کوئی بیٹھ جائے تو اٹھ بیٹھتی ہے
جو آتا ہے کوئی تو جاتی ہے گُڑیا
سبق میرا مجھ سے وہ سنتی ہے آ کر
سبق اپنا مجھ کو سناتی ہے گُڑیا
جو اٹھ بیٹھتی ہے کبھی منہ اندھیرے
تو رو رو کے سب کو جگاتی ہے گُڑیا
بس اب اور تُم اُس کی باتیں نہ پوچھو
بس اب چُپ رہو تُم کہ آتی ہے گُڑیا
(صوفی تبسّم)