محمد سعد
محفلین
درمیانے سائز کا گھریلو پلانٹ جس میں باورچی خانے کا کچرا استعمال کیا جا سکتا ہے
(امیر سیف اللہ سیف)
http://tajassus.pk/node/341
(امیر سیف اللہ سیف)
مکمل تحریر پڑھنے اور پلانٹ بنانے کا مفصل طریقہ سیکھنے کے لیے تھوڑی سی تکلیف کر کے اس صفحے پر تشریف لے جائیے گا۔سردیوں میں عموماً قدرتی گیس کی قلت ہو جاتی ہے اور سوئی گیس بڑے شہروں کے کئی علاقوں میں سرے ہی سے غائب ہو جاتی ہے۔ ہمارے ایک جاننے والے ہیں گزشتہ سردیوں کے آغاز ہی کے دنوں میں ان سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ صبح کے وقت ہنڈیا چولہے پر رکھی تو شام کے چار بجے تک جا کر ہنڈیا پکی اور بچوں نے کھانا کھایا۔ میں نےکہا کہ بھابی نے شاید پائے پکائے ہوں۔ کہنے لگے نہیں بھئی صرف آلو پکانے کے لئے اتنا انتظار کرنا پڑا، پائے تو شاید ایک ہفتے میں پکتے۔ تو جناب سردیوں میں تو گھریلو گیس سپلائی کا یہ عالم ہو جاتاہے۔
بجلی کی عدم دستیابی ہو یا گیس کی قلت، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستانی عوام گزشتہ کئی سالوں سے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ اکثر لوگ تو اب اس کے عادی ہو چکے ہیں تاہم قومی درد رکھنے والے اہل دل اب بھی اس صورت حال پر خون کے آنسو روتے نظر آتے ہیں۔ ارباب اختیار کی مجرمانہ بے حسی اور قومی سوچ کا فقدان جس قدر المناک ہے اس کا اندازہ ایک عام سے جاہل پاکستانی کو بھی بخوبی ہو چکا ہے۔ اب لوگ کھلم کھلا یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کو ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بتدریج ختم کرنے کے غیر ملکی منصوبوں میں اہم ملکی ارباب اختیار میں سے چند ایک بھی شامل ہیں اور اسی پر عمل پیرا ہیں ورنہ پاکستان میں نہ تو وسائل کی کمی ہے اور نہ ہی افرادی قوت کی۔ خیر اس موضوع پر تو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے تاہم چونکہ ہم بے اختیار اور بے بس ہیں چنانچہ محض جلنے کڑھنے کے سوا اور کر ہی کیا سکتے ہیں۔
قومی بے حسی کے اس المناک دور میں عام آدمی نے تو زندگی گزارنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے ہی ہیں اور وہ مار رہا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کے اثرات کو کم کرنے کے لئے لوگ اب متبادل توانائی کے مختلف ذرائع کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ضروری ہے کہ توانائی کے ایسے متبادل ذرائع کی تلاش کیئے جائیں جو نہ صرف آسانی سےدستیاب ہو سکیں بلکہ ان کی لاگت بھی عام آدمی کے لئے قابل برداشت حد کے اندر ہو۔ (کیونکہ خواص کے لئے اس طرح کے مسائل وجود ہی نہیں رکھتے، فی الحال تو عام آدمی ہی ان مسائل بلکہ مصائب کا شکار ہے)۔
بائیو گیس، نوانائی کے ایسے ہی متبادل ذرائع میں سے ایک ہے۔ بائیو گیس پیدا کرنے کے لئے کسی بہت بڑی ٹیکنالوجی یا قیمتی خام مال کی ضرورت نہیں۔ یہ نامیانی کچرے سے پیدا ہوتی ہے جو عام طور پر ضائع کر دیا جاتا ہے۔ نامیاتی کچرے سے مراد ایسی فالتو اور غیر ضروری اشیاء ہیں جو جلد گل سڑ جاتی ہیں۔ جانوروں کا گوبر، بچی کھچی غذا، غذائی کچرا اور ایسی ہی بے کار اور فالتو چیزیں جنہیں ہم روزانہ کچرے میں پھینک دیتے ہیں، قیمتی توانائی حاصل کرنےکے لئے استعمال کی جا سکتی ہیں۔
http://tajassus.pk/node/341
آخری تدوین: